وزیراعظم اورسی پیک
سی پیک راہ داری کی اہمیت کیا ہے۔ تمام ارباب اقتداربخوبی جانتے ہیں
RIVA DEL GARDA:
سی پیک راہ داری کی اہمیت کیا ہے۔ تمام ارباب اقتداربخوبی جانتے ہیں۔پاکستان بننے کے بعداگردس منصوبوں کی فہرست بنائی جائے جوملک میں مثبت تبدیلی لاسکتے ہیں،تویہ منصوبہ پہلے یادوسرے نمبرپرہوگا۔ دوست اوردشمن پورے منصوبہ کی جزئیات سے واقف اوراس پر گہری نظررکھے ہوئے ہیں۔ہمارے دوست ممالک تو خیر اب گنتی کے ہی رہ گئے مگردشمنوں کی تعدادخطرناک حدتک بڑھ چکی ہے۔اسی شانداراقتصادی انقلاب کوروکنے کی بھرپورکوشش میںدشمن ممالک اورپاکستان میں ان کے حواری متحرک ہیں۔مخالفت اگرسنجیدہ نکات پرتوازن سے کی جائے توکوئی مسئلہ نہیں۔مگرپورے منصوبہ کومتنازع بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔علاقائی،نسلی،لسانی اور صوبائی عصبیت کے ان شعلوں کوہوادی جا رہی ہے جس سے فکری انتشارمیں مزید اضافہ ہوا ہے۔
منصوبہ کیا ہے بلکہ کیوں ہے،چندگزارشات پیش کرنے کی اجازت چاہونگا۔جب وزیراعظم نوازشریف یہ کہتے ہیں کہ چینی قیادت نے تمام منصوبہ پر ان کی حکومت آنے کے بعدعملدرآمدشروع کیا،تواس بیانیے میں مکمل صداقت ہے۔پیپلزپارٹی کے دوراقتدارمیں زرداری صاحب کو بخوبی اندازہ تھاکہ چینی حکومت اس منصوبہ کو پاکستان میں شروع کرناچاہتی ہے۔انھوں نے بالواسطہ اور بلاواسطہ چینی حکومت سے ہرطرح کارابطہ کرنے کی کوشش کی کہ کسی بھی طریقے سے منصوبہ ان کے توسط سے پاکستان کو مل جائے۔مگران کی شہرت اورکارکردگی اس فیصلے کے آڑے آگئی۔زرداری صاحب کے دورِاقتدارکے چینی یاپاکستانی اہم آدمی سے سی پیک کے متعلق دریافت کریں۔
وہ آپ کو برملابتادیگاکہ چین کی اعلیٰ قیادت نے منصوبہ زرداری صاحب کی حکومت کے حوالے کرنے سے صاف انکارکردیا تھا۔بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔جناب زرداری صاحب نے چین کے بے مقصدپے درپے دورے کرنے شروع کر دیے۔ایک سطح پرچین کی حکومت نے سفارتی نفاست سے ہماری گزشتہ حکومت کوبتایاکہ ان لامتناہی دوروں میں زرداری صاحب کوسرکاری پروٹوکول نہیں دے سکتے۔جب یہ بات صدرپاکستان کوبتائی گئی توپھربھی انھوں نے اپنے دورے منسوخ نہیں کیے۔آخرمیں یہ صورتحال ہوگئی تھی کہ ایک صنعتی شہرمیں میئرنے بھی ائیرپورٹ پر ان کا استقبال نہیں کیا۔ضلعی حکومت کاڈپٹی میئر زرداری صاحب کو سرکاری طورپرخوش آمدیدکہنے کے لیے آیا۔آپ صرف اس اَمر سے گزشتہ وفاقی حکومت اورچین کے تعلقات کااندازہ لگاسکتے ہیں۔
محترم نوازشریف کے حکومت میں آنے کے بعدچینی حکومت کے وفاق سے تعلقات کے حوالے سے جوہری تبدیلی آئی۔ان کی قیادت نے ہمارے موجودہ وزیراعظم کا استقبال انتہائی ذاتی سطح پرکیابلکہ ان کے پہلے سرکاری دورے پر والہانہ پن تمام وفد نے محسوس کیا۔ پنجاب کی صوبائی حکومت کے تعلقات چین سے پہلے ہی بہترتھے۔یہی وہ لمحہ تھاجس میں سی پیک کی مکمل عملداری محترم نوازشریف کے حوالے کردی گئی۔مگریہ آسان کام ہرگزنہیں تھا۔چھوٹے صوبوں کے خدشات اوراعتراضات اپنی جگہ پرموجود تھے۔ ان کودورکرنے کے لیے ہرسطح پررابطے ہوئے اورآج بھی موجود ہیں۔خدشات کوختم کرنے کے لیے چینی سفارت کاروں نے بھی بھرپورکام کیا۔فوجی قیادت نے سیکیورٹی کے معاملات اپنے ذمے لے لیے اور آج تک انتہائی احسن طریقے سے اپنی ذمے داری نباہ رہے ہیں۔
سی پیک کے حوالے سے ہمارے پاس دو راستے تھے۔ایک تویہ ہم اس پرمکمل خاموشی اختیار کر لیتے۔ اسکو میڈیا میں تشہیرنہ دیتے۔سنجیدگی سے اس پربرق رفتاری سے کام کرتے اوراعلان ہی اس وقت کیاجاتاجب یہ تکمیل کے مراحل طے کرچکاہوتا۔پوری دنیامیں کئی ممالک نے اپنے انتہائی اہم منصوبوں کوعوامی مکالمہ کاحصہ نہیں بننے دیا۔اس طرزِعمل کے اپنے فائدے اورنقصانات ہیں۔ دوسری حکمتِ عملی پہلے سے بالکل متضادہے۔اس میں حکومت پورے منصوبہ کی مکمل تشہیرکرتی اورتمام عوامل پر مدلل بحث ہوتی۔ اس منصوبہ بندی میں ہرایک کوخبرہوتی کہ یہ منصوبہ کیاہے اور اس پرہم لوگ کتنے سنجیدہ ہیں۔
موجودہ حکومت نے جزوی طورپردوسری حکمت عملی اختیار کی۔اس میں کوئی حرج نہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں کواس معاملے پرایک سطح پرلانے کی کوشش کی گئی اوریہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔جب اس معاملے کی بین الاقوامی سطح پر تشہیرہوئی توامریکا نے بھی شک کی نظرسے منصوبہ کو دیکھنا شروع کردیا۔امریکی سفارت کاروں نے ان علاقوں کے دورے اور ہرطرح کی دخل اندازی شروع کردی۔سی پیک نے بین الاقوامی اہمیت حاصل کرلی۔ہندوستان کے موجودہ وزیراعظم نے انتہائی نامناسب بیان دے ڈالاکہ یہ شاہراہ انڈیاکے مفادات کے بالکل خلاف ہے۔نکتہ اٹھایا گیاکہ سڑک متنازعہ علاقوں میں سے گزررہی ہے۔ ہندوستان نے باقاعدہ طورپر منصوبہ کے خلاف منفی ترین مہم شروع کردی۔آج بھی ہماراہمسایہ ملک ہرصورت میںسی پیک پرضرب لگاناچاہتاہے۔انتہائی قلیل مدت میں امریکا اور انڈیااس منصوبہ کے خلاف یک زبان ہوگئے۔
افسوس کہ ہمارے ہمسایہ مسلمان ممالک اس منفی عمل میں اپنی اپنی حیثیت سے مصروف کار ہوئے۔ صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ سوائے چین کے ہرملک ،سی پیک کے خلاف کام کررہا ہے۔بلوچستان کے داخلی حالات، کراچی کا انتشار اور دہشت گردی کے معاملات اسی منصوبہ بندی کاشاخسانہ ہے۔ جب یہ دیکھاگیاکہ وفاقی حکومت دفاعی اداروں کے تعاون سے ان مشکلات پرقابوپارہی ہے توپوری دشمنی کو ایک اوررنگ دے دیاگیا۔خارجی عوامل تواپنی جگہ موجود مگر داخلی فرنٹ پراس پورے منصوبہ کوروکنے کی کوشش شروع ہوگئی ہے۔یہ اَمر انتہائی خطرناک ہے۔سب سے پہلے توایک خاص زاویہ سے پروپیگنڈاشروع کیاگیاکہ مرکزی حکومت اس پورے منصوبہ پرعمل درآمدکوآہستہ کرچکی ہے۔
چند غیرسنجیدہ لوگوں نے یہاں تک کہناشروع کردیاکہ ایک مخصوص حکمت عملی کے تحت وفاقی حکومت اس منصوبہ کے خلاف ہے بلکہ اسے متروک کرناچاہتی ہے۔ایک سطح پرسیاستدانوں کی حب الوطنی پربھی سوالیہ نشان لگانے کی کوشش کی گئی۔یہ الزام مکمل طورپردروغ گوئی کے زمرے میں آتاہے۔سی پیک کی کسی اہم میٹنگ میںچلے جائیے۔ آپکومرکزی حکومتی اداروں کے اہم ترین لوگ، چینی اہلکاروں کے ساتھ رابطے میں نظرآئیں گے۔ان کی کوشش صرف ایک ہوگی کہ سی پیک کا کام تیزرفتاری سے ہواور ہرقسم کی رکاوٹ کودور کیا جائے۔
کئی اہم ترین نشستوں میں وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری فوادحسن فواد بذات خود موجود رہتے ہیں۔ان کی بھرپور موجودگی سے ظاہر ہوتاہے کہ وزیراعظم پوری قوت کے ساتھ سی پیک پر عملدرآمدچاہتے ہیں۔اہل فکرجانتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے۔اس لیے ان کے ذہن میں مرکزی حکومت اوروزیراعظم کے غیرمشروط تعاون کے بارے میں کوئی سوال نہیں ہے۔ آہستہ آہستہ جب یہ سازش بھی ناکام ہو رہی ہے تو ان وزراء اورصوبائی سیاستدانوں کونشانہ بنایا جا رہا ہے جو اس منصوبہ کومکمل کرنا چاہتے ہیں۔آہستہ آہستہ جب یہ منفی حکمت عملی بھی دھواں بن گئی تو ایک اور پتہ پھینکا گیا۔ صوبوں کوآپس میں لڑانے کی بھرپور کوشش شروع کردی گئی۔کبھی بتایا گیا کہ ایک صوبہ میں تو موٹروے بنے گا اور دوسرے صوبہ میں دو یا تین رویہ سڑک بنائی جائے گی۔
بلوچستان اورکے پی کے حقوق کاسوال اُٹھا دیا گیا۔ یہاں تک متنازعہ باتیں کی گئی کہ سی پیک کے نکتہ پر دو صوبائی حکومتوں کا مرکزی حکومت سے شدید اختلاف ہے۔ بلوچستان اورکے پی کے کی صوبائی حکومتوںکے ابتدائی خدشات کافی حدتک دور کرلیے گئے ہیں۔ حیرت ہے کہ صوبوں کو پاکستان کی اکائی کے طور پرپیش کرنے کے بجائے ایسے متحارب فریقین کے طورپر پیش کرنے کی کوشش ہوئی جوایک دوسرے کے اقتصادی حریف بھی ہوں اورایک دوسرے کی ترقی کے دشمن بھی۔چندمحترم اخبارنویس بھی اس جنگ میں کودپڑے اورثابت کرنے لگے کہ سی پیک کے ذریعے صوبائی حقوق پرڈاکہ ڈالا جا رہا ہے۔
ان میں سے کوئی بزرجمہریہ بات نہیں کرتاکہ مرکزی حکومت کی کوششوں سے وزیراعلیٰ کے پی کے اور وزیراعلی بلوچستان معاملات کوسمجھ چکے ہیں اوراب اختلافی بات نہیں کرتے۔ فوج نے بھی چینی انجینئروں،ماہرین اوراہم علاقے کی حفاظت کے لیے مضبوط اورمنظم فورس کھڑی کرلی ہے۔ایک کور کے لگ بھگ فوجیوں کی تعداد اس قومی منصوبہ کی حفاظت کے لیے مامورہے۔یہ اتناآسان کام نہیں تھا۔ مگر سیاسی اور فوجی قیادت کیونکہ اس منصوبہ کو ہرقیمت پر کامیاب بنانا چاہتی ہے لہذا ہر رکاوٹ دور ہو رہی ہے۔ ردِعمل کے طور پر بین الاقوامی میڈیا میں پاکستان کوایک غیرمحفوظ ملک ثابت کیاجارہاہے۔ اس پروپیگنڈاکے برعکس منصوبہ سے وابستہ ہر آدمی کی حفاظت بھرپور طریقے سے کی جارہی ہے۔
معاملات پرغورکریں۔فوراًپتہ چل جائے گاکہ بین الاقوامی طاقتیں ہمارے ملک کے خلاف کونساکھیل کھیل رہی ہیں۔داخلی انتشارکوہوادینا،ہمسایوں کے رویوں میں ایک دم جنگی جنون واردہوجانا،بھارت اورافغانستان کے دشمنی سے بھرپوربیانات کاتواترسے جاری ہونا بغض کا شاخسانہ ہیں۔جب دشمنوں نے دیکھ لیا کہ ہم لوگ سی پیک کے حوالے سے تمام رکاوٹیں عبورکررہے ہیں توداخلی اختلافات کو استعمال کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔یقین کامل ہے کہ یہ منفی سازشیں بھی ناکام ہونگیں۔سی پیک ضروربنے گااوراسکا ایماندارانہ کریڈٹ محترم نوازشریف اوران کی ٹیم کوجاتاہے۔باقی چھوٹی موٹی اختلافی باتیں ہوتی رہینگی۔ ان کے حل کے لیے ہمارے پاس بہت وقت ہے!
سی پیک راہ داری کی اہمیت کیا ہے۔ تمام ارباب اقتداربخوبی جانتے ہیں۔پاکستان بننے کے بعداگردس منصوبوں کی فہرست بنائی جائے جوملک میں مثبت تبدیلی لاسکتے ہیں،تویہ منصوبہ پہلے یادوسرے نمبرپرہوگا۔ دوست اوردشمن پورے منصوبہ کی جزئیات سے واقف اوراس پر گہری نظررکھے ہوئے ہیں۔ہمارے دوست ممالک تو خیر اب گنتی کے ہی رہ گئے مگردشمنوں کی تعدادخطرناک حدتک بڑھ چکی ہے۔اسی شانداراقتصادی انقلاب کوروکنے کی بھرپورکوشش میںدشمن ممالک اورپاکستان میں ان کے حواری متحرک ہیں۔مخالفت اگرسنجیدہ نکات پرتوازن سے کی جائے توکوئی مسئلہ نہیں۔مگرپورے منصوبہ کومتنازع بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔علاقائی،نسلی،لسانی اور صوبائی عصبیت کے ان شعلوں کوہوادی جا رہی ہے جس سے فکری انتشارمیں مزید اضافہ ہوا ہے۔
منصوبہ کیا ہے بلکہ کیوں ہے،چندگزارشات پیش کرنے کی اجازت چاہونگا۔جب وزیراعظم نوازشریف یہ کہتے ہیں کہ چینی قیادت نے تمام منصوبہ پر ان کی حکومت آنے کے بعدعملدرآمدشروع کیا،تواس بیانیے میں مکمل صداقت ہے۔پیپلزپارٹی کے دوراقتدارمیں زرداری صاحب کو بخوبی اندازہ تھاکہ چینی حکومت اس منصوبہ کو پاکستان میں شروع کرناچاہتی ہے۔انھوں نے بالواسطہ اور بلاواسطہ چینی حکومت سے ہرطرح کارابطہ کرنے کی کوشش کی کہ کسی بھی طریقے سے منصوبہ ان کے توسط سے پاکستان کو مل جائے۔مگران کی شہرت اورکارکردگی اس فیصلے کے آڑے آگئی۔زرداری صاحب کے دورِاقتدارکے چینی یاپاکستانی اہم آدمی سے سی پیک کے متعلق دریافت کریں۔
وہ آپ کو برملابتادیگاکہ چین کی اعلیٰ قیادت نے منصوبہ زرداری صاحب کی حکومت کے حوالے کرنے سے صاف انکارکردیا تھا۔بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔جناب زرداری صاحب نے چین کے بے مقصدپے درپے دورے کرنے شروع کر دیے۔ایک سطح پرچین کی حکومت نے سفارتی نفاست سے ہماری گزشتہ حکومت کوبتایاکہ ان لامتناہی دوروں میں زرداری صاحب کوسرکاری پروٹوکول نہیں دے سکتے۔جب یہ بات صدرپاکستان کوبتائی گئی توپھربھی انھوں نے اپنے دورے منسوخ نہیں کیے۔آخرمیں یہ صورتحال ہوگئی تھی کہ ایک صنعتی شہرمیں میئرنے بھی ائیرپورٹ پر ان کا استقبال نہیں کیا۔ضلعی حکومت کاڈپٹی میئر زرداری صاحب کو سرکاری طورپرخوش آمدیدکہنے کے لیے آیا۔آپ صرف اس اَمر سے گزشتہ وفاقی حکومت اورچین کے تعلقات کااندازہ لگاسکتے ہیں۔
محترم نوازشریف کے حکومت میں آنے کے بعدچینی حکومت کے وفاق سے تعلقات کے حوالے سے جوہری تبدیلی آئی۔ان کی قیادت نے ہمارے موجودہ وزیراعظم کا استقبال انتہائی ذاتی سطح پرکیابلکہ ان کے پہلے سرکاری دورے پر والہانہ پن تمام وفد نے محسوس کیا۔ پنجاب کی صوبائی حکومت کے تعلقات چین سے پہلے ہی بہترتھے۔یہی وہ لمحہ تھاجس میں سی پیک کی مکمل عملداری محترم نوازشریف کے حوالے کردی گئی۔مگریہ آسان کام ہرگزنہیں تھا۔چھوٹے صوبوں کے خدشات اوراعتراضات اپنی جگہ پرموجود تھے۔ ان کودورکرنے کے لیے ہرسطح پررابطے ہوئے اورآج بھی موجود ہیں۔خدشات کوختم کرنے کے لیے چینی سفارت کاروں نے بھی بھرپورکام کیا۔فوجی قیادت نے سیکیورٹی کے معاملات اپنے ذمے لے لیے اور آج تک انتہائی احسن طریقے سے اپنی ذمے داری نباہ رہے ہیں۔
سی پیک کے حوالے سے ہمارے پاس دو راستے تھے۔ایک تویہ ہم اس پرمکمل خاموشی اختیار کر لیتے۔ اسکو میڈیا میں تشہیرنہ دیتے۔سنجیدگی سے اس پربرق رفتاری سے کام کرتے اوراعلان ہی اس وقت کیاجاتاجب یہ تکمیل کے مراحل طے کرچکاہوتا۔پوری دنیامیں کئی ممالک نے اپنے انتہائی اہم منصوبوں کوعوامی مکالمہ کاحصہ نہیں بننے دیا۔اس طرزِعمل کے اپنے فائدے اورنقصانات ہیں۔ دوسری حکمتِ عملی پہلے سے بالکل متضادہے۔اس میں حکومت پورے منصوبہ کی مکمل تشہیرکرتی اورتمام عوامل پر مدلل بحث ہوتی۔ اس منصوبہ بندی میں ہرایک کوخبرہوتی کہ یہ منصوبہ کیاہے اور اس پرہم لوگ کتنے سنجیدہ ہیں۔
موجودہ حکومت نے جزوی طورپردوسری حکمت عملی اختیار کی۔اس میں کوئی حرج نہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں کواس معاملے پرایک سطح پرلانے کی کوشش کی گئی اوریہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔جب اس معاملے کی بین الاقوامی سطح پر تشہیرہوئی توامریکا نے بھی شک کی نظرسے منصوبہ کو دیکھنا شروع کردیا۔امریکی سفارت کاروں نے ان علاقوں کے دورے اور ہرطرح کی دخل اندازی شروع کردی۔سی پیک نے بین الاقوامی اہمیت حاصل کرلی۔ہندوستان کے موجودہ وزیراعظم نے انتہائی نامناسب بیان دے ڈالاکہ یہ شاہراہ انڈیاکے مفادات کے بالکل خلاف ہے۔نکتہ اٹھایا گیاکہ سڑک متنازعہ علاقوں میں سے گزررہی ہے۔ ہندوستان نے باقاعدہ طورپر منصوبہ کے خلاف منفی ترین مہم شروع کردی۔آج بھی ہماراہمسایہ ملک ہرصورت میںسی پیک پرضرب لگاناچاہتاہے۔انتہائی قلیل مدت میں امریکا اور انڈیااس منصوبہ کے خلاف یک زبان ہوگئے۔
افسوس کہ ہمارے ہمسایہ مسلمان ممالک اس منفی عمل میں اپنی اپنی حیثیت سے مصروف کار ہوئے۔ صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ سوائے چین کے ہرملک ،سی پیک کے خلاف کام کررہا ہے۔بلوچستان کے داخلی حالات، کراچی کا انتشار اور دہشت گردی کے معاملات اسی منصوبہ بندی کاشاخسانہ ہے۔ جب یہ دیکھاگیاکہ وفاقی حکومت دفاعی اداروں کے تعاون سے ان مشکلات پرقابوپارہی ہے توپوری دشمنی کو ایک اوررنگ دے دیاگیا۔خارجی عوامل تواپنی جگہ موجود مگر داخلی فرنٹ پراس پورے منصوبہ کوروکنے کی کوشش شروع ہوگئی ہے۔یہ اَمر انتہائی خطرناک ہے۔سب سے پہلے توایک خاص زاویہ سے پروپیگنڈاشروع کیاگیاکہ مرکزی حکومت اس پورے منصوبہ پرعمل درآمدکوآہستہ کرچکی ہے۔
چند غیرسنجیدہ لوگوں نے یہاں تک کہناشروع کردیاکہ ایک مخصوص حکمت عملی کے تحت وفاقی حکومت اس منصوبہ کے خلاف ہے بلکہ اسے متروک کرناچاہتی ہے۔ایک سطح پرسیاستدانوں کی حب الوطنی پربھی سوالیہ نشان لگانے کی کوشش کی گئی۔یہ الزام مکمل طورپردروغ گوئی کے زمرے میں آتاہے۔سی پیک کی کسی اہم میٹنگ میںچلے جائیے۔ آپکومرکزی حکومتی اداروں کے اہم ترین لوگ، چینی اہلکاروں کے ساتھ رابطے میں نظرآئیں گے۔ان کی کوشش صرف ایک ہوگی کہ سی پیک کا کام تیزرفتاری سے ہواور ہرقسم کی رکاوٹ کودور کیا جائے۔
کئی اہم ترین نشستوں میں وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری فوادحسن فواد بذات خود موجود رہتے ہیں۔ان کی بھرپور موجودگی سے ظاہر ہوتاہے کہ وزیراعظم پوری قوت کے ساتھ سی پیک پر عملدرآمدچاہتے ہیں۔اہل فکرجانتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے۔اس لیے ان کے ذہن میں مرکزی حکومت اوروزیراعظم کے غیرمشروط تعاون کے بارے میں کوئی سوال نہیں ہے۔ آہستہ آہستہ جب یہ سازش بھی ناکام ہو رہی ہے تو ان وزراء اورصوبائی سیاستدانوں کونشانہ بنایا جا رہا ہے جو اس منصوبہ کومکمل کرنا چاہتے ہیں۔آہستہ آہستہ جب یہ منفی حکمت عملی بھی دھواں بن گئی تو ایک اور پتہ پھینکا گیا۔ صوبوں کوآپس میں لڑانے کی بھرپور کوشش شروع کردی گئی۔کبھی بتایا گیا کہ ایک صوبہ میں تو موٹروے بنے گا اور دوسرے صوبہ میں دو یا تین رویہ سڑک بنائی جائے گی۔
بلوچستان اورکے پی کے حقوق کاسوال اُٹھا دیا گیا۔ یہاں تک متنازعہ باتیں کی گئی کہ سی پیک کے نکتہ پر دو صوبائی حکومتوں کا مرکزی حکومت سے شدید اختلاف ہے۔ بلوچستان اورکے پی کے کی صوبائی حکومتوںکے ابتدائی خدشات کافی حدتک دور کرلیے گئے ہیں۔ حیرت ہے کہ صوبوں کو پاکستان کی اکائی کے طور پرپیش کرنے کے بجائے ایسے متحارب فریقین کے طورپر پیش کرنے کی کوشش ہوئی جوایک دوسرے کے اقتصادی حریف بھی ہوں اورایک دوسرے کی ترقی کے دشمن بھی۔چندمحترم اخبارنویس بھی اس جنگ میں کودپڑے اورثابت کرنے لگے کہ سی پیک کے ذریعے صوبائی حقوق پرڈاکہ ڈالا جا رہا ہے۔
ان میں سے کوئی بزرجمہریہ بات نہیں کرتاکہ مرکزی حکومت کی کوششوں سے وزیراعلیٰ کے پی کے اور وزیراعلی بلوچستان معاملات کوسمجھ چکے ہیں اوراب اختلافی بات نہیں کرتے۔ فوج نے بھی چینی انجینئروں،ماہرین اوراہم علاقے کی حفاظت کے لیے مضبوط اورمنظم فورس کھڑی کرلی ہے۔ایک کور کے لگ بھگ فوجیوں کی تعداد اس قومی منصوبہ کی حفاظت کے لیے مامورہے۔یہ اتناآسان کام نہیں تھا۔ مگر سیاسی اور فوجی قیادت کیونکہ اس منصوبہ کو ہرقیمت پر کامیاب بنانا چاہتی ہے لہذا ہر رکاوٹ دور ہو رہی ہے۔ ردِعمل کے طور پر بین الاقوامی میڈیا میں پاکستان کوایک غیرمحفوظ ملک ثابت کیاجارہاہے۔ اس پروپیگنڈاکے برعکس منصوبہ سے وابستہ ہر آدمی کی حفاظت بھرپور طریقے سے کی جارہی ہے۔
معاملات پرغورکریں۔فوراًپتہ چل جائے گاکہ بین الاقوامی طاقتیں ہمارے ملک کے خلاف کونساکھیل کھیل رہی ہیں۔داخلی انتشارکوہوادینا،ہمسایوں کے رویوں میں ایک دم جنگی جنون واردہوجانا،بھارت اورافغانستان کے دشمنی سے بھرپوربیانات کاتواترسے جاری ہونا بغض کا شاخسانہ ہیں۔جب دشمنوں نے دیکھ لیا کہ ہم لوگ سی پیک کے حوالے سے تمام رکاوٹیں عبورکررہے ہیں توداخلی اختلافات کو استعمال کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔یقین کامل ہے کہ یہ منفی سازشیں بھی ناکام ہونگیں۔سی پیک ضروربنے گااوراسکا ایماندارانہ کریڈٹ محترم نوازشریف اوران کی ٹیم کوجاتاہے۔باقی چھوٹی موٹی اختلافی باتیں ہوتی رہینگی۔ ان کے حل کے لیے ہمارے پاس بہت وقت ہے!