ڈرون انسانی سوچ کے تابع ہوگئے

ایک شخص محض ارادے کے سہارے بہ یک وقت کئی طیارے اڑا سکے گا

ایک شخص محض ارادے کے سہارے بہ یک وقت کئی طیارے اڑا سکے گا ۔ فوٹو : فائل

انسانی سوچ کو پڑھنے والی ٹیکنالوجی کئی برس قبل وضع کرلی گئی تھی تاہم اس کا استعمال ہنوز متنوع نہیں ہوسکا۔ بہرحال اس ٹیکنالوجی کے ذریعے سوچ کے ذریعے ویڈیو گیم کھیلنے میں کام یابی حاصل کرلی گئی ہے۔ اس کے علاوہ خیالی رَو کی مدد سے مصنوعی ہاتھ کو متحرک کرنے کا سنگ میل بھی عبور کرلیا گیا ہے۔

اب سائنس داں ڈرون طیاروں کو انسانی سوچ کے تابع کرنے کے لیے پَر تول رہے ہیں۔ محض ارادے کے ذریعے طیارے اڑانا سائنس فکشن فلموں کی سی بات معلوم ہوتی ہے، مگر فی زمانہ پردۂ سیمیں پر نظر آنے والی بہت سی ایجادات حقیقت بن چکی ہیں، اور سائنس دانوں کو یقین ہے کہ مستقبل قریب میں ڈرون طیارے بھی انسانی سوچ کے مطابق عمل کررہے ہوں گے۔

ڈرون ٹیکنالوجی کا استعمال سب سے پہلے امریکی فوج نے شروع کیا تھا۔ انسانی سوچ کی مدد سے ڈرون اڑانے کی ابتدا بھی وہیں سے ہوگی۔ اس پروجیکٹ پر ایریزونا اسٹیٹ یونی ورسٹی کی ہیومن اورینٹڈ روبوٹکس اینڈ کنٹرول لیب میں کام جاری ہے۔ منصوبے کے لیے ڈیفینس ایڈوانسڈ ریسرچ پروجیکٹس ایجنسی ( ڈارپا ) نے ساڑھے آٹھ لاکھ ڈالر دو برس قبل فراہم کیے تھے۔


اس پروجیکٹ کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے تحت ایک انسان کو بہ یک وقت ڈرون کا پورا دستہ اپنی سوچ کے ذریعے کنٹرول کرنے کے قابل بنایا جائے گا۔ اپنے ہدف کی جانب پیش رفت کرتے ہوئے سائنس داں ایک سے زائد طیاروں کو بہ یک وقت انسانی سوچ کے تحت حرکت کرنے کے قابل بنا چکے ہیں۔

اس بارے میں ہیومن اورینٹڈ روبوٹکس اینڈ کنٹرول لیب کے ڈائریکٹر پروفیسر پینگیوٹس آرٹیمیدس کہتے ہیں،'' ڈرون طیاروں کے اسکواڈرن کو انسانی سوچ کے تابع کرنے کے ضمن میں سب سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ آپ انسانوں اور روبوٹس کا درمیانی فاصلہ کس طرح پاٹتے ہیں۔'' پروفیسر کے مطابق اس سلسلے میں وہ کنٹرول انٹرفیس کی تیکنیک استعمال کرنا چاہتے ہیں تاہم دوسری ایپلی کیشنز بھی ان کے پیش نظر ہیں۔

محض اپنے ارادے کے ذریعے ڈرون اڑانے کا نظام ایک ڈیوائس اور کمپیوٹر پر مشتمل ہے۔ کنٹوپ نما ڈیوائس کو سر پر پہنا جاتا ہے جس پر لگے ہوئے سوا سو برقیرے ایک کمپیوٹر سے منسلک ہوتے ہیں۔ برقیروں کے ذریعے دماغ کے برقی اشارات کو ریکارڈ کرکے ڈی کوڈ کیا جاتا ہے۔کنٹوپ پہنا ہوئے شخص یا کنٹرولر کی سوچ کے مطابق اس کے دماغ کے مخصوص حصے کمپیوٹر مانیٹر پر روشن ہوجاتے ہیں۔

پروفیسر کہتے ہیں کہ اب اگلا مرحلہ دماغ کی اس سرگرمی کو بہ یک وقت کئی روبوٹ کنٹرول کرنے کے لیے ڈی کوڈ کرنا ہے۔ ایک دو روبوٹ کے لیے ڈی کوڈ کیے گئے خیالات کو بلوٹوتھ کے ذریعے ان تک منتقل کیا جاتا ہے اور وہ اس کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ تاہم اب سائنس دانوں کی توجہ پورے اسکواڈرن کے لیے ڈی کوڈنگ کی تیکنیک وضع کرنے پر ہے۔
Load Next Story