چند کڑوی باتیں
کراچی کا بحران سول انتظامیہ کے بریک ڈاؤن کا سب سے بڑا ثبوت ہے
سندھ کے نومنتخب وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے رینجرز کے خصوصی اختیارات اور اس کے قیام کی مدت میں توسیع کر دی ہے، یوں ایک ایسا معاملہ جسے متنازعہ بنانے کی باتیں ہو رہی تھیں، وہ خوش اسلوبی سے بلکہ منٹوں میں طے ہو گیا ۔ میرا خیال ہے کہ کراچی اور سندھ میں معاملات ایسے ہی چلیں گے جیسا رینجرز اور سندھ کے حکمران چاہیں گے۔
یہ طے شدہ باتیں ہیں۔ ویسے بھی مراد علی شاہ اپنے پیشرو قائم علی شاہ کی نسبت قدرے جوان آدمی ہیں، شاید اسی لیے انھوں نے رینجرز کے بارے میں آصف زرداری سے مشاورت کا عمل جلد مکمل کر لیا اور وزارت اعلیٰ کا حلف اٹھانے کے فوراً بعد توسیع کی منظوری دے دی۔ رینجرز تو کہتے ہیں کہ ہم نے پہلے اختیارات مانگے نہ اب مانگیں گے، کراچی میں اگر پولیس اور سول ادارے امن و امان قائم کرلیتے ہیں تو اس سے اچھی بات اور کیا ہو سکتی ہے۔
رینجرز کا دوسرا نقطہ یہ ہے کہ انھیں اپنا کام جاری رکھنے میں کوئی آئینی یا قانونی رکاوٹ نہیں ہے، سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے تحت وہ اپنا کام جاری رکھ سکتے ہیں، یوں دیکھا جائے تو کراچی اور سندھ میں رینجرز کے خصوصی اختیارات اور اس کے قیام کی مدت کے معاملات سندھ حکومت اور وفاق کے درمیان کوئی بڑے تنازعہ کی بات نہیں ہے، زیادہ سے زیادہ ترجیحات اور چند سیاسی مفادات کی بات ہو سکتی ہے، انھی معاملات میں ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔ اگر چند سیاسی مفادات کی قربانی دے دی جائے تو کراچی کے حالات زیادہ تیزی سے بہتر ہوں گے۔
رینجرز کہتے ہیں کہ انھیں کراچی کی طرح اندرون سندھ میں بھی خصوصی اختیارات کے تحت آپریشن کی ضرورت ہے، ملک کی انٹیلی جنس اطلاعات بھی ہیں کہ کراچی کے بعد سندھ میں کالعدم انتہا پسند تنظیموں نے خاصا نیٹ ورک بنا لیا ہے، سندھ جو صدیوں سے رواداری اور لبرل کلچر کا امین رہا ہے، اب اولیا اللہ اور صوفیا کی اس پرامن سرزمین میں انتہا پسندی کا زہر گھولا جا رہا ہے، آج بھی بہت سے لوگوں کو اس حقیقت کا پتہ نہیں ہو گا کہ اندرون سندھ میں انتہا پسندی کا زہر کس قدر گہرائی میں پھیل چکا ہے لیکن حقائق سے آنکھیں بند کر کے زیادہ دیر تک انھیں جھٹلایا نہیں جا سکتا، اندرون سندھ میں انتہا پسندی سے منسلک کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں، جرائم مافیا بھی ماضی کے مقابلے میں بہت منظم ہے، کراچی سے بھی لوگ بھاگ کر اندرون سندھ میں ٹھکانے بنا رہے ہیں، اس لیے رینجرز کی باتوں کو محض اسٹیبلشمنٹ کی اقتدار پر قبضے کی خواہش کا نام دے کر رد نہیں کیا جا سکتا۔
سندھ میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کا واضح مطلب ہے کہ سیاسی حکومت سول انتظامیہ کو متحرک کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔سول انتظامیہ کا ڈھانچہ نئے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔ ایم این ایز اور ایم پی ایز ووٹ بینک کو بچانے کے لیے بعض اوقات ناپسندیدہ افراد کو تحفظ فراہم کرتے ہیں، سول انتظامیہ سیاسی دباؤ کے سامنے بے بس ہو جاتی ہے اور پھر سرکاری افسر حالات سے سمجھوتہ کر لیتے ہیں، یوں سول انتظامیہ کی رٹ زوال پذیر ہو جاتی ہے۔
کراچی کا بحران سول انتظامیہ کے بریک ڈاؤن کا سب سے بڑا ثبوت ہے، کراچی میں رینجرز جو کچھ کرنا چاہتے تھے، وہ تقریباً کر دیا ہے جو کام باقی ہے، وہ بھی پانچ چھ ماہ میں کر دیا جائے گا، اب اگلا مرحلہ سول انتظامیہ کے کنٹرول کا ہے، کراچی آج جن مسائل کی آگ میں جل رہا ہے، ملک کی انٹیلی جنسیا کو یہ مان لینا چاہیے کہ یہ سب کچھ محض اسٹیبلشمنٹ کا کیا دھرا نہیں ہے، اس میں پاپولر سیاسی جماعتوں کی قیادت بھی برابر کی ذمے دار ہے، جب سیاسی جماعتیں اپنے جمہوری، فلاحی اور اصلاحی کردار سے انحراف کریں گی اور اپنی پارٹیاں چلانے کے لیے کرائمز مافیاز پر انحصار کریں گی تو پھر وہ سرکاری اداروں پر کنٹرول نہیں کر پائیں گی بلکہ ان کے زوال کا سبب بنیں گی۔
کراچی میں سڑکوں، گلیوں اور گندے نالوں کی صفائی کس کی ذمے داری ہے؟ کوڑا کرکٹ اٹھانا اور اسے مناسب جگہ پر ٹھکانے لگانا کس کا فرض ہے؟ کراچی واٹر بورڈ کی کارکردگی کی جانچ پڑتال کرنا، افسروں اور اہلکاروں سے جوابدہی طلب کرنا کس کی ذمے داری ہے، روز مرہ کرائمز مثلاً ڈکیتی، راہزنی، چوری، نوسربازی اور جیب تراشی وغیرہ کی وارداتیں روکنا اور ان پر قابو پانا کس کی ذمے داری ہے، جب سول حکومت اپنے بنیادی فرائض ادا کرنے کے قابل بھی نہ ہو تو اس کی گورننس کی تعریف کون کرے گا؟ اگر سیاسی جماعتیں اپنے حامیوں اور کارکنوں کی ناجائز باتیں منوانے کے لیے سرکاری اہلکاروں کے فرائض میں مداخلت کریں گی، انھیں دھمکیاں دیں گی تو پھر آپ خود ہی اندازہ لگائیں کہ کیا ہو گا۔ کراچی آج انھی غلطیوں، کوتاہیوں اور مفاد پرستیوں کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ پاک فوج کے سربراہ اور ڈی جی رینجرز کراچی کی یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کو شکست دینے اور امن قائم کرنے کے لیے کرپشن اور دہشت گردی کا گٹھ جوڑ توڑنا ضروری ہے۔
دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان سنگین جرائم تو ہیں ہی لیکن یہ ایک کاروبار بن گیا ہے اور اس میں طالبان ہی نہیں افسر شاہی اور سیاستدان بھی ملوث ہیں۔ کراچی میں اربوں روپے جرائم کے ذریعے کمائے جا رہے ہیں، اس میں ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان وغیرہ سے حاصل ہونے والی رقم بھی شامل ہیں۔ کراچی میں طالبان، سیاسی جماعتوں کے زیر سایہ چلنے والے گینگ اور چند سرکاری افسروں کا نیکس بھی بن گیا تھا جو بلا امتیاز عقیدہ، نسل و رنگ متحد ہو کر بے گناہ انسانوں کو قتل کر رہا ہے، زمینوں پر قبضے کررہا ہے ،کاروباری افراد سے بھتہ لیا جا رہا ہے، جو نہیں مانتا، اسے اغوا کر کے تاوان لے رہا ہے، رہزنی، بینک ڈکیتیاں ہو رہی ہیں، یہ سب کچھ اسی وقت ہو سکتا ہے، جب سول انتظامیہ کا ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ جائے، جب سرکاری افسر اپنے کسی ساتھی جراتمند افسر کا عبرتناک انجام دیکھتے ہیں تو وہ بھی حالات سے سمجھوتے کر کے بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا شروع کر دیتے ہیں۔ یوں دہشت گردی، جرائم مافیا اور سرکاری افسروں اور سیاستدانوں کا مفاد ایک ہو جاتا ہے، یہیں سے کرپشن اور دہشت گردی کا گٹھ جوڑ بنتا ہے۔ یہ سب کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے۔
میرا چند روز قبل کراچی جانا ہوا ۔شہر بے مثال کی شاہراہوں پر صفائی اور ٹریفک کا نظام درہم برہم نظر آیا۔ یقیناً پولیس کلچر بھی ویسا ہی ہو گا جیسا سننے میں آتا ہے، پولیس سے شہریوں کو انصاف نہ ملنا، سرکاری دفاتر میں ان کے جائز کام بھی نہ ہونا اور اسپتالوں میں مریضوں کا برا حال، یہ سب کیا ہے۔ میں کالجوں اور اسکولوں میں تو نہیں گیا لیکن جو سنا، وہ اچھا نہیں تھا،ایک گندے نالے کے کناروں پر کوڑے کے بلند و بالا پہاڑ دیکھے تو بے اختیار منہ سے نکلا، اللہ میری ''توبہ،،۔ اب بھی اگر کوئی حکومت یا عوام کا منتخب نمایندہ ''ہتھ ہولا،، رکھنے کی بات کرے تو اس کے کانوں کے نیچے دو لگانے کی ضرورت ہے کہ نہیں۔یہ سوال میں آپ پر چھوڑتا ہوں۔ کراچی میں اہم ملاقاتیں رہیں، بہت سے نئے حقائق جاننے کا موقع ملا، کچھ بیان کر دیے ہیں، ابھی بہت سی باتیں کرنا باقی ہیں، جو اگلی نشست میں کروں گا۔
یہ طے شدہ باتیں ہیں۔ ویسے بھی مراد علی شاہ اپنے پیشرو قائم علی شاہ کی نسبت قدرے جوان آدمی ہیں، شاید اسی لیے انھوں نے رینجرز کے بارے میں آصف زرداری سے مشاورت کا عمل جلد مکمل کر لیا اور وزارت اعلیٰ کا حلف اٹھانے کے فوراً بعد توسیع کی منظوری دے دی۔ رینجرز تو کہتے ہیں کہ ہم نے پہلے اختیارات مانگے نہ اب مانگیں گے، کراچی میں اگر پولیس اور سول ادارے امن و امان قائم کرلیتے ہیں تو اس سے اچھی بات اور کیا ہو سکتی ہے۔
رینجرز کا دوسرا نقطہ یہ ہے کہ انھیں اپنا کام جاری رکھنے میں کوئی آئینی یا قانونی رکاوٹ نہیں ہے، سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے تحت وہ اپنا کام جاری رکھ سکتے ہیں، یوں دیکھا جائے تو کراچی اور سندھ میں رینجرز کے خصوصی اختیارات اور اس کے قیام کی مدت کے معاملات سندھ حکومت اور وفاق کے درمیان کوئی بڑے تنازعہ کی بات نہیں ہے، زیادہ سے زیادہ ترجیحات اور چند سیاسی مفادات کی بات ہو سکتی ہے، انھی معاملات میں ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔ اگر چند سیاسی مفادات کی قربانی دے دی جائے تو کراچی کے حالات زیادہ تیزی سے بہتر ہوں گے۔
رینجرز کہتے ہیں کہ انھیں کراچی کی طرح اندرون سندھ میں بھی خصوصی اختیارات کے تحت آپریشن کی ضرورت ہے، ملک کی انٹیلی جنس اطلاعات بھی ہیں کہ کراچی کے بعد سندھ میں کالعدم انتہا پسند تنظیموں نے خاصا نیٹ ورک بنا لیا ہے، سندھ جو صدیوں سے رواداری اور لبرل کلچر کا امین رہا ہے، اب اولیا اللہ اور صوفیا کی اس پرامن سرزمین میں انتہا پسندی کا زہر گھولا جا رہا ہے، آج بھی بہت سے لوگوں کو اس حقیقت کا پتہ نہیں ہو گا کہ اندرون سندھ میں انتہا پسندی کا زہر کس قدر گہرائی میں پھیل چکا ہے لیکن حقائق سے آنکھیں بند کر کے زیادہ دیر تک انھیں جھٹلایا نہیں جا سکتا، اندرون سندھ میں انتہا پسندی سے منسلک کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں، جرائم مافیا بھی ماضی کے مقابلے میں بہت منظم ہے، کراچی سے بھی لوگ بھاگ کر اندرون سندھ میں ٹھکانے بنا رہے ہیں، اس لیے رینجرز کی باتوں کو محض اسٹیبلشمنٹ کی اقتدار پر قبضے کی خواہش کا نام دے کر رد نہیں کیا جا سکتا۔
سندھ میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کا واضح مطلب ہے کہ سیاسی حکومت سول انتظامیہ کو متحرک کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔سول انتظامیہ کا ڈھانچہ نئے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔ ایم این ایز اور ایم پی ایز ووٹ بینک کو بچانے کے لیے بعض اوقات ناپسندیدہ افراد کو تحفظ فراہم کرتے ہیں، سول انتظامیہ سیاسی دباؤ کے سامنے بے بس ہو جاتی ہے اور پھر سرکاری افسر حالات سے سمجھوتہ کر لیتے ہیں، یوں سول انتظامیہ کی رٹ زوال پذیر ہو جاتی ہے۔
کراچی کا بحران سول انتظامیہ کے بریک ڈاؤن کا سب سے بڑا ثبوت ہے، کراچی میں رینجرز جو کچھ کرنا چاہتے تھے، وہ تقریباً کر دیا ہے جو کام باقی ہے، وہ بھی پانچ چھ ماہ میں کر دیا جائے گا، اب اگلا مرحلہ سول انتظامیہ کے کنٹرول کا ہے، کراچی آج جن مسائل کی آگ میں جل رہا ہے، ملک کی انٹیلی جنسیا کو یہ مان لینا چاہیے کہ یہ سب کچھ محض اسٹیبلشمنٹ کا کیا دھرا نہیں ہے، اس میں پاپولر سیاسی جماعتوں کی قیادت بھی برابر کی ذمے دار ہے، جب سیاسی جماعتیں اپنے جمہوری، فلاحی اور اصلاحی کردار سے انحراف کریں گی اور اپنی پارٹیاں چلانے کے لیے کرائمز مافیاز پر انحصار کریں گی تو پھر وہ سرکاری اداروں پر کنٹرول نہیں کر پائیں گی بلکہ ان کے زوال کا سبب بنیں گی۔
کراچی میں سڑکوں، گلیوں اور گندے نالوں کی صفائی کس کی ذمے داری ہے؟ کوڑا کرکٹ اٹھانا اور اسے مناسب جگہ پر ٹھکانے لگانا کس کا فرض ہے؟ کراچی واٹر بورڈ کی کارکردگی کی جانچ پڑتال کرنا، افسروں اور اہلکاروں سے جوابدہی طلب کرنا کس کی ذمے داری ہے، روز مرہ کرائمز مثلاً ڈکیتی، راہزنی، چوری، نوسربازی اور جیب تراشی وغیرہ کی وارداتیں روکنا اور ان پر قابو پانا کس کی ذمے داری ہے، جب سول حکومت اپنے بنیادی فرائض ادا کرنے کے قابل بھی نہ ہو تو اس کی گورننس کی تعریف کون کرے گا؟ اگر سیاسی جماعتیں اپنے حامیوں اور کارکنوں کی ناجائز باتیں منوانے کے لیے سرکاری اہلکاروں کے فرائض میں مداخلت کریں گی، انھیں دھمکیاں دیں گی تو پھر آپ خود ہی اندازہ لگائیں کہ کیا ہو گا۔ کراچی آج انھی غلطیوں، کوتاہیوں اور مفاد پرستیوں کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ پاک فوج کے سربراہ اور ڈی جی رینجرز کراچی کی یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کو شکست دینے اور امن قائم کرنے کے لیے کرپشن اور دہشت گردی کا گٹھ جوڑ توڑنا ضروری ہے۔
دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان سنگین جرائم تو ہیں ہی لیکن یہ ایک کاروبار بن گیا ہے اور اس میں طالبان ہی نہیں افسر شاہی اور سیاستدان بھی ملوث ہیں۔ کراچی میں اربوں روپے جرائم کے ذریعے کمائے جا رہے ہیں، اس میں ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان وغیرہ سے حاصل ہونے والی رقم بھی شامل ہیں۔ کراچی میں طالبان، سیاسی جماعتوں کے زیر سایہ چلنے والے گینگ اور چند سرکاری افسروں کا نیکس بھی بن گیا تھا جو بلا امتیاز عقیدہ، نسل و رنگ متحد ہو کر بے گناہ انسانوں کو قتل کر رہا ہے، زمینوں پر قبضے کررہا ہے ،کاروباری افراد سے بھتہ لیا جا رہا ہے، جو نہیں مانتا، اسے اغوا کر کے تاوان لے رہا ہے، رہزنی، بینک ڈکیتیاں ہو رہی ہیں، یہ سب کچھ اسی وقت ہو سکتا ہے، جب سول انتظامیہ کا ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ جائے، جب سرکاری افسر اپنے کسی ساتھی جراتمند افسر کا عبرتناک انجام دیکھتے ہیں تو وہ بھی حالات سے سمجھوتے کر کے بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا شروع کر دیتے ہیں۔ یوں دہشت گردی، جرائم مافیا اور سرکاری افسروں اور سیاستدانوں کا مفاد ایک ہو جاتا ہے، یہیں سے کرپشن اور دہشت گردی کا گٹھ جوڑ بنتا ہے۔ یہ سب کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے۔
میرا چند روز قبل کراچی جانا ہوا ۔شہر بے مثال کی شاہراہوں پر صفائی اور ٹریفک کا نظام درہم برہم نظر آیا۔ یقیناً پولیس کلچر بھی ویسا ہی ہو گا جیسا سننے میں آتا ہے، پولیس سے شہریوں کو انصاف نہ ملنا، سرکاری دفاتر میں ان کے جائز کام بھی نہ ہونا اور اسپتالوں میں مریضوں کا برا حال، یہ سب کیا ہے۔ میں کالجوں اور اسکولوں میں تو نہیں گیا لیکن جو سنا، وہ اچھا نہیں تھا،ایک گندے نالے کے کناروں پر کوڑے کے بلند و بالا پہاڑ دیکھے تو بے اختیار منہ سے نکلا، اللہ میری ''توبہ،،۔ اب بھی اگر کوئی حکومت یا عوام کا منتخب نمایندہ ''ہتھ ہولا،، رکھنے کی بات کرے تو اس کے کانوں کے نیچے دو لگانے کی ضرورت ہے کہ نہیں۔یہ سوال میں آپ پر چھوڑتا ہوں۔ کراچی میں اہم ملاقاتیں رہیں، بہت سے نئے حقائق جاننے کا موقع ملا، کچھ بیان کر دیے ہیں، ابھی بہت سی باتیں کرنا باقی ہیں، جو اگلی نشست میں کروں گا۔