G8 سے D8 تک کا کھیل

جو امریکا دنیا بھر کو قرض دینے والے ممالک میں اول تھا، آج 15.7 کھرب ڈالر کا مقروض ہے ۔

zb0322-2284142@gmail.com

عالمی سرمایہ داری اتنی نحیف، بے بس اور بے کس ہوگئی ہے کہ اب وہ کہیں بھی تنہا دنیا کے عوام کو دبوچنے یا حملہ کرنے کے قابل نہیں رہی۔ جیساکہ اسپین اور پُرتگالی قوم دنیا پر چھائی ہوئی تھی، پھر جرمنی، اٹلی، فرانس اور جاپان، بعدازاں برطانوی سامراج اورآخر کار امریکا۔ ہند و چین اور افریقہ میں شکست در شکست کے بعد امریکی سامراج اور اس کی معیشت لاچار اور گداگر ہوگئی ہے۔

جو امریکا دنیا بھر کو قرض دینے والے ممالک میں اول تھا، آج 15.7 کھرب ڈالر کا مقروض ہے۔ اس لیے اس نے G-8 تشکیل دیا۔ جن میں امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی، کینیڈا، جاپان اور روس شامل ہیں۔ برطانیہ کی تقریباً ساڑھے پانچ کروڑ کی آبادی میں تقریباً 30 لاکھ لوگ بے روزگار ہیں۔ 23 نومبر 2012ء کو برطانیہ میں ہزاروں طلبا نے ٹیوشن فیس میں اضافے کے خلاف احتجاج کیا۔ بارش کے باوجود ہزاروں کی ریلی آب و تاب سے نکلی۔

جاپان کے بجٹ خسارہ جولائی میں 517.4 ارب کا خسارہ ہوا۔ عالمی سرمایہ داری کو انحطاط پذیری کی وجہ سے بے ساکھیوں کا سہارا لینا پڑا۔ جیساکہ اس نے G-20 کو بھی اپنا کاسہ لیس بنایا۔ جن میں جنوبی افریقہ، برازیل، انڈیا اور چین سمیت 20 ممالک شامل ہیں۔ ان کی صورتحال G-8 سے بھی بدتر ہے۔ 2011ء میں جنوبی افریقہ کے کان کنان نے عظیم ہڑتال کی۔ ان کالے حکمرانوں نے ہی کالے مزدوروں پرگولیاں چلائیں۔ آزادی کے ہیرو نیلسن منڈیلا نے مزدوروں کے بجائے سرمایہ داروں کا انتہائی ڈھٹائی سے ساتھ دیا۔ برازیل میں 45 فیصد لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

انڈیا میں 2010ء میں 87 کروڑ لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ چین میں ایک جانب 210 منزلہ عمارت تعمیر کی جارہی ہے تو دوسری جانب 22 کروڑ بے روزگار فٹ پاتھوں پر مارے مارے پھر رہے ہیں۔ یہ ممالک (G-20) بھی G-8 کی بیساکھی نہیں بن پائیں گے۔ اسلامی کانفرنس نے جوکہ خود سامراجی آلہ کار ہے، کی بیساکھی کے طور پر D-8 تشکیل دی ہے۔ حال ہی میں اسلام آباد میں اس کا اجلاس ہوا۔ ان ممالک میں پاکستان بنگلہ دیش، ترکی، ملائیشیا، انڈونیشیا، مصر، ایران اور نائیجیریا شامل ہیں۔ اب یہ ممالک G-8 کا کیا سہارا بن سکتے ہیں بلکہ یہ تو خود بے سہارا ہیں۔ ان ممالک میں عوام بے روزگاری، بھوک، افلاس اور غربت سے نڈھال ہیں۔

ملائیشیا کو اسلامی ملکوں میں بہت ترقی یافتہ کہا جاتا ہے ، جہاں بے روزگاری 15فیصد ہے۔ گزشتہ برس کوالالمپور میں وہاں کی سوشلسٹ پارٹی نے بے روزگاری اور مہنگائی کے خلاف 50 ہزار افراد کی احتجاجی ریلی نکالی۔ پھر ترکی کو بھی بہت ترقی یافتہ ملک کہا جاتا ہے یہاں 13.5 فیصد شہری بے روزگار ہیں۔ نیٹو کی افواج میں امریکا کے بعد سب سے زیادہ فوج ترکی کی ہے۔ ایران میں 25 فیصد شہری بے روزگار ہیں۔ 17000 ایرانی ریال کے برابر ایک ڈالر ہے۔ 2010ء میں ایران میں لاکھوں افراد نے مہنگائی، بے روزگاری کے خلاف اور جمہوریت کے حق میں مظاہرے کیے، یہاں کی بگڑتی ہوئی معیشت کی بدحالی کی نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ حکمران طبقات کے اندرونی تضادات میں اضافہ ہوگیا ہے۔


ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای نے ملک کی پارلیمنٹ کو حکم دیا ہے کہ صدر محمود احمدی نژاد کو مزید پوچھ گچھ کے لیے ایوان میں نہ بلایا جائے، پارلیمنٹ میں آیت اللہ خامنہ ای کی اس طرح کی براہِ راست مداخلت کا یہ پہلا موقع ہے۔ آئی ایم ایف کے سربراہ کرسٹائین لاگارڈ نے مصر کے صدر محمد مرسی سے قاہرہ میں ملاقات کی اور مصری صدر نے آئی ایم ایف سے 4.8 ارب ڈالر کے قرضے (بھیک) کی درخواست کی۔ مصر میں گزشتہ دنوں بے روزگاری اور سامراجیت سے پینگیں بڑھانے کے خلاف نوجوان سوشلسٹوں کی حکمران جماعت کے ساتھ قاہرہ میں زبردست مڈبھیڑ ہوئی اور قاہرہ پتھراؤ کی زد میں رہا اور میدان کار زار بنا رہا۔ اس وقت مصر میں بے روزگاری کی شرح 25 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ صدر مرسی کی طرف سے مختار کل بننے کے اعلان کے بعد حزب اختلاف کی اپیل پر 23 نومبر کو زبردست مظاہرے ہوئے۔ حکمراں پارٹی کے دفاتر جلادیے گئے۔

حزب اختلاف نے صدر مرسی کو مصر کا نیا فرعون قرار دیا ہے۔ اس سے زیادہ برا حال بنگلہ دیش کا ہے۔ ڈھاکہ میں گارمنٹ کے مزدور اوورٹائمز ملاکر ماہانہ 3000 ٹکہ (روپے) سے زیادہ تنخواہ حاصل نہیں کرتے جب کہ چاول 42 ٹکہ، مسور کی دال 130 ٹکہ کلو، ایک انڈا دس (روپے) ٹکہ کا اور دودھ 55 روپے کلو ہے۔ 69 فیصد لوگ بے گھر اور بے روزگار ہیں۔ اس سے بھی برا حال نائیجیریا کا ہے۔ 2011ء میں نائیجیریا میں آئل فیلڈ کے مزدور اور معدنیات کے کان کنان نے تاریخ کی بڑی ہڑتالیں کیں، لیکن حکمرانوں نے ان کے مطالبات ماننے کے بجائے گولیوں سے درجنوں مزدوروں کو چھلنی کردیا۔ جس پر اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری بان کی مون بھی بول پڑے لیکن نیلسن منڈیلا خاموش رہے۔ انڈونیشیا کی ان میں سب سے بڑی آبادی ہے یعنی 21 کروڑ۔ 22 نومبر 2012ء کو انڈونیشیا کے ہزاروں مزدور تنخواہوں میں اضافے کے لیے حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔

دارالخلافہ جکارتہ میں 10 ہزار سے زیادہ مزدوروں نے ایوان صدر کی جانب مارچ کیا۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو پرویز مشرف کے دور میں 10 ہزار لوگ روز غربت کی لکیر سے نیچے جارہے تھے، جو اب جمہوری (نام نہاد) دور میں 25 ہزار لوگ روز غربت کی لکیر سے نیچے جارہے ہیں۔اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 1957ء کی معاشی حالت آج پاکستان کی معاشی حالت سے بہتر تھی۔ اس پاکستان کی معاشی حالت دنیا میں سب سے بدترین ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی موجودہ حکومت کے دور میں 4952 ارب سے زائد مالیت کا قرضہ لیا گیا۔

وزارت سے جاری رپورٹ کے مطابق پیپلزپارٹی کے موجودہ دور حکومت میں پاکستان کے ذمے واجب الادا قرضہ 4952 روپے کے اضافے سے 10996 ارب روپے ہوگیا جو 20905 ارب کی جی ڈی پی کا 52.6 فیصد ہے۔ اس لحاظ سے پاکستان کا ہر شہری اب 26 ہزار روپے کے اضافے سے 61088 روپے کا مقروض ہے۔ جہاں تک انصاف کا تعلق ہے تو ایک ہی مثال کافی ہے۔ حال ہی میں چوہدری عادل جٹ جنھوں نے ٹنڈوجام زرعی یونیورسٹی سے 2011 ء میں گولڈ میڈل حاصل کیا، جس کا انٹرویو نجی ٹی وی چینل سے نشر ہوا،اس نے یونیورسٹی حکام کو لیکچرار کے لیے درخواست دی۔لیکن اس کے بجائے کم نمبر حاصل کرنے والے سفارشی کو سیلکٹ کرلیا گیا یہ ہے میرٹ کا قتل۔

بہرحال G-8 ہو یا D-8، مسائل کا حل ان کے پاس نہیں ہے۔ یہ تو مسائل کے حل کے نام پر استحصال کے نت نئے طریقے ڈھونڈتے ہیں۔ انقلابی شاعر سعید رضا سعید نے کیا خوب کہا کہ ''نہ ہٹلر کا وہ جرمن رہا اور نہ راون کا وہ لنکا'' نہ اب وہ کس بل رہا اور نہ وہ دم خم۔ ہاتھ کانپتے، پاؤں لڑکھڑاتے اور نشانہ چوکنے لگا۔ اب امریکا، ایشیا، یورپ اور افریقہ کے عوام سامراجیت اور عالمی سرمایہ داری کے خلاف سراپا احتجاج بن چکے ہیں۔ بہت جلد پیداواری کارکنان سرمایے کے جوئے سے آزادی حاصل کریں گے اور شہریوں کو ریاست کے جبر سے آزادی ملے گی۔
Load Next Story