پرانے زخم اور آج کا دور
اور چند برس قبل جب کراچی کو مقتل میں بتدیل کر دیاگیا۔
JAMRUD:
اور چند برس قبل جب کراچی کو مقتل میں بتدیل کر دیاگیا۔ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو 8گھنٹے ایئر پورٹ پر محبوس رکھاگیا۔55 بے گناہ انسانوں کا قتل عام کیاگیا۔ ایئر پورٹ کو جانے والے تمام راستے بند کر دیے گئے۔گولیوں کی ترتراہٹ اور انسانی چیخ و پکار سے فضا وحشت، بربریت اور لہو سے بھر دی گئی۔ سڑکوں پر ناچتی موت سے بچنے کے لیے بدحواسی اور خوف سے بھاگتے لوگ لہو میں تر بتر ہو کر گر رہے تھے ۔ یہ 12مئی 2007ء کا وہ دن تھا جب ایک وقت کے لیے یوں لگا جیسے کراچی کے شہریوں پر دشمن ملک نے فائر کھول دیا ہو۔ اس واقعہ کو 9سال گزرگئے لیکن ایف آئی آر کہیں درج نہ ہوئی۔ قاتل سفید کالر اور اجلے دامن لیے پارساؤں کے روپ میں ہمارے درمیان دندناتے رہے۔
اس وقت کے وزیراعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم سے لے کرقائم علی شاہ تک، اب مراد علی شاہ اور گورنرسندھ جو 12سال سے اس منصب پر فائز ہیں،کسی نے اس سانحہ کی تحقیقات یا مقدمات درج کرانے کی کوشش نہیں کی۔کسی نے نہیں سوچا کہ مرنے والے انسان تھے نہ کہ جانور جنھیں شاہراہ فیصل اور گرومندر کے علاقوں میں لہو میں نہلا دیا گیا۔ لاقانونیت کی ایک نئی تاریخ لکھ دی گئی ۔2007ء سے 2016ء تک ملک بھر میں زمانی، سیاسی، سماجی تبدیلیوں کے علاوہ، میری نگاہ ان 9سالوں پرپڑ رہی ہے جن میں بے شمار ایسے واقعات ہوئے جن میں مرنے والوں کے ورثاء آج بھی انصاف کے منتظرہیں ۔ کراچی میں سانحہ بارہ مئی، سانحہ کارساز، سانحہ بلدیہ ٹاؤن، سانحہ صفورا، راولپنڈی میں سانحہ لیاقت باغ ، لاہور کاسانحہ ماڈل ٹاؤن جیسے متعدد واقعات رونما ہوئے مگر نااہل،نکمے،کم فہم،بد عنوان، مفاد پرست انتظامیہ اور مقتدرسیاستدان ٹس سے مس نہ ہوئے۔
سابق آمر نے 12 مئی کی ایف آر درج نہ ہونے دی ۔ ایسا کرکے اس نے یہ ثابت کر دیا کہ کس قدر مضبوط ہے۔ اسے اپنی وردی، اپنی طاقت کے علاوہ اگر کسی امر میں دلچسپی تھی تو یہ کہ وہ جب تک اقتدار میں رہا ہے، مکے لہر ا لہر اکر اس ملک کے عوام کو ڈراتا رہے ۔
12 مئی کے واقعہ کا پھر خبروں کا موضوع ہے ۔ وسیم اختر کا نام بھی آرہا ہے کیونکہ وہ اس وقت صوبائی وزیر داخلہ تھے۔ اس معاملے میں ان کا کوئی کردار تھا یا نہیں اس کے بارے میں قبل از وقت کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن سوچنے کی بات ہے کہ راتوں رات کس طرح روڈز پر ٹینکر آگئے، سڑکیں بلاک ہو گئیں۔؟ پولیس نے کسی مرحلے پر بھی بلوائیوں کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔
ان سوالات کے جوابات گزشتہ نو سال کے دوران نہیں دیے گئے حالانکہ کئی مرتبہ مختلف حلقوں کی جانب سے پوچھے بھی گئے لیکن کسی حکومت نے ان کا جواب نہیں دیا۔ یہاں تک کہ پاکستان کی تاریخ کے طاقتور ترین سمجھے جانے والے چیف جسٹس چوہدری افتخار محمد نے اپنی بحالی کے بعد نہ اس بات کا نوٹس لیا اور نہ ہی اس سے متعلقہ دائر کی گئی چھوٹی موٹی درخواستوں کی شنوائی کی۔ وہ کونسی مفاہمت تھی جس کی وجہ سے تمام ذمے داران کی جانب سے یہ معاملہ سرد خانے میں پڑا رہا؟ یہ ہماری ستم ظریفی ہے کہ خواہ کتنا بڑا سانحہ یا واقعہ ہو صرف تب اٹھایا جاتا ہے جب وہ سیاسی مفادات کے عین مطابق ہوتا ہے۔ اور اگر ان مفادات کو فائدہ نہیں دیتا تو داخل دفتر کیا جاتا ہے۔ اس معاملے میں جنرل پرویز مشرف، ارباب غلام رحیم اور چیف سیکریٹری، ہوم سیکریٹری، پولیس چیف اور دیگر اعلیٰ افسران سے بھی پوچھ گچھ ہونی چاہیے ۔ صرف ایک شخص کو پکڑنا اور سارا ملبہ اس پر ڈالنے کی کوشش کرنا انصاف نہیں ہے۔
1977ء کی تحریک میں سیکڑوں لوگوں کو مار دیا گیا ، پھر 1983کی ایم آر ڈی تحریک میں سیکڑوں کارکنوں کو قتل کردیا گیا ، پھر 1988ء میں کلین کراچی آپریشن میں جن لوگوں کو مارا گیا، ان کا آج تک کسی نے حساب نہیں لیا، قارئین کو اگر یاد ہو تو سندھ کے اندرونی حصوں میں ایم آر ڈی کے متحرک کارکنوں کو نشانہ بنانے کے لیے گن شپ ہیلی کاپٹرز کی مدد لی گئی تھی۔ کتنا بڑا قتل عام ہوا تھا ان دنوں؟ یہ کہانی دادو میں رہنے والے کسی بھی سیاسی کارکن سے سنی جاسکتی ہے۔ مگر آغاز تو 1978ء سے ہی ہوگیا تھا جب نواب شاہ میں احتجاجی ریلی پر ہیلی کاپٹروں سے فائرنگ کرکے متعدد پارٹی کارکنوں، کسانوں اور مزدوروں کو شہید کردیا گیا تھا۔ 1978ء میں ہی ایک ملز میں یونین کی طرف سے اپنے مطالبات کے لیے چلائی جانے والی تحریک کو محض اس لیے خون میں ڈبو کر دوسو کے قریب کارکنوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا کہ اس کے جنر ل سیکریٹری کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی کے سوشلسٹ کارکنان سے تھا۔
ظلم کی داستانوں پر بہت سی کتب موجود ہیں اور اتنی ہی اور لکھی جاسکتی ہیں جو ضیاء الحق آمریت کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی، پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے کارکنان، جمہوریت کی لڑائی لڑنے والے صحافیوں، طالب علموں، وکلاء اور دانشوروں پر ڈھائے گئے۔اس کے بعد دور جدید میں سانحہ کارساز،سانحہ بلدیہ ٹاؤن، سانحہ صفورا، سانحہ لیاقت باغ، سانحہ ماڈل ٹاؤن اور سانحہ 12مئی جیسے سیکڑوں واقعات رونما ہوئے ۔
ہم ایسا سسٹم چاہتے ہیں کہ جوکوئی بھی اس طرح کا قبیح فعل سرانجام دے وہ خود بخود قانون کی گرفت میں آجائے۔ ایسا ہر گز نہیں ہوناچاہیے کہ سالوں تک یہی پتہ نہ لگایا جا سکے کہ گولی چلانے کے آرڈر کس نے جاری کیے تھے وغیرہ۔ کس نے گولی کس کے حکم پر چلائی یا کس پر چلائی جو ذمے دار ہو ،خواہ وہ حکمرانوں میں سے ہی کوئی کیوں نہ ہو، اسے قانون کے کٹہرے میں لایا جائے اور سخت سے سخت سزا دی جائے تاکہ آیندہ کوئی جرأت نہ کر سکے نہتے عوام پرگولیاں چلانے کی۔
ہر بڑے سانحے کے پیچھے ماسٹر مائنڈ کو پکڑا جانا چاہیے اور اس طرح کے واقعات کی تحقیقات کسی آزاد ادارے سے کرائی جائے اور اس وقت کے حکمرانوں پر مقدمات درج ہونے چاہییں جو اس میں ملوث پائے جائیں اور کسی قسم کے سیاسی اثرو رسوخ کو برداشت نہیں کیا جاناچاہیے، اس حوالے سے ایسا ادارہ قائم کیا جائے جو آزاد ہو اور حکومت کے زیر انتظام بھی نہ ہو یعنی اس میں کسی قسم کا کوئی اثر و رسوخ استعمال نہ کیا جاسکے یا اس حوالے سے ایک ایسا سسٹم مربوط کیا جائے جو اصل حقائق کو عوام کے سامنے لائے ورنہ اس طرح کے سانحات ہوتے رہیں گے اور عوام اپنے ہی منتخب کر دہ حکمرانوں کے دور حکومت میں ناحق قتل ہوتے رہیں گے اور حکمرانوں میں تو ویسے ہی اخلاقیات سمیت ہرچیز کی کمی نظر آتی ہے، بظاہر وہ عوامی نعرے لگاتے نہیں تھکتے لیکن دلوں کے بھید اللہ ہی جانتا ہے ...بقول شاعر
لہجوں میں ابھی بوئے بغاوت کی کمی ہے
ہے شور بہت،حرف صداقت کی کمی ہے
اور چند برس قبل جب کراچی کو مقتل میں بتدیل کر دیاگیا۔ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو 8گھنٹے ایئر پورٹ پر محبوس رکھاگیا۔55 بے گناہ انسانوں کا قتل عام کیاگیا۔ ایئر پورٹ کو جانے والے تمام راستے بند کر دیے گئے۔گولیوں کی ترتراہٹ اور انسانی چیخ و پکار سے فضا وحشت، بربریت اور لہو سے بھر دی گئی۔ سڑکوں پر ناچتی موت سے بچنے کے لیے بدحواسی اور خوف سے بھاگتے لوگ لہو میں تر بتر ہو کر گر رہے تھے ۔ یہ 12مئی 2007ء کا وہ دن تھا جب ایک وقت کے لیے یوں لگا جیسے کراچی کے شہریوں پر دشمن ملک نے فائر کھول دیا ہو۔ اس واقعہ کو 9سال گزرگئے لیکن ایف آئی آر کہیں درج نہ ہوئی۔ قاتل سفید کالر اور اجلے دامن لیے پارساؤں کے روپ میں ہمارے درمیان دندناتے رہے۔
اس وقت کے وزیراعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم سے لے کرقائم علی شاہ تک، اب مراد علی شاہ اور گورنرسندھ جو 12سال سے اس منصب پر فائز ہیں،کسی نے اس سانحہ کی تحقیقات یا مقدمات درج کرانے کی کوشش نہیں کی۔کسی نے نہیں سوچا کہ مرنے والے انسان تھے نہ کہ جانور جنھیں شاہراہ فیصل اور گرومندر کے علاقوں میں لہو میں نہلا دیا گیا۔ لاقانونیت کی ایک نئی تاریخ لکھ دی گئی ۔2007ء سے 2016ء تک ملک بھر میں زمانی، سیاسی، سماجی تبدیلیوں کے علاوہ، میری نگاہ ان 9سالوں پرپڑ رہی ہے جن میں بے شمار ایسے واقعات ہوئے جن میں مرنے والوں کے ورثاء آج بھی انصاف کے منتظرہیں ۔ کراچی میں سانحہ بارہ مئی، سانحہ کارساز، سانحہ بلدیہ ٹاؤن، سانحہ صفورا، راولپنڈی میں سانحہ لیاقت باغ ، لاہور کاسانحہ ماڈل ٹاؤن جیسے متعدد واقعات رونما ہوئے مگر نااہل،نکمے،کم فہم،بد عنوان، مفاد پرست انتظامیہ اور مقتدرسیاستدان ٹس سے مس نہ ہوئے۔
سابق آمر نے 12 مئی کی ایف آر درج نہ ہونے دی ۔ ایسا کرکے اس نے یہ ثابت کر دیا کہ کس قدر مضبوط ہے۔ اسے اپنی وردی، اپنی طاقت کے علاوہ اگر کسی امر میں دلچسپی تھی تو یہ کہ وہ جب تک اقتدار میں رہا ہے، مکے لہر ا لہر اکر اس ملک کے عوام کو ڈراتا رہے ۔
12 مئی کے واقعہ کا پھر خبروں کا موضوع ہے ۔ وسیم اختر کا نام بھی آرہا ہے کیونکہ وہ اس وقت صوبائی وزیر داخلہ تھے۔ اس معاملے میں ان کا کوئی کردار تھا یا نہیں اس کے بارے میں قبل از وقت کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن سوچنے کی بات ہے کہ راتوں رات کس طرح روڈز پر ٹینکر آگئے، سڑکیں بلاک ہو گئیں۔؟ پولیس نے کسی مرحلے پر بھی بلوائیوں کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔
ان سوالات کے جوابات گزشتہ نو سال کے دوران نہیں دیے گئے حالانکہ کئی مرتبہ مختلف حلقوں کی جانب سے پوچھے بھی گئے لیکن کسی حکومت نے ان کا جواب نہیں دیا۔ یہاں تک کہ پاکستان کی تاریخ کے طاقتور ترین سمجھے جانے والے چیف جسٹس چوہدری افتخار محمد نے اپنی بحالی کے بعد نہ اس بات کا نوٹس لیا اور نہ ہی اس سے متعلقہ دائر کی گئی چھوٹی موٹی درخواستوں کی شنوائی کی۔ وہ کونسی مفاہمت تھی جس کی وجہ سے تمام ذمے داران کی جانب سے یہ معاملہ سرد خانے میں پڑا رہا؟ یہ ہماری ستم ظریفی ہے کہ خواہ کتنا بڑا سانحہ یا واقعہ ہو صرف تب اٹھایا جاتا ہے جب وہ سیاسی مفادات کے عین مطابق ہوتا ہے۔ اور اگر ان مفادات کو فائدہ نہیں دیتا تو داخل دفتر کیا جاتا ہے۔ اس معاملے میں جنرل پرویز مشرف، ارباب غلام رحیم اور چیف سیکریٹری، ہوم سیکریٹری، پولیس چیف اور دیگر اعلیٰ افسران سے بھی پوچھ گچھ ہونی چاہیے ۔ صرف ایک شخص کو پکڑنا اور سارا ملبہ اس پر ڈالنے کی کوشش کرنا انصاف نہیں ہے۔
1977ء کی تحریک میں سیکڑوں لوگوں کو مار دیا گیا ، پھر 1983کی ایم آر ڈی تحریک میں سیکڑوں کارکنوں کو قتل کردیا گیا ، پھر 1988ء میں کلین کراچی آپریشن میں جن لوگوں کو مارا گیا، ان کا آج تک کسی نے حساب نہیں لیا، قارئین کو اگر یاد ہو تو سندھ کے اندرونی حصوں میں ایم آر ڈی کے متحرک کارکنوں کو نشانہ بنانے کے لیے گن شپ ہیلی کاپٹرز کی مدد لی گئی تھی۔ کتنا بڑا قتل عام ہوا تھا ان دنوں؟ یہ کہانی دادو میں رہنے والے کسی بھی سیاسی کارکن سے سنی جاسکتی ہے۔ مگر آغاز تو 1978ء سے ہی ہوگیا تھا جب نواب شاہ میں احتجاجی ریلی پر ہیلی کاپٹروں سے فائرنگ کرکے متعدد پارٹی کارکنوں، کسانوں اور مزدوروں کو شہید کردیا گیا تھا۔ 1978ء میں ہی ایک ملز میں یونین کی طرف سے اپنے مطالبات کے لیے چلائی جانے والی تحریک کو محض اس لیے خون میں ڈبو کر دوسو کے قریب کارکنوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا کہ اس کے جنر ل سیکریٹری کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی کے سوشلسٹ کارکنان سے تھا۔
ظلم کی داستانوں پر بہت سی کتب موجود ہیں اور اتنی ہی اور لکھی جاسکتی ہیں جو ضیاء الحق آمریت کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی، پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے کارکنان، جمہوریت کی لڑائی لڑنے والے صحافیوں، طالب علموں، وکلاء اور دانشوروں پر ڈھائے گئے۔اس کے بعد دور جدید میں سانحہ کارساز،سانحہ بلدیہ ٹاؤن، سانحہ صفورا، سانحہ لیاقت باغ، سانحہ ماڈل ٹاؤن اور سانحہ 12مئی جیسے سیکڑوں واقعات رونما ہوئے ۔
ہم ایسا سسٹم چاہتے ہیں کہ جوکوئی بھی اس طرح کا قبیح فعل سرانجام دے وہ خود بخود قانون کی گرفت میں آجائے۔ ایسا ہر گز نہیں ہوناچاہیے کہ سالوں تک یہی پتہ نہ لگایا جا سکے کہ گولی چلانے کے آرڈر کس نے جاری کیے تھے وغیرہ۔ کس نے گولی کس کے حکم پر چلائی یا کس پر چلائی جو ذمے دار ہو ،خواہ وہ حکمرانوں میں سے ہی کوئی کیوں نہ ہو، اسے قانون کے کٹہرے میں لایا جائے اور سخت سے سخت سزا دی جائے تاکہ آیندہ کوئی جرأت نہ کر سکے نہتے عوام پرگولیاں چلانے کی۔
ہر بڑے سانحے کے پیچھے ماسٹر مائنڈ کو پکڑا جانا چاہیے اور اس طرح کے واقعات کی تحقیقات کسی آزاد ادارے سے کرائی جائے اور اس وقت کے حکمرانوں پر مقدمات درج ہونے چاہییں جو اس میں ملوث پائے جائیں اور کسی قسم کے سیاسی اثرو رسوخ کو برداشت نہیں کیا جاناچاہیے، اس حوالے سے ایسا ادارہ قائم کیا جائے جو آزاد ہو اور حکومت کے زیر انتظام بھی نہ ہو یعنی اس میں کسی قسم کا کوئی اثر و رسوخ استعمال نہ کیا جاسکے یا اس حوالے سے ایک ایسا سسٹم مربوط کیا جائے جو اصل حقائق کو عوام کے سامنے لائے ورنہ اس طرح کے سانحات ہوتے رہیں گے اور عوام اپنے ہی منتخب کر دہ حکمرانوں کے دور حکومت میں ناحق قتل ہوتے رہیں گے اور حکمرانوں میں تو ویسے ہی اخلاقیات سمیت ہرچیز کی کمی نظر آتی ہے، بظاہر وہ عوامی نعرے لگاتے نہیں تھکتے لیکن دلوں کے بھید اللہ ہی جانتا ہے ...بقول شاعر
لہجوں میں ابھی بوئے بغاوت کی کمی ہے
ہے شور بہت،حرف صداقت کی کمی ہے