مجسٹریٹ قتل کیس میں گواہ پولیس اہلکار منحرف ہوگیا

تفتیشی افسر انسپکٹر محمد رفیق پیش نہ ہوا،عدالت نے گرفتاری کا حکم جاری کردیا.

روزانہ کی بنیاد پر مقدمے کی سماعت جاری، 12گواہوں کے بیانات قلمبند ہوچکے. فوٹو: فائل

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج شرقی ندیم احمد خان کی عدالت میں 7برس سے زیر التوا جوڈیشل مجسٹریٹ شائستہ حامد قتل کیس میں گواہ پولیس اہلکار عدالت میں منحرف ہوگیا ہے۔

عدالت نے تفتیشی افسر کوحکم عدولی پر گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے، ہفتے کو اس مقدمے کی سماعت کے موقع پروکیل سرکار نے استغاثہ کی جانب سے فرد گرفتاری کے گواہ سپاہی نعمان مظہر کو بیان قلمبند کرانے کیلیے عدالت میں پیش کیا تھا گواہ نے اپنے بیان میں عدالت کو بتایا کہ ملزم کو اسکے سامنے گرفتارنہیں کیا گیا فرد گرفتاری پولیس افسر نے تھانے میں بنائی تھی اور پولیس افسر کے حکم پر دستخظ کیے تھے۔




گواہ کے منحرف ہونے کے باوجود وکیل سرکار نے گواہ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی، اس ہی مقدمے میں تفتیشی افسر انسپکٹر محمد رفیق کو بھی طلب کیا گیا تھا لیکن وہ عدالت میں پیش نہیں ہوئے فاضل عدالت نے ایس ایچ او تھانہ نیو ٹائون کو تفتیشی افسر انسپکٹر محمد رفیق کو دو روز میں گرفتار کرکے عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔

استغاثہ کے مطابق ملزم جوڈیشل مجسٹریٹ کا گن مین تھا تاہم مقتولہ نے سابقہ شوہر وکیل آصف سے خلع لینے کے بعد جولائی2005 میںپولیس اہلکار ساجد خان سے شادی کرلی تھی مقتولہ کے بھائی نے ملزم پر الزام عائد کیا ہے کہ ملزم مقتولہ پر شک اور تشدد کرتا تھا 3 ستمبر 2005 کو اسکے منہ پر تکیہ رکھ کر سانس گھونٹ دی تھی بعدازاں اسے خودکشی کا رنگ دینے کی غرض سے پھنکے سے لٹکا دیا تھا پولیس نے پہلے اقدام خود کشی قرار دیا تھا۔



بعدازاں مدعی کے بیان پر ملزم کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرلیا تھا مقدمہ گزشتہ 7 برس سے التوا کا شکار تھا،چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان نے تمام زیرالتوا مقدمات کو دسمبر کے آخر تک نمٹانے کے احکامات جاری کیے ہیں جس پر فاضل عدالت روزانہ کی بنیاد پر مقدمے کی سماعت کررہی ہے، مذکورہ مقدمے میں 12گواہوں کے بیانات قلمبند ہوچکے ہیں تاہم تفتیشی افسر کا بیان باقی تھا لیکن اس نے مسلسل عدالتی حکم عدولی کرتے ہوئے عدالتی احکامات نظرانداز کردیے تھے۔
Load Next Story