’’والزیتون…‘‘

ہمارے زراعت کے ماہرین کبھی کبھار ایک منصوبے کا ذکر کرتے یا اسے دہراتے ہیں

Abdulqhasan@hotmail.com

ہمارے زراعت کے ماہرین کبھی کبھار ایک منصوبے کا ذکر کرتے یا اسے دہراتے ہیں کہ چکوال یا اس کے گردونواح میں زیتون کی کاشت کی جائے کیونکہ یہ علاقہ زیتون کے درخت کی پیدائش اور اس کی پرورش کی موزوں آب و ہوا میں بہت مفید ہے۔

اس لیے زیتون کی پیداوار اور اس کی کاشت کی جائے اور اس کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی جائے۔ ان ماہرین کی مہارت کا تو مجھے کوئی خاص علم نہیں ہے لیکن زیتون کا درخت اور اس کا پھل میرے جسمانی وجود کا ایک حصہ ہے اور قرآن پاک کی یہ مبارک آئت تو زیتون پر میرے ایمان کو تازہ کر دیتی ہے۔ آپ بھی زیتون کے اس ذکر سے اپنا ایمان تازہ کیجیے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں اس درخت کا یوں ذکر کیا ہے اور اس کے لیے اپنے کلام پاک کی یہ آٹھ آیات مخصوص کی ہیں۔

''قسم ہے انجیر کے درخت کی اور زیتون (کے درخت) کی اور طور سینین کی اور اس امن والے شہر (یعنی مکہ معظمہ) کی کہ ہم نے انسان کو بہت خوبصورت سانچے میں ڈھالا ہے۔ پھر (ان میں جو بوڑھا ہوجاتا ہو)' ہم اس کو پستی کی حالت والوں سے بھی پست تر کر دیتے ہیں۔ لیکن جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے تو ان کے لیے اس قدر ثواب ہے جو کبھی منقطع نہ ہو گا۔ پھر کون چیز تجھ کو قیامت کے بارے میں منکر بنا رہی ہے کیا اللہ تعالیٰ سب حاکموں سے بڑھ کر حاکم نہیں ہے''۔


ہمارے اطبا کرام کے نسخوں میں زیتون ایک نہایت ہی مفید علاج ہے جو ان کے کئی نسخوں میں استعمال ہوتا ہے اور ان کے طریقہ علاج میں شامل ہے۔ یہ قرآنی لفظ ہماری معاشرتی زندگی میں بھی آپ کو ملے گا اور بعض خواتین کا نام زیتون ہو گا۔ جیسا کہ آپ نے پڑھ لیا ہے زیتون محض ایک پھل اور درخت کا نام نہیں ہے۔ ہماری دیہی زندگی میں یہ درخت ایک مقبول نام ہے اور جیسا کہ ابھی عرض کیا ہے یہ ہماری معاشرتی زندگی کا ایک مقبول عام لفظ ہے جو ہماری خواتین کا نام بھی ہوتا ہے اور جس کا پھل ہمیں مرغوب بھی ہے۔

میرے گاؤں میں جو راستہ گاؤں سے باہر جاتا تھا اس کے گردوپیش میں زیتون کے کئی درخت تھے جن میں سڑک کے ایک موڑ پر زیتون کا ایک بڑا سا درخت تھا، سایہ دار درخت جس کے نیچے ہم اسکول آتے جاتے سستا لیتے تھے اور موڈ میں ہوتے تو کھیل بھی لیتے تھے۔ یہ درخت ایک موڑ پر تھا اور یہاں سے مڑتی ہوئی بسیں رفتار کم کر لیتی تھیں کہ بعض اوقات اتنی کم کہ ہم اسکول سے آتے یا جاتے اس راستے میں بس سے اتر بھی جاتے تھے۔ کچھ کھیل کود لیتے اور کسی دوسری بس میں اس کی کم رفتاری میں سوار ہو جاتے۔ سڑک کا یہ موڑ ہم اسکول آنے جانے والے بچوں کے لیے ایک تعجب تھا پھر اس موڑ پر زیتون کا سایہ دار درخت سڑک سے گزرنے والوں کو آرام کی دعوت دیتا تھا جسے عموماً قبول کر لیا جاتا۔

یہ موڑ ہمارے گاؤں زیتون والا موڑ کہلاتا تھا اور اس کے معنی زیتون کے درخت کے لیے تھے یعنی زیتون کا درخت۔ گزشتہ دنوں میں گاؤں گیا تو اس سڑک سے گزر ہوا جس کے ایک موڑ پر کبھی زیتون کا یہ درخت تھا۔ یہ سایہ دار موڑ میرے ذہن میں تازہ تھا جو میری خوش قسمتی سے سلامت تھا اور کسی کاشتکار کے ہتھے نہیں چڑھا تھا۔ زیتون کا یہ درخت اور یہ سڑک کا یہ موڑ جو میرا ایک انتہائی پسندیدہ مقام تھا سلامت تھا لیکن بہت جلد یہاں سے سڑک کا موڑ کسی انجینئر کی زد میں آ جائے گا اور پھر اس کا نام و نشان بھی باقی نہیں ہوگا۔ میری تمام یادیں ماضی کا قصہ بن جائیں گی اور شاید ان یادوں کو تازہ کرنے والا خود ماضی میں گم ہو جائے گا۔
Load Next Story