مسئلہ کشمیر سازش کے تحت ادھورا چھوڑا گیا

غربت فلاکت بے روز گاری بے بیماری ان کا مقدر بن کر رہ گئی ہے۔

www.facebook.com/shah Naqvi

مسئلہ کشمیر پر عالمی میڈیا میں تبصرے جاری ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کشمیر ایک انتہائی پیچیدہ مسئلہ بن گیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ قدیم مسئلہ ہونے کی وجہ سے اس کا کوئی حل سامنے آتا لیکن اس کے برعکس ہوا آج عالمی تجزیہ نگار بھی اس حقیقت کو تسلیم کر رہے ہیں کہ برطانیہ نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اسے ادھورا چھوڑڑ دیا تا کہ برصغیر کی یہ دونوں آزاد مملکتیں مستقل طور پر ایک دوسرے سے برسرپیکار رہیں اور اپنے تمام وسائل کا بڑا حصہ جنگی اخراجات پر صرف کرتی رہیں۔ چنانچہ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بھارت میں80 کروڑ لوگوں کو بمشکل ایک وقت کا کھانا میسر ہے اور70 کروڑ لوگوں کو گھروں کے اندر لیٹرین کی سہولت میسر نہیں۔

غربت فلاکت بے روز گاری بے بیماری ان کا مقدر بن کر رہ گئی ہے۔ ایسا مقدر جس کو شاید کوئی تبدیل نہیں کر سکتا۔ عالمی بینک کے تازہ ترین جائزے کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا 60 فیصد خط غربت سے نیچے ہے۔ چند دن پیشتر لاہور بورڈ کے آرٹس گروپ کے ایک بچے نے ٹاپ کیا۔ اس کا باپ گدھا بان ہے جو پورے دن میں ڈیڑھ سو روپے کماتا ہے۔ جب کہ گھر کے افراد 12 ہیں۔ کبھی تنہائی میں آپ کو فرصت ملے تو ذرا چشم تصور سے سوچیے کہ ان ڈیڑھ سو روپوں میں بارہ افراد کیا اور کتنا کھا سکتے ہوں گے۔ کہا جاتا ہے کہ کفن کے جیب نہیں ہوتے۔ انسان خالی ہاتھ ہی دنیا سے جاتا ہے لیکن جب ہم یہ پڑھتے ہیں کہ دنیا کے 62 امیر ترین افراد کے پاس دنیا کی نصف آبادی کے برابر دولت ہے تو انسان حیران پریشان رہ جاتا ہے۔ دولت کوئی کھانے والی چیز نہیں۔ ایک غریب اور امیر معدہ (پوٹے) کی گنجائش ایک جیسی ہی ہوتی ہے۔ پھر دولت کی اتنی ہوس کیوں ہے۔

اس لیے کہ یہ دولت ہی ہے جس کے ذریعے اپنے جیسے انسانوں کو غلام بنایا جاتا ہے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ ایک فرد ہو یا قوم زیادہ سے زیادہ وسائل پر قبضہ کیا جائے۔ ان وسائل (دولت) کے ذریعے ہتھیار اور عسکری قوت بنائی جاتی ہے۔ پھر ایک نہ ختم ہونے والا منحوس چکر چل پڑتا ہے۔ ہزاروں سال سے یہی کچھ ہو رہا ہے۔ یہ انسان کے اندر کا عدم تحفظ ہی ہے جس کی وجہ سے وہ زیادہ سے زیادہ دولت سمیٹنا چاہتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام نہ صرف اس عدم تحفظ کو پیدا کرتا ہے بلکہ تقویت بھی دیتا ہے۔ انسان کے عدم تحفظ کا ازالہ زیادہ سے زیادہ دولت اکٹھی کرنے میں نہیں بلکہ اس دولت کو مساوی طور پر تمام انسانوں میں تقسیم کرنے میں ہے جس سے پوری دنیا میں امن قائم ہو سکتا ہے۔

اس طرح سے ہتھیاروں اور فوجوں پر خرچ ہونے والا پیسہ انسانوں کی فلاح و بہبود پر خرچ ہو سکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پوری دنیا ہتھیاروں پر جتنا خرچ کر رہی ہے اگر اس کا صرف بیس فیصد انسانوں پر خرچ کیا جائے تو دنیا سے بے روز گاری' بھوک غربت اور بیماری کا خاتمہ ہو سکتا ہے اور دنیا کے تمام انسانوں کو صحت اور تعلیم کی سہولتیں مفت میں مہیا ہو سکتی ہیں اور ہر فیملی کو گھر کی سہولت بھی مہیا کی جا سکتی ہے۔جب پاکستان اور بھارت ایٹمی قوت بنے تو دونوں ملکوں کے حکمرانوں نے اپنے عوام کو یہ خوش خبری سنائی (جھانسہ دیا) کہ اب روایتی ہتھیاروں پر انحصار کم ہو گا جس کے نتیجے میں بچنے والا سرمایہ عوام پر خرچ ہو سکے گا لیکن اب حالات یہ ہیں کہ دونوں ملکوں میں روایتی ہتھیاروں پر خرچ پہلے سے بھی زیادہ ہو گیا ہے۔


اس دوڑ میں دنیا میں بھارت نمبر دو اور پاکستان دسویں نمبر پر ہے۔ دونوں ملکوں میں عوام کے خون پسینے کی کمائی عوام پر خرچ ہونے کے بجائے ایٹم بموں' میزائلوں اور دوسرے ہتھیاروں پر خرچ ہو رہی ہے۔ برصغیر کی تقسیم کا عوام کو تو کوئی فائدہ نہیں ہوا جب کہ اس تقسیم کا سارا فائدہ سامراج نے یا دونوں ملکوں کے حکمران طبقوں اور ایک بڑے گروہ نے اٹھایا۔ سوویت یونین کے خاتمے کے لیے برصغیر کی تقسیم ضروری تھی۔ اس کے بعد بنگلہ دیش کا قیام بھی اس ایجنڈے کا حصہ تھا۔

حفظ ماتقدم کے لیے مسئلہ کشمیر کا فساد بھی ضروری تھا تا کہ دونوں ملک ایک دوسرے سے لڑتے رہیں اور اپنی قیمتی دولت ہتھیاروں اور جنگوں پر خرچ کرتے رہیں۔ ذرا سوچیں دونوں ملکوں میں کوئی جھگڑا نہ ہوتا تو برصغیر اس خطے کی جو مشرق وسطیٰ اور مشرق بعید تک پھیلا ہوا ہے کی سُپر پاور ہوتا اس طرح سے اسے پوری دنیا پر اثرورسوخ حاصل ہوتا۔ دنیا کے بیشتر قیمتی قدرتی وسائل مشرق وسطیٰ اور مشرق بعید ہی میں ہیں۔ عوام جنھیں عوام کہتے ہیں وہ مکمل طور پر خسارے میں ہی رہے یہی وجہ ہے کہ بھارت میں دو تہائی آبادی خط غربت سے نیچے ہے تو پاکستان میں کل آبادی کا ساٹھ فیصد۔

کسی زمانے میں روس بھارت کا حلیف تھا اور پاکستان اور روس میں مخاصمت تھی۔ لیکن اب صورت حال مختلف ہے۔ خبررساں ایجنسی کے مطابق کشمیر کے ستر فیصد عوام پاکستان کے حامی ہیں۔ بین الاقوامی ہیومن رائٹس کمیشن کے مطابق اب تک 90 ہزار کشمیری بھارتی ظلم و ستم کا نشانہ بنتے ہوئے اپنی جان قربان کر چکے ہیں۔ دس سال پہلے ایک معاہدہ ہوا تھا جس کے مطابق کشمیر کے دونوں حصوں میں تجارت کی بحالی اور کشمیر کے دونوں حصوں کے عوام آزادانہ نقل و حرکت کر سکتے تھے پھر ایک مدت بعد دونوں حصوں کے عوام کو حق خودارادیت دینے کا بھی وعدہ کیا گیا تھا لیکن اس پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔

بھارتی مصنفہ ارون دھتی رائے اس مسئلے پر کہتی ہیں کہ کشمیر کے لوگوں نے ایک بار پھر وہ بات واضع کر دی ہے جو وہ کئی سالوں کئی عشروں سے واضع کرتے آ رہے ہیں کہ وہ صرف آزادی اور آزادی چاہتے ہیں۔ وہ اس بات پر زور دیتی ہیں کہ لوگوں کے حق خودارادیت کو کسی بھی قیمت پر مسترد کیا جا سکتا ہے۔ اہمیت اس بات کی ہونی چاہیے کہ کشمیری کیا چاہتے ہیں... تو دوسری طرف ہمیں بھی اپنے گریبان میں بھی جھانکنا چاہیے کہ ہم نے اپنی طرف کے کشمیریوں کو کیا حقوق دے رکھے ہیں۔ ایک کشمیر کونسل کے ذریعے آزاد کشمیر کو کنٹرول کیا جا رہا ہے۔ آزاد کشمیر حکومت کے اختیارات ایک میئر سے بھی کم ہیں... کیا ہمیں آزاد کشمیر کو حقیقی آزادی نہیں دینی چاہیے کہ دنیا ہمارا مذاق نہ اڑائے۔

کشمیر کے حوالے سے 2017ء اہم وقت ہے جس کا آغاز اس سال کے آخر سے ہو جائے گا۔
Load Next Story