معراج کے روز و شب

ہر آدمی جو مختصر یا کثیر لوگوں میں بغیر زرکثیرکے نام کماتا ہے وہ اپنی زندگی کے اعمال اور گوناگوں خوبیوں کی بدولت ہے

anisbaqar@hotmail.com

ہر آدمی جو مختصر یا کثیر لوگوں میں بغیر زرکثیرکے نام کماتا ہے وہ اپنی زندگی کے اعمال اور گوناگوں خوبیوں کی بدولت ہے۔ باتیں کرنے کو بہت سی ہیں مگر میں معراج سے اپنی پہلی ملاقات کا تذکرہ کر رہا ہوں، بات 1963 کی ہے، جب میں فرسٹ ایئر میں داخلے کے لیے نیشنل کالج کے دروازے کے قریب آیا تو ایک خوش پوش، سرخ وسفید رنگت والا اچھے نقوش کا نوجوان مجھ سے مخاطب ہوا اور کہا کہ میرا نام معراج محمد خان ہے، میں این ایس ایف کا جنرل سیکریٹری ہوں، میں آپ لوگوں کی رہنمائی کے لیے آیا ہوں کہ اگر کوئی مشکل پیش آئے تو مدد کو حاضر ہوں۔

میں جلدی میں تھا کہ داخلہ لے لوں تو پھر ملوں گا، اس بندہ خدا نے کہا کہ آج تو فارم ملے گا سائنس میں داخلے کے لیے اچھے نمبر درکار ہوں گے، اچھا تو فارم لے لوں داخلہ فیس وغیرہ معلوم کرلوں تو پھر آتا ہوں۔ کالج کی خوبصورت سیڑھیاں، نئی عمارت، کھلی فضا، بیل بوٹے، لڑکے لڑکیاں جو دیکھنے سے سینئر لگتے تھے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ گیٹ کے باہر جو شخص مجھے ملا تھا تقریباً 2 گھنٹے بعد بھی وہ باہر ہی تھا۔ کالج سے باہر نکلا تو یہ خوب رو نوجوان دوبارہ ملا اور دس پندرہ منٹ گفتگو کے بعد مجھے اس نے اپنی پارٹی این ایس ایف کا ممبر بنا لیا۔ موصوف نے اپنا سیدھا سادھا تعارف کرایا اور غریب طلبا کے مسائل پر روشنی ڈالی۔ پھر آنا جانا رہتا تھا۔ خیر شب و روز یونہی گزرتے گئے اور آخرکار چند ماہ بعد الیکشن کا زمانہ آیا۔

میری آمدورفت اور مرکز سے رابطے نے یونٹ سیکریٹری کے عہدے پر فائزکردیا تھا۔ اس زمانے میں لینڈ لائن فون خال خال ہوتے تھے، لڑکوں کے گھروں کا باقاعدہ پتا ہی ملاپ کا ذریعہ تھا، موبائل فون، انٹرنیٹ خواب وخیال کی باتیں تھیں، ٹی وی بھی کم یاب تھا۔ ایک لحاظ سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ موبائل فون نے لوگوں کو رازداری اور قربت عطا کی، باقی افادیت روابط کی تو ایک آسان ترین ذریعہ ہے لوگ اب سم (Sim) میں بند ہیں۔ ایسے دنوں کے لیے معراج محمد خان پوسٹیج (Postage) سروس کو استعمال کرتے تھے۔

اس زمانے میں 10 پیسے کا سکہ ہوتا تھا، جس سے پوسٹ آفس سے پوسٹ کارڈ ملتا تھا، اس کی باقاعدگی سے ترسیل ہوتی تھی، تیسرے روز مل جاتا تھا، لہٰذا لیڈر کو چوکس اور چوکنا رہ کر لوگوں کو بلانا ہوتا تھا، ورنہ اتنے بڑے طلبا اجتماعات کیونکر ممکن تھے۔ مرکزی کمیٹی کے رکن طلبا لکھنے پڑھنے میں زیادہ فعال ہوتے تھے، لڑائی جھگڑے سے دور، غنڈہ گردی کے دشمن، اساتذہ کے تابعدار، اور اساتذہ بھی کیا خوب تھے ہر وقت آپ ان سے ان کے گھروں پر بلامعاوضہ پڑھنے جا سکتے تھے۔ ایسی پود جو ملک اور ملت کے لیے سودمند ہوتی تھی، جب ہی تو ہر غریب و امیر کا لڑکا بلاکسی تفریق کے آگے بڑھ سکتا تھا۔ آج بھی انھی دنوں کے طلبا زیادہ تر شمالی امریکا، کینیڈا اور انگلینڈ میں سیاسی طور پر نمایاں ہیں، خواہ وہ آج ہمارے حق میں ہوں یا نہ ہوں، خصوصیت کے ساتھ حلقہ ارباب ذوق نیویارک کے ترقی پسند قلم کار انھی دنوں کی تحریکوں اور سماجی سیاسی اثرات و خیالات کی پیداوار ہیں، گویا اسٹوڈنٹس لیڈر خود کی جلا تو کرتے ہی تھے بلکہ قوم کا مزاج بھی تعمیر کرتے تھے اور سماجی اثرات کی پیداوار میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔

خیر بات ہورہی تھی نیشنل کالج الیکشن کی۔ تو الیکشن ہوئے اور وہ پینل جو ہم لوگوں نے بنایا تھا وہ کامیاب ہوا اور رفتہ رفتہ نیشنل کالج میں بھی ہمارے قدم جم گئے۔ ہفتہ طلبا ہوا، مباحثے ہوئے اور دیگر پروگرام بھی۔ دیکھنے اور خطابت سے یہ اندازہ بالکل نہ ہوتا تھا کہ معراج اس قدر نفیس شخص ہیں۔ ہاں البتہ ان کے جونیئر ساتھی فدائین کے مانند تھے۔ کراچی میں اس وقت 27 کالج تھے، جن میں زیادہ تر مردوں کے تھے، البتہ مردوں کے کالجوں پر توجہ زیادہ دی جاتی تھی، مردوں کے کالجوں میں کو ایجوکیشن کا نظام تھا، مگر رفتہ رفتہ ویمن کالجوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔

زیادہ تر گورنمنٹ کالج پڑھائی میں اچھا مقام رکھتے تھے، اساتذہ اور طلبا سب ایک دوسرے کی عزت اور تعاون کرتے تھے، نقل کا رجحان بہت کم تھا۔ آرٹس اور سائنس کے طلبا عام طور پر دل لگا کر پرچے کرتے تھے۔ کامرس کالج غالباً 1964/63 سے رائج ہوا اور شروع میں اس کی کلاسیں شام کو ہی ہوتی تھیں، بعد ازاں صبح کی شفٹ کے گورنمنٹ کالج کھل گئے اور طلبا تنظیمیں ان میں بھی فعال ہوگئیں۔ کامرس کالجوں میں زیادہ تر وہ طلبا داخلہ لیتے تھے جو عام طور پر دن کو ملازمت کرتے تھے، غرض ایک زبردست پڑھائی کا دور تھا اور کراچی کی تعلیم علمی حیثیت سے بہت اچھی سمجھی جاتی تھی۔ طالب علم لیڈروں کو پڑھنے کے لیے بڑی جفاکشی کی زندگی گزارنی ہوتی تھی، ایک تو پڑھائی، دوئم پڑھائی کے اخراجات، پھر کالجوں کا چکر لگانا کہ کس کالج میں ان کی کارکردگی کیسی ہے۔


گوکہ پارٹی ہر کالج میں پارٹی کا یونٹ سیکریٹری یا انچارج ہوتا تھا، جو مرکز کو مطلع کرتا تھا کہ کالج کی مجموعی صورت حال کیا ہے۔ طالب علم رہنما کا ایک اہم کام یہ ہوتا تھا کہ وہ تعلیم کے شعبے میں ہونے والی تبدیلیوں پر نظر رکھے، نظام تعلیم میں ہونے والی تمام سیاسی تبدیلیوں اور تعلیمی نظام میں حکومت کی طرف سے کی جانے والی تبدیلیاں، ان کا جائزہ اور تعلیم پر اس کے اثرات، مثلاً ایک وقت ایسا کراچی پر آیا کہ بی اے، بی ایس سی کو 2 سال کے بجائے 3 سال کا کردیا گیا تو اس پر این ایس ایف نے زبردست مہم چلائی اور بالآخر یہ حکومتی پلان حکومت کو ختم کرنا پڑا اور اسی طریقے سے یونیورسٹی آرڈیننس۔

مگر پاکستان کی تاریخ میں ایک ایسا وقت آیا جب صدر جنرل ضیا الحق برسر اقتدار آئے، ذوالفقار علی بھٹو اس وقت کے مقبول رہنما تھے، جن کی تشہیر میں معراج کا خاصا مقام تھا، وہ گرفتار ہوئے اور جنرل ضیا الحق نے ان کے خلاف نام نہاد مقدمات قتل قائم کے اور ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر چڑھایا گیا، مگر پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے کوئی مزاحمت نہ کی۔ بقول معراج محمد خان کے جو اس وقت پارٹی کے عہدے دار تھے کہا کہ مقدمے کی صورتحال بڑی مخدوش ہے معاملات کا رخ بھٹو کی زندگی کے خلاف جا رہا ہے، سیاسی مزاحمت کی ضرورت ہے اور تحریک سے ہی ہم ذوالفقار علی بھٹو کی جان بچا سکتے ہیں، مگر پارٹی لیڈران نے خوف کو قانون کی پیٹی میں بند کردیا تھا اور بیگم بھٹو کو قانون کے سپنے دکھا کر بھٹو صاحب کی جان بچانے کی محکم بات ان کے دماغ میں بٹھا دی۔

جب میں نے معراج سے کہا کہ آپ نے بیگم نصرت بھٹو سے کیا بات کی، تو انھوں نے مزاحمتی تحریک کو یکسر مسترد کردیا ہے لہٰذا کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ معراج پر کسی قسم کا خوف طاری تھا بلکہ وہ اس ناانصافی کے شدید مخالف تھے مگر پارٹی نے بیگم بھٹو کے ساتھ وفا نہ کی اور آج ہر شخص خود کو ایسے پیش کرتا ہے کہ جیسے وہ خود ان کی جگہ جان دینے کو تیار تھا۔ قانون کے راستے سے بڑے بڑے لیڈر فرار ہوتے گئے، البتہ بھٹو کی شہادت پارٹی کے لیے اقتدار کی نوید لائی جو اب تک پارٹی کے اکابرین کو اقتدار کی توانائی بخشتی ہے۔ مگر معراج کو کیا ملا؟

ایک اور بات جو ذاتی طور پر معراج محمد خان نے مجھ سے کی وہ میں اس لیے تحریر کر رہا ہوں تاکہ قارئین کو احساس ہوسکے کہ معراج محمد خان سیاسی طور پر کس قدر دوربین تھے، افغانستان کے آخری سوشلسٹ صدر ڈاکٹر نجیب اللہ نے معراج محمد خان کو مشورے کے لیے 1996 میں کابل بلایا تھا، انھوں نے معراج محمد خان سے سوال کیا کہ میں نے روسی فوج کو جولائی 1996 کو کابل چھوڑ دینے کو کہا ہے کیونکہ دونوں طرف کے لوگ ایک طویل عرصے سے قتل ہو رہے ہیں، دونوں طرف پختون کا خون بہہ رہا ہے اور اب میں ایسی صدارت سے تنگ آچکا ہوں ، میں اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن میں پناہ لے لوں گا اور اس طرح کوئی ثالثی کا پہلو نکل آئے گا اس پر معراج نے کہا کہ جب فیصلہ کرلیا تو اب کیوں تائید کے لیے بلایا ہے۔

معراج نے کہا جناب جیسے ہی روسی فوج افغانستان چھوڑے گی یہ مجاہدین امریکی اشارے پر آپ کو اقوام متحدہ کی اس چار دیواری سے کھینچ کر باہر نکالیں گے اور قتل کردیں گے، اور یہی ہوا کہ ستمبر 1996 میں ڈاکٹر نجیب اللہ کو یو این او کے ہائی کمیشن سے نکال کر ان کی لاش کو کابل میں لاری سے گھسیٹا گیا۔

یہی معراج کے روز و شب تھے، انکساری ان کا مزاج، وہ آفتاب تازہ کی ہر طرف روشنی بکھیرتے رہے، دوستوں پر کبھی حکمرانی نہ کی، وزارت میں بھی سادہ تھے، پروٹوکول سے کوسوں دور۔
Load Next Story