بات کرنے کا فن

کئی بارایسا دیکھنے میں آتا ہے کہ جو بات کسی ایک شخص سے نہ منوائی جاسکے وہی بات دوسرے شخص سے باآسانی منوائی جاسکتی ہے

ہر مخلوق کسی نہ کسی طرح آپس میں ایک دوسرے سے بات کرتی ہے مگر بولنے کی صلاحیت جو انسان کو ملی ہے وہ کسی دوسری مخلوق کے حصے میں نہیں آئی۔ فوٹو: فائل

ہر مخلوق کسی نہ کسی طرح آپس میں ایک دوسرے سے بات کرتی ہے مگر بولنے کی صلاحیت جو انسان کو ملی ہے وہ کسی دوسری مخلوق کے حصے میں نہیں آئی جبکہ انسانوں میں اس فن سے ہر ایک کو شناسائی حاصل نہیں ہے۔

کئی بار ایسا دیکھنے میں آتا ہے کہ جو بات کسی ایک شخص سے نہ منوائی جاسکے وہی بات کسی دوسرے شخص سے باآسانی منوائی جا سکتی ہے۔ اسی تناظر میں ہمارے ملک کے سیاست دان لوگوں کو منانے اور اپنی طرف راغب کرنے کے فن میں خوب مہارت رکھتے ہیں۔ پاکستان میں موجود سیاست دان اپنی فنکاری کے ذریعے لوگوں کو ایسے ایسے معاملات پر اپنی طرف راغب کرلیتے ہیں جن کا وہ خود بھی تصور نہیں کرسکتے تھے۔ اب اسے پاکستانیوں کی خوش قسمتی کہیے یا کچھ اور کہ یہ سیاست دان وقت کے ساتھ پلٹا مارنے میں ماہر تھے یا ان کے لب و لہجے میں وہ دبدبہ تھا جس کا سامنا کرنے کی کسی میں سکت نہ تھی۔

مولوی فضل حق جنہیں خطابت اور شعلہ بیانی کی وجہ سے شیر بنگال کہا جاتا تھا، وہ اپنے طریقہ خطابت کو سیاست کی جان کہا کرتے تھے اور اپنی چرب زبانی سے لوگوں کو اپنے لفظوں کے حصار میں باندھ کر ان کے جذبات کو بھانپ کر بات کیا کرتے تھے۔ مولوی فضل حق 1954ء میں مشرقی پاکستان کے وزیراعلی اور 1956ء میں گورنر رہے۔ مولوی صاحب کا تعارف کرانے کا مقصد آج کے نوجوان کو ایک ایسے شخص سے متعارف کرانا ہے جس نے بڑے بڑے بحران اپنی باتوں سے حل کئے۔ ان کے دورِ حکومت میں بنگال میں طوفان آگیا اور جب یہ طوفان بڑے پیمانے پر تباہی مچا رہا تھا اسی دوران سعودی عرب کے حکمران شاہ سعود پاکستان کے دورے پر تھے اور انہوں نے بنگال کا دورہ بھی کرنا تھا مگر بنگال کے لوگ ان کی آمد پر خوش نہیں تھے۔ وہاں کے لوگوں کا ماننا تھا کہ یہاں ہزاروں لوگ مررہے ہیں، لاکھوں بے گھر ہوچکے ہیں اور حکومت اُن کی مدد کرنے کے بجائے دوسرے ممالک کے سربراہان پر لاکھوں روپے خرچ کررہی ہے۔ اس لئے بنگال کے لوگ اس دورے کے حق میں نہیں تھے۔ مولوی فضل حق نے سعودی حکمران کا دورہ ٹالنے کی بہت کوشش کی مگر وفاقی حکومت راضی نہ ہوئی تو مولوی صاجب نے بنگال کے چیدہ چیدہ لوگوں کو بلایا اور ان سب سے دورے کے متعلق رائے لی۔ سب کی جانب سے مشترکہ 'نا' سُننے کے بعد مولوی صاحب دھاڑیں مار مار کر رونا شروع ہوگئے۔ اپنے وزیراعلی کو اس طرح روتا دیکھ کر سب ہکا بکا رہ گئے اور ان سے رونے کی وجہ پوچھی تو مولوی صاحب نے جواب دیا کہ ہم کتنے بد بخت ہیں۔ والئی کعبہ ہمارے گھر آرہے ہیں، ہمارے پیارے رسول ﷺ کا دربان خود چل کر ہمارے دروازے پر آ رہے ہیں اور ہم ان کے استقبال کے بجائے ان پر دروازے بند کر رہے ہیں۔ میں کتنا بدبخت ہوں کہ اپنے لوگوں کی وجہ سے میں ان کا استقبال بھی نہیں کرسکتا ۔اب جب بروز قیامت میں بارگاہ الہی میں حاضر ہوں گا تو اپنے رب کو کیا منہ دکھاوں گا؟ مولوی صاحب کے الفاظ میں ایسا درد تھا کہ سب لوگوں نے زار و قطار رونا شروع کردیا اور اس کے بعد انہوں نے وہاں موجود لوگوں کا ایسا ذہن بنایا کہ سب نے شاہ سعود کے دورے کی حامی بھر لی بلکہ استقبال کی تیاریاں بھی اپنے ذمے لے لی جب یہ سب لوگ چلے گئے تو آپ نے مسکرا کر اپنے سیکریٹری کی طرف دیکھا اور پوچھا، 'ہاں جی کیسا رہا'؟


بالکل اسی طرح ایک دفعہ کسی بادشاہ نے عجیب سا خواب دیکھا جس سے وہ بہت پریشان ہوا۔ اس نے اپنے وزیر کو بلوایا اور خواب کی تعبیر کیلئے کسی ماہر معبر کو بلوانے کے لئے کہا۔ ماہر کے آنے کے بعد بادشاہ نے اپنا خواب کچھ اس طرح بیان کیا کہ بادشاہ سلامت اپنے مسند پر براجمان ہے اور اسی دوران ان کے منہ سے دانت گرنا شروع ہوگئے یہاں تک کہ ان کے منہ میں ایک دانت بھی نہیں رہا۔ تمام معبرین نے بادشاہ کو ایسی تعبیر بتائی جن سے بادشاہ کی پریشانی دور ہوجائے مگر ان میں سے کسی کی تعبیر بھی بادشاہ کے دل کو نہ لگی ان میں سے ایک معبر نے کہا یہ سب آپ کو جھوٹی تسلیاں دے رہے ہیں۔ درحقیقت اس خواب کی تعبیر یہ ہے کہ آپ کے سامنے آپ کی تمام اولاد اللہ کو پیاری ہوجائے گی۔ بس یہ کہنے کی دیر تھی کہ بادشاہ کو بہت جلال آیا اور بادشاہ سلامت نے اس معبر کو قید میں ڈلوادیا۔ لیکن اب ایک معبر نے جو تعبیر بتائی اُس کو سن کر بادشاہ بہت خوش ہوا۔ معبر نے کہا کہ بادشاہ سلامت آپ بہت لمبی عمر پائیں گے یہاں تک کہ اپنے خاندان کے تمام افراد سے لمبی عمر آپ کی ہوگی اور آپ کے خاندان والے بھی یہی چاہتے ہیں کہ آپ کی عمر ان سے زیادہ ہو۔

دراصل یہی بات کرنے کا فن ہے۔ حالانکہ پہلے والے معبر نے بھی یہی تعبیر بتائی تھی مگر انداز صحیح نہیں تھا جبکہ بعد والے نے بھی یہی کہا، بس یہ بات اُس نے مثبت پہلو کو اجاگر کرتے ہوئے کہی۔ اس لئے بادشاہ نے اسے انعام اکرام سے نوازا۔ اگر ہم بات کرنے کا فن سیکھ لیں اور تھوڑی سی عقل کا استعمال کرکے صحیح الفاظ کا چنائو کریں تو کوئی بعید نہیں کہ ہم ہر جگہ کامیابی حاصل کرلیں۔

ہمارے ارد گرد ایسے بہت سے لوگ ہوتے ہیں جن کے سامنے زیادہ دیر تک ٹکا نہیں جاسکتا۔ بس ایسے لوگوں کی سخنوری کو دیکھ کر ہم جیسے لوگوں کا شوق بھی انگڑائی لیتا ہے۔ ہم جیسے لوگ شاید اچھے ماہر تحریر تو ہیں مگر اچھی گفتگو میں ہچکچاہٹ کا شکار رہتے ہیں۔ وطن عزیز میں بھی یورپ کی طرح اعتماد سازی اور گفتگو کے فن سے متعلق کام ہورہا ہے، اور ہمارے نوجوان اِس حوالے سے مہارت حاصل کریں۔ آج کل یونیورسٹیز اور کالجز میں مختلف عنوان سے ورک شاپ اور سیمینارز کروائے جاتے ہیں جو ہمارے آنے والی نسلوں کیلئے بہت معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ اِس لیے اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے بچوں کو ادب و آداب کے ساتھ ساتھ ان میں خوداعتمادی اور اپنی بات صحیح طریقے سے پیش کرنے کا سلیقہ و ڈھنگ بھی سکھائیں، اس کیلئے چاہے کتنی ہی کیوں نہ محنت کرنی پڑے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس۔
Load Next Story