نظام کی بہتری کیلئے جانثاروں کی نہیں عقل و دانش کی ضرورت ہے چیف جسٹس
،ایک عدالتی قتل جعلی پولیس مقابلے سے زیادہ گھناؤناجرم ہے، جسٹس آصف سعید
نظام کی بہتری کے لیے چیف کو جاں نثاروں کی نہیں بلکہ عقل و دانش کی ضرورت ہے ۔
یہ بات چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے مرحوم جسٹس صبیح الدین احمد کے تحریر کردہ مضامین پر مشتمل کتاب 'بدلتی دنیا میں قانون کا کردار'کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے کہی ۔
آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے تحت تقریب سے سپریم کورٹ کے جسٹس تصدق حسین ، جسٹس آصف سعید کھوسہ ، چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس مشیرعالم اورامینہ سید نے بھی خطاب کیا، تقریب میں چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم ، ڈاکٹر ادیب رضوی اورسول سوسائٹی کی اہم شخصیات نے شرکت کی۔
جسٹس افتخار محمد چوہدری نے جسٹس صبیح الدین مرحوم کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ بے شک عدلیہ کا جزو ہونا نہایت عزت اور احترام کی بات ہے لیکن اس کے ساتھ ہی منصف پر مقدمات کا شفاف اورمنصفانہ تصفیہ کرنے کی بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے ۔ جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہا کہ جب قانون اور انصاف کے درمیان خلا ہوتو اسے جج کی بصیرت پر کرتی ہے ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ججوں کے فیصلے میں ان کی خواہشات کاکوئی دخل نہیں ہونا چاہیے ۔
انھوں نے کہا کہ ایک عدالتی قتل جعلی پولیس مقابلے میں کیے گئے قتل سے زیادہ گھناؤنا اور سنگین جرم ہے ۔ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس مشیر عالم نے کہاکہ 2008 میںججوں کی بحالی کے موقع پر حکمرانوں نے ججوں کے درمیان ہم آہنگی کو متاثر کرنے کے لیے میڈیا میں مہم چلائی اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی ،جس کے مطابق جسٹس انورظہیر جمالی کوسندھ ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنانے پر جسٹس صبیح الدین نے استعفیٰ دینے کی کوشش کی تھی ۔
جسٹس مشیرعالم نے کہا کہ یہ تاثر غلط تھا اور ججوں کے حلف اٹھانے کے متعلق تمام حکمت عملی اتفاق رائے سے اختیارکی گئی تھی ۔ دریں اثناچیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے ہفتے کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری کی عمارت میں نثار احمد درانی ایڈووکیٹ کی سربراہی میں حیدرآباد بار ایسوسی ایشن اور دادو بار ایسوسی ایشن کے صدر علی انور سحر کی قیادت میں وفود نے بھی ملاقات کی۔ وکلاء نے کہا کہ چیف جسٹس پاکستانعوام کے لیے امید کی واحد کرن ہیں ۔
انھوں نے اپنی پیشہ ورانہ لگن اور قائدانہ صلاحیتوں اور آئین کی بالادستی کے لیے پوری قوم میں امنگ پیدا کردی ہے ، ان کی متحرک شخصیت کی وجہ سے لوگ متاثر ہو کر تحریک میں جوق در جوق شامل ہوتے رہے۔ بار کے رہنماؤں نے فاضل چیف جسٹس کو اپنی بار میں آمد کی دعوت بھی دی جو فاضل چیف جسٹس نے منظور کرلی اور یقین دھانی کرائی کہ وہ مناسب وقت پر دورہ کریں گے۔
یہ بات چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے مرحوم جسٹس صبیح الدین احمد کے تحریر کردہ مضامین پر مشتمل کتاب 'بدلتی دنیا میں قانون کا کردار'کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے کہی ۔
آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے تحت تقریب سے سپریم کورٹ کے جسٹس تصدق حسین ، جسٹس آصف سعید کھوسہ ، چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس مشیرعالم اورامینہ سید نے بھی خطاب کیا، تقریب میں چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم ، ڈاکٹر ادیب رضوی اورسول سوسائٹی کی اہم شخصیات نے شرکت کی۔
جسٹس افتخار محمد چوہدری نے جسٹس صبیح الدین مرحوم کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ بے شک عدلیہ کا جزو ہونا نہایت عزت اور احترام کی بات ہے لیکن اس کے ساتھ ہی منصف پر مقدمات کا شفاف اورمنصفانہ تصفیہ کرنے کی بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے ۔ جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہا کہ جب قانون اور انصاف کے درمیان خلا ہوتو اسے جج کی بصیرت پر کرتی ہے ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ججوں کے فیصلے میں ان کی خواہشات کاکوئی دخل نہیں ہونا چاہیے ۔
انھوں نے کہا کہ ایک عدالتی قتل جعلی پولیس مقابلے میں کیے گئے قتل سے زیادہ گھناؤنا اور سنگین جرم ہے ۔ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس مشیر عالم نے کہاکہ 2008 میںججوں کی بحالی کے موقع پر حکمرانوں نے ججوں کے درمیان ہم آہنگی کو متاثر کرنے کے لیے میڈیا میں مہم چلائی اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی ،جس کے مطابق جسٹس انورظہیر جمالی کوسندھ ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنانے پر جسٹس صبیح الدین نے استعفیٰ دینے کی کوشش کی تھی ۔
جسٹس مشیرعالم نے کہا کہ یہ تاثر غلط تھا اور ججوں کے حلف اٹھانے کے متعلق تمام حکمت عملی اتفاق رائے سے اختیارکی گئی تھی ۔ دریں اثناچیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے ہفتے کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری کی عمارت میں نثار احمد درانی ایڈووکیٹ کی سربراہی میں حیدرآباد بار ایسوسی ایشن اور دادو بار ایسوسی ایشن کے صدر علی انور سحر کی قیادت میں وفود نے بھی ملاقات کی۔ وکلاء نے کہا کہ چیف جسٹس پاکستانعوام کے لیے امید کی واحد کرن ہیں ۔
انھوں نے اپنی پیشہ ورانہ لگن اور قائدانہ صلاحیتوں اور آئین کی بالادستی کے لیے پوری قوم میں امنگ پیدا کردی ہے ، ان کی متحرک شخصیت کی وجہ سے لوگ متاثر ہو کر تحریک میں جوق در جوق شامل ہوتے رہے۔ بار کے رہنماؤں نے فاضل چیف جسٹس کو اپنی بار میں آمد کی دعوت بھی دی جو فاضل چیف جسٹس نے منظور کرلی اور یقین دھانی کرائی کہ وہ مناسب وقت پر دورہ کریں گے۔