کراچی میں ایڈز میں مبتلا باہمت جوڑا نارمل زندگی گزار رہا ہے
2008میں شادی ہوئی تھی، 35سالہ روبینہ اور40سالہ اقبال کی ایکسپریس سے گفتگو.
کہتے ہیں جوڑے آسمان پر بنتے ہیں،کراچی میں ایڈزکے مرض میں مبتلا ایک جوڑے نے اپنی ہمت اورحوصلے سے مرض سے لڑتے ہوئے دوسرے مریضوں میں جینے کاحوصٓلہ پیداکردیا۔
یہ حقیقی کہانی کراچی میں رہائش پذیرایچ آئی وی ایڈزسے متاثرہ جوڑے کی ہے جوگزشتہ 8سال سے ایڈزکے مرض میں مبتلا ہے لیکن اس باہمت جوڑے نے اپنے حوصلے سے نارمل زندگی گزاررہے ہیں، روبینہ کو اس کے سابق شوہر سے ایڈز کا مرض لاحق ہواتھا جبکہ اقبال بھی انجکشن کے ذریعے نشے کا عادی تھا اوروہ بھی ایڈز کاشکار ہوگیا،اس جوڑے کی شادی پاکستان سوسائٹی نے کرائی تھی، روبینہ کے پہلے شوہر سے 4بچے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق ایڈزکے عالمی دن کے موقع پر35سالہ روبینہ اور40سالہ اقبال نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے اپنی روائیداد سنائی ،روبینہ نے بتایا کہ اس کا سابقہ شوہررہیروئن کا نشہ کرتا تھا بعدازاں اس نے پننی کا نشہ شروع کردیا تھا، اس دوران اس کے نشے کا مجھے علم نہیں ہوا لیکن جب وہ انجکشن سے نشہ کرنے کا عادی بن گیا تب مجھے علم ہوا کہ میر شوہر انجکشن کے ذریعے نشہ کررہا ہے، اس دوران میرے چار بچے ہوگئے تھے، میرے شوہر کی حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی، علاج کے لیے جب اسپتال لایاگیا تو ایڈزکے مرض کا انکشاف ہوا۔
میرے سسرال والوں نے مجھے نہیں بتایا کہ میرے شوہر کوایڈز کا مرض لاحق تھا، ان کے انتقال کے بعد میری بھی حالت مسلسل خراب ہونے لگی ،ٹیسٹ سے معلوم چلا کہ مجھے بھی ایڈز ہوگیا ہے، اس دوران میرے سسرال والوں نے مجھے قبول کرنے سے انکار کردیا، اور میں خود سول اسپتال پہنچ گئی جہاں مجھے پاکستان سوسائٹی کے رضاکاروں نے ڈاکٹر سلیم اعظم کے پاس علاج کیلیے لے گئے اورمجھے پاکستان سوسائٹی نے شیلٹرہوم بھی فراہم کیا، میرا اینٹی وائرل علاج شروع کیاگیا، اس دوران اس شیلٹر ہوم میں اقبال نامی شخص بھی زیر علاج تھا جوایڈز کا مریض تھا، ہم دونوں سمیت دیگر ایڈزکے مریض اس سوسائٹی کے شیلٹر ہوم میں رہائش پذیر تھے۔
جہاں میری ملاقات اقبال سے ہوئی اور ہم دونوں نے ایک دوسرے کو اپنی کہانی سنائی، دونوں انتہائی احساس محرومی کا شکار تھے، زندگی سے مایوس تھے، زندگی بوجھ لگنے لگی تھی،مجھے میرے چاروں بچوںکی فکرکھائے جاتی تھی کہ بڑے ہوکر میرے بچے میرے بارے میں کیا سوچیں گے لیکن پاکستان سوسائٹی کے روح رواں ڈاکٹر سلیم اعظم نے ہم دونوں سمیت میرے بچوں کی کونسلنگ کرتے رہے اور زندگی میں مایوسی کی بجائے جینے کا حوصلہ امنگ پیدا کی۔
علاج شروع ہواتو طبیعت میں بہتری کے آثار رونما ہونے لگے، آہستہ آہستہ زندگی کی امنگ ہونے لگی، اس دوران میرے بچے شیلٹرہوم ملنے آتے تھے، مجھے محسوس ہوا کہ اقبال میری زندگی میں آجائے تو ہم دونوں ملکراچھی زندگی گزارسکتے ہیں، اقبال سے شادی کاخیال آتے ہی ڈاکٹر سلیم اعظم کوآگاہ کیا، انھوں نے میرے والدین اوراقبال کے اہلخانہ کے سامنے شادی کی بات کی اوراس طرح 2008میں رشتہ ازدواج سے منسلک ہوگئی،شادی کرکے ایچ آئی وی ایڈز کے مریضوں کو یہ پیغام دیا کہ وہ افراد کو اس مرض کا شکار ہیں مایوس نہ ہو، نشے کی لعنت کو ترک کرکے علاج کی جانب راغب کرنا بھی ہمارا مشن بن گیا ہے۔
یہ حقیقی کہانی کراچی میں رہائش پذیرایچ آئی وی ایڈزسے متاثرہ جوڑے کی ہے جوگزشتہ 8سال سے ایڈزکے مرض میں مبتلا ہے لیکن اس باہمت جوڑے نے اپنے حوصلے سے نارمل زندگی گزاررہے ہیں، روبینہ کو اس کے سابق شوہر سے ایڈز کا مرض لاحق ہواتھا جبکہ اقبال بھی انجکشن کے ذریعے نشے کا عادی تھا اوروہ بھی ایڈز کاشکار ہوگیا،اس جوڑے کی شادی پاکستان سوسائٹی نے کرائی تھی، روبینہ کے پہلے شوہر سے 4بچے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق ایڈزکے عالمی دن کے موقع پر35سالہ روبینہ اور40سالہ اقبال نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے اپنی روائیداد سنائی ،روبینہ نے بتایا کہ اس کا سابقہ شوہررہیروئن کا نشہ کرتا تھا بعدازاں اس نے پننی کا نشہ شروع کردیا تھا، اس دوران اس کے نشے کا مجھے علم نہیں ہوا لیکن جب وہ انجکشن سے نشہ کرنے کا عادی بن گیا تب مجھے علم ہوا کہ میر شوہر انجکشن کے ذریعے نشہ کررہا ہے، اس دوران میرے چار بچے ہوگئے تھے، میرے شوہر کی حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی، علاج کے لیے جب اسپتال لایاگیا تو ایڈزکے مرض کا انکشاف ہوا۔
میرے سسرال والوں نے مجھے نہیں بتایا کہ میرے شوہر کوایڈز کا مرض لاحق تھا، ان کے انتقال کے بعد میری بھی حالت مسلسل خراب ہونے لگی ،ٹیسٹ سے معلوم چلا کہ مجھے بھی ایڈز ہوگیا ہے، اس دوران میرے سسرال والوں نے مجھے قبول کرنے سے انکار کردیا، اور میں خود سول اسپتال پہنچ گئی جہاں مجھے پاکستان سوسائٹی کے رضاکاروں نے ڈاکٹر سلیم اعظم کے پاس علاج کیلیے لے گئے اورمجھے پاکستان سوسائٹی نے شیلٹرہوم بھی فراہم کیا، میرا اینٹی وائرل علاج شروع کیاگیا، اس دوران اس شیلٹر ہوم میں اقبال نامی شخص بھی زیر علاج تھا جوایڈز کا مریض تھا، ہم دونوں سمیت دیگر ایڈزکے مریض اس سوسائٹی کے شیلٹر ہوم میں رہائش پذیر تھے۔
جہاں میری ملاقات اقبال سے ہوئی اور ہم دونوں نے ایک دوسرے کو اپنی کہانی سنائی، دونوں انتہائی احساس محرومی کا شکار تھے، زندگی سے مایوس تھے، زندگی بوجھ لگنے لگی تھی،مجھے میرے چاروں بچوںکی فکرکھائے جاتی تھی کہ بڑے ہوکر میرے بچے میرے بارے میں کیا سوچیں گے لیکن پاکستان سوسائٹی کے روح رواں ڈاکٹر سلیم اعظم نے ہم دونوں سمیت میرے بچوں کی کونسلنگ کرتے رہے اور زندگی میں مایوسی کی بجائے جینے کا حوصلہ امنگ پیدا کی۔
علاج شروع ہواتو طبیعت میں بہتری کے آثار رونما ہونے لگے، آہستہ آہستہ زندگی کی امنگ ہونے لگی، اس دوران میرے بچے شیلٹرہوم ملنے آتے تھے، مجھے محسوس ہوا کہ اقبال میری زندگی میں آجائے تو ہم دونوں ملکراچھی زندگی گزارسکتے ہیں، اقبال سے شادی کاخیال آتے ہی ڈاکٹر سلیم اعظم کوآگاہ کیا، انھوں نے میرے والدین اوراقبال کے اہلخانہ کے سامنے شادی کی بات کی اوراس طرح 2008میں رشتہ ازدواج سے منسلک ہوگئی،شادی کرکے ایچ آئی وی ایڈز کے مریضوں کو یہ پیغام دیا کہ وہ افراد کو اس مرض کا شکار ہیں مایوس نہ ہو، نشے کی لعنت کو ترک کرکے علاج کی جانب راغب کرنا بھی ہمارا مشن بن گیا ہے۔