جمہوریت اور ذات پات کی تقسیم

پھر ایک اور ’’دلت‘‘ فیملی کو بیف کھانے کے شبے میں مار مار کر ہلاک کر دیا گیا۔

پھر ایک اور ''دلت'' فیملی کو بیف کھانے کے شبے میں مار مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ لیبارٹری میں کرائے جانے والے ٹیسٹ سے ثابت ہوا کہ یہ گائے کا نہیں کسی اور مویشی کا گوشت ہے۔ کچھ عرصہ پہلے دہلی میں کیرالہ ہاؤس پر گائے کے پجاریوں نے حملہ کیا کیونکہ وہاں کھانے میں بیف دیا گیا تھا لیکن سب سے زیادہ شرمناک پہلو یہ ہے کہ ان غیر انسانی حرکات پر اونچی ذاتوں کے ہندوؤں کی طرف سے کسی ندامت کا اظہار نہیں کیا گیا اور نہ ہی آر ایس ایس کے لیڈروں نے اپنی زبان کھولی ہے جو نچلے طبقوں کی بھلائی کے لیے کام کرنے کے دعویدار ہیں انھوں نے بھی اس واقعہ کی نہ مذمت کی ہے اور نہ افسوس کا اظہار کیا ہے۔ ویسے تو تمام مذاہب میں سماجی اقتصادی اور سیاسی امتیاز کے آثار نظر آتے ہیں لیکن یہاں جو کام ہو رہا ہے اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ ہندوؤں کی سوچ کا معاملہ ہے۔

صدیوں سے یہ کام بغیر کسی چیلنج کے ہوتا رہا ہے۔ بھارت میں اب بھی کئی مقامات ایسے ہیں جہاں دلت لوگ سڑک استعمال نہیں کر سکتے اور نہ ہی اس کنوئیں سے جس سے اونچی ذات والے لوگ پانی پیتے ہیں پانی پی سکتے ہیں۔ سب سے بری بات یہ ہے کہ وہ اپنے جنازوں کے لیے بھی وہ جگہ استعمال نہیں کر سکتے جو بڑی ذات والے لوگوں کے زیر استعمال ہو۔

اسلام مساوات کا درس دیتا ہے لیکن بھارت میں مسلمانوں کے قبرستان بھی ہندوؤں سے متاثر محسوس ہوتے ہیں۔ ویسے تو مسلمانوں میں بھی ایک مختلف قسم کی ذات پات کا نظام موجود ہے مثال کے طور پر مسلمانوں میں ایک ذات کو معاشرے میں وہی درجہ حاصل ہے جو ہندوؤں میں برہمنوں کو ہے۔ شادی بیاہ اور موت کے سلسلے میں وہ ایسا ہی امتیازی سلوک کرتے ہیں جیسا ہندوؤں میں نظر آتا ہے اور ان کی میتیں عام قبرستانوں میں دفن نہیں ہوتیں۔

اس حوالے سے دیکھا جائے تو ایک عام مسلمان کو دوطرفہ جبر کا سامنا کرنا پڑتا ہے ایک اس کی غربت اور دوسرا یہ کہ اسے اعلیٰ درجے کے مسلمانوں میں جگہ نہیں دی جاتی۔ غریب مسلمانوں کو بھی اپنے ہم مذہبوں کے تعصب کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ بھارت کے آئین میں کسی قسم کے امتیاز کی کوئی گنجائش نہیں لیکن اس کے باوجود عملی طور پر ہمیں ہر جگہ امتیازی سلوک نظرآتا ہے حتیٰ کہ پولیس بھی اس تعصب سے بچ نہیں سکی۔ وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت قائم ہونے کے بعد اس قسم کے تعصبات اور امتیازی سلوک اور زیادہ نمایاں ہو گئے ہیں۔ یونیورسٹیوں اور دیگر اداروں میں اعلیٰ مناصب پر صرف اونچی ذات والوں کو تعینات کیا جاتا ہے۔ بالخصوص کلیدی پوسٹوں پر اور یوں ملک بہترین ذہنی صلاحیتوں والے لوگوں سے محروم رہ جاتا ہے۔ آر ایس ایس خاص طور پر اس بات کا اہتمام کرتی ہے کہ اس کے ''ہندوتوا'' کے نظریے کو زیادہ سے زیادہ فروغ حاصل ہو۔

اس بات کو زیادہ وقت نہیں گزرا کہ پونا کے فلم انسٹیٹوٹ نے کئی مہینے کی ہڑتال کر دی کیونکہ اس کے سربراہ کو ہٹا کر ایک ایسے ٹی وی آرٹسٹ کو اس کی جگہ مقرر کر دیا گیا تھا جس کو آر ایس ایس کی حمایت حاصل تھی تاہم حکومت نے اپنا فیصلہ تبدیل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور بالآخر انسٹیٹوٹ کے طلباء کو ہار ماننی پڑی کیونکہ یہ ان کے کیرئیر کا سوال تھا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے اندر جھانک کر دیکھیں۔ اونچی ذات والوں نے دلتوں کو آج تک قبول نہیں کیا اور نہ ہی دیگر چھوٹی ذاتوں کو کوئی مقام دیا ہے۔ اس حوالے سے گجرات' اترپردیش اور دیگر ریاستوں میں لاتعداد احتجاجی مظاہرے ہو چکے ہیں لیکن اونچی ذات والوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حکومت نے چھوٹی ذاتوں کے لیے کئی معاملات میں کوٹہ مخصوص کر رکھا ہے حالانکہ آئین ساز اسمبلی نے 1950ء میں کوٹہ مخصوص کرنے کی اجازت اس شرط پر دی تھی کہ 10 سال میں قانون سب کے لیے مساوی بنا دیا جائے گا۔


مجھے یاد ہے کہ جب آئین ساز اسمبلی میں اس معاملے پر بحثیں ہوتی تھیں تو ایک ممتاز دلت لیڈر ڈاکٹر بی آر امبیدکر نے اعلان کر دیا تھا کہ انھیں کسی قسم کی مخصوص نشستوں کی ضرورت نہیں تاہم ان پر زور دیا گیا کہ یہ کوٹہ سسٹم 10 سال سے زیادہ نہیں چلے گا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ جونہی 10 سال کی مدت ختم ہوتی ہے پارلیمنٹ متفقہ طور پر اس کو مزید 10 سال کے لیے بڑھا دیتی ہے اور کوئی سیاسی پارٹی بشمول کمیونسٹ اس کے خلاف موقف اختیار نہیں کرتی۔ اب ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں انتخابات 2017ء میں ہونے والے ہیں جس کے لیے تمام سیاسی پارٹیاں معروف دلت لیڈر مایاوتی کو انتخاب لڑانا چاہتی ہیں۔

مایاوتی کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی تن تنہا انتخابات میں حصہ لے گی اور اس بات کی قوی امید ہے کہ انھیں اکثریت حاصل ہو گی۔ مایاوتی کو یہ فائدہ ہے کہ تمام دلت برادری آنکھیں بند کر کے ان کی بات مانتی ہے۔ وہ واحد ایسی ہستی ہیں جو دلت ووٹوں کو کسی اور کمیونٹی کے لیے بھی استعمال کر سکتی ہے۔ اگرچہ مہاتما گاندھی نے بھی سماجی انصاف کا نعرہ بلند کیا تھا لیکن مایاوتی واحد ایسی لیڈر ہیں جن کے بارے میں یقین کیا جاتا ہے کہ وہ دلتوں کو مساوی درجہ دلائیں گی۔ مہاتما گاندھی نے اچھوتوں کے لیے ''ہریجن'' یعنی خدا کے بیٹے کی اصطلاح استعمال کی تھی لیکن دلت لوگ اس اصطلاح کو پسند نہیں کرتے۔

ڈاکٹر راجندر پرشاد کو، جب انھوں نے آئین ساز اسمبلی کے صدر کی حیثیت سے اپنا کام مکمل کر لیا، تو انھیں وزیر خوراک بنا دیا گیا۔ تب وہ مہاتما گاندھی سے نصیحت لینے کے لیے ان کے پاس گئے جو بھنگی کالونی میں رہ رہے تھے۔ گاندھی نے ڈاکٹر راجندر پرشاد کو کہا کہ آپ میرے ساتھ والی جھونپڑی میں رہنا شروع کر دیں لیکن ڈاکٹر راجندر پرشاد کا رنگ فق ہو گیا اور وہ وہاں سے اٹھ کر وزیراعظم جواہر لعل نہرو کے پاس چلے گئے اور انھیں گاندھی جی کی تجویز کی شکایت لگائی۔

جہاں تک بھارت کے تجربے کا تعلق ہے تو یہ ثابت ہو چکا ہے کہ کوئی قانون سازی اس معاملے میں موثر ثابت نہیں ہو سکتی تا آنکہ خود کو اونچی ذات کا سمجھنے والے اپنے رویے میں تبدیلی نہیں لاتے۔ وہ جمہوریت پر یقین رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر مساوات پر یقین نہیں رکھتے جو کہ جمہوریت کا بنیادی جزو ہے۔ دنیا کے لوگوں کے لیے یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ جو ملک مریخ تک اپنا راکٹ بھیج سکتا ہے وہ اسقدر افراط و تفریط کا شکار ہو گا۔ جہاں تک بھارت میں ذات پات کی تقسیم کا تعلق ہے تو یہ انگریزوں کی حکمرانی سے پہلے ہی موجود تھی جب کہ انگریز حکمرانوں نے اپنی حکومت کو مضبوط کرنے کے لیے اس تفریق کو اور زیادہ تیز کر دیا۔ اب پارلیمنٹ جتنی مرضی قانون سازی کر لے اس کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہو سکتا۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)
Load Next Story