اللہ پاکستان کی حفاظت کرے
تحریکِ پاکستان کی تاریخ ازخود اس امر کی گواہ ہے کہ پاکستان کس طرح انگریز سامراج سے حاصل کیا گیا ۔
ہمیشہ کی طرح ایک مرتبہ پھر یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ پاکستان کیسا ہونا چاہیے؟ اسلامی فلاحی ریاست، قائد اعظم کا پاکستان، سیکولر پاکستان، عوامی جمہوریہ پاکستان، لبرل، ترقی پسند، ملائیت، طالبانائزیشن وغیرہ وغیرہ پاکستان۔ سچ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے دیا گیا انعام پاکستان درحقیقت چند برس نہیں بلکہ 1857 سے جاری جدوجہد کے نتیجے اور قائد اعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں حاصل ہوا۔
پاکستان کا قیام ایک ایسے خواب کی تعبیر تھی جس کی اصل روح تک ہم نہیں پہنچ پائے، پاکستان کے حصول کا مقصد ایک ایسے ملک کا قیام تھا جہاں مسلمان بھائی چارگی کے ساتھ اسلامی اصولوں کے مطابق آزادی اور سکون سے زندگی گزار سکیں اور علیحدہ تشخص کے ساتھ دنیا بھر میں اپنی پہچان کراسکیں۔ بدقسمتی سے قائد اعظم کی جیب کھوٹے سکّوں اور ان کی اولاد نے قوم کی منزل کو کھوٹا کردیا ہے، پاکستان ایک دینی اور نظریاتی تحریک کے نتیجے میں قائم ہونے والی دنیا کی پہلی مملکت تھی لیکن 65 سال میں اس میں برسر اقتدار آنے والی سول و فوجی اور ٹیکنو کریٹس کی حکومتوں نے اس سے اس کا نظریاتی تشخص چھین کر اسے منزل سے دور کردیا۔
جہاں تک پاکستانی قوم کی خواہشات کا تعلق ہے تو وہ ہمیشہ پاکستان کو قائد اعظم والا پاکستان (اسلامی مملکت) دیکھنے کی خواہش مند رہی ہے۔ حقائق کو سمجھنے کے لیے پاکستان کی تاریخ میں محفوظ قائد اعظم محمد علی جناح کی پہلی دستورساز اسمبلی میں کی گئی، گیارہ اگست 1947ء کی تقریر سے استفادہ کیا جاسکتا ہے، جس میں اسلامی اصولوں کو بیان کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ 1940ء اور 1946ء کی قراردادیں بھی واضح کرتی ہیں کہ پاکستان حاصل کرنے کے مقاصد کیا تھے؟ پاکستان کا نظامِ سیاست،نظامِ معیشت، نظامِ معاشرت اور نظامِ عدلیہ کیسا ہونا چاہیے اور کیسے ہوں گے؟ یہ سب کچھ ان قراردادوں میں موجود ہے۔
تحریکِ پاکستان کی تاریخ ازخود اس امر کی گواہ ہے کہ پاکستان کس طرح انگریز سامراج سے حاصل کیا گیا، بدقسمتی یہ رہی ہے کہ پاکستان بننے کے بعد جلد ہی قائد اعظم کی رحلت اور لیاقت علی خان کی شہادت ہوگئی جس کے بعد مفاد پرست اورموقع پرستوں نے تحریکِ پاکستان کے مقاصد کو پس پشت ڈالنا شروع کیا۔ اس طرح ہوسِ اقتدار و اختیارات کے کھیل میں حکمراں با اختیار و مالا مال ہوتے رہے، عوام پستے گئے، بھوک سے مرتے رہے، ملک مقروض ہوتا رہا اور قوم کی تقدیر کو عالمی مالیاتی لاکرز میں گروی رکھا جاتا رہا، ہر ایک نے قوم سے قربانی مانگ کر قوم کو سُہانے خواب دکھائے اور جب آنکھ کھلی تو پتہ چلا کہ نہ راستہ ہے اور نہ ہی منزل کا نشان۔ پہنچنا کہاں تھا اور کہاں کھڑے ہیں؟
اس وقت صورتحال ایسی ہے کہ قوم کے سامنے دو راستے ہیں، پہلا راستہ وہ جو ہمیں قائد اعظم دکھا گئے ہیں جب کہ دوسرا راستہ ہمیں عالمی قوتیں دکھانا چاہتی ہیں۔ اب یہ حکمرانوں کے ساتھ ساتھ پاکستانی قوم کی بھی عقل ودانش پر منحصر ہے کہ وہ اپنے لیے کون سا راستہ متعین کرتی ہے، بالآخر حتمی فیصلہ عوام کو اپنے ووٹوں سے کرنا ہے اور یہ تاریخی موقع قوم کو 2013ء کے عام انتخابات میں ملنے والا ہے۔ ہم نے اپنے 65 سال بحث و مباحثے، ایک دوسرے کو جانچنے پرکھنے اور نت نئے فارمولے بنانے میں صرف کردیے ہیں جب کہ بات بالکل سیدھی سادی ہے کہ پاکستان جن مقاصد کے تحت معروض وجود میں آیا تھا۔ ان مقاصد کو پورا کرنے کے لیے جرأت مندانہ فیصلے اور اقدامات کیے جائیں۔ اس سلسلے میں 1940 اور 1946 کی قراردادوں سے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔
پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے صاحب زادے اشرف لیاقت علی خان نے میڈیا میں ایک بیان جاری کیا ہے جو 10 نومبرکو روزنامہ ایکسپریس کراچی میں شایع ہوا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ ''آج پاکستان کے 65 سال بعد بھی ہم وطنِ عزیز کو قائد اعظم کے خوابوں کی تعبیر میں ڈھالنے میں ناکام رہے ہیں، میرے والد جنھیں بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اپنا دایاں بازو کہتے تھے انھوں نے 20؍فروری 1949 کو خالق دینا ہال کراچی میں پاکستان مسلم لیگ کے پہلے سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ قائد اعظم اور میں نے پاکستان کا مطالبہ اس لیے کیا تھا کیوں کہ ہم برصغیر میں مسلمانوں کے لیے ایک ایسا خطہ چاہتے تھے جہاں مسلمان سکون سے رہ سکیں اور اپنی زندگی اسلامی اصولوں کے مطابق گزار سکیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے برصغیر کے 70 ہزار مسلمانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے اور بھارت سے پاکستان ہجرت کی، آج یہ ہم سب کی ذمے داری بنتی ہے کہ ہم پاکستان کو ایک حقیقی اسلامی ریاست بنانے میں اپنا کردار ادا کریں، ہمیں پاکستان کے قیام کے ان مقاصد کو ہرگز نہیں بھولنا چاہیے جن کی بنیاد پر پاکستان کی تشکیل ہوئی۔
میرے والد لیاقت علی خان نے مرتے وقت کہا تھا کہ: ''اللہ پاکستان کی حفاظت کرے''۔ بات صاف اور واضح ہے کہ پاکستان معرض وجود میں کیوں آیا تھا اور اگر پاکستان سیکولر ازم کے لیے بنایا تھا تو بھارت چھوڑنے کی کیا ضرورت تھی؟ جو طبقہ یہ کہتا ہے کہ پاکستان کی بنیاد ہی غلط رکھ دی گئی یا تقسیم ہی غلط تھی یا یہ کہ پاکستان کے متعلق طالب علموں کو جو نصاب پڑھایا جاتا رہا ہے اور پڑھایا جارہا ہے وہ درست نہیں، من گھڑت ہے۔
ان کی معلومات کے لیے عرض یہ ہے کہ وہ پہلے پاکستان مخالف لٹریچر کو ایک طرف رکھ دیں اور اپنے ذہن کو تمام تر تعصبات سے پاک کریں، اگر انھیں پاکستان کے متعلق پاکستانی تاریخ دانوں پر اعتبار نہیں تو برٹش لائبریری کی دستاویزات سے استفادہ کریں، اس کے علاوہ انٹرنیٹ کا زمانہ ہے، پاکستان کے متعلق کسی انگریز کی تحریر پڑھ لیں، سچائی سامنے آجائے گی۔تقسیم ہند پر مبنی پاکستانی فلم ''جناح'' دیکھیں، اگر اس پر بھی اعتبار نہیں تو بھارتی فلم ''گاندھی'' ہی کو دیکھ لیں کہ پاکستان کے قیام کا مقصد کیا تھا اور کس طرح شروع دنوں سے پاکستان کے خلاف سازشیں کی جاتی رہی ہیں اور سازشوں کا سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔ اللہ پاکستان کی حفاظت کرے۔
پاکستان کا قیام ایک ایسے خواب کی تعبیر تھی جس کی اصل روح تک ہم نہیں پہنچ پائے، پاکستان کے حصول کا مقصد ایک ایسے ملک کا قیام تھا جہاں مسلمان بھائی چارگی کے ساتھ اسلامی اصولوں کے مطابق آزادی اور سکون سے زندگی گزار سکیں اور علیحدہ تشخص کے ساتھ دنیا بھر میں اپنی پہچان کراسکیں۔ بدقسمتی سے قائد اعظم کی جیب کھوٹے سکّوں اور ان کی اولاد نے قوم کی منزل کو کھوٹا کردیا ہے، پاکستان ایک دینی اور نظریاتی تحریک کے نتیجے میں قائم ہونے والی دنیا کی پہلی مملکت تھی لیکن 65 سال میں اس میں برسر اقتدار آنے والی سول و فوجی اور ٹیکنو کریٹس کی حکومتوں نے اس سے اس کا نظریاتی تشخص چھین کر اسے منزل سے دور کردیا۔
جہاں تک پاکستانی قوم کی خواہشات کا تعلق ہے تو وہ ہمیشہ پاکستان کو قائد اعظم والا پاکستان (اسلامی مملکت) دیکھنے کی خواہش مند رہی ہے۔ حقائق کو سمجھنے کے لیے پاکستان کی تاریخ میں محفوظ قائد اعظم محمد علی جناح کی پہلی دستورساز اسمبلی میں کی گئی، گیارہ اگست 1947ء کی تقریر سے استفادہ کیا جاسکتا ہے، جس میں اسلامی اصولوں کو بیان کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ 1940ء اور 1946ء کی قراردادیں بھی واضح کرتی ہیں کہ پاکستان حاصل کرنے کے مقاصد کیا تھے؟ پاکستان کا نظامِ سیاست،نظامِ معیشت، نظامِ معاشرت اور نظامِ عدلیہ کیسا ہونا چاہیے اور کیسے ہوں گے؟ یہ سب کچھ ان قراردادوں میں موجود ہے۔
تحریکِ پاکستان کی تاریخ ازخود اس امر کی گواہ ہے کہ پاکستان کس طرح انگریز سامراج سے حاصل کیا گیا، بدقسمتی یہ رہی ہے کہ پاکستان بننے کے بعد جلد ہی قائد اعظم کی رحلت اور لیاقت علی خان کی شہادت ہوگئی جس کے بعد مفاد پرست اورموقع پرستوں نے تحریکِ پاکستان کے مقاصد کو پس پشت ڈالنا شروع کیا۔ اس طرح ہوسِ اقتدار و اختیارات کے کھیل میں حکمراں با اختیار و مالا مال ہوتے رہے، عوام پستے گئے، بھوک سے مرتے رہے، ملک مقروض ہوتا رہا اور قوم کی تقدیر کو عالمی مالیاتی لاکرز میں گروی رکھا جاتا رہا، ہر ایک نے قوم سے قربانی مانگ کر قوم کو سُہانے خواب دکھائے اور جب آنکھ کھلی تو پتہ چلا کہ نہ راستہ ہے اور نہ ہی منزل کا نشان۔ پہنچنا کہاں تھا اور کہاں کھڑے ہیں؟
اس وقت صورتحال ایسی ہے کہ قوم کے سامنے دو راستے ہیں، پہلا راستہ وہ جو ہمیں قائد اعظم دکھا گئے ہیں جب کہ دوسرا راستہ ہمیں عالمی قوتیں دکھانا چاہتی ہیں۔ اب یہ حکمرانوں کے ساتھ ساتھ پاکستانی قوم کی بھی عقل ودانش پر منحصر ہے کہ وہ اپنے لیے کون سا راستہ متعین کرتی ہے، بالآخر حتمی فیصلہ عوام کو اپنے ووٹوں سے کرنا ہے اور یہ تاریخی موقع قوم کو 2013ء کے عام انتخابات میں ملنے والا ہے۔ ہم نے اپنے 65 سال بحث و مباحثے، ایک دوسرے کو جانچنے پرکھنے اور نت نئے فارمولے بنانے میں صرف کردیے ہیں جب کہ بات بالکل سیدھی سادی ہے کہ پاکستان جن مقاصد کے تحت معروض وجود میں آیا تھا۔ ان مقاصد کو پورا کرنے کے لیے جرأت مندانہ فیصلے اور اقدامات کیے جائیں۔ اس سلسلے میں 1940 اور 1946 کی قراردادوں سے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔
پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے صاحب زادے اشرف لیاقت علی خان نے میڈیا میں ایک بیان جاری کیا ہے جو 10 نومبرکو روزنامہ ایکسپریس کراچی میں شایع ہوا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ ''آج پاکستان کے 65 سال بعد بھی ہم وطنِ عزیز کو قائد اعظم کے خوابوں کی تعبیر میں ڈھالنے میں ناکام رہے ہیں، میرے والد جنھیں بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اپنا دایاں بازو کہتے تھے انھوں نے 20؍فروری 1949 کو خالق دینا ہال کراچی میں پاکستان مسلم لیگ کے پہلے سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ قائد اعظم اور میں نے پاکستان کا مطالبہ اس لیے کیا تھا کیوں کہ ہم برصغیر میں مسلمانوں کے لیے ایک ایسا خطہ چاہتے تھے جہاں مسلمان سکون سے رہ سکیں اور اپنی زندگی اسلامی اصولوں کے مطابق گزار سکیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے برصغیر کے 70 ہزار مسلمانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے اور بھارت سے پاکستان ہجرت کی، آج یہ ہم سب کی ذمے داری بنتی ہے کہ ہم پاکستان کو ایک حقیقی اسلامی ریاست بنانے میں اپنا کردار ادا کریں، ہمیں پاکستان کے قیام کے ان مقاصد کو ہرگز نہیں بھولنا چاہیے جن کی بنیاد پر پاکستان کی تشکیل ہوئی۔
میرے والد لیاقت علی خان نے مرتے وقت کہا تھا کہ: ''اللہ پاکستان کی حفاظت کرے''۔ بات صاف اور واضح ہے کہ پاکستان معرض وجود میں کیوں آیا تھا اور اگر پاکستان سیکولر ازم کے لیے بنایا تھا تو بھارت چھوڑنے کی کیا ضرورت تھی؟ جو طبقہ یہ کہتا ہے کہ پاکستان کی بنیاد ہی غلط رکھ دی گئی یا تقسیم ہی غلط تھی یا یہ کہ پاکستان کے متعلق طالب علموں کو جو نصاب پڑھایا جاتا رہا ہے اور پڑھایا جارہا ہے وہ درست نہیں، من گھڑت ہے۔
ان کی معلومات کے لیے عرض یہ ہے کہ وہ پہلے پاکستان مخالف لٹریچر کو ایک طرف رکھ دیں اور اپنے ذہن کو تمام تر تعصبات سے پاک کریں، اگر انھیں پاکستان کے متعلق پاکستانی تاریخ دانوں پر اعتبار نہیں تو برٹش لائبریری کی دستاویزات سے استفادہ کریں، اس کے علاوہ انٹرنیٹ کا زمانہ ہے، پاکستان کے متعلق کسی انگریز کی تحریر پڑھ لیں، سچائی سامنے آجائے گی۔تقسیم ہند پر مبنی پاکستانی فلم ''جناح'' دیکھیں، اگر اس پر بھی اعتبار نہیں تو بھارتی فلم ''گاندھی'' ہی کو دیکھ لیں کہ پاکستان کے قیام کا مقصد کیا تھا اور کس طرح شروع دنوں سے پاکستان کے خلاف سازشیں کی جاتی رہی ہیں اور سازشوں کا سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔ اللہ پاکستان کی حفاظت کرے۔