حقوق و تربیت اولاد کے اسلامی احکامات
اولاد کی تربیت میں ایک اَہم بات یہ ہے کہ ان کی تربیت شروع سے ایسی ہو کہ وہ شرم و حیا پر بڑے ہوں
اِسلام دِینِ فطرت ہے، اس کی تعلیمات بھی فطرت کے مطابق ہیں، نسل اِنسانی کی بقا کے لیے اﷲ تعالیٰ نے نکاح کا حکم فرمایا ہے اور اس کے ذریعے وجود میں آنے وَالی اولاد کی تعلیم و تربیت کی ذِمّے دَارِی وَالدین پر ڈَالی، تاکہ یہ بچے مستقبل میں اَچھے شہری بنیں، ایسے اَچھے شہری ہوں کہ جن کے دِل میں خدا کا خوف، اُس کی اِطاعت کا جذبہ ہو، نیک اَعمال سے محبت اور برائیوں سے نفرت ہو، اﷲ کے بندوں کے ساتھ خیر خواہی اور خدمت کا جذبہ ہو، حتیٰ کہ وہ جانوروں کے ساتھ بھی رحم و شفقت کا برتاؤ کریں۔
اِس مقصد کے لیے اِسلام نے وَالدین کے ذِمّے اولاد کے کچھ حقوق رَکھے اور اُنہیں اُن حقوق کے اَدا کرنے کی تاکید کی ہے۔
اولاد کا پہلا حق یہ ہے کہ اُن کے لیے نیک اور صالح ماں کا اِنتخاب کیا جائے، اس کے لیے اِسلام نے دِین اور اخلاق کو معیار قرار دِیا ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وَسلم کا اِرشاد ہے ''عورت سے شادی اور نکاح چار چیزوں کی وَجہ سے کیا جاتا ہے، اُس کے مال دَار ہونے، اُس کے حسن و جمال، اُس کے حسب و نسب اور دِین دَار ہونے کی وَجہ سے۔ اے مخاطب! تو اُن میں سے دِین دَارِی کو اِختیار کرکے کام یابی حاصل کر۔'' (صحیح مسلم)
اس حدیث میں جو اوصاف بیان کیے گئے ہیں، اَگر یہ سب جمع ہوجائیں تو بہت اَچھا ہے، لیکن اَگر یہ اوصاف دِین دَارِی کے بالمقابل آجائیں تو دِین کو ترجیح دِی جائے، یعنی ایک طرف صرف مال ہے، دُوسری طرف دِین ہے۔ ایک طرف صرف جمال ہے دُوسری طرف دِین ہے۔ ایک طرف صرف حسب و نسب ہے دُوسری طرف دِین ہے تو دِین کو ترجیح دِی جائے۔
اِسی طرح لڑکی کا رِشتہ کرتے وَقت لڑکی اور اُس کے اَولیاء کو لڑکے کے اِنتخاب میں دِین و اخلاق کو ترجیح دینا اَزحد ضرورِی ہے، کیوں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وَسلم نے لڑکی وَالوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ''جب تم میں سے کوئی ایسا شخص رِشتہ مانگے جس کی دِین دَارِی اور اخلاق تمہیں پسند ہیں تو اُسے رِشتہ دے دو، اَگر تم ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد پھیل جائے گا۔''
٭ اولاد کا ایک حق یہ بھی ہے کہ جب وہ پیدا ہو تو اُس کے کان میں آذان دِی جائے تاکہ اس دُنیا میں آتے ہی اُس کے کان میں توحید کی آوَاز پہنچے۔
٭ کسی نیک اور بزرگ مسلمان سے اُسے گھٹی دِلائی جائے۔
٭ اس کا اَچھا سا نام رَکھا جائے۔ نام کے بارے میں بھی اِسلام نے ہمارِی رَاہ نمائی کی ہے۔ اِسلام میں پسندیدہ نام وہ ہے جس میں عبدیت کا ذِکر ہو یا اَنبیاء کرام علیہم السلام یا اُمت کے صالحین کے ناموں میں سے ہو اور غیر عرب کو اِس بات کا بھی خیال رَکھنا چاہیے کہ نام ایسا ہو جس کے تلفظ میں غلطی نہ ہو اور معنی بھی صحیح ہوں۔
٭ اس کا سر منڈا کر بالوں کے برابر چاندی یا اُس کی قیمت صدقہ کی جائے۔
٭ ساتویں روز اس کا عقیقہ کیا جائے، اَگر اِستطاعت ہو تو لڑکے کی طرف سے دو بکرے یا دو دُنبے اور لڑکی کی طرف سے ایک بکرا یا دُنبہ۔
٭ بچے کا ایک حق یہ بھی ہے کہ دو سال تک اس کی ماں اُس کو دودھ پلائے۔
٭ جب بچہ بڑا اور سمجھ دَار ہوجائے تو اُس کا ایک حق یہ ہے کہ اس کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا جائے اور چھوٹے بچے کی تعلیم عمر کے اِعتبار سے مختلف ہوگی: مثلاً کھانے پینے کے آدَاب، ہاتھ دھونا، بسم اﷲ سے شروع کرنا، دَاہنے ہاتھ سے کھانا، اَپنے سامنے سے کھانا، بڑوں کو سلام کرنا وَغیرہ۔ جب بچہ سمجھ دار ہوجائے تو اُسے اِیمانیات کی تعلیم دِی جائے۔ اِسی طرح حضرات انبیاء کرام علیہم السلام خصوصاً حضرت خاتم الانبیاء صلی اﷲ علیہ وَسلم کی ختم نبوت، آسمانی کتابوں کی تفصیلات اور اُن کے مرتبے و مقام اور آخرت کے عقیدے کی اَہمیت وَغیرہ کے بارے میں بتایا جائے۔
قرآنِ کریم نے سورۃ لقمان میں اِیمانی تربیت کا ایک نمونہ پیش کیا ہے کہ حضرت لقمان حکیم کس طرح اَپنے بیٹے کو توحید کی تعلیم دیتے ہیں۔
اِرشادِ اِلٰہی ہے '' اور جب کہا لقمان نے اَپنے بیٹے کو جب وہ اُس کو سمجھانے لگے، اے بیٹے! شریک نہ ٹھہراؤ اﷲ کا بے شک شریک ٹھہرانا بھارِی بے اِنصافی ہے۔''
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وَسلم نے اَپنے چچازاد بھائی عبد اﷲ بن عباسؓ کی اِیمانی تربیت کرتے ہوئے فرمایا، اے لڑکے! میں تمہیں چند باتیں سکھاتا ہوں تم اﷲ کے اَحکامات کی حفاظت کرو، اﷲ تمہارِی حفاظت کرے گا، تم اﷲ کے اَحکام کی پابندی کرو اُسے ہر وَقت اَپنے سامنے پاؤ گے، جب مانگو اﷲ سے مانگو جب مدد طلب کرو تو اﷲ سے مدد طلب کرو۔
غرض یہ کہ اَپنی اولاد کی اِیمانی اور اخلاقی تربیت جارِی رَکھی جائے۔ اولاد کی تربیت میں ایک اَہم بات یہ ہے کہ ان کی تربیت شروع سے ایسی ہو کہ وہ شرم و حیا پر بڑے ہوں، پاک دَامنی اُن کی اَعلیٰ صفت ہو، اس کے لیے اِسلام نے تربیت کا طریقہ یہ بتایا ہے کہ جب بچہ دس سال کا ہوجائے تو اُس کا بستر اَلگ کردِیا جائے یعنی وہ کسی دُوسرے کے ساتھ ایک بستر پر نہ سوئے۔ اُسے برے دوستوں سے بچایا جائے تاکہ وہ اَچھے دوستوں کے ساتھ کھیلے اور دوستی رَکھے۔ اُسے ایسے اسکول میں دَاخل کیا جائے، جہاں اسلامی اقدار پر عمل ہوتا ہو۔ اُن کو مخلوط مجالس سے دُور رَکھا جائے، فحش قسم کے لٹریچر اور فلموں سے بچایا جائے۔ اُن کو اِس بات کا عادِی بنایا جائے کہ وہ اَچھے لوگوں سے ملتے رہیں اور نیک لوگوں کی مجلس میں حاضر ہوتے رہیں۔
اﷲ تعالیٰ ہر مسلمان کو دِین کی سمجھ عطا فرمائے، اُس پر عمل کرنے اور اَپنی اولاد کی صحیح اِسلامی تعلیم و تربیت کی توفیق نصیب فرمائے (آمین)
اِس مقصد کے لیے اِسلام نے وَالدین کے ذِمّے اولاد کے کچھ حقوق رَکھے اور اُنہیں اُن حقوق کے اَدا کرنے کی تاکید کی ہے۔
اولاد کا پہلا حق یہ ہے کہ اُن کے لیے نیک اور صالح ماں کا اِنتخاب کیا جائے، اس کے لیے اِسلام نے دِین اور اخلاق کو معیار قرار دِیا ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وَسلم کا اِرشاد ہے ''عورت سے شادی اور نکاح چار چیزوں کی وَجہ سے کیا جاتا ہے، اُس کے مال دَار ہونے، اُس کے حسن و جمال، اُس کے حسب و نسب اور دِین دَار ہونے کی وَجہ سے۔ اے مخاطب! تو اُن میں سے دِین دَارِی کو اِختیار کرکے کام یابی حاصل کر۔'' (صحیح مسلم)
اس حدیث میں جو اوصاف بیان کیے گئے ہیں، اَگر یہ سب جمع ہوجائیں تو بہت اَچھا ہے، لیکن اَگر یہ اوصاف دِین دَارِی کے بالمقابل آجائیں تو دِین کو ترجیح دِی جائے، یعنی ایک طرف صرف مال ہے، دُوسری طرف دِین ہے۔ ایک طرف صرف جمال ہے دُوسری طرف دِین ہے۔ ایک طرف صرف حسب و نسب ہے دُوسری طرف دِین ہے تو دِین کو ترجیح دِی جائے۔
اِسی طرح لڑکی کا رِشتہ کرتے وَقت لڑکی اور اُس کے اَولیاء کو لڑکے کے اِنتخاب میں دِین و اخلاق کو ترجیح دینا اَزحد ضرورِی ہے، کیوں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وَسلم نے لڑکی وَالوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ''جب تم میں سے کوئی ایسا شخص رِشتہ مانگے جس کی دِین دَارِی اور اخلاق تمہیں پسند ہیں تو اُسے رِشتہ دے دو، اَگر تم ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد پھیل جائے گا۔''
٭ اولاد کا ایک حق یہ بھی ہے کہ جب وہ پیدا ہو تو اُس کے کان میں آذان دِی جائے تاکہ اس دُنیا میں آتے ہی اُس کے کان میں توحید کی آوَاز پہنچے۔
٭ کسی نیک اور بزرگ مسلمان سے اُسے گھٹی دِلائی جائے۔
٭ اس کا اَچھا سا نام رَکھا جائے۔ نام کے بارے میں بھی اِسلام نے ہمارِی رَاہ نمائی کی ہے۔ اِسلام میں پسندیدہ نام وہ ہے جس میں عبدیت کا ذِکر ہو یا اَنبیاء کرام علیہم السلام یا اُمت کے صالحین کے ناموں میں سے ہو اور غیر عرب کو اِس بات کا بھی خیال رَکھنا چاہیے کہ نام ایسا ہو جس کے تلفظ میں غلطی نہ ہو اور معنی بھی صحیح ہوں۔
٭ اس کا سر منڈا کر بالوں کے برابر چاندی یا اُس کی قیمت صدقہ کی جائے۔
٭ ساتویں روز اس کا عقیقہ کیا جائے، اَگر اِستطاعت ہو تو لڑکے کی طرف سے دو بکرے یا دو دُنبے اور لڑکی کی طرف سے ایک بکرا یا دُنبہ۔
٭ بچے کا ایک حق یہ بھی ہے کہ دو سال تک اس کی ماں اُس کو دودھ پلائے۔
٭ جب بچہ بڑا اور سمجھ دَار ہوجائے تو اُس کا ایک حق یہ ہے کہ اس کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا جائے اور چھوٹے بچے کی تعلیم عمر کے اِعتبار سے مختلف ہوگی: مثلاً کھانے پینے کے آدَاب، ہاتھ دھونا، بسم اﷲ سے شروع کرنا، دَاہنے ہاتھ سے کھانا، اَپنے سامنے سے کھانا، بڑوں کو سلام کرنا وَغیرہ۔ جب بچہ سمجھ دار ہوجائے تو اُسے اِیمانیات کی تعلیم دِی جائے۔ اِسی طرح حضرات انبیاء کرام علیہم السلام خصوصاً حضرت خاتم الانبیاء صلی اﷲ علیہ وَسلم کی ختم نبوت، آسمانی کتابوں کی تفصیلات اور اُن کے مرتبے و مقام اور آخرت کے عقیدے کی اَہمیت وَغیرہ کے بارے میں بتایا جائے۔
قرآنِ کریم نے سورۃ لقمان میں اِیمانی تربیت کا ایک نمونہ پیش کیا ہے کہ حضرت لقمان حکیم کس طرح اَپنے بیٹے کو توحید کی تعلیم دیتے ہیں۔
اِرشادِ اِلٰہی ہے '' اور جب کہا لقمان نے اَپنے بیٹے کو جب وہ اُس کو سمجھانے لگے، اے بیٹے! شریک نہ ٹھہراؤ اﷲ کا بے شک شریک ٹھہرانا بھارِی بے اِنصافی ہے۔''
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وَسلم نے اَپنے چچازاد بھائی عبد اﷲ بن عباسؓ کی اِیمانی تربیت کرتے ہوئے فرمایا، اے لڑکے! میں تمہیں چند باتیں سکھاتا ہوں تم اﷲ کے اَحکامات کی حفاظت کرو، اﷲ تمہارِی حفاظت کرے گا، تم اﷲ کے اَحکام کی پابندی کرو اُسے ہر وَقت اَپنے سامنے پاؤ گے، جب مانگو اﷲ سے مانگو جب مدد طلب کرو تو اﷲ سے مدد طلب کرو۔
غرض یہ کہ اَپنی اولاد کی اِیمانی اور اخلاقی تربیت جارِی رَکھی جائے۔ اولاد کی تربیت میں ایک اَہم بات یہ ہے کہ ان کی تربیت شروع سے ایسی ہو کہ وہ شرم و حیا پر بڑے ہوں، پاک دَامنی اُن کی اَعلیٰ صفت ہو، اس کے لیے اِسلام نے تربیت کا طریقہ یہ بتایا ہے کہ جب بچہ دس سال کا ہوجائے تو اُس کا بستر اَلگ کردِیا جائے یعنی وہ کسی دُوسرے کے ساتھ ایک بستر پر نہ سوئے۔ اُسے برے دوستوں سے بچایا جائے تاکہ وہ اَچھے دوستوں کے ساتھ کھیلے اور دوستی رَکھے۔ اُسے ایسے اسکول میں دَاخل کیا جائے، جہاں اسلامی اقدار پر عمل ہوتا ہو۔ اُن کو مخلوط مجالس سے دُور رَکھا جائے، فحش قسم کے لٹریچر اور فلموں سے بچایا جائے۔ اُن کو اِس بات کا عادِی بنایا جائے کہ وہ اَچھے لوگوں سے ملتے رہیں اور نیک لوگوں کی مجلس میں حاضر ہوتے رہیں۔
اﷲ تعالیٰ ہر مسلمان کو دِین کی سمجھ عطا فرمائے، اُس پر عمل کرنے اور اَپنی اولاد کی صحیح اِسلامی تعلیم و تربیت کی توفیق نصیب فرمائے (آمین)