بے روزگاری کا عفریت
پسماندہ ملکوں میں بیروزگاری ایک خطرناک وائرس کی شکل میں موجود ہے
پسماندہ ملکوں میں بیروزگاری ایک خطرناک وائرس کی شکل میں موجود ہے، کالجوں، یونیورسٹیوں سے ہر سال لاکھوں کی تعداد میں ڈگری ہولڈر نکلتے ہیں اور ڈگریاں ہاتھ میں تھامے اور ساتھ ہی ساتھ دل کو تھامے روزگار کی منڈی کا رخ کرتے ہیں، جہاں انھیں ہر جگہ ''نو ویکنسی'' کا جواب ملتا ہے۔ بے روزگاری سے تنگ آئے ہوئے نوجوان یا تو منشیات کی طرف چلے جاتے ہیں یا پھر جرائم کی دنیا کا رخ کرتے ہیں، ہماری سرکار بڑھتے ہوئے جرائم کو کنٹرول کرنے کے لیے طرح طرح کی فورسز تشکیل دیتی ہے، لیکن چونکہ سرمایہ دارانہ نظام میں نیچے سے اوپر تک کرپشن کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہوتا ہے، لہٰذا اینٹی کرپشن کے ادارے سب سے زیادہ کرپٹ بن جاتے ہیں، جرائم میں بے دھڑک اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ حال ہی میں امجد صابری قوال کا قتل اورچیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کے صاحبزادے کے اغوا کے علاوہ مرحوم گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے صاحبزادے اور سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کے اغوا سے پاکستان میں جرائم کے گراف کا اندازہ ہو سکتا ہے۔
مغربی ملکوں میں بے روزگاری کو روکنے کے لیے ایک منظم اور منصوبہ بند طریقہ اختیار کیا جاتا ہے، مغرب کے ترقی یافتہ ملکوں میں تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل نوجوانوں کے اعداد و شمار حاصل کیے جاتے ہیں اور ان اعداد و شمار کے مطابق ہر سال ویکنسیاں نکالی جاتی ہیں، یوں تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل نوجوانوں کو جاب کے لیے جوتیاں نہیں چٹخانی پڑتی ہیں، بلکہ آسانی سے روزگار حاصل ہو جاتا ہے۔ چونکہ سرمایہ دارانہ نظام کا اونٹ بے نکیل ہو رہا ہے، اس لیے ترقی یافتہ ملکوں میں بھی بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے، لیکن ان ملکوں میں بے روزگار نوجوانوں کو سماج دشمن راستوں پر جانے سے روکنے کے لیے بے روزگاری الاؤنس دیا جاتا ہے، اس لیے بے روزگار نوجوان بے راہ روی سے بچ جاتے ہیں۔
پاکستان کو وجود میں آئے ہوئے اب 69 سال ہونے والے ہیں لیکن اس طویل عرصے کے دوران کسی حکومت نے بیروزگاری کو روکنے کے لیے کوئی منصوبہ بندی کی نہ روزگار کی مارکیٹ میں اصلاحات کیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ لاکھوں تعلیم یافتہ نوجوان برسوں سے روزگار کے لیے جوتیاں چٹخاتے پھر رہے ہیں لیکن ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ یہ ضرور ہو رہا ہے کہ حکمران طبقات کی نااہل اولاد کو بڑی بڑی اور منافع بخش پوسٹوں پر لگا کر کرپشن کے راستے کھولے جا رہے ہیں اور قابل اور اہل تعلیم یافتہ نوجوان بیچلر اور ماسٹر کی ڈگریاں رکھنے والے چپراسی کی نوکریاں تلاش کرتے پھر رہے ہیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ جب کسی محکمے میں بھاری تعداد میں ویکنسیاں نکالی جاتی ہیں تو ان پر میرٹ کے حوالے سے تقرریاں نہیں کی جاتیں بلکہ اقتدار میں شامل جماعتوں کو کوٹہ دیا جاتا ہے اور اس کوٹے کا استعمال یوں ہوتا ہے کہ وزرائے کرام اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ویکنسیاں بھاری داموں پر بیچ کر کروڑوں روپے کما لیتے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک مشہور وزیر پر تیرہ ہزار ملازمتیں بیچنے کی خبریں میڈیا کی زینت بنیں لیکن نتیجہ ٹائیں ٹائیں فش کے علاوہ کچھ نہ نکلا۔ سیکڑوں بے روزگاروں نے حکام اعلیٰ کے ایجنٹوں کو نوکری حاصل کرنے کے لیے لاکھوں روپوں کی رشوت دی لیکن انھیں نہ تو نوکری ملی نہ ان کی رقم واپس ملی۔
ایسے لوگ جن عذابوں سے گزر رہے ہیں اس کا نوٹس لینے والا کوئی نہیں۔ جب نوکریاں بیچی جاتی ہیں تو اہل کے ساتھ نااہل لوگ بھی جاب حاصل کر لیتے ہیں، یوں سرکاری ملازمین کی کارکردگی کا کونڈہ ہو جاتا ہے۔ آج ہزاروں نہیں لاکھوں نوجوان بے روزگاری کے پنجوں میں جکڑے سسک رہے ہیں لیکن ان کا کوئی پرسان حال نہیں، کیونکہ حکومتوں کو اس اہم ترین مسئلے پر توجہ دینے کی فرصت ہی نہیں اس کی ساری توجہ کرپشن کے الزامات کے دفاع پر لگی ہوئی ہے۔
ہمارے محترم وزیراعظم کا تعلق صنعتی شعبے سے ہے، اس حوالے سے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملک میں صنعتی ترقی کا جال بچھا دیا جاتا لیکن ہو یہ رہا ہے کہ ہزاروں کارخانے بند ہو رہے ہیں اور لاکھوں مزدور بے کار ہو رہے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ملک میں بجلی کا قحط ہے اور بجلی کے بغیر صنعتیں چل نہیں سکتیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت پر قابض حکمران بجلی کی کمی کو سابقہ حکمرانوں کی نااہلی قرار دیتے ہیں جب کہ حالیہ حکمران سابقہ حکمران رہے ہیں۔ 1988ء سے اب تک صرف دو جماعتیں برسر اقتدار رہی ہیں اور ایک دو نہیں تین تین بار حکومت میں رہی ہیں، اس حقیقت کے پیش نظر سابقہ حکومتوں پر نااہلی کا الزام لگانا مسخرہ پن ہی نہیں بلکہ بددیانتی بھی ہے۔
ہمارے ملک میں ایلیٹ سے تعلق رکھنے والے حکمرانوں کے نام پر غریب عوام کی امداد پر اربوں روپے خرچ کیے جا رہے ہیں جس کا کوئی مصرف نہیں۔ مثال کے طور پر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام پر 80-70 ارب روپے سالانہ خرچ کیے جا رہے ہیں، اس پروگرام سے فائدہ اٹھانے والوں کو تین ماہ میں تین ساڑھے تین ہزار روپے بڑی بھاگ دوڑ کے بعد ملتے ہیں، یعنی مہینے میں ایک ہزار کے لگ بھگ امداد ملتی ہے جو اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہوتی ہے، ایک ایسا خاندان جو 6-5 افراد پر مشتمل ہو وہ مہینے میں ملنے والے ایک ہزار روپوں کا کیا کرے گا۔ اس قسم کے پروپیگنڈا ویلیو پروگرام کو ختم کر کے ان اربوں روپوں سے صنعتیں قائم کی جائیں، کاٹج انڈسٹری کو فروغ دیا جائے تو ضرورت مند لوگ محنت اور عزت کے ساتھ روٹی حاصل کر سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ اس قسم کی فلاحی اسکیموں میں 50 فیصد سے زیادہ رقم خردبرد کر لی جاتی ہے۔ یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ حکمران اشرافیہ کو عوام کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں، اس کی ساری دلچسپی ملک کے اندر اور بیرون ملک اربوں کھربوں کی جائیداد بنانے اور بینکوں میں سرمایہ جمع کرنے میں لگی ہوئی ہے۔
مغربی ملکوں میں بے روزگاری کو روکنے کے لیے ایک منظم اور منصوبہ بند طریقہ اختیار کیا جاتا ہے، مغرب کے ترقی یافتہ ملکوں میں تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل نوجوانوں کے اعداد و شمار حاصل کیے جاتے ہیں اور ان اعداد و شمار کے مطابق ہر سال ویکنسیاں نکالی جاتی ہیں، یوں تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل نوجوانوں کو جاب کے لیے جوتیاں نہیں چٹخانی پڑتی ہیں، بلکہ آسانی سے روزگار حاصل ہو جاتا ہے۔ چونکہ سرمایہ دارانہ نظام کا اونٹ بے نکیل ہو رہا ہے، اس لیے ترقی یافتہ ملکوں میں بھی بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے، لیکن ان ملکوں میں بے روزگار نوجوانوں کو سماج دشمن راستوں پر جانے سے روکنے کے لیے بے روزگاری الاؤنس دیا جاتا ہے، اس لیے بے روزگار نوجوان بے راہ روی سے بچ جاتے ہیں۔
پاکستان کو وجود میں آئے ہوئے اب 69 سال ہونے والے ہیں لیکن اس طویل عرصے کے دوران کسی حکومت نے بیروزگاری کو روکنے کے لیے کوئی منصوبہ بندی کی نہ روزگار کی مارکیٹ میں اصلاحات کیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ لاکھوں تعلیم یافتہ نوجوان برسوں سے روزگار کے لیے جوتیاں چٹخاتے پھر رہے ہیں لیکن ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ یہ ضرور ہو رہا ہے کہ حکمران طبقات کی نااہل اولاد کو بڑی بڑی اور منافع بخش پوسٹوں پر لگا کر کرپشن کے راستے کھولے جا رہے ہیں اور قابل اور اہل تعلیم یافتہ نوجوان بیچلر اور ماسٹر کی ڈگریاں رکھنے والے چپراسی کی نوکریاں تلاش کرتے پھر رہے ہیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ جب کسی محکمے میں بھاری تعداد میں ویکنسیاں نکالی جاتی ہیں تو ان پر میرٹ کے حوالے سے تقرریاں نہیں کی جاتیں بلکہ اقتدار میں شامل جماعتوں کو کوٹہ دیا جاتا ہے اور اس کوٹے کا استعمال یوں ہوتا ہے کہ وزرائے کرام اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ویکنسیاں بھاری داموں پر بیچ کر کروڑوں روپے کما لیتے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک مشہور وزیر پر تیرہ ہزار ملازمتیں بیچنے کی خبریں میڈیا کی زینت بنیں لیکن نتیجہ ٹائیں ٹائیں فش کے علاوہ کچھ نہ نکلا۔ سیکڑوں بے روزگاروں نے حکام اعلیٰ کے ایجنٹوں کو نوکری حاصل کرنے کے لیے لاکھوں روپوں کی رشوت دی لیکن انھیں نہ تو نوکری ملی نہ ان کی رقم واپس ملی۔
ایسے لوگ جن عذابوں سے گزر رہے ہیں اس کا نوٹس لینے والا کوئی نہیں۔ جب نوکریاں بیچی جاتی ہیں تو اہل کے ساتھ نااہل لوگ بھی جاب حاصل کر لیتے ہیں، یوں سرکاری ملازمین کی کارکردگی کا کونڈہ ہو جاتا ہے۔ آج ہزاروں نہیں لاکھوں نوجوان بے روزگاری کے پنجوں میں جکڑے سسک رہے ہیں لیکن ان کا کوئی پرسان حال نہیں، کیونکہ حکومتوں کو اس اہم ترین مسئلے پر توجہ دینے کی فرصت ہی نہیں اس کی ساری توجہ کرپشن کے الزامات کے دفاع پر لگی ہوئی ہے۔
ہمارے محترم وزیراعظم کا تعلق صنعتی شعبے سے ہے، اس حوالے سے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملک میں صنعتی ترقی کا جال بچھا دیا جاتا لیکن ہو یہ رہا ہے کہ ہزاروں کارخانے بند ہو رہے ہیں اور لاکھوں مزدور بے کار ہو رہے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ملک میں بجلی کا قحط ہے اور بجلی کے بغیر صنعتیں چل نہیں سکتیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت پر قابض حکمران بجلی کی کمی کو سابقہ حکمرانوں کی نااہلی قرار دیتے ہیں جب کہ حالیہ حکمران سابقہ حکمران رہے ہیں۔ 1988ء سے اب تک صرف دو جماعتیں برسر اقتدار رہی ہیں اور ایک دو نہیں تین تین بار حکومت میں رہی ہیں، اس حقیقت کے پیش نظر سابقہ حکومتوں پر نااہلی کا الزام لگانا مسخرہ پن ہی نہیں بلکہ بددیانتی بھی ہے۔
ہمارے ملک میں ایلیٹ سے تعلق رکھنے والے حکمرانوں کے نام پر غریب عوام کی امداد پر اربوں روپے خرچ کیے جا رہے ہیں جس کا کوئی مصرف نہیں۔ مثال کے طور پر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام پر 80-70 ارب روپے سالانہ خرچ کیے جا رہے ہیں، اس پروگرام سے فائدہ اٹھانے والوں کو تین ماہ میں تین ساڑھے تین ہزار روپے بڑی بھاگ دوڑ کے بعد ملتے ہیں، یعنی مہینے میں ایک ہزار کے لگ بھگ امداد ملتی ہے جو اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہوتی ہے، ایک ایسا خاندان جو 6-5 افراد پر مشتمل ہو وہ مہینے میں ملنے والے ایک ہزار روپوں کا کیا کرے گا۔ اس قسم کے پروپیگنڈا ویلیو پروگرام کو ختم کر کے ان اربوں روپوں سے صنعتیں قائم کی جائیں، کاٹج انڈسٹری کو فروغ دیا جائے تو ضرورت مند لوگ محنت اور عزت کے ساتھ روٹی حاصل کر سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ اس قسم کی فلاحی اسکیموں میں 50 فیصد سے زیادہ رقم خردبرد کر لی جاتی ہے۔ یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ حکمران اشرافیہ کو عوام کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں، اس کی ساری دلچسپی ملک کے اندر اور بیرون ملک اربوں کھربوں کی جائیداد بنانے اور بینکوں میں سرمایہ جمع کرنے میں لگی ہوئی ہے۔