یااللہ رحم
زندگی کسے پیاری نہیں ہوتی اور اس انسان کو تو بہت ہی پیار ہو جاتا ہے
زندگی کسے پیاری نہیں ہوتی اور اس انسان کو تو بہت ہی پیار ہو جاتا ہے زندگی سے جس کو یہ پتہ چل جائے کہ وہ چند مہینوں کا مہمان ہے اور دنیا کے رنگین لمحے کچھ عرصے تک ہی اس کے ساتھ رہیں گے۔ ریحان بھی ان ہی میں سے ایک تھا، اس کو پتہ چل گیا تھا کہ اس کوکینسر ہے اور صرف چند مہینوں کا مہمان ہے حالانکہ وہ تو صرف اپنے کمردرد کا ٹیسٹ کروانے گیا تھا۔
تمام ٹیسٹ دینے کے بعد ریحان حسب معمول اپنے گھر آیا اپنی بیوی اور اکلوتی بیٹی کے ساتھ چائے پی، رات کے کھانے کی فرمائش کی اور نہا دھو کر دیر تک کرنٹ افیئرز کے پروگرام سے لطف اندوزہوتا رہا اور بار بار اپنی بیوی کو آوازیں لگا لگا کر کمنٹ بھی پاس کرتا رہا۔ گھر اور آفس کی ذمے داریاں نبھاتے نبھاتے آخر وہ اپنے ٹیسٹ کی رپورٹ لینے کے لیے اسپتال پہنچ گیا ہلکے پھلکے موڈ کے ساتھ اور پھر کئی گھنٹے اپنے ڈاکٹر کے پاس گزارنے کے بعد ریحان کا چہرہ پیلا ہو چکا تھا۔ اس کا سیل فون بھی بار بار بج رہا تھا مگر شاید وہ اسے اٹھانے کی ہمت نہیں کر پا رہا تھا۔
ڈاکٹر بھی اس کا دوست ہی تھا اس نے ریحان کا فون اس کے ہاتھ سے لیا اور اس کی بیوی کو خیریت کا میسج بھیج دیا۔ مگر خیریت ریحان سے کوسوں دور جا چکی تھی۔ پھٹی آنکھوں سے ریحان کبھی رپورٹ کو دیکھتا اور کبھی اپنے ڈاکٹر دوست کو۔ ہاں بس جانے کے لیے جب ریحان کرسی سے اٹھا توایک جملہ اس کے لبوں پہ تھا، اللہ رحم! دروازے کی گھنٹی بجتے ہی بیوی نے بے تابی سے دروازہ کھولا ریحان بے سدھ سا اندر داخل ہو گیا۔ بیوی بھی گھبرا گئی کہ بے ساختہ بولی اللہ رحم۔
خلاف توقع ریحان سیدھا اپنے بیڈ روم خاموشی سے پہنچ گیا اور بستر پر لیٹ گیا، بیوی حیراں اور پریشان ہوتی رہی کہ ریحان نے کبھی اس طرح پہلے نہیں کیا تھا، ماتھے پر ہاتھ رکھ کر بولی کیا طبیعت خراب ہے، بخار تو نہیں آپ کو، ریحان اپنی آنکھیں بند کر چکا تھا۔ آہستہ سے بولا ''پانی پلا دو۔ سونا چاہتا ہوں، صبح ٹھیک ہو جاؤں گا۔'' فوراً ہی بیوی نے پانی لاکر دیا، ریحان نے پانی پیا گلاس بیوی کو تھمایا اور کروٹ لے لی آنکھیں موند لیں اور آہستگی سے کہا۔'' اللہ رحم!''
زندگی کی تمام خوبصورتی شاید ریحان کی بند آنکھوں میں اتر آئی تھی، مگر جو خبر اس پر بجلی بن کرگری تھی وہ آہستہ آہستہ نمی بن کر تکیہ پر جذب ہو رہی تھی، بے بسی اور صرف بے بسی اس رات کی طرح اس کے اردگرد چاروں طرف پھیل گئی تھی۔ چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا نظر آ رہا تھا، اور بے بسی اس قدر کہ اپنے جسم کو صحیح نہیں کر سکتا تھا، صرف محسوس کر سکتا تھا اس دکھ و تکلیف کو جو اس کی سوچوں، جذبات کے ساتھ اس کے جسم کو ختم کر دینے والی تھی اپنی وفادار بیوی اور بے حد محبت کرنے والی بیٹی کو وہ بہت جلد چھوڑ کے جانے والا تھا۔
چاہتا نہیں تھا مگر سب کچھ اس کے اختیار سے باہر محسوس ہو رہا تھا اس کی بیٹی زویا صرف 4th کلاس میں تھی اور چھٹیوں کا شدید انتظارکر رہی تھی کہ اس کو بابا اور ماما کے ساتھ کوہ مری جانا تھا۔ ریحان کافی دن پہلے زویا سے وعدہ کرچکا تھا اور زویا انگلیوں پر دن بھی گن رہی تھی اور اس خبر نے ریحان کو سن کر کے رکھ دیا تھا۔ اس کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ اپنی ماں سے کیا کہے گا، اس نے تو کچھ ایسی خاص سیونگ بھی نہیں کی تھی کہ اس کے بعد اس کے گھر والے آرام سے زندگی گزار سکیں گے۔ آہ! ایک طویل آہ ریحان کے لبوں سے نکلی۔ اللہ رحم!
اس کی بیوی نے گم سم ریحان پر چادر اوڑھا دی، اے سی کا ٹمپریچر نارمل پر رکھا اور لیمپ آف کر دیا اور وہ بھی سونے کے لیے لیٹ گئی۔ مگر ریحان سے نیند آج کوسوں دور تھی۔ وہ لیٹا ہوا تھا اور محسوس کر رہا تھا کہ شاید وہ قبر میں لیٹا ہوا ہے۔ دائیں بائیں شاید حساب کتاب کے فرشتے سوالات کی لسٹ کو بھی چیک کر رہے ہیں کہ بس اب سوال و جواب شروع ہونے ہی والے ہیں کہ اچانک اس کی بیٹی زویا آ کر اس سے لپٹ گئی بابا! آج آپ اتنی دیر سے آئے ہیں اور سو بھی گئے ہیں، ریحان اچانک خوف سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔ چہرہ پسینے سے شرابور ہو گیا۔ رنگ سفید ہو گیا، زویا ایک دم ڈرگئی، اس کی بیوی بھی گھبرا کر پانی لانے دوڑی، ریحان محسوس کر رہا تھا کہ وہ بس مر ہی چکا ہے اب اس کی بیٹی اور بیوی و ماں کا کیا ہو گا؟
ریحان...ریحان کی آوازیں اس کے کانوں میں پڑ رہی تھیں۔ ہاں شاید اس کی بیوی اس کو بار بار پکار رہی تھی مگر وہ خوف سے غم سے سن ہی ہو گیا تھا۔ مرنے کا خوف، چند مہینوں کی زندگی کو شاید دنوں میں ختم کرنے پر تلا ہوا تھا، بے شک دلوں کا حال صرف اللہ ہی جانتا ہے جو شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ ریحان کے دل ودماغ میں جو کچھ چل رہا تھا اس کی بیوی، ماں اور بیٹی سب بالکل بے خبر تھے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے برسوں کا سفر صرف ایک دن میں مکمل کرے۔ ریحان تھکن سے چور ہوگیا ہے۔ پاؤں کے انگوٹھے سے لے کر سر کے بال تک گزرے دنوں کی تمام کہانی سنانا چاہتے تھے، دائیں بائیں بیٹھے فرشتے قلم کاغذ تیارکر چکے تھے، سوالات بھی تیار ہو چکے تھے، گھبرا کر ریحان نے جھرجھری لی اور بے ساختہ کہا۔ اللہ رحم!
اگلا دن ریحان کی زندگی کی گنتی سے شروع ہوا۔ اس کے ڈاکٹر دوست نے 3 مہینے کا ٹائم ریحان کو دیا تھا، ریحان نے آفس سے چھٹی کی تھوڑی ہمت جمع کی اور بہت ہی عقلمندی سے ایک مشہور نفسیاتی ڈاکٹر کے پاس پہنچا۔ اپنی تمام رپورٹیں اس کو دکھائیں اور کہا کہ ڈاکٹر صاحب میرے پاس وقت صرف تین مہینے کا ہے۔ میڈیکل رپورٹس کہتی ہے کہ بیماری حد سے آگے جا چکی ہے میں مرنے والا ہوں مگر میں اس زندگی دینے والے رب سے بہت امید لگا سکتا ہوں۔
پورا علاج کروں گا اپنے گھر والوں کو بھی اپنے بارے میں سب سچ سچ بتاؤں گا، حال اور مستقبل ابھی اپنی ماں اور بیوی سے ڈسکس کروں گا اور جو وقت ہے میرے پاس اسے پوری طرح استعمال کروں گا آپ کے پاس اس لیے آیا ہوں کہ آپ وہ طریقہ مجھے بتائیں کہ میں اپنا خوف دور کر سکوں مرنا تو ہر بشر نے ہے، زندگی خوبصورت بھی بہت ہے مگر وقت کو اپنے آپ کو وقت سے پہلے مرنے نہیں دینا چاہتا۔ بے شک زندگی مقررہ مدت تک ہے، مگر اس مقررہ وقت کو میں منفی نہیں مثبت انداز میں گزارنا چاہتا ہوں۔ اپنا اور اپنے گھر والوں کے لیے کچھ کر کے جانا چاہتا ہوں۔ اماں کو حج پر بھیجنا چاہتا ہوں، بیٹی کو تعلیم و تربیت دونوں اعلیٰ دینے کا خواہش مند ہوں، بیوی کو کسی کی محتاجی نہ ہو۔ پلیز ڈاکٹر میری مدد کریں، تمام منفی سوچوں کو مجھ سے دورکرنے کی اور تمام تر مثبت سوچوں اور مثبت رویوں کو میرے اندر پیدا کرنے میں میری مدد کیجیے اپنی بات مکمل ہونے پر ریحان نے پر امید انداز میں اوپر کی طرف دیکھا اور اطمینان سے کہا۔ اللہ رحم!
ریحان سے مل کر اور اس کی کہانی سن کر مجھے ایسا لگا کہ جیسے ساری قوم ہی کینسر کے مرض میں مبتلا ہو گئی ہے اور ہم سب کو ہی زندہ رہنے کے لیے مثبت رویے اور مثبت سوچوں کی شدید ضرورت ہے تا کہ ہم بھی زندہ رہ سکیں۔ اللہ رحم!
تمام ٹیسٹ دینے کے بعد ریحان حسب معمول اپنے گھر آیا اپنی بیوی اور اکلوتی بیٹی کے ساتھ چائے پی، رات کے کھانے کی فرمائش کی اور نہا دھو کر دیر تک کرنٹ افیئرز کے پروگرام سے لطف اندوزہوتا رہا اور بار بار اپنی بیوی کو آوازیں لگا لگا کر کمنٹ بھی پاس کرتا رہا۔ گھر اور آفس کی ذمے داریاں نبھاتے نبھاتے آخر وہ اپنے ٹیسٹ کی رپورٹ لینے کے لیے اسپتال پہنچ گیا ہلکے پھلکے موڈ کے ساتھ اور پھر کئی گھنٹے اپنے ڈاکٹر کے پاس گزارنے کے بعد ریحان کا چہرہ پیلا ہو چکا تھا۔ اس کا سیل فون بھی بار بار بج رہا تھا مگر شاید وہ اسے اٹھانے کی ہمت نہیں کر پا رہا تھا۔
ڈاکٹر بھی اس کا دوست ہی تھا اس نے ریحان کا فون اس کے ہاتھ سے لیا اور اس کی بیوی کو خیریت کا میسج بھیج دیا۔ مگر خیریت ریحان سے کوسوں دور جا چکی تھی۔ پھٹی آنکھوں سے ریحان کبھی رپورٹ کو دیکھتا اور کبھی اپنے ڈاکٹر دوست کو۔ ہاں بس جانے کے لیے جب ریحان کرسی سے اٹھا توایک جملہ اس کے لبوں پہ تھا، اللہ رحم! دروازے کی گھنٹی بجتے ہی بیوی نے بے تابی سے دروازہ کھولا ریحان بے سدھ سا اندر داخل ہو گیا۔ بیوی بھی گھبرا گئی کہ بے ساختہ بولی اللہ رحم۔
خلاف توقع ریحان سیدھا اپنے بیڈ روم خاموشی سے پہنچ گیا اور بستر پر لیٹ گیا، بیوی حیراں اور پریشان ہوتی رہی کہ ریحان نے کبھی اس طرح پہلے نہیں کیا تھا، ماتھے پر ہاتھ رکھ کر بولی کیا طبیعت خراب ہے، بخار تو نہیں آپ کو، ریحان اپنی آنکھیں بند کر چکا تھا۔ آہستہ سے بولا ''پانی پلا دو۔ سونا چاہتا ہوں، صبح ٹھیک ہو جاؤں گا۔'' فوراً ہی بیوی نے پانی لاکر دیا، ریحان نے پانی پیا گلاس بیوی کو تھمایا اور کروٹ لے لی آنکھیں موند لیں اور آہستگی سے کہا۔'' اللہ رحم!''
زندگی کی تمام خوبصورتی شاید ریحان کی بند آنکھوں میں اتر آئی تھی، مگر جو خبر اس پر بجلی بن کرگری تھی وہ آہستہ آہستہ نمی بن کر تکیہ پر جذب ہو رہی تھی، بے بسی اور صرف بے بسی اس رات کی طرح اس کے اردگرد چاروں طرف پھیل گئی تھی۔ چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا نظر آ رہا تھا، اور بے بسی اس قدر کہ اپنے جسم کو صحیح نہیں کر سکتا تھا، صرف محسوس کر سکتا تھا اس دکھ و تکلیف کو جو اس کی سوچوں، جذبات کے ساتھ اس کے جسم کو ختم کر دینے والی تھی اپنی وفادار بیوی اور بے حد محبت کرنے والی بیٹی کو وہ بہت جلد چھوڑ کے جانے والا تھا۔
چاہتا نہیں تھا مگر سب کچھ اس کے اختیار سے باہر محسوس ہو رہا تھا اس کی بیٹی زویا صرف 4th کلاس میں تھی اور چھٹیوں کا شدید انتظارکر رہی تھی کہ اس کو بابا اور ماما کے ساتھ کوہ مری جانا تھا۔ ریحان کافی دن پہلے زویا سے وعدہ کرچکا تھا اور زویا انگلیوں پر دن بھی گن رہی تھی اور اس خبر نے ریحان کو سن کر کے رکھ دیا تھا۔ اس کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ اپنی ماں سے کیا کہے گا، اس نے تو کچھ ایسی خاص سیونگ بھی نہیں کی تھی کہ اس کے بعد اس کے گھر والے آرام سے زندگی گزار سکیں گے۔ آہ! ایک طویل آہ ریحان کے لبوں سے نکلی۔ اللہ رحم!
اس کی بیوی نے گم سم ریحان پر چادر اوڑھا دی، اے سی کا ٹمپریچر نارمل پر رکھا اور لیمپ آف کر دیا اور وہ بھی سونے کے لیے لیٹ گئی۔ مگر ریحان سے نیند آج کوسوں دور تھی۔ وہ لیٹا ہوا تھا اور محسوس کر رہا تھا کہ شاید وہ قبر میں لیٹا ہوا ہے۔ دائیں بائیں شاید حساب کتاب کے فرشتے سوالات کی لسٹ کو بھی چیک کر رہے ہیں کہ بس اب سوال و جواب شروع ہونے ہی والے ہیں کہ اچانک اس کی بیٹی زویا آ کر اس سے لپٹ گئی بابا! آج آپ اتنی دیر سے آئے ہیں اور سو بھی گئے ہیں، ریحان اچانک خوف سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔ چہرہ پسینے سے شرابور ہو گیا۔ رنگ سفید ہو گیا، زویا ایک دم ڈرگئی، اس کی بیوی بھی گھبرا کر پانی لانے دوڑی، ریحان محسوس کر رہا تھا کہ وہ بس مر ہی چکا ہے اب اس کی بیٹی اور بیوی و ماں کا کیا ہو گا؟
ریحان...ریحان کی آوازیں اس کے کانوں میں پڑ رہی تھیں۔ ہاں شاید اس کی بیوی اس کو بار بار پکار رہی تھی مگر وہ خوف سے غم سے سن ہی ہو گیا تھا۔ مرنے کا خوف، چند مہینوں کی زندگی کو شاید دنوں میں ختم کرنے پر تلا ہوا تھا، بے شک دلوں کا حال صرف اللہ ہی جانتا ہے جو شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ ریحان کے دل ودماغ میں جو کچھ چل رہا تھا اس کی بیوی، ماں اور بیٹی سب بالکل بے خبر تھے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے برسوں کا سفر صرف ایک دن میں مکمل کرے۔ ریحان تھکن سے چور ہوگیا ہے۔ پاؤں کے انگوٹھے سے لے کر سر کے بال تک گزرے دنوں کی تمام کہانی سنانا چاہتے تھے، دائیں بائیں بیٹھے فرشتے قلم کاغذ تیارکر چکے تھے، سوالات بھی تیار ہو چکے تھے، گھبرا کر ریحان نے جھرجھری لی اور بے ساختہ کہا۔ اللہ رحم!
اگلا دن ریحان کی زندگی کی گنتی سے شروع ہوا۔ اس کے ڈاکٹر دوست نے 3 مہینے کا ٹائم ریحان کو دیا تھا، ریحان نے آفس سے چھٹی کی تھوڑی ہمت جمع کی اور بہت ہی عقلمندی سے ایک مشہور نفسیاتی ڈاکٹر کے پاس پہنچا۔ اپنی تمام رپورٹیں اس کو دکھائیں اور کہا کہ ڈاکٹر صاحب میرے پاس وقت صرف تین مہینے کا ہے۔ میڈیکل رپورٹس کہتی ہے کہ بیماری حد سے آگے جا چکی ہے میں مرنے والا ہوں مگر میں اس زندگی دینے والے رب سے بہت امید لگا سکتا ہوں۔
پورا علاج کروں گا اپنے گھر والوں کو بھی اپنے بارے میں سب سچ سچ بتاؤں گا، حال اور مستقبل ابھی اپنی ماں اور بیوی سے ڈسکس کروں گا اور جو وقت ہے میرے پاس اسے پوری طرح استعمال کروں گا آپ کے پاس اس لیے آیا ہوں کہ آپ وہ طریقہ مجھے بتائیں کہ میں اپنا خوف دور کر سکوں مرنا تو ہر بشر نے ہے، زندگی خوبصورت بھی بہت ہے مگر وقت کو اپنے آپ کو وقت سے پہلے مرنے نہیں دینا چاہتا۔ بے شک زندگی مقررہ مدت تک ہے، مگر اس مقررہ وقت کو میں منفی نہیں مثبت انداز میں گزارنا چاہتا ہوں۔ اپنا اور اپنے گھر والوں کے لیے کچھ کر کے جانا چاہتا ہوں۔ اماں کو حج پر بھیجنا چاہتا ہوں، بیٹی کو تعلیم و تربیت دونوں اعلیٰ دینے کا خواہش مند ہوں، بیوی کو کسی کی محتاجی نہ ہو۔ پلیز ڈاکٹر میری مدد کریں، تمام منفی سوچوں کو مجھ سے دورکرنے کی اور تمام تر مثبت سوچوں اور مثبت رویوں کو میرے اندر پیدا کرنے میں میری مدد کیجیے اپنی بات مکمل ہونے پر ریحان نے پر امید انداز میں اوپر کی طرف دیکھا اور اطمینان سے کہا۔ اللہ رحم!
ریحان سے مل کر اور اس کی کہانی سن کر مجھے ایسا لگا کہ جیسے ساری قوم ہی کینسر کے مرض میں مبتلا ہو گئی ہے اور ہم سب کو ہی زندہ رہنے کے لیے مثبت رویے اور مثبت سوچوں کی شدید ضرورت ہے تا کہ ہم بھی زندہ رہ سکیں۔ اللہ رحم!