اردو کے نادر و کمیاب شخصی خاکے آخری حصہ

فیض احمد فیضؔ نے پطرس بخاری کی شخصیت کا تعارف ’’کہ گوہر مقصودِ گفتگوست‘‘ کہہ کر ان کی ایک گفتگو سے کرایا ہے

فیض احمد فیضؔ نے پطرس بخاری کی شخصیت کا تعارف ''کہ گوہر مقصودِ گفتگوست'' کہہ کر ان کی ایک گفتگو سے کرایا ہے۔ بخاری صاحب فرما رہے ہیں ''دوستی تندہی اور مستعدی کا نام ہے۔ یارو محبت تو یونہی کہنے کی بات ہے۔ دیکھو تو ہر روز میں تم میں سے ہر پاجی کو ٹیلی فون کرتا ہوں۔ ہر ایک کے گھر پہنچتا ہوں، اپنے گھر لاتا ہوں، کھلاتا ہوں، پلاتا ہوں، سیر کراتا ہوں، ہنساتا ہوں، شعر سناتا ہوں، پھر رات گئے باری باری سب کو گھر پہنچتا ہوں، سب کی بیویوں کی بد دعائیں میرے حساب میں لکھی جاتی ہیں۔ آدھی تنخواہ پٹرول میں اُڑ جاتی ہے کچھ تو خدا کا خوف کرو، دوستو، کسی کم بخت کو توفیق نہیں کہ کبھی خود اٹھ کر چلا آئے''

تاثیرؔ اس کا جواب دیتے ہیں ''آہستہ سے کہتے ہیں'' ہمارے پاس موٹر جو نہیں ہے۔ پھر یہ ہوا کہ بخاری صاحب لندن اور میکسیکو روانہ ہو گئے اور یہ بساط الٹ گئی۔ ان کی محفل کا شیرازہ بکھر گیا۔

فیضؔ کہتے ہیں کہ بخاری صاحب عالم بھی تھے۔ ادیب بھی، استاد بھی، ہم جلیس بھی، بذلہ سنج بھی، آخر میں مدبر بھی لیکن ان کی زندگی کا بنیادی پہلو یہ ہے کہ ان کا کوئی لمحہ بے مقصد اور بے مصرف نہیں گزرا۔

ڈاکٹر تاثیرؔ کا ایک مختصر خاکہ نصر اﷲ خاں کا تحریر کردہ راشد اشرف کے مرتب کردہ شخصی خاکوں کی اس کتاب میں ہے۔ وہ لکھتے ہیں ''تاثیر صاحب اعلیٰ پایہ کے ادیب تھے، نقاد تھے، محقق تھے اور شاعر بھی تھے ان کی جہت مقرر نہیں تھی ان کے مزاج میں جو چلبلا پن اور شوخی تھی اس نے ان کو جم کر کسی سمت کام کرنے نہیں دیا اور اس طرح وہ بکھر کر رہ گئے۔

اس کتاب میں ایک حصہ ''عام انسانوں کے خاکے خاص لوگوں کے قلم سے کا بھی ہے۔ایک خاکہ اشفاق احمد نے اپنی والدہ کا تحریر کیا ہے لکھتے ہیں مجھے اپنی اماں کا چہرہ، ان کی باتیں اور ان کا زمانہ یاد کرنے میں بڑی دقت ہو رہی ہے وہ ہماری زندگیوں میں بہت قریب ہوتے ہوئے بھی کبھی شدت سے نظر نہیں آئیں۔ معدوم معدوم سی رہیں اور موہوم سی زندگی گزار کر ایک روز پچھلے دروازے سے نکلیں اور میانی صاحب چلی گئیں۔ وہ دبدبہ، طنطنہ اور جاہ جلال جو آٹھ بچوں کی کامیاب ماں میں ہوتا ہے کہ ان کا سایہ بھی نہیں پڑا میری ماں میں سرے سے مفقود تھا۔ میری ماں کے زمانے میں عورت محبت دینے کے میدان میں سب سے آگے ہوتی تھی اور جب انعام تقسیم ہونے کا وقت آتا تو غائب ہو جاتی''اے حمید نے ہدیہ بیچنے والے ایک کشمیری نوجوان کا خاکہ ''امر تسر کا اسدجو'' کے عنوان سے اور آغا سہیل نے لکھنو کے ''وزیر بھائی'' کا خاکہ لکھا ہے وہ وہاں کے شرفا میں سے تھے۔

فیصل آباد کے ادیب جاوید اقبال نے آفتاب احمد خان کا خاکہ لکھا ہے جو اپنے دوستوں میں رانا صاحب کہلاتے تھے یہ صاحب ماضی میں رہتے تھے، تاریخ اور فلم ان کے پسندیدہ موضوع تھے۔ آشا بھونسلے کے مداح تھے۔ سریند کور ان کی پسندیدہ سنگر تھیں۔ کہتے تھے کہ اگر تان سین رفیع کا گانا سن لیتا تو شرم کے مارے ڈوب کر مر جاتا۔ لاہور کے گلی کوچوں کا ذکر ہوتے ہی وہ بے خود ہو جاتے۔ شاید یہ شہر ان کی یادوں کا مدفن تھا۔کتاب کے آخری حصے میں فلمی دنیا سے متعلق شخصیات کے خاکے ہیں۔ احمد عقیل روبی نے علی بھائی کے عنوان سے محمد علی کا خاکہ لکھا ہے۔


وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے محمد علی کو جسے دنیا فلمی حوالے سے جانتی ہے، انسانی حوالے سے دیکھا ہے۔ لکھتے ہیں ''علی بھائی نے ایک عرصہ فلمی دنیا پر راج کیا ہے فلمی دنیا کی پگڈنڈی پر بہت احتیاط سے چلنا پڑتا ہے اس راستے پر اتنی پھسلن ہے کہ آدمی کے قدم ذرا ڈگمگائے تو دستار فضیلت پیروں پر آ گرتی ہے۔ علی بھائی اس پگڈنڈی پر بڑے اعتماد سے چلتے ہیں نہ کبھی شراب پی کر قبرستان میں پکڑے گئے نہ کسی ہیروئن کے لیے دوسرے ہیرو سے جھگڑا ہوا۔ صرف کام کیا۔ بہت ایمانداری سے کیا۔

جو خاندانی عزت لے کر فلمی دنیا میں آئے تھے وہ اب تک محفوظ ہے۔جاوید صدیقی نے مشہور فلم ڈائریکٹر سیتہ جیت رے کا جو خاکہ لکھا ہے وہ ممبئی کے رسالے ''نیا ورق'' میں شایع ہوا تھا ''کیا آدمی تھا رے'' کے عنوان سے وہ لکھتے ہیں۔ سیتہ جیت رے عالمی سینما میں بہت اونچا مقام رکھتے تھے مگر وہ خود بھی اتنے اونچے تھے کہ میں نے کبھی سوچا نہیں تھا وہ ایک شاندار شخصیت کے مالک تھے۔ لمبے تھے مگر دبلے نہیں تھے۔ سانولا رنگ، کشادہ پیشانی، سلیقے سے جمے ہوئے بال، بڑی بڑی روشن آنکھیں، اونچی ستواں ناک، مسکراتے ہوئے ہونٹ، ٹھوڑی ذرا چوڑی تھی کہا جاتا ہے ایسی ٹھوڑی والے بہت محنتی اور مستقل مزاج ہوتے ہیں'' سیتہ جیت رے ایسے ہی تھے۔ جاوید لکھتے ہیں ''میرے پاس ان کی چھوٹی بڑی یادوں کی ایک پوری کتاب ہے جس میں سیکڑوں لمحے سوکھے ہوئے پھولوں کی طرح رکھے ہوئے ہیں''

مینا کماری پر مضمون خواجہ احمد عباس کا ہے۔ اس کی فرض شناسی اور پابندیٔ اوقات کا ذکر انھوں نے خاص طور پر کیا ہے۔ خواجہ صاحب کی ایک فلم کی شوئٹنگ کا پہلا دن تھا، مینا کماری ہیروئن تھی اس روز موسلادھار بارش ہو رہی تھی میک اپ روم میں صرف ایک اسسٹنٹ تھا اس نے کہا ایسے سمے میں مینا کماری کہاں آئے گی خواجہ احمد عباسی نے کہا شوٹنگ کا پہلا دن ہے ہیروئن کا امتحان بھی ہو جائے گا۔ وہ لکھتے ہیں ''ٹھیک وقت پر موسلادھار پانی گرنے کی آواز کو چیرتا ہوا ایک موٹر کار ہارن سنائی دیا۔ وہ موٹر پانی میں تیرتی ہوئی میک اپ روم کی سیڑھیوں کے پاس آ کر رک گئی مگر یہ سیڑھیاں خود پانی میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ پھر موٹر سے پہلے ہیروئن کے دو ننگے گورے گورے نازک سے پاؤں باہر نکلے پھر دو ہاتھ چپل سنبھالے اور اس کے ساتھ سفید ساڑھی پہنے سر پر بڑا سا تولیہ اوڑھے ہیروئن باہر آئی کہنے لگی آداب عرض مجھے دیر تو نہیں ہوئی؟ یہ مینا کماری تھی۔

نخشب جارچوی کا خاکہ رفعت فروش نے لکھا ہے اور ان کی شخصیت کا تعارف یوں کرایا ہے ''ایک شاعر، ایک فلم ڈائریکٹر اور پروڈیوسر، ریس کا بہترین کھلاڑی اور رومان پرست حسیناؤں کی تمناؤں کا مرکز ایک ایسا شخص جس نے جہاں قدم رکھا اپنے نقش پا چھوڑ گیا۔ فلم ''زینت'' کی ایک قوالی ''آہیں نہ بھریں، شکوے نہ کیے'' جو اپنے وقت بڑی مشہور ہوئی، نخشب کی ہی لکھی ہوئی تھی۔ وہ بعد میں بمبئی سے کراچی آ گئے تھے اور یہیں ان کا انتقال ہوا۔

ایک اور خاکہ اس کتاب میں جدن بائی کا ہے جو شوکت ہاشمی نے لکھا ہے جدن بائی کی ایک بڑی پہچان یہ تھی کہ وہ مشہور فلم ایکٹریس نرگس کی ماں تھیں ایک مرتبہ ایک فلم کے سیٹ پر نرگس اور دلیپ کمار ایک دوسرے سے گھل مل کر باتیں کر رہے تھے۔ جدن بائی نے دیکھا تو دلیپ کمار سے بولیں ''اگر تمہیں بے بی سے انس ہے تو تم مجھ سے کہو، شریف ماں باپ کی اولاد ہو، شریف طریقہ سے اپنا لو۔ سیٹ پر لوگوں کے سامنے یوں کھسر پسر کرنے سے کیا فائدہ۔ اسے بھی بدنام کرتے ہو، خود بھی بدنام ہوتے ہو''

جدن بائی اپنے وقت کی بہترین گائیکہ تھیں اور ٹھمہری گانے میں تو ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔ لکھنو کی مشہور رقاصا گوہر جان کا خاکہ شیخ عبدالشکور کا تحریر کردہ ہے۔

شیخ صاحب لکھتے ہیں کہ رقص کی ایک محفل میں کچھ پٹھان حضرات بھی تشریف فرماتھے۔ ایک صاحب نے پشتو راگ کی فرمائش کی گوہر جان نے پشتو کا ایک راگ ایسا گایا کہ واہ واہ ہونے لگی اور جن صاحب نے راگ کی فرمائش کی وہ جوش میں آ کر کہنے لگے ''دوئی گوہر جان، قربانت شوم، نام افغاناں روشن کر دی''
Load Next Story