ذیابیطس کا علاج کڑوی بیوی

آج کل اخباروں میں معلوماتی اور انکشافاتی قسم کی خبریں بہت زیادہ آ رہی ہیں

barq@email.com

GHALLANI:
آج کل اخباروں میں معلوماتی اور انکشافاتی قسم کی خبریں بہت زیادہ آ رہی ہیں خصوصاً انسانی صحت اور اقوال و افعال اور حلیئے وغیرہ کے بارے میںکسی نہ کسی امریکی یونیورسٹی کا انکشاف تو ہوتا رہتا ہے مثلاً جن لوگوں کے کان بڑے ہوتے ہیں وہ تابعدار شوہر ثابت ہوتے ہیں اور جن کی بیویاں موٹی ہوتی ہیں انھیں دل کی بیماری کبھی نہیں ہوتی اور کیوں ہو گی کہ امراض دل پیدا کرنے والی چیزیں تو بیوی ہڑپ کر لیتی ہے، بے چارے دبلے پتلے دیا سلائی کو دل کی بیماری ہو بھی کیسے سکتی ہے۔

پنسلوانیا اور مشی گن یونیورسٹیوں وغیرہ کی تحقیقاتی ٹیم نے کہا ہے کہ جھگڑالو بیویوں کے شوہروں کو ذیابیطس کا مرض نہیں ہوتا ۔ اس تحقیق کی سربراہ بھی ایک عورت ہے اور وہ خود جانتی ہو گی کہ ذیابیطس مٹھاس سے ہوتی ہے اور اگر بیوی خود کریلا ہو تو شوہر بے چارے کو ذیابیطس کیسے ہو سکتا ہے، اگر وہ مرے گا بھی تو شوگر لیول کی غربت سے مرے گا۔ اور پھر یہ تو ایک سیدھی سی بات ہے ذیابیطس اور مٹھاس کی آپس میں نہیں بنتی اور ذیابیطس زیادہ تر فارغ البال اور کھاتے پیتے لوگوں کو لاحق ہوتا ہے لیکن اگر کھانا کھاتے ہوئے شوہر کے سامنے جلی کٹی باتوں کی مشین گن چل رہی ہو تو وہ کیا خاک کھائے گا اور کھانا ''جزو بدن'' کیسے ہو گا۔

پرانی کہانی پھر یاد آ رہی ہے کہ بادشاہ نے وزیر سے کہا کہ یہ دنبہ لو اسے روزانہ ایک سیر چنے بھی کھلاؤ لیکن ایک سال کے بعد اس کا وزن اتنا ہی ہونا چاہیے جتنا اب ہے۔ بے چارا وزیر گھر آ کر ایک جھلنگی چارپائی میں پڑ گیا۔ پرانے زمانوں کی جھلنگی چارپائی ''غور'' کا حوض ہوتی تھی۔ اس وزیر کی ایک بڑی ہی سیانی بیٹی تھی۔ پرانے وزیروں کی بیٹیاں ہمیشہ سیانی ہوا کرتی تھیں اور بیٹے سیلانی۔ جب کہ آج کل معاملہ الٹا ہے۔ اس سیانی وزیر زادی نے باپ کو غور کے حوض میں غروب ہوتے دیکھا تو ماجرا پوچھا، وزیر نے اپنی رام کہانی بتا دی، بیٹی نے کہا یہ تو بڑی آسان سی بات ہے۔ ایسا کریں اس دنبے کے سامنے ایک کتا باندھ دیں۔ دنبے کو کھلایئے اور کتے کو بھوکا رکھئے۔

وہ بھونکے گا اور دنبے کا کھایا پیا نکالتا ر ہے، یہ طریقہ اتنا مقبول ہوا کہ سنا ہے وہ وزیر پھر نقل مکانی کر کے پاکستان آ گیا اور یہاں بھی اس نے وہی تجربہ لاگو کیا لیکن اب کے دنبے کی جگہ عوام باندھے اور کتے کی جگہ مہنگائی باندھی جو بھونک بھونک کر عوام کی جان نکالتی رہتی ہے۔ بہرحال جھگڑالو بیوی کو دوائے ذیابیطس تو قرار دیدیا گیا۔ لیکن اس تحقیق میں کچھ زیادہ تفصیل نہیں ہے، صرف جھگڑالو بیوی کہا گیا ہے لیکن جھگڑے تو ہزار قسم کے ہوتے ہیں مثلاً زبانی تکرار، جوتم پیزار، جھاڑو ڈوئی یا برتنوں کے استعمال والے بھی جھگڑے ہوتے ہیں۔ اس تحقیق کا واضح مطلب یہ نکلتا ہے کہ اگر مشین کو گن کے ذریعے درست رکھا جائے اس کی مین ٹیننس ہوتی رہے تو مشین کو ذیابیطس کا عارضہ لاحق نہیں ہو گا لیکن بے چارے مردوں اور خصوصاً شوہروں کو تو ذیابیطس کے علاوہ اور بھی کئی امراض لاحق ہو سکتے ہیں۔ اور سب سے بڑا مرض خود بیوی ہے۔

کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں


اب ہمیں بھی ریسرچ اور تحقیق میں کچھ شدبد حاصل ہے اس لیے آگے مزید تحقیق کے لیے خود ہی کمر باندھتے ہیں، لیکن پہلے اپنے محقق ہونے کا سکہ تو بٹھا دیں مثلاً یہ تحقیق اور انکشاف اس خاکسار نے کیا ہے کہ پاکستان میں عوام کے نام سے ایسے جانور پائے جاتے ہیں جو ہو بہو انسانوں کی طرح ہوتے ہیں، مثلاً اگر شوہر کو مٹاپے کا عارضہ لاحق ہو تو صرف ڈائٹنگ سے ان کا علاج ممکن نہیں بلکہ وہ باہر جا کر بہت کچھ ٹھونس سکتے ہیں، اس لیے ہمارے خیال میں اگر صبح دوپہر شام ان کو جھاڑو کا ڈوز دیا جائے تو مٹاپا دور ہو سکتا ہے، اس طرح دوسرے بہت سارے اور بھی گھریلو ہتھیار ہیں جن کو بوقت ضرورت اور موقع میڈیکل آلات میں تبدیل کیا جا سکتا ہے جیسے چپل، نوک دار سینڈل، ڈوئی، گرم پتیلہ اور دوسرے بھاری برتن جیسے توا ، ککر، واٹر کولر وغیرہ ۔ان سب کا استعمال مرض اور مرض کی شدت پر ڈیپینڈ کرتا ہے اور اس کا صحیح فیصلہ ''معالج'' ہی کر سکتا ہے۔

ہمارے ٹی وی کے زمانے کا ذکر ہے۔ ایک شخص جو کسی جنوبی اضلاع کا تھا، اسے اتفاقاً ایک پرندہ مل گیا جو عرب ممالک میں بڑا قیمتی ہوتا ہے، اس سے اس نے باقاعدہ پرندوں کا کاروبار شروع کیا اور چند ہی روز میں کروڑ پتی ہو گیا۔ آسانی سے ملنے والی دولت نے اسے عیاش بنا دیا اور ٹی وی کی ایک گلوکارہ پر مر مٹا اور اس پر بے انتہاء دولت لٹانے لگا ۔ اس کی بیوی کو پتہ چلا تو اس نے اپنے چار بھائیوں کو بلوایا اور مریض کا حال بتا دیا، وہ چاروں ''فزیو تھراپی'' کے معالج یعنی پہلوان تھے۔ سب نے پکڑ کر لالہ کو اندر کیا اور دو شفٹوں میں تقسیم ہو کر لالہ کی فزیو تھراپی کرنے لگے۔ چیخیں سن کر آس پاس کے لوگوں نے صورت حال پوچھی تو باہر بیٹھے ہوئے دو بھائی اور بیوی ان کو بتاتے کہ لالہ پر جن آئے ہیں اور اندر ایک عامل جن نکال رہا ہے۔

علاج مکمل ہونے کے بعد اسے نیم مردہ حالت میں باہر لائے تو چہرے کی جگہ ایک سبز رنگ کا فٹ بال تھا اور دوسرے اعضاء کا پتہ نہیں تھا، لوگوں کو سنانے کے لیے بڑا سالا سرکاری بیان دے رہا تھا کہ بڑے نابکار جن تھے، لالہ کو دیواروں سے ٹھکریں مرواتے تھے لیکن ہم نے دیکھا کہ اس کی گردن پیچھے سے بھی ایک چھوٹے سے سبز تکیے کے برابر ہو گئی تھی حالانکہ ایسے جن کبھی دیکھے نہ سنے جو وکٹم کو ریورس گیر میں ڈال کر دیواروں سے ٹکرائیں۔ صحت یاب ہوتے ہی اس نے یہ بڑی داڑھی رکھی اور حج پر چلا گیا، اس ساری بحث سے ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ یہ شوہر لوگ ہر امراض کا مجموعہ ہوتے ہیں اور ان کا بہتر علاج اگر کوئی کر سکتا ہے تو وہ اس کی بیوی ہوتی ہے بلکہ دنیاوی عوارض کے ساتھ روحانی عوارض میں بھی بیوی ایک اچھی معالج ثابت ہو سکتی ہے، ہمارے ایک جاننے والے نہایت ہی دل پھینک تھے اور ہر وقت شادی شادی کی رٹ لگائے رہتے تھے حالانکہ ایک بیوی کو بھگتا چکے تھے۔

معیار بھی اس کا اونچا تھا، اس لیے کسی بیوہ یا مطلقہ کے بجائے قطعی کنواری بیوی چاہتے تھے اور آخر کار وہ اسے مل گئی لیکن یہ ادھیڑ عمر کا تھا اور بیوی جوان اور جدید زمانے کی، آخرکار اتنا زچ ہو گیا کہ طلاق تک نوبت جا پہنچی لیکن طلاق دینے کے بعد اس کی کایا ہی پلٹ گئی۔ لوگ اس کا مضحکہ اڑاتے تھے کہ اگر کسی بس یا تانگے یا رکشے میں بھی خواتین بیٹھی ہوں تو یہ جناب سخت ضرورت ہونے پر بھی اس سواری کے قریب نہیں جاتا ۔ مطلب یہ کہ دوسری بیوی نے اس کی کایا ہی پلٹ دی اور اسے ایک نیک انسان بنا دیا۔ بہرحال بیویوں پر امریکا والوں کی تحقیقات چل رہی ہیں دیکھتے ہیں دوسرے امراض کے بارے میں وہ کیا دوا تجویز کرتے ہیں بلکہ سب سے اہم مسئلہ تو بدصورت بیویوں کے فوائد کا ہے کیوں کہ یقیناً ان کے بھی کچھ نہ کچھ فوائد ضرور ہوں گے، کیونکہ اب تو امریکا کی تقریباً تمام یونیورسٹیوں نے قرار دیا ہے کہ بیوی ایک تیر بہدف نسخہ ہے۔ پتہ صرف یہ لگانا باقی ہے کہ ذیابیطس کے علاوہ دوسرے امراض کے لیے کس کس قسم کی بیویاں درکار ہوں گی۔

پی جس قدر ملے شب مہتاب میں شراب
اس ''بلغمی مزاج'' کو ''گرمی'' ہی راس ہے
Load Next Story