برطانیہ میں دہشت گردی کا خطرہ بڑھ گیا سربراہ اسکاٹ لینڈ یارڈ
برطانیہ میں لاکھوں مسلمانوں کو امتیازی سلوک کا سامنا نہیں جیسا دیگر یورپی ممالک میں ہے
FAISALABAD:
اسکاٹ لینڈ یارڈ کے سربراہ برنارڈ ہوگن ہوو کا کہنا ہے کہ یورپ میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے بعد برطانیہ میں دہشت گردی کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
اسکاٹ لینڈ یارڈ کے سربراہ برنارڈ ہوگن ہوو نے کہا کہ یورپ میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے بعد برطانیہ میں دہشت گردی کا خطرہ بڑھ گیا ہے، جس سے نمٹنے کیلیے بڑے پیمانے پر اقدام کیے جارہے ہیں، یہ بات اسکاٹ لینڈ یارڈ کے سربراہ برنارڈ ہوگن ہوونے ایک بیان میں کہی، انھوں نے کہا کہ برطانیہ میں دہشت گردی کا نمایاں واقع مئی 2013 میں پیش آیا جب لندن کے جنوب مشرقی علاقے وول وچ میں ایک فوجی کو قتل کردیا گیا تھا۔
اس کے بعد یورپ کے دیگر ممالک میں حالیہ عرصے کے دوران پیش آنے والے دہشت گردی کے ہر واقعے کے بعد برطانوی شہریوں کے خوف اور برطانیہ میں دہشت گردی کے خطرات میں اضافہ ہوا، اس وقت صورت حال یہ ہے کہ وہ برطانوی شہریوں کو یہ یقین دہانی نہیں کرا سکتے کہ وہ ایسے خطرے سے مکمل طورپرمحفوظ ہیں لیکن کچھ باتیں مثبت بھی ہو رہی ہیں جن میں سب سے نمایاں یہ ہے کہ برطانیہ میں مقیم لاکھوں مسلمانوں کو اس طرح کے امتیازی سلوک کا سامنا نہیں جیسا انھیں دیگر یورپی ممالک میں درپیش ہے۔
اسکاٹ لینڈ یارڈ کے سربراہ برنارڈ ہوگن ہوو کا کہنا ہے کہ یورپ میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے بعد برطانیہ میں دہشت گردی کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
اسکاٹ لینڈ یارڈ کے سربراہ برنارڈ ہوگن ہوو نے کہا کہ یورپ میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے بعد برطانیہ میں دہشت گردی کا خطرہ بڑھ گیا ہے، جس سے نمٹنے کیلیے بڑے پیمانے پر اقدام کیے جارہے ہیں، یہ بات اسکاٹ لینڈ یارڈ کے سربراہ برنارڈ ہوگن ہوونے ایک بیان میں کہی، انھوں نے کہا کہ برطانیہ میں دہشت گردی کا نمایاں واقع مئی 2013 میں پیش آیا جب لندن کے جنوب مشرقی علاقے وول وچ میں ایک فوجی کو قتل کردیا گیا تھا۔
اس کے بعد یورپ کے دیگر ممالک میں حالیہ عرصے کے دوران پیش آنے والے دہشت گردی کے ہر واقعے کے بعد برطانوی شہریوں کے خوف اور برطانیہ میں دہشت گردی کے خطرات میں اضافہ ہوا، اس وقت صورت حال یہ ہے کہ وہ برطانوی شہریوں کو یہ یقین دہانی نہیں کرا سکتے کہ وہ ایسے خطرے سے مکمل طورپرمحفوظ ہیں لیکن کچھ باتیں مثبت بھی ہو رہی ہیں جن میں سب سے نمایاں یہ ہے کہ برطانیہ میں مقیم لاکھوں مسلمانوں کو اس طرح کے امتیازی سلوک کا سامنا نہیں جیسا انھیں دیگر یورپی ممالک میں درپیش ہے۔