ماں بچیوں سمیت جلی یا جلا دی گئی
’’خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے گا‘‘ کے مصداق بات کھل ہی گئی۔
چوک اعظم کو منی کراچی جب کہا جاتا تھا تو مجھ جیسے قلم کار اعتراض کیا کرتے تھے کہ یہ اصطلا ح ہمارے پر امن شہر کا بدنام کرنے کی ایک سازش ہے اور ہم کسی حد تک یہاں کی بگڑتی ہوا کو شفاف بنانے اور شہر کو پر امن رکھنے کے لیے کئی پروگرام تشکیل دیا کرتے تھے مگر آج کم ازکم میں تو یہ بات تسلیم کرتا ہوں کہ واقعی یہ شہر منی کراچی کا درجہ اختیار کر چکا ہے۔ جرائم کے اعتبار سے یہ شہر روز بہ روز ترقی کی منازل طے کرتا چلاجارہاہے۔
کسی بھی وقت یہاں کچھ بھی ہو سکتاہے اور جرائم کی وارداتیں ایک سیریل کی صورت چل پڑتی ہیں۔ ستم تو یہ ہے کہ شہر کی ان وارداتوں میں بنیادی کردار بھی اسی شہر کے لوگ ادا کرتے ہیں اور بعد میں واویلا بھی کرتے ہیں ۔گزشتہ دنوں ہونے والے دو واقعات نے اس شہر کی فضا کو ہلا کر رکھ دیا ہے بل کہ یوں کہ امن کی چادر کو تار تار کرکے رکھ دیا ہے۔ ان میں ایک واقعہ قریبی گائوں چک نمبر 498 ٹی ڈی اے میں پیش آیا۔ اس دل دوز واقعہ میں ابتدائی طور پر جو بات سامنے آئی اس کے مطابق ایک ماں تسلیم بی بی نے اپنی تین کم سن بچیوں پانچ سالہ نورین، چار سالہ فرویٰ پروین اور دو سالہ طاہرہ ندیم سمیت کمرے میں خود پر پٹرول چھڑک کر مبینہ طور پر آگ لگا لی۔
اہل علاقہ نے دروازہ توڑ کر متاثرین کو اسپتال چوک اعظم پہنچایا مگر ان میں سے کوئی بھی جاں بر نہ ہو سکا۔ خبر کی کھوج میں نکلے قلم کاروں کو پہلے تو اطلاع دی گئی کہ اس سانحے کی وجہ گیس سلنڈر کا پھٹنا ہے لیکن ''خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے گا'' کے مصداق بات کھل ہی گئی۔ اہل علاقہ پر جب سوالات کی بوچھاڑ کی گئی تو وہ پھوٹ پڑے اور تصدیق اس وقت ہو گئی جب خاتون کے میکے سے اس کے بھائی اور والدہ آن پہنچے۔ انہوں نے بتایا کہ مقتولہ نے دن کو انہیں ٹیلی فون پر اطلاع دی تھی کہ اسے اور اس کے بچوں کو آکر لے جائو، نہیں تو اس کا دیور اسلم اور اس کی بیو ی رخسانہ اسے بچوں سمیت قتل کر ڈالیں گے۔
اس شک کے بعد جب مقتولہ کے خاوند محمد ندیم کو تھانہ چوبارہ کی پولیس نے گرفتار کیا تو اس نے بتایا وقوعہ کے وقت وہ گھاس کاٹنے گیا ہوا تھا، اس نے یہ بھی بتایا کہ وہ فیصل آباد میں محنت مزدوری کرتا ہے، اس کی بیوی نے اسے دو روز پہلے گھر بلایاتھا کہ آپ کا بھائی اور اس کی بیوی مجھے مارنا چاہتے ہیں، ہمیں آکر اپنے ساتھ لے جائو یا واپس گھر آجائو، اس روز بھی اس کا بھائی محمد اسلم کلہاڑی لے کر تسلیم بی بی کو قتل کرنے کے لیے دوڑا تھا۔ ہم جب جائے وقوعہ پر گئے تو وہاں پر جس کمرے میں تسلیم بی بی نے مبینہ طور پر خود کو آگ لگائی تھی، اس میں جس بیڈ پر اس نے خود کو آگ لگائی تھی وہ بیڈ بہت سے سوالوں کو جنم دے رہا تھا۔
اس بیڈ پر خود کو آگ لگانے والی تسلیم بی بی تو جل کر خاک ہو گئی مگر اس بیڈ کو آگ نے بہت معمولی سا نقصان پہنچایا تھا۔ سوال یہ بھی بنتا ہے کہ جس کمرے میں تین قیمتی جانوں نے اپنی جان آگ کے سپرد کی، وہاں کمرے میں ہر چیز محفوظ تھی، کسی بھی چیز کو جیسے چھوأ تک نہپیں گیا تھا؟ ایک ماں کیسے اپنی معصوم بچیوں کو آگ میں اپنی آنکھوں کے سامنے جلتا دیکھ سکتی ہے؟ جب یہ تین جانیں آگ میں جل رہی تھیں تو اس سانجھے آنگن میں کسی نے بھی ان کی آوازیں نہ سنین؟ ان کو کمرے سے نکالنے کے لیے آخر اہلِ علاقہ ہی کیوں دوڑ کر آئے؟ گھر والے خاموش تماشائی کیوں بن کر کھڑے رہے ؟ اہل علاقہ جب ان کو اسپتال لے کر آرہے تھے تو گھر میں موجود دیور اسلم اور دیگر اہلِ خانہ اسپتال ساتھ کیوں نہ آئے؟ اگر تسلیم بی بی نے خود سوزی کرنی تھی تو وہ اپنے میکے والوں کو دن کے وقت کیوں آگاہ کر تی؟ یا اپنے شوہر کو کیوں واپس بلاتی؟ ایسے بہت سے سوالات ہیں جو ابھی تک تسلیم بی بی کی مبینہ خود سوزی کے ساتھ کھڑے اپنے جوابات پانے کے منتظر ہیں۔
دوسری طرف تھانہ چوبارہ کی پولیس نے اس کے خاوند ندیم اور اس کے بھائی محمد اسلم کو گرفتار کر لیا ہے۔ ایس ایچ او دین محمد نے ایکسپریس کو بتایا کہ محرم الحرام کی وجہ سے تفتیش سست روی کا شکار ہوئی تھی لیکن اس کو اب یکسو کر دیا گیا ہے۔
دوسری طرف چوک اعظم میں ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر قتل ہونے والے سابق سٹینو گرافر چوہدری مجید اور اس کے جواں سال بیٹے طاہر کے ملزمان کا بھی ابھی تک کوئی سراغ نہیں ملا۔
تفتیش کے اس انداز کے خلاف چوک اعظم کے شہر میں غم و غصے کی فضا پائی جا رہی ہے۔ شہریوں نے پولیس کے خلاف اپنے احتجاج کے لائحۂِ عمل کے پہلے مرحلے کا آغاز کر دیا ہے جس کے مطابق شہر بھر کی دکانوں کے سامنے پولیس کے خلاف بینرز آویزاں کر دیے گئے ہیں۔ اس سلسلہ میں شہری اتحاد نے بھی یاد گار چوک میں پولیس کی نا اہلی پر مبنی پینا فلیکس لٹکا رکھے ہیں۔
شہریوں نے آفتاب وینس، اقتدار حسین، صادق شاہین ملانہ اور بہت سوں نے ایکسپریس کو بتایا کہ دوہرے قتل کیس میںپولیس کی طرف سے ہونے والی تفتیش منجمد ہے اور اس کی کوئی سمت نہیں، اگریہ ہی صورتِ حال رہی تو ہم سب شہر والے مل کر اس احتجاج کا نہ صرف دائرہ وسیع کریں گے بل کہ یہ احتجا ج اپنی نوعیت بھی تبدیل کرے گا۔ ایس ایچ او سرفراز گاڈی نے بتایا کہ تفتیش اپنے صحیح خطوط پر چل رہی ہے عن قریب ہم کام یابی حاصل کر لیں گے ۔
کسی بھی وقت یہاں کچھ بھی ہو سکتاہے اور جرائم کی وارداتیں ایک سیریل کی صورت چل پڑتی ہیں۔ ستم تو یہ ہے کہ شہر کی ان وارداتوں میں بنیادی کردار بھی اسی شہر کے لوگ ادا کرتے ہیں اور بعد میں واویلا بھی کرتے ہیں ۔گزشتہ دنوں ہونے والے دو واقعات نے اس شہر کی فضا کو ہلا کر رکھ دیا ہے بل کہ یوں کہ امن کی چادر کو تار تار کرکے رکھ دیا ہے۔ ان میں ایک واقعہ قریبی گائوں چک نمبر 498 ٹی ڈی اے میں پیش آیا۔ اس دل دوز واقعہ میں ابتدائی طور پر جو بات سامنے آئی اس کے مطابق ایک ماں تسلیم بی بی نے اپنی تین کم سن بچیوں پانچ سالہ نورین، چار سالہ فرویٰ پروین اور دو سالہ طاہرہ ندیم سمیت کمرے میں خود پر پٹرول چھڑک کر مبینہ طور پر آگ لگا لی۔
اہل علاقہ نے دروازہ توڑ کر متاثرین کو اسپتال چوک اعظم پہنچایا مگر ان میں سے کوئی بھی جاں بر نہ ہو سکا۔ خبر کی کھوج میں نکلے قلم کاروں کو پہلے تو اطلاع دی گئی کہ اس سانحے کی وجہ گیس سلنڈر کا پھٹنا ہے لیکن ''خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے گا'' کے مصداق بات کھل ہی گئی۔ اہل علاقہ پر جب سوالات کی بوچھاڑ کی گئی تو وہ پھوٹ پڑے اور تصدیق اس وقت ہو گئی جب خاتون کے میکے سے اس کے بھائی اور والدہ آن پہنچے۔ انہوں نے بتایا کہ مقتولہ نے دن کو انہیں ٹیلی فون پر اطلاع دی تھی کہ اسے اور اس کے بچوں کو آکر لے جائو، نہیں تو اس کا دیور اسلم اور اس کی بیو ی رخسانہ اسے بچوں سمیت قتل کر ڈالیں گے۔
اس شک کے بعد جب مقتولہ کے خاوند محمد ندیم کو تھانہ چوبارہ کی پولیس نے گرفتار کیا تو اس نے بتایا وقوعہ کے وقت وہ گھاس کاٹنے گیا ہوا تھا، اس نے یہ بھی بتایا کہ وہ فیصل آباد میں محنت مزدوری کرتا ہے، اس کی بیوی نے اسے دو روز پہلے گھر بلایاتھا کہ آپ کا بھائی اور اس کی بیوی مجھے مارنا چاہتے ہیں، ہمیں آکر اپنے ساتھ لے جائو یا واپس گھر آجائو، اس روز بھی اس کا بھائی محمد اسلم کلہاڑی لے کر تسلیم بی بی کو قتل کرنے کے لیے دوڑا تھا۔ ہم جب جائے وقوعہ پر گئے تو وہاں پر جس کمرے میں تسلیم بی بی نے مبینہ طور پر خود کو آگ لگائی تھی، اس میں جس بیڈ پر اس نے خود کو آگ لگائی تھی وہ بیڈ بہت سے سوالوں کو جنم دے رہا تھا۔
اس بیڈ پر خود کو آگ لگانے والی تسلیم بی بی تو جل کر خاک ہو گئی مگر اس بیڈ کو آگ نے بہت معمولی سا نقصان پہنچایا تھا۔ سوال یہ بھی بنتا ہے کہ جس کمرے میں تین قیمتی جانوں نے اپنی جان آگ کے سپرد کی، وہاں کمرے میں ہر چیز محفوظ تھی، کسی بھی چیز کو جیسے چھوأ تک نہپیں گیا تھا؟ ایک ماں کیسے اپنی معصوم بچیوں کو آگ میں اپنی آنکھوں کے سامنے جلتا دیکھ سکتی ہے؟ جب یہ تین جانیں آگ میں جل رہی تھیں تو اس سانجھے آنگن میں کسی نے بھی ان کی آوازیں نہ سنین؟ ان کو کمرے سے نکالنے کے لیے آخر اہلِ علاقہ ہی کیوں دوڑ کر آئے؟ گھر والے خاموش تماشائی کیوں بن کر کھڑے رہے ؟ اہل علاقہ جب ان کو اسپتال لے کر آرہے تھے تو گھر میں موجود دیور اسلم اور دیگر اہلِ خانہ اسپتال ساتھ کیوں نہ آئے؟ اگر تسلیم بی بی نے خود سوزی کرنی تھی تو وہ اپنے میکے والوں کو دن کے وقت کیوں آگاہ کر تی؟ یا اپنے شوہر کو کیوں واپس بلاتی؟ ایسے بہت سے سوالات ہیں جو ابھی تک تسلیم بی بی کی مبینہ خود سوزی کے ساتھ کھڑے اپنے جوابات پانے کے منتظر ہیں۔
دوسری طرف تھانہ چوبارہ کی پولیس نے اس کے خاوند ندیم اور اس کے بھائی محمد اسلم کو گرفتار کر لیا ہے۔ ایس ایچ او دین محمد نے ایکسپریس کو بتایا کہ محرم الحرام کی وجہ سے تفتیش سست روی کا شکار ہوئی تھی لیکن اس کو اب یکسو کر دیا گیا ہے۔
دوسری طرف چوک اعظم میں ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر قتل ہونے والے سابق سٹینو گرافر چوہدری مجید اور اس کے جواں سال بیٹے طاہر کے ملزمان کا بھی ابھی تک کوئی سراغ نہیں ملا۔
تفتیش کے اس انداز کے خلاف چوک اعظم کے شہر میں غم و غصے کی فضا پائی جا رہی ہے۔ شہریوں نے پولیس کے خلاف اپنے احتجاج کے لائحۂِ عمل کے پہلے مرحلے کا آغاز کر دیا ہے جس کے مطابق شہر بھر کی دکانوں کے سامنے پولیس کے خلاف بینرز آویزاں کر دیے گئے ہیں۔ اس سلسلہ میں شہری اتحاد نے بھی یاد گار چوک میں پولیس کی نا اہلی پر مبنی پینا فلیکس لٹکا رکھے ہیں۔
شہریوں نے آفتاب وینس، اقتدار حسین، صادق شاہین ملانہ اور بہت سوں نے ایکسپریس کو بتایا کہ دوہرے قتل کیس میںپولیس کی طرف سے ہونے والی تفتیش منجمد ہے اور اس کی کوئی سمت نہیں، اگریہ ہی صورتِ حال رہی تو ہم سب شہر والے مل کر اس احتجاج کا نہ صرف دائرہ وسیع کریں گے بل کہ یہ احتجا ج اپنی نوعیت بھی تبدیل کرے گا۔ ایس ایچ او سرفراز گاڈی نے بتایا کہ تفتیش اپنے صحیح خطوط پر چل رہی ہے عن قریب ہم کام یابی حاصل کر لیں گے ۔