زندگی کو مشکل نہ بنائیں
مغرب کےصنعتی کاروباری طبقےنےگرم ملکوں میں آبادلوگوں کی لوٹ مارکےلیےجوذرایع ایجادکررکھےہیں ان میں ایک ائرکنڈیشنربھی ہے
موسم کچھ بدلا ہے اور جسموں میں آگ لگانے والی گرمی میں قدرے افاقہ ہوا ہے، اب اگر موسم کے مطابق کچھ موسمی حکمت عملی سے کام لیں تو AC سے گلو خلاصی ہو سکتی ہے اور انسانوں کی نارمل دنیا میں واپس آ سکتے ہیں یعنی دوبارہ انسان بن سکتے ہیں۔
مغرب کے صنعتی کاروباری طبقے نے گرم ملکوں میں آباد لوگوں کی لوٹ مار کے لیے جو ذرایع ایجاد کر رکھے ہیں ان میں ایک ائر کنڈیشنر بھی ہے جس کے اثرات کا دائرہ انسانوں سے لے کر ان کے گھروں اور دکانوں مکانوں تک پھیل چکا ہے بلکہ کئی منزلہ عمارتیں بھی بنائی ہی ایسی جاتی ہیں کہ ان میں انسانی زندگی AC کے بغیر گزر ہی نہیں سکتی۔
میری طرح آپ کو بھی ایسی زندگی یاد ہو گی جب کسی نے AC کا نام تک نہیں سنا تھا اور اس مصنوعی خنک آلہ کے بغیر کاروبار حیات چل رہا تھا اور زیادہ اطمینان کے ساتھ کیونکہ اس میں تصنع کا ذرہ بھی نہیں ہوتا تھا، خس کی مصنوعی ٹٹی یا ایک بڑا سا پنکھا جس کو کھینچنے کے لیے ایک توانا انسان کی ضرورت پڑتی تھی اور ہر گاؤں میں ایسے مزدور یا کمی کمین مل جاتے تھے جو زیادہ نہیں تو دوپہر کے وقت پنکھا ہلاتے رہتے تھے اور اس کی ہلکی سی ہوا میں آپ کروٹیں بدل بدل کر گرمی گزار دیتے تھے اور سورج ڈھل جاتا تو ساتھ ہی گرمی کی واپسی شروع ہو جاتی اور اس تبدیلی پر آپ سے زیادہ پنکھا چلانے والا خوش ہوتا تھا جس کی جان کی خلاصی کا امکان پیدا ہو جاتا جب کہ آپ قدرے سکون محسوس کرتے یا سکون کا احساس پیدا کرنے کی کوشش کرتے جیسے آپ کسی پنکھے کی برکت سے گرمی کا زور توڑنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
اس طرح گرمی کا یہ مقابلہ پورے موسم میں جاری رہتا تاآنکہ گرمی ہار جاتی یعنی قدرت کی طرف سے اس کی زندگی ختم ہو جاتی اور اس کا زور توڑنے کے لیے نیا موسم آ جاتا جس کی اپنی رنگینی اور سختیاں ہیں، پھر انسان اس نئے موسم کا مقابلہ شروع کر دیتا ہے، نئے موسم کے شکوے اور بیزاریاں۔ اس طرح ایک کے بعد دوسرا موسم گزر جاتا ہے اور انسانی زندگی موسم در موسم کے چکر میں گھومتی ہوئی گزر جاتی ہے۔ وقت کی اپنی ایک رفتار ہوتی ہے جو قدرت متعین کرتی ہے اور انسان اس کی پابندی پر مجبور ہوتا ہے۔ آپ اپنی پوری زندگی کا جائزہ لیں جو ایسی ہی پابندیوں پر مجبور ہوتی ہے کیونکہ یہ انسان خود نہیں لگاتا قدرت ان کا تعین کرتی ہے اور ان کی پابندی انسان کرتا ہے یا کرنے پر مجبور ہوتا ہے پھر عرض کروں گا کہ یہی انسانی زندگی ہے۔
میں ان دنوں بوجوہ بہت مصروف ہوں اور یہ مصروفیت ذاتی نہیں تحریری ہے اور میرا ذہن ان دنوں میرا ساتھ نہیں دے رہا کہ میں اپنی تمام ضروریات پوری کر سکوں۔ میں اگرچہ خود تو خیر و عافیت سے ہوں لیکن میں جس ماحول میں اور پورے قومی ماحول میں زندگی بسر کر رہا ہوں وہ مجھے پسند نہیں ہے اور نہ ہی میں اس کو بدل سکتا ہوں اس لیے جو ہے اسی میں ہی زندگی بسر کرنی ہے اور کیے جا رہا ہوں۔
اگرچہ پیشہ تحریر کا ہے جس کے بارے میں یہ غلط فہمی عام ہے کہ لکھنے والے حالات کو بدل دیتے ہیں یا اپنی مرضی کے مطابق ڈھال دیتے ہیں، ماضی میں کچھ ایسی مثالیں مل جاتی ہیں کہ تحریروں میں اتنا اثر پیدا ہو گیا کہ ان کے مطابق انسانوں نے زندگیاں بدل دیں لیکن ایسے واقعات بہت ہی کم ہوتے ہیں اور ایسی خوش قسمت تحریریں بھی شاذونادر ہوتی ہیں جو انسانوں کی زندگیاں بدل دیتی ہیں اور انھیں کسی نئے رخ پر ڈال دیتی ہیں۔ بہرکیف ہر قسم کے پسندیدہ اور غیرپسندیدہ حالات میں گزر کرنی ہوتی ہے اور انسان حالات کا تابع فرمان ہو کر اپنے آپ کو بدل دیتا ہے ورنہ زندگی مشکل ہو جاتی ہے اور اسے اگرچہ جوں توں کر کے گزارنا ہوتا ہے مگر بہتر ہے کہ اس میں آسانیاں پیدا کی جائیں اور اسے مشکلات سے بچا کر رکھا جائے ورنہ مشکلات تو راہ دیکھتی رہتی ہیں اور ان کے قریب سے بھی گزریں تو آپ کو اچک لیتی ہیں، اس لیے عقلمندی یہی ہے کہ مشکلات کو دور رکھا جائے اور ان کے بغیر ہی زندگی بسر کی جائے۔
ایک لکھنے والا جس طرح اپنے خیالات کا غلام ہوتا ہے اس طرح وہ گردوپیش کے حالات سے بھی دور نہیں رہ سکتا اور اسے سب کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ گرم و سرد اور مناسب نا مناسب سب اس کی قسمت میں ہوتا ہے بس قدرت سے اتنی مدد مانگی جائے کہ اس مدد کو ہضم بھی کر لیا جائے اور زندگی کو آسان حالات کی غلامی میں گزارا جائے تاکہ آپ مشکلات سے بچ کر رہیں کیونکہ بعض مشکلات انسان کو لاچار کر دیتی ہیں۔ تب انسان خدا کے حضور فریاد کے سوا اور کچھ نہیں کر سکتا۔
مغرب کے صنعتی کاروباری طبقے نے گرم ملکوں میں آباد لوگوں کی لوٹ مار کے لیے جو ذرایع ایجاد کر رکھے ہیں ان میں ایک ائر کنڈیشنر بھی ہے جس کے اثرات کا دائرہ انسانوں سے لے کر ان کے گھروں اور دکانوں مکانوں تک پھیل چکا ہے بلکہ کئی منزلہ عمارتیں بھی بنائی ہی ایسی جاتی ہیں کہ ان میں انسانی زندگی AC کے بغیر گزر ہی نہیں سکتی۔
میری طرح آپ کو بھی ایسی زندگی یاد ہو گی جب کسی نے AC کا نام تک نہیں سنا تھا اور اس مصنوعی خنک آلہ کے بغیر کاروبار حیات چل رہا تھا اور زیادہ اطمینان کے ساتھ کیونکہ اس میں تصنع کا ذرہ بھی نہیں ہوتا تھا، خس کی مصنوعی ٹٹی یا ایک بڑا سا پنکھا جس کو کھینچنے کے لیے ایک توانا انسان کی ضرورت پڑتی تھی اور ہر گاؤں میں ایسے مزدور یا کمی کمین مل جاتے تھے جو زیادہ نہیں تو دوپہر کے وقت پنکھا ہلاتے رہتے تھے اور اس کی ہلکی سی ہوا میں آپ کروٹیں بدل بدل کر گرمی گزار دیتے تھے اور سورج ڈھل جاتا تو ساتھ ہی گرمی کی واپسی شروع ہو جاتی اور اس تبدیلی پر آپ سے زیادہ پنکھا چلانے والا خوش ہوتا تھا جس کی جان کی خلاصی کا امکان پیدا ہو جاتا جب کہ آپ قدرے سکون محسوس کرتے یا سکون کا احساس پیدا کرنے کی کوشش کرتے جیسے آپ کسی پنکھے کی برکت سے گرمی کا زور توڑنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
اس طرح گرمی کا یہ مقابلہ پورے موسم میں جاری رہتا تاآنکہ گرمی ہار جاتی یعنی قدرت کی طرف سے اس کی زندگی ختم ہو جاتی اور اس کا زور توڑنے کے لیے نیا موسم آ جاتا جس کی اپنی رنگینی اور سختیاں ہیں، پھر انسان اس نئے موسم کا مقابلہ شروع کر دیتا ہے، نئے موسم کے شکوے اور بیزاریاں۔ اس طرح ایک کے بعد دوسرا موسم گزر جاتا ہے اور انسانی زندگی موسم در موسم کے چکر میں گھومتی ہوئی گزر جاتی ہے۔ وقت کی اپنی ایک رفتار ہوتی ہے جو قدرت متعین کرتی ہے اور انسان اس کی پابندی پر مجبور ہوتا ہے۔ آپ اپنی پوری زندگی کا جائزہ لیں جو ایسی ہی پابندیوں پر مجبور ہوتی ہے کیونکہ یہ انسان خود نہیں لگاتا قدرت ان کا تعین کرتی ہے اور ان کی پابندی انسان کرتا ہے یا کرنے پر مجبور ہوتا ہے پھر عرض کروں گا کہ یہی انسانی زندگی ہے۔
میں ان دنوں بوجوہ بہت مصروف ہوں اور یہ مصروفیت ذاتی نہیں تحریری ہے اور میرا ذہن ان دنوں میرا ساتھ نہیں دے رہا کہ میں اپنی تمام ضروریات پوری کر سکوں۔ میں اگرچہ خود تو خیر و عافیت سے ہوں لیکن میں جس ماحول میں اور پورے قومی ماحول میں زندگی بسر کر رہا ہوں وہ مجھے پسند نہیں ہے اور نہ ہی میں اس کو بدل سکتا ہوں اس لیے جو ہے اسی میں ہی زندگی بسر کرنی ہے اور کیے جا رہا ہوں۔
اگرچہ پیشہ تحریر کا ہے جس کے بارے میں یہ غلط فہمی عام ہے کہ لکھنے والے حالات کو بدل دیتے ہیں یا اپنی مرضی کے مطابق ڈھال دیتے ہیں، ماضی میں کچھ ایسی مثالیں مل جاتی ہیں کہ تحریروں میں اتنا اثر پیدا ہو گیا کہ ان کے مطابق انسانوں نے زندگیاں بدل دیں لیکن ایسے واقعات بہت ہی کم ہوتے ہیں اور ایسی خوش قسمت تحریریں بھی شاذونادر ہوتی ہیں جو انسانوں کی زندگیاں بدل دیتی ہیں اور انھیں کسی نئے رخ پر ڈال دیتی ہیں۔ بہرکیف ہر قسم کے پسندیدہ اور غیرپسندیدہ حالات میں گزر کرنی ہوتی ہے اور انسان حالات کا تابع فرمان ہو کر اپنے آپ کو بدل دیتا ہے ورنہ زندگی مشکل ہو جاتی ہے اور اسے اگرچہ جوں توں کر کے گزارنا ہوتا ہے مگر بہتر ہے کہ اس میں آسانیاں پیدا کی جائیں اور اسے مشکلات سے بچا کر رکھا جائے ورنہ مشکلات تو راہ دیکھتی رہتی ہیں اور ان کے قریب سے بھی گزریں تو آپ کو اچک لیتی ہیں، اس لیے عقلمندی یہی ہے کہ مشکلات کو دور رکھا جائے اور ان کے بغیر ہی زندگی بسر کی جائے۔
ایک لکھنے والا جس طرح اپنے خیالات کا غلام ہوتا ہے اس طرح وہ گردوپیش کے حالات سے بھی دور نہیں رہ سکتا اور اسے سب کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ گرم و سرد اور مناسب نا مناسب سب اس کی قسمت میں ہوتا ہے بس قدرت سے اتنی مدد مانگی جائے کہ اس مدد کو ہضم بھی کر لیا جائے اور زندگی کو آسان حالات کی غلامی میں گزارا جائے تاکہ آپ مشکلات سے بچ کر رہیں کیونکہ بعض مشکلات انسان کو لاچار کر دیتی ہیں۔ تب انسان خدا کے حضور فریاد کے سوا اور کچھ نہیں کر سکتا۔