بیٹی اغوا بیٹا قتل…
اگر اس وقت مقدمہ درج کرکے والدین کی تھوڑی سی مدد کر دی جاتی تو شاید عثمان پولیس کو آگاہ کر کے کوئی قدم اٹھاتا ۔
لاہور:
رحیم یارخان اب تک تو نسبتاً امن کا ضلع رہا ہے لیکن اب یہ اعزاز اس کے ہاتھ سے پھسلتا دکھائی دیتا ہے، ملک بھر میں پھیلا جرائم کا وائیرس اب اس پر بھی اثرانداز ہو چلا ہے۔
آج قارئین کو ایک ایسے دل خراش واقعہ سے آگاہ کیا جا رہا ہے جس میں ایک بھائی نے اپنی مغویہ بہن کو تلاش کرنے کا بیڑہ اٹھایا تو اسے بے دردی سے قتل کردیا گیا۔ بیٹی اغوا اور بیٹا قتل ۔۔۔ ، باپ کی کمر ٹوٹی، ماں نے آنکیوں کھو دیں، ملکِ ناپرسان کا باسی ضعیف باپ انصاف کے دروزے پر دستکیں دے دے کر ہانپ چکا ہے۔
پندرہ سالہ اقصیٰ نواحی علاقے محمد پور لمہ کے گورنمنٹ گرلز اسکول محمد پور کی طالبہ تھی، صبح ماں، باپ اور بھائیوں کی دعاؤں کی ردا اوڑھ کر پڑھنے جایا کرتی تھی لیکن21 اپریل 2012 کی ایک تاریک صبح کو یوں گئی کہ آج تک پلٹ کر نہیں آئی، زمین کھا گئی، آسمان نگل گیا؟ کچھ خبر نہیں۔
بڑے شہروں میں تو ایسے واقعات پر پردہ بھی پڑ جاتا ہے لیکن محمد پور لمہ چوںکہ ایک قصبہ ہے اور یہاں کے رہنے والے ایک دوسرے کو جانتے ہیں، سو بات جنگل کی آگ کی طرح علاقے بھر میں پھیل گئی، بس پھر کیا تھا، ہر طرف اقصیٰ کی ڈھنڈیا پڑ گئی لیکن کوئی صورت نہ بن پڑی بالآخر پولیس کو اطلاع دی گئی۔ سردمہری آپ جانیے پولیس کی روایت ہے، مقدمہ، رپٹ تک نہ درج کیا اور ''شائستہ افسر سرکار'' نے زخموں پر نمک یوں چھڑکا کہ ''بھاگ گئی ہو گی کسی آشنا کے ساتھ'' (زبان کی غیرت ملاحظہ ہو) ساتھ یہ نادر شاہی حکم بھی صادر کیا ''تلاش کرو، مل جائے تو بتا دینا' رپٹ درج کرلیں گے''۔
پولیس کی غالباً کوئی مان، بہن، بیٹی نہیں ہوتی لہٰذا اس کا ''اتنا ہی فرض'' بنتا تھا جو وہ ادا کر چکی تھی لیکن اقصیٰ کا والد اصغر اور بھائی عثمان، بہ ہرحال انسان ہیں، خون کی کھینچ اتنی آسانی سے کب ٹوٹتی ہے، اپنی اقصیٰ کی تلاش میں سرگرداں رہے۔
ایک دن نوجوان عثمان کو ایک اطلاع ملی جس پر اس نے اپنے بزرگوں سے اجازت طلب کی اور 18 مئی کو وہ بہن کی تلاش میں کراچی روانہ ہو گیا یہ کہ کر کہ وہ گھر سے مسلسل رابطے میں رہے گا۔ وہ روانہ تو ہو گیا لیکن پھر اس کی بھی کوئی خبر نہ آئی۔ زیادہ وقت گزرا تو گھر والوں کو تشویش ہوئی، والد نے موبائل پر رابطے کی لاکھ کوشش کی لیکن بے سود۔ ابھی پہلے والا زخم رس رہا تھا کہ کسی نے میاں چنوں سے ٹیلی فون پر اطلاع دی ''عثمان اصغر کی لاش میاں چنوں کے ریلوے اسٹیشن کے نزدیک ریلوے لائن پر پڑی ملی ہے، آکر لے جائو''۔
دکھیارے باپ نے دو عزیزوں جعفر اور نور احمد کو ساتھ لیا اور میاں چنوں روانہ ہوگیا راستے میں وہ خیالات کے تانے بانے بنتا رہا اور گتھی سلجھانے کی ناکام کوشش کرتا رہا کہ اس کے بیٹے نے تو بتلایا تھا کہ وہ کراچی جارہا ہے پھر میاں چنوں کیسے پہنچ گیا؟ پھر اس کی لاش ریلوے لائن پر کیوں پڑی ہوئی ہے کیا اغوا کاروں نے اسے راستے ہی میں اچک لیا اور قتل کرکے لاش ریلوے ٹریک پر پھینک کر خودکشی ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے' ان ہی خیالات میں گم وہ میاں چنوں پہنچ گیا جہاں شناخت کے بعد لاش اس کے حوالے کردی گئی۔
یہاں پر پولیس نے ایک مرتبہ پھر انتہائی مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا کہ نہ تو کسی قسم کی کوئی رپٹ درج کرکے لاش کا پوسٹ مارٹم کروایا اور نہ ہی مقدمہ درج کیا۔ کیا یہ پولیس کی سرد مہری ہے یا پھر اسے شک کی نگاہ سے دیکھا جائے اس کا فیصلہ تو اس وقت ہوگا جب کسی تحقیقاتی ایجنسی نے اس واقعہ کا نوٹس لیا اور گتھی سلجھانے کی کوشش کی' دیکھا جائے تو پہلی غلطی پولیس نے تب کی جب محمد اصغر اپنی بیٹی کی گم شدگی کی رپورٹ درج کروانے گیا۔
اگر اس وقت مقدمہ درج کرکے والدین کی تھوڑی سی مدد کر دی جاتی تو شاید عثمان پولیس کو آگاہ کر کے کوئی قدم اٹھاتا لیکن ایسا نہ ہوا اور بالاآخر پولیس کی روایتی بے حسی ایک جوان کی جان لے گئی۔ محمد اصغر اجڑ چکا تھا، اس کی بیٹی کا ایک ماہ سے کوئی پتہ نہ تھا اب اس کی تلاش میں بیٹا بھی خود کو ''گُم'' کر بیٹھا۔ آہوں اور سسکیوں کے درمیاں اسے مٹی کے سپرد کر دیا گیا اور ایک بار پھر اقصیٰ کی تلاش شروع کر دی گئی۔
بیٹے کی تدفن کے تقریباً دو ماہ بعد ایک دن (19 جولائی)کو بوڑھے اصغر کو موبائل پر ایک کال موصول ہوئی' کوئی کہ رہا تھا کہ اقصیٰ ان کے قبضہ میں ہے، انہوں نے اس کی بیٹی کے ساتھ اس کی بات بھی کروا دی۔ بیٹی کی آواز سن کر اصغر کی آنکھوں کے بند ٹوٹ گئے۔ اصغر نے اپنی بیٹی سے جگہ کے بارے میں پوچھنا چاہا تو اغوا کاروں نے اقصیٰ کے ہاتھ سے موبائل چھین لیا اور دھمکی دی کہ اگر تم نے پولیس کو اطلاع دی تو تمہاری بیٹی کا حشر بھی تمہارے بیٹے جیسا ہوگا۔ محمد اصغر پر سکتہ طاری ہوگیا اور اس کا شک یقین میں بدل گیا کہ اس کے بیٹے کو اغوا کاروں نے ہی قتل کیا ہے۔ افسوس کہ اگر میاں چنوں پولیس اپنا فرض ادا کرتی اور عثمان کی لاش کا پوسٹ مارٹم کروالیتی تو اس کا قتل ہونا ثابت ہوجاتا۔
اب وقوعے کی ذمے داری نہ تو رحیم یارخان پولیس قبول کرتی ہے اور نہ ہی میاں چنوں کی، ہو ایک اپنا بوجھا دوسرے پر ڈال رہا ہے۔ دکھی باپ 6 ماہ تک دونوں کے درمیان فٹ بال بنا رہا، بالاآخر رحیم یارخان میں آر پی او بہاول پور رائو سردار علی کی کچہری لگی جس میں ارضی خداؤں نے اتنی مہربانی کی کہ تھانہ صدر صادق آباد پولیس نے اقصیٰ کے اغوا کا مقدمہ درج کر لیا لیکن بیٹے کے قتل کا مقدمہ درج کرنے سے انکار کردیا کہ یہ میاں چنوں پولیس کا کام ہے۔
ایک سال گزر چکا ہے۔ آئی جی پنجاب حاجی حبیب الرحمن صاحب! یہ داغ پھیلتا چلا جا رہا ہے، کچھ بعید نہیں کہ آپ کی جبیں تک بھی اس کی زد پر آ جائے اور یہ بھی یاد رہے کہ ایک دن اللٰہ کی کچہری بھی لگنی ہے، جہاں وزارت، امارت، عہدہ، کچھ بھی کام نہیں انے کا۔
رحیم یارخان اب تک تو نسبتاً امن کا ضلع رہا ہے لیکن اب یہ اعزاز اس کے ہاتھ سے پھسلتا دکھائی دیتا ہے، ملک بھر میں پھیلا جرائم کا وائیرس اب اس پر بھی اثرانداز ہو چلا ہے۔
آج قارئین کو ایک ایسے دل خراش واقعہ سے آگاہ کیا جا رہا ہے جس میں ایک بھائی نے اپنی مغویہ بہن کو تلاش کرنے کا بیڑہ اٹھایا تو اسے بے دردی سے قتل کردیا گیا۔ بیٹی اغوا اور بیٹا قتل ۔۔۔ ، باپ کی کمر ٹوٹی، ماں نے آنکیوں کھو دیں، ملکِ ناپرسان کا باسی ضعیف باپ انصاف کے دروزے پر دستکیں دے دے کر ہانپ چکا ہے۔
پندرہ سالہ اقصیٰ نواحی علاقے محمد پور لمہ کے گورنمنٹ گرلز اسکول محمد پور کی طالبہ تھی، صبح ماں، باپ اور بھائیوں کی دعاؤں کی ردا اوڑھ کر پڑھنے جایا کرتی تھی لیکن21 اپریل 2012 کی ایک تاریک صبح کو یوں گئی کہ آج تک پلٹ کر نہیں آئی، زمین کھا گئی، آسمان نگل گیا؟ کچھ خبر نہیں۔
بڑے شہروں میں تو ایسے واقعات پر پردہ بھی پڑ جاتا ہے لیکن محمد پور لمہ چوںکہ ایک قصبہ ہے اور یہاں کے رہنے والے ایک دوسرے کو جانتے ہیں، سو بات جنگل کی آگ کی طرح علاقے بھر میں پھیل گئی، بس پھر کیا تھا، ہر طرف اقصیٰ کی ڈھنڈیا پڑ گئی لیکن کوئی صورت نہ بن پڑی بالآخر پولیس کو اطلاع دی گئی۔ سردمہری آپ جانیے پولیس کی روایت ہے، مقدمہ، رپٹ تک نہ درج کیا اور ''شائستہ افسر سرکار'' نے زخموں پر نمک یوں چھڑکا کہ ''بھاگ گئی ہو گی کسی آشنا کے ساتھ'' (زبان کی غیرت ملاحظہ ہو) ساتھ یہ نادر شاہی حکم بھی صادر کیا ''تلاش کرو، مل جائے تو بتا دینا' رپٹ درج کرلیں گے''۔
پولیس کی غالباً کوئی مان، بہن، بیٹی نہیں ہوتی لہٰذا اس کا ''اتنا ہی فرض'' بنتا تھا جو وہ ادا کر چکی تھی لیکن اقصیٰ کا والد اصغر اور بھائی عثمان، بہ ہرحال انسان ہیں، خون کی کھینچ اتنی آسانی سے کب ٹوٹتی ہے، اپنی اقصیٰ کی تلاش میں سرگرداں رہے۔
ایک دن نوجوان عثمان کو ایک اطلاع ملی جس پر اس نے اپنے بزرگوں سے اجازت طلب کی اور 18 مئی کو وہ بہن کی تلاش میں کراچی روانہ ہو گیا یہ کہ کر کہ وہ گھر سے مسلسل رابطے میں رہے گا۔ وہ روانہ تو ہو گیا لیکن پھر اس کی بھی کوئی خبر نہ آئی۔ زیادہ وقت گزرا تو گھر والوں کو تشویش ہوئی، والد نے موبائل پر رابطے کی لاکھ کوشش کی لیکن بے سود۔ ابھی پہلے والا زخم رس رہا تھا کہ کسی نے میاں چنوں سے ٹیلی فون پر اطلاع دی ''عثمان اصغر کی لاش میاں چنوں کے ریلوے اسٹیشن کے نزدیک ریلوے لائن پر پڑی ملی ہے، آکر لے جائو''۔
دکھیارے باپ نے دو عزیزوں جعفر اور نور احمد کو ساتھ لیا اور میاں چنوں روانہ ہوگیا راستے میں وہ خیالات کے تانے بانے بنتا رہا اور گتھی سلجھانے کی ناکام کوشش کرتا رہا کہ اس کے بیٹے نے تو بتلایا تھا کہ وہ کراچی جارہا ہے پھر میاں چنوں کیسے پہنچ گیا؟ پھر اس کی لاش ریلوے لائن پر کیوں پڑی ہوئی ہے کیا اغوا کاروں نے اسے راستے ہی میں اچک لیا اور قتل کرکے لاش ریلوے ٹریک پر پھینک کر خودکشی ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے' ان ہی خیالات میں گم وہ میاں چنوں پہنچ گیا جہاں شناخت کے بعد لاش اس کے حوالے کردی گئی۔
یہاں پر پولیس نے ایک مرتبہ پھر انتہائی مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا کہ نہ تو کسی قسم کی کوئی رپٹ درج کرکے لاش کا پوسٹ مارٹم کروایا اور نہ ہی مقدمہ درج کیا۔ کیا یہ پولیس کی سرد مہری ہے یا پھر اسے شک کی نگاہ سے دیکھا جائے اس کا فیصلہ تو اس وقت ہوگا جب کسی تحقیقاتی ایجنسی نے اس واقعہ کا نوٹس لیا اور گتھی سلجھانے کی کوشش کی' دیکھا جائے تو پہلی غلطی پولیس نے تب کی جب محمد اصغر اپنی بیٹی کی گم شدگی کی رپورٹ درج کروانے گیا۔
اگر اس وقت مقدمہ درج کرکے والدین کی تھوڑی سی مدد کر دی جاتی تو شاید عثمان پولیس کو آگاہ کر کے کوئی قدم اٹھاتا لیکن ایسا نہ ہوا اور بالاآخر پولیس کی روایتی بے حسی ایک جوان کی جان لے گئی۔ محمد اصغر اجڑ چکا تھا، اس کی بیٹی کا ایک ماہ سے کوئی پتہ نہ تھا اب اس کی تلاش میں بیٹا بھی خود کو ''گُم'' کر بیٹھا۔ آہوں اور سسکیوں کے درمیاں اسے مٹی کے سپرد کر دیا گیا اور ایک بار پھر اقصیٰ کی تلاش شروع کر دی گئی۔
بیٹے کی تدفن کے تقریباً دو ماہ بعد ایک دن (19 جولائی)کو بوڑھے اصغر کو موبائل پر ایک کال موصول ہوئی' کوئی کہ رہا تھا کہ اقصیٰ ان کے قبضہ میں ہے، انہوں نے اس کی بیٹی کے ساتھ اس کی بات بھی کروا دی۔ بیٹی کی آواز سن کر اصغر کی آنکھوں کے بند ٹوٹ گئے۔ اصغر نے اپنی بیٹی سے جگہ کے بارے میں پوچھنا چاہا تو اغوا کاروں نے اقصیٰ کے ہاتھ سے موبائل چھین لیا اور دھمکی دی کہ اگر تم نے پولیس کو اطلاع دی تو تمہاری بیٹی کا حشر بھی تمہارے بیٹے جیسا ہوگا۔ محمد اصغر پر سکتہ طاری ہوگیا اور اس کا شک یقین میں بدل گیا کہ اس کے بیٹے کو اغوا کاروں نے ہی قتل کیا ہے۔ افسوس کہ اگر میاں چنوں پولیس اپنا فرض ادا کرتی اور عثمان کی لاش کا پوسٹ مارٹم کروالیتی تو اس کا قتل ہونا ثابت ہوجاتا۔
اب وقوعے کی ذمے داری نہ تو رحیم یارخان پولیس قبول کرتی ہے اور نہ ہی میاں چنوں کی، ہو ایک اپنا بوجھا دوسرے پر ڈال رہا ہے۔ دکھی باپ 6 ماہ تک دونوں کے درمیان فٹ بال بنا رہا، بالاآخر رحیم یارخان میں آر پی او بہاول پور رائو سردار علی کی کچہری لگی جس میں ارضی خداؤں نے اتنی مہربانی کی کہ تھانہ صدر صادق آباد پولیس نے اقصیٰ کے اغوا کا مقدمہ درج کر لیا لیکن بیٹے کے قتل کا مقدمہ درج کرنے سے انکار کردیا کہ یہ میاں چنوں پولیس کا کام ہے۔
ایک سال گزر چکا ہے۔ آئی جی پنجاب حاجی حبیب الرحمن صاحب! یہ داغ پھیلتا چلا جا رہا ہے، کچھ بعید نہیں کہ آپ کی جبیں تک بھی اس کی زد پر آ جائے اور یہ بھی یاد رہے کہ ایک دن اللٰہ کی کچہری بھی لگنی ہے، جہاں وزارت، امارت، عہدہ، کچھ بھی کام نہیں انے کا۔