بچوں کے اغواء کی وارداتوں کا ایک رخ یہ بھی ہے
ٹیبل اسٹوریز کرنے سے پہلے لاہور کی تنگ گلیوں میں ضرورجائیں جہاں بریکنگ نیوزکیوجہ سےکتنے ہی گھروں میں اندھیرے چھاگئےہیں
PESHAWAR:
رانا ٹاون لاہور کے نواح میں موجود ایک پسماندہ ہاوسنگ سوسائٹی ہے، جہاں پر ملک کے دور دراز علاقوں سے مزدوری کے لئے آئے افراد رہائش پزیر ہیں۔ گزشتہ روز میں وہاں کچھ دوستوں سے ملنے کے لئے گیا۔ جس گھر میں مقیم تھا وہاں موجود دس سال کے ایک بچے کو ٹھنڈا پانی لینے کی غرض سے گھر سے ملحقہ دکان پر بھیجنا چاہا تو اچانک اُس بچے کی والدہ پاوں پڑگئیں کہ میرے بچے کو پانی لینے نہ بھیجیں۔ میں اس غیر متوقع رویہ سے اچانک پریشان ہوگیا۔ ان سے وجہ جاننا چاہی تو ایک لمبی داستان سننے کو ملی۔
ان کے پاس موجود خبروں کے مطابق ان کے محلے سے تین بچے پکڑے گئے ہیں۔ وہ بچے کون تھے؟ کس کے تھے؟ اس بارے میں انہیں کوئی معلومات نہیں تھی۔ پھر انہوں نے بتایا کہ ایک برقع پوش خاتون ایک بچے کو اغواء کرکے لے جا رہی تھی کہ بچے نے شور مچادیا، جس پر مقامی لوگوں نے اس خاتون کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا۔ تھانہ رانا ٹاون سے اس واقعہ کے بارے میں معلومات لینا چاہی اور پوچھا کہ کیا یہاں کے لوگوں نے کسی اغواء کار خاتون کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا ہے؟ جس پر وہاں موجود اہلکاروں نے مکمل انکار کردیا۔
یہ تو ایک چھوٹی سوسائٹی کی داستان ہے۔ راقم رانا ٹاون کے بعد جی ٹی روڈ پر موجود دیگر رہائشی علاقوں رچنا ٹاون، امامیہ کالونی، شاہدرہ وغیرہ میں بھی گیا اور وہاں پر بھی تمام علاقوں میں ایسی ہی افواہوں کا بازار گرم تھا۔ لوگ بچوں کو گھروں سے باہر بھیجتے ہوئے پریشان تھے، اکثر تعلیمی ادارے جو گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد کھل گئے تھے ایک بار پھر بند کردئیے گئے ہیں۔ ایک نجی اسکول کے پرنسپل سے اس حوالے سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا لوگ بچوں کو اسکول بھیجنا ہی نہیں چاہتے۔ خوف اور سراسیمگی کی فضاء ہے۔ لوگوں کا انتظامیہ، پولیس اور سیکورٹی کے اداروں سے اعتماد ختم ہوگیا۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ کوئی نادیدہ قوتیں ملک میں ایسی فضاء قائم کرکے اپنے مقاصد حاصل کر رہی ہیں۔ لیکن مجھے بھی باقی باتوں کی طرح یہ بات بھی ایک افواء ہی لگی۔ نجی یونیورسٹی میں نفسیات کی معلمہ دردانہ مقدس سے جب گفتگو کی تو انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات سے بچوں اور والدین پر بہت خوفناک اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس خوف سے نکلنے کے لئے والدین اور بچوں کو ایک طویل وقت درکار ہوگا۔
نجی ٹی وی چینل سے وابستہ صحافی شیراز حسنات کا کہنا تھا کہ واقعات میں حقیقت کم اور افواہوں کا زیادہ عمل دخل ہے۔ گزشتہ دنوں انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب پولیس مشتاق سکھیرا اور ایڈیشنل آئی جی آپریشنز شہزادہ سلطان نے بچوں کے اغواء کے بڑھتے ہوئے واقعات کے حوالے سے مشترکہ پریس کانفرنس کی۔ اس موقع پر سیکرٹری داخلہ پنجاب میجر (ر) اعظم سلمان بھی موجود تھے۔ پریس کانفرنس کرتے ہوئے آئی جی پنجاب مشتاق احمد سکھیرا کا کہنا تھا کہ 2011ء سے لیکر جولائی 2016ء تک 6793 بچے غائب ہوئے جن میں سے 6661 گھروں میں واپس پہنچ گئے یا انھیں بازیاب کرا لیا گیا۔ اِس وقت چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کے پاس 168 بچے موجود ہیں جن کے والدین اور عزیز و اقارب کو تلاش کرنے کے لیے ہمہ وقت کوششیں جاری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سال اغواء برائے تاوان کے اب تک صرف 4 واقعات کی شکایات درج ہوئی ہیں اور اغواء ہونے والے چاروں بچے بحفاظت بازیاب کرلیے گئے تھے، جبکہ 2015ء میں اغواء برائے تاوان کے 16 کیسز درج کئے گئے تھے۔ آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ صرف گزشتہ دو سالوں میں صوبے بھر میں 1901 بچے لاپتہ ہوئے۔ جن میں سے 1532 خود بخود گھروں کو واپس آگئے جبکہ 283 کو پولیس کی مدد سے ان کے والدین تک پہنچایا گیا۔ واپس آنے والے 1808 بچوں سے کی گئی پوچھ گچھ کے بعد جو وجوہات سامنے آئیں اس کے مطابق، 795 بچے والدین کے سخت رویہ، 138 خاندانی جھگڑوں، 111 میاں بیوی کی علیحدگی، 83 اسکولوں یا مدرسوں میں بدسلوکی، 74 رشتہ داروں کے ساتھ، 51 جبری مشقت یا بھیک مانگنے، 42 جنسی زیادتی، 29 معذوری کی وجہ سے غائب ہوئے جبکہ 392 بچے ایسے تھے جو ماں باپ سے بچھڑنے کی وجہ سے اِن حالات کا شکار ہوئے۔
پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں نے ان سے سوال کئے تو انہوں نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ لاہور میں اغواء ہونے والے تمام بچوں کا ڈیٹا میرے پاس نہیں، ایک دو روز میں سارا ڈیٹا اکٹھا کرنے کے بعد میڈیا کوآگاہ کردوں گا جبکہ ایک اور سوال کے جواب میں بتایا کہ میرے علم میں ایسی کوئی بات نہیں جس میں 2 گرفتار ملزمان میں سے ایک نے انکشاف کیا ہو کہ اس نے 100 سے زیادہ بچے اغواء کرکے کراچی بھجوائے ہیں۔ اگر کوئی ایسی بات ہوئی تو اس کیلئے اسپیشل ٹیم تشکیل دی جائے گی جو ان بچوں کو بازیاب کروائے۔
اِس موقع پر لاہور پریس کلب میں موجود صحافیوں نے الزام عائد کیا کہ میڈیا اس سارے مسئلے کی جڑ ہے، میڈیا میں جان بوجھ کر ایسے واقعات کو رپورٹ کرکے خوف و ہراس کی کیفیت پھیلائی جا رہی ہے۔ دوسری جانب بچوں کے والدین کا رویہ متشدد ہوتا جا رہا ہے، ہر اجنبی کو دیکھ کر اس کی خوب دھلائی کی جاتی ہے۔ کل لاہور میں اپنے بچے کو ویکسین کے لئے لے جانے والے باپ کو مشتعل ہجوم نے اغواء کار سمجھ کر خوب دھلائی کی، اسی طرح ایک روز قبل مغل پورہ میں ایک شریف غبارے والے کو بھی مار مار کر لہولہان کردیا گیا اور ایسی کئی خبریں روز سننے کو مل رہی ہیں۔ ان کیسز کے حوالے سے جب مختلف ذرائع سے جاننے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ واقعات معمول کے مطابق ہوئے ہیں لیکن میڈیا اسے بہت زیادہ ہوا دے رہا ہے جس کی وجہ سے لوگوں میں خوف وہراس پایا جا رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ لوگوں کو جس پر بھی شک گزرتا ہے اس کی ایسی کی تیسی کردی جاتی ہے۔
خدانخواستہ معاملات اگر یونہی جاری رہے تو مجھے ڈر ہے کہ کل ایسے ہی مشتعل لوگوں کا ہجوم کسی معصوم کی جان ہی نہ لے بیٹھے۔ اگر ایسا ہوا تو اس میں سب سے بڑا مجرم ہمارا میڈیا ہی ہوگا۔ اس حوالے سے لاہور میں موجود کرائم رپورٹرز کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایسے واقعات کو اپنے چینل کی ریٹنگ بڑھانے کا ذریعہ بنانے کے بجائے قومی مفاد کو ترجیح دیں۔ انہیں چاہیے کہ پولیس افسران کے حمایتی یا مخالف بننے کے بجائے اس دھرتی کے فرزند ہونے کا ثبوت دیں۔ ٹیبل اسٹوریز کرنے سے پہلے لاہور کی تنگ و تاریک گلیوں میں ایک دفعہ ضرور جائیں جہاں رپورٹرز کی بریکنگ نیوز کے پیچھے لگنے والی دوڑ نے کتنے گھروں میں اندھیرے کر دئیے ہیں۔ کتنے لوگ خوف کی وجہ سے اپنے بچوں کو گھروں سے نکلنے نہیں دے رہے۔ کتنی معصوم بچیوں کی گڑیاں صندوق میں بند کرکے رکھ دی گئی ہیں۔ ایک دفعہ اندرون شہر کی تاریکی میں مایوسی پھیلاتی افواہوں پر بھی خبر بنا کر اپنے چینل کو بھیجیں، آپ ریاست کے چوتھے ستون کے محافظ ہیں۔ جب محافظ ہی ستون کو دیمک لگ کر کھانا شروع کردیں تو عمارت کیوں کر قائم رہ سکے گی؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
رانا ٹاون لاہور کے نواح میں موجود ایک پسماندہ ہاوسنگ سوسائٹی ہے، جہاں پر ملک کے دور دراز علاقوں سے مزدوری کے لئے آئے افراد رہائش پزیر ہیں۔ گزشتہ روز میں وہاں کچھ دوستوں سے ملنے کے لئے گیا۔ جس گھر میں مقیم تھا وہاں موجود دس سال کے ایک بچے کو ٹھنڈا پانی لینے کی غرض سے گھر سے ملحقہ دکان پر بھیجنا چاہا تو اچانک اُس بچے کی والدہ پاوں پڑگئیں کہ میرے بچے کو پانی لینے نہ بھیجیں۔ میں اس غیر متوقع رویہ سے اچانک پریشان ہوگیا۔ ان سے وجہ جاننا چاہی تو ایک لمبی داستان سننے کو ملی۔
ان کے پاس موجود خبروں کے مطابق ان کے محلے سے تین بچے پکڑے گئے ہیں۔ وہ بچے کون تھے؟ کس کے تھے؟ اس بارے میں انہیں کوئی معلومات نہیں تھی۔ پھر انہوں نے بتایا کہ ایک برقع پوش خاتون ایک بچے کو اغواء کرکے لے جا رہی تھی کہ بچے نے شور مچادیا، جس پر مقامی لوگوں نے اس خاتون کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا۔ تھانہ رانا ٹاون سے اس واقعہ کے بارے میں معلومات لینا چاہی اور پوچھا کہ کیا یہاں کے لوگوں نے کسی اغواء کار خاتون کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا ہے؟ جس پر وہاں موجود اہلکاروں نے مکمل انکار کردیا۔
یہ تو ایک چھوٹی سوسائٹی کی داستان ہے۔ راقم رانا ٹاون کے بعد جی ٹی روڈ پر موجود دیگر رہائشی علاقوں رچنا ٹاون، امامیہ کالونی، شاہدرہ وغیرہ میں بھی گیا اور وہاں پر بھی تمام علاقوں میں ایسی ہی افواہوں کا بازار گرم تھا۔ لوگ بچوں کو گھروں سے باہر بھیجتے ہوئے پریشان تھے، اکثر تعلیمی ادارے جو گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد کھل گئے تھے ایک بار پھر بند کردئیے گئے ہیں۔ ایک نجی اسکول کے پرنسپل سے اس حوالے سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا لوگ بچوں کو اسکول بھیجنا ہی نہیں چاہتے۔ خوف اور سراسیمگی کی فضاء ہے۔ لوگوں کا انتظامیہ، پولیس اور سیکورٹی کے اداروں سے اعتماد ختم ہوگیا۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ کوئی نادیدہ قوتیں ملک میں ایسی فضاء قائم کرکے اپنے مقاصد حاصل کر رہی ہیں۔ لیکن مجھے بھی باقی باتوں کی طرح یہ بات بھی ایک افواء ہی لگی۔ نجی یونیورسٹی میں نفسیات کی معلمہ دردانہ مقدس سے جب گفتگو کی تو انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات سے بچوں اور والدین پر بہت خوفناک اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس خوف سے نکلنے کے لئے والدین اور بچوں کو ایک طویل وقت درکار ہوگا۔
نجی ٹی وی چینل سے وابستہ صحافی شیراز حسنات کا کہنا تھا کہ واقعات میں حقیقت کم اور افواہوں کا زیادہ عمل دخل ہے۔ گزشتہ دنوں انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب پولیس مشتاق سکھیرا اور ایڈیشنل آئی جی آپریشنز شہزادہ سلطان نے بچوں کے اغواء کے بڑھتے ہوئے واقعات کے حوالے سے مشترکہ پریس کانفرنس کی۔ اس موقع پر سیکرٹری داخلہ پنجاب میجر (ر) اعظم سلمان بھی موجود تھے۔ پریس کانفرنس کرتے ہوئے آئی جی پنجاب مشتاق احمد سکھیرا کا کہنا تھا کہ 2011ء سے لیکر جولائی 2016ء تک 6793 بچے غائب ہوئے جن میں سے 6661 گھروں میں واپس پہنچ گئے یا انھیں بازیاب کرا لیا گیا۔ اِس وقت چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کے پاس 168 بچے موجود ہیں جن کے والدین اور عزیز و اقارب کو تلاش کرنے کے لیے ہمہ وقت کوششیں جاری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سال اغواء برائے تاوان کے اب تک صرف 4 واقعات کی شکایات درج ہوئی ہیں اور اغواء ہونے والے چاروں بچے بحفاظت بازیاب کرلیے گئے تھے، جبکہ 2015ء میں اغواء برائے تاوان کے 16 کیسز درج کئے گئے تھے۔ آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ صرف گزشتہ دو سالوں میں صوبے بھر میں 1901 بچے لاپتہ ہوئے۔ جن میں سے 1532 خود بخود گھروں کو واپس آگئے جبکہ 283 کو پولیس کی مدد سے ان کے والدین تک پہنچایا گیا۔ واپس آنے والے 1808 بچوں سے کی گئی پوچھ گچھ کے بعد جو وجوہات سامنے آئیں اس کے مطابق، 795 بچے والدین کے سخت رویہ، 138 خاندانی جھگڑوں، 111 میاں بیوی کی علیحدگی، 83 اسکولوں یا مدرسوں میں بدسلوکی، 74 رشتہ داروں کے ساتھ، 51 جبری مشقت یا بھیک مانگنے، 42 جنسی زیادتی، 29 معذوری کی وجہ سے غائب ہوئے جبکہ 392 بچے ایسے تھے جو ماں باپ سے بچھڑنے کی وجہ سے اِن حالات کا شکار ہوئے۔
پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں نے ان سے سوال کئے تو انہوں نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ لاہور میں اغواء ہونے والے تمام بچوں کا ڈیٹا میرے پاس نہیں، ایک دو روز میں سارا ڈیٹا اکٹھا کرنے کے بعد میڈیا کوآگاہ کردوں گا جبکہ ایک اور سوال کے جواب میں بتایا کہ میرے علم میں ایسی کوئی بات نہیں جس میں 2 گرفتار ملزمان میں سے ایک نے انکشاف کیا ہو کہ اس نے 100 سے زیادہ بچے اغواء کرکے کراچی بھجوائے ہیں۔ اگر کوئی ایسی بات ہوئی تو اس کیلئے اسپیشل ٹیم تشکیل دی جائے گی جو ان بچوں کو بازیاب کروائے۔
اِس موقع پر لاہور پریس کلب میں موجود صحافیوں نے الزام عائد کیا کہ میڈیا اس سارے مسئلے کی جڑ ہے، میڈیا میں جان بوجھ کر ایسے واقعات کو رپورٹ کرکے خوف و ہراس کی کیفیت پھیلائی جا رہی ہے۔ دوسری جانب بچوں کے والدین کا رویہ متشدد ہوتا جا رہا ہے، ہر اجنبی کو دیکھ کر اس کی خوب دھلائی کی جاتی ہے۔ کل لاہور میں اپنے بچے کو ویکسین کے لئے لے جانے والے باپ کو مشتعل ہجوم نے اغواء کار سمجھ کر خوب دھلائی کی، اسی طرح ایک روز قبل مغل پورہ میں ایک شریف غبارے والے کو بھی مار مار کر لہولہان کردیا گیا اور ایسی کئی خبریں روز سننے کو مل رہی ہیں۔ ان کیسز کے حوالے سے جب مختلف ذرائع سے جاننے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ واقعات معمول کے مطابق ہوئے ہیں لیکن میڈیا اسے بہت زیادہ ہوا دے رہا ہے جس کی وجہ سے لوگوں میں خوف وہراس پایا جا رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ لوگوں کو جس پر بھی شک گزرتا ہے اس کی ایسی کی تیسی کردی جاتی ہے۔
خدانخواستہ معاملات اگر یونہی جاری رہے تو مجھے ڈر ہے کہ کل ایسے ہی مشتعل لوگوں کا ہجوم کسی معصوم کی جان ہی نہ لے بیٹھے۔ اگر ایسا ہوا تو اس میں سب سے بڑا مجرم ہمارا میڈیا ہی ہوگا۔ اس حوالے سے لاہور میں موجود کرائم رپورٹرز کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایسے واقعات کو اپنے چینل کی ریٹنگ بڑھانے کا ذریعہ بنانے کے بجائے قومی مفاد کو ترجیح دیں۔ انہیں چاہیے کہ پولیس افسران کے حمایتی یا مخالف بننے کے بجائے اس دھرتی کے فرزند ہونے کا ثبوت دیں۔ ٹیبل اسٹوریز کرنے سے پہلے لاہور کی تنگ و تاریک گلیوں میں ایک دفعہ ضرور جائیں جہاں رپورٹرز کی بریکنگ نیوز کے پیچھے لگنے والی دوڑ نے کتنے گھروں میں اندھیرے کر دئیے ہیں۔ کتنے لوگ خوف کی وجہ سے اپنے بچوں کو گھروں سے نکلنے نہیں دے رہے۔ کتنی معصوم بچیوں کی گڑیاں صندوق میں بند کرکے رکھ دی گئی ہیں۔ ایک دفعہ اندرون شہر کی تاریکی میں مایوسی پھیلاتی افواہوں پر بھی خبر بنا کر اپنے چینل کو بھیجیں، آپ ریاست کے چوتھے ستون کے محافظ ہیں۔ جب محافظ ہی ستون کو دیمک لگ کر کھانا شروع کردیں تو عمارت کیوں کر قائم رہ سکے گی؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔