ڈاکٹر ذاکر نائیک پربھارتی میڈیا کی یلغار
ہزارہا غیرمسلموں کو مسلمان کرنے والے ممتاز اسلامی مبلغ کے خلاف بھارتی ذرائع ابلاغ نے کردار کشی کی مہم چلا دی
1 جولائی 2016ء کی رات پانچ مسلم جنگجوؤں نے ڈھاکہ کی ایک بیکری میں دھاوا بول دیا جہاں غیر ملکیوں کا آنا جانا تھا۔ انہوں نے چوبیس افراد مار ڈالے اور بعدازاں خود بھی مارے گئے۔ بنگلہ دیشی پولیس کا دعویٰ ہے کہ حملہ آوروں کا تعلق داعش سے تھا۔ اگلے ہی دن بھارتی میڈیا میں یہ خبریں آنے لگیں کہ دو جنگجو مشہور مبلغ، ڈاکٹر ذاکر نائیک سے متاثر تھے اور یہ کہ وہ ان کی تقریروں سے متاثر ہوکر ''دہشت گرد'' بن گئے۔
دراصل ایک جنگجو نے اپنی فیس بک وال پر ڈاکٹر ذاکر کا یہ جملہ لگا رکھا تھا: ''ہر مسلمان کو دہشت گرد ہونا چاہیے۔'' بھارتی میڈیا اسی جملے کی آڑ میں ڈاکٹر ذاکر نائیک پر چڑھ دوڑا۔ اس نے انہیں دہشت گردوں کا رہنما ثابت کرنے کی خاطر ایڑی چوٹی کا زور لگادیا۔ حتیٰ کہ بھارت سمیت دنیا بھر میں بہت سے لوگ یہی سمجھنے لگے کہ ڈاکٹر ذاکر دہشت گردانہ نظریات کا پرچار کرتے ہیں۔
اُدھر ڈاکٹر ذاکر یہ کہہ کہہ کر تھک گئے کہ وہ داعش کو غیر اسلامی تنظیم سمجھتے ہیں اور اس کی جنگجویانہ سرگرمیوں سے متفق نہیں۔بھارتی میڈیا نے دراصل مغربی میڈیا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ڈاکٹر ذاکر نائیک کے ایک جملے کو سیاق و سباق کے بغیر شائع کیا اور اسے اپنے پروپیگنڈے کا مرکز بنالیا۔ ڈاکٹر ذاکر نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا: ''دہشت گرد وہ انسان ہے جو معاشرے میں خوف و دہشت پھیلاتا ہے۔
جب چور یا ڈاکو پولیس کو دیکھے، تو وہ بھی خوفزدہ ہو جاتا ہے۔ گویا چور کے لیے سپاہی دہشت گرد ہی ہوا۔ اسی طرح ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ معاشرے کا امن و چین برباد کرنے والے جرائم پیشہ عناصر کے لیے دہشت گرد بن جائے۔ ایک وقت ایسا آئے کہ جب بھی کوئی چور، ڈاکو یا زانی مسلمان کو دیکھے، تو وہ خوفزدہ ہوکر فرار ہوجائے۔ یہ صحیح ہے کہ معروف معنی میں دہشت گرد وہ ہے جو عام لوگوں کو دہشت زدہ کرے۔ مگر حقیقی مسلمان کو ایسا دہشت گرد ہونا چاہیے جو صرف معاشرہ دشمن عناصر کو خوفزدہ کرے۔ حقیقی مسلمان عام اور معصوم انسانوں کے لیے تو امن و محبت کی علامت ہوتا ہے۔''
درج بالا تقریر سے عیاں ہے کہ ڈاکٹر ذاکرنائیک مسلمانوں کو سماج دشمن عناصر کے خلاف ابھارنا چاہتے ہیں۔ مگر بھارتی میڈیا یہ واویلا مچانے لگا کہ وہ مسلمانوں کو دہشت گرد بننے کی تلقین کررہے ہیں۔ حالانکہ ڈاکٹر ذاکر اپنی کئی تقریروں میں داعش اور اس جیسی جنگجو تنظیموں کو اسلام دشمن قرار دے چکے۔ مغربی میڈیا داعش کو ''اسلامی ریاست'' کہہ کر پکارتا ہے مگر ڈاکٹر ذاکر کبھی یہ نام استعمال نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس نام سے فائدہ اٹھا کر مغربی میڈیا اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنا چاہتا ہے۔
مخالفانہ مہم کی وجہ
بھارتی میڈیا نے منظم طریقے سے ڈاکٹر ذاکر نائیک کے خلاف مذموم مہم کا آغاز کیا۔ ڈاکٹر صاحب تقابل مذاہب کے عالم ہیں۔ وہ اپنی تقریروں میں قرآن مجید کے علاوہ دیگر مذاہب کی مذہبی کتب مثلاً انجیل، توریت، وید، پران، بھگوت گیتا وغیرہ کے بہ کثرت حوالے دیتے ہیں۔ ہندومت اور اسلام کا تقابلی جائزہ ان کا خاص موضوع ہے۔ڈاکٹر ذاکر اکثر اپنی تقریروں میں بھگوت گیتا اور ویدوں وغیرہ کے حوالے دے کر ہندومت کی خامیاں اجاگر کرتے ہیں۔ چونکہ عام ہندو ان خامیوں سے آشنا نہیں ہوتے لہٰذا وہ انگشت بداماں رہ جاتے ہیں۔ اپنے مذہب کی خامیاں جان کر بہت سے ہندو مسلمان ہوچکے۔ ان کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ مگر ہندوؤں کو مسلمان ہوتا دیکھ کر قدامت پسند ہندو جماعتوں کے لیڈر غصے سے پیچ و تاب کھاتے رہتے ہیں۔ ان کا بس نہیں چلتا ورنہ وہ ڈاکٹر ذاکر کوکچا چباجائیں۔
پچھلے چند برس سے قدامت پسند ہندو جماعتوں مثلاً آر ایس ایس، وشوا ہندو پریشد، بجرنگ دل وغیرہ کا یہ وتیرہ بن چکا کہ جب ڈاکٹر ذاکر کسی بھی بھارتی شہر میں تقریر کا پروگرام بنائیں، تو ان کی بھر پور سعی ہوتی ہے کہ وہ منسوخ ہوجائے۔ یہ ہندو کبھی عدالت میں دہائی مچاتے ہیں کہ ڈاکٹر ذاکر ہندومت کی مخالفت اور توہین کرتا ہے، اسے روکا جائے۔ کبھی وہ عوام میں یہ شر انگیز پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ ڈاکٹر عام لوگوں کو ہندومت کے خلاف ابھارتا ہے۔2014ء میں قدامت پسند ہندوؤں کے لیڈر، نریندر مودی کی حکومت آئی، تو ڈاکٹر ذاکر نائیک پر حملے تیز ہوگئے۔ قدامت پسند ہندو ایسے موقع کی تلاش میں رہنے لگے کہ وہ ڈاکٹر ذاکر کو بدنام کرسکیں۔ ڈھاکہ کی دہشت گردی کے ذریعے آخر انہیں یہ موقع ہاتھ آگیا۔ مودی حکومت نے پھر بھارتی میڈیا کوحکم جاری کیا کہ وہ ڈاکٹر ذاکر کے خلاف بھر پور مہم چلائیں۔ چناں چہ کئی اخبارات نے ڈاکٹر صاحب کے خلاف ایڈیشن شائع کردیئے جبکہ ٹی وی نیٹ ورکس میں نام نہاد اینکر اپنی تمام تر طاقتِ لسانی استعمال کرنے لگے تاکہ انہیں دہشت گردوں کا ساتھی ثابت کیا جاسکے۔
جب ڈھاکہ میں دہشت گردی ہوئی، تو ڈاکٹر ذاکر اہل خانہ کے ہمراہ عمرہ ادا کرنے سعودی عرب گئے ہوئے تھے۔ انہوں نے وہاں سے پریس کانفرنسوں اور ویڈیو بیانات کے ذریعے داعش کی سخت مذمت کی اور دہشت گردوں کا سرپرست ہونے سے انکار کیا۔ لیکن مودی حکومت ڈاکٹر صاحب کا نیٹ ورک ختم کرنے کا تہیہ کرچکی تھی۔ بھارت کی اصل حکمران، آر ایس ایس نے مودی سرکار کو حکم دے دیا تھا کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کی سرگرمیاں محدود کردی جائیں۔ چناں چہ بھارتی تحقیقاتی ادارے ڈاکٹر صاحب پر جھوٹے الزامات لگانے لگے۔
بھارتی میڈیا میں بھی انہیں بدنام کرنے کی مہم جاری رہی۔ڈاکٹر ذاکر نائیک کا اصل ''جرم'' یہ ہے کہ عام ہندوؤں کے سامنے ہندومت کی خامیاں اجاگر اور ہندوانہ مذہبی کتب کے نقائص بیان کرتے ہیں۔ ہندومت دراصل برہمن مت ہے۔ آج بھی برہمن طبقہ اس مذہب کا اجارہ دار بنا بیٹھا ہے۔ وہ کس طرح یہ گوارا کرے کہ انہی کی مملکت میں ایک ''ملیچھ'' برہمنوں کی طاقت و سیادت کو چیلنج کردے؟ وہ عرصے سے ڈاکٹر ذاکر کو نیچا دکھانے کی تاک میں تھے اور اب یہ سنہرا موقع انہیں مل ہی گیا۔
قدامات پسند ہندو ڈاکٹر ذاکر نائیک کی علمیت، سحر انگیز شخصیت اور عوام میں ان کی مقبولیت سے بھی بہت خار کھاتے ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر کوئی فرشتہ نہیں، ان میں خامیاں بھی موجود ہیں۔ بعض بھارتی مسلمان عالم بھی ان کے انداز تبلیغ سے مطمئن نہیں۔ مگر جب قدامات پسند ہندو لیڈروں، مودی سرکار اور بھارتی میڈیا نے ڈاکٹر ذاکر کے خلاف محاذ کھولا، تو بھارت بھر کے مسلمان رہنماؤں نے ڈاکٹر صاحب سے اظہار یک جہتی کیا اور انہیں معصوم اور بے خطا قرار دیا۔بھارت میں قوم پرست ہندووں کی بھرپور کوشش ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کو دہشت گردوں کا ساتھی بنادیا جائے۔ اپنا منصوبہ کامیاب بنانے کی خاطر وہ سازشوں میں مصروف ہیں۔ دیکھیے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک بے گناہ ہوئے، تو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے گھمنڈی ،متعصب اور طاقتور مودی سرکار ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔اور وہ بدستور بت پرستوں کو دین حق کی راہ پر لاتے رہیں گے۔
حالاتِ زندگی
ڈاکٹر ذاکر عبدالکریم نائیک 18 اکتوبر 1965ء کو ممبئی ،بھارت میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد بھی ڈاکٹر تھے۔ لڑکپن سے تقابل ادعیان اور اسلام کے موضوع پر کتب پڑھنے لگے۔ مبلغ بننا چاہتے تھے مگر والدہ کی خواہش پر ڈاکٹری پڑھی۔ والدہ کی خواہش تھی کہ وہ ہارٹ ٹرانسپلانٹ کرنے والے دنیا کے پہلے سرجن، کرسچن برنارڈ کی طرح بن جائیں اور نام کمائیں جبکہ ذاکر نائیک جنوبی افریقہ ہی کے مشہور مبلغ، شیخ احمد دیدات کے نقش قدم پر چلنا چاہتے تھے۔ایک دن ذاکر نے والدہ سے دریافت کیا ''آپ کیا چاہتی ہیں؟ میں شیخ دیدات بن جائوں یا کرسچن برنارڈ؟'' انہوں نے جواب دیا ''دنوں''۔ چناںچہ والدہ کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے ذاکر نائیک نے ممبئی یونیورسٹی سے ایم بی بی ایس کرلیا۔ تاہم انہوں نے اسلامی تقابل ادیان کی کتب کا مطالعہ بھی جاری رکھا۔
کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ ذاکر نائیک لڑکپن میں ہکلاتے تھے۔ اسی لیے وہ مصنف بننا چاہتے تھے مبلغ نہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان کی راہ متعین کردی تھی۔ ذاکر نائیک اس راہ پر آسمانی ہدایت ہی سے گامزن ہوئے۔ہوا یہ کہ نوجوان ذاکر نائیک نے دیکھا، مسلمان نوجوانوں کی اکثریت اپنے مذہب اسلام کو دقیانوسی اور فرسودہ نظریات کا مجموعہ سمجھتی ہے۔ جب کبھی وہ غیر مسلموں سے اسلام پر گفتگو کرتے، تو معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرلیتے۔ یہ دیکھ کر ذاکر نائیک کو بہت تکلیف پہنچتی۔ ان کی تمنا تھی کہ ہر تعلیم یافتہ مسلمان نوجوان اپنے مذہب اسلام کی خوبیوں اور خصوصیات سے کماحقہ طور پر واقف ہو تاکہ وہ مغربی میڈیا کی پھیلائی غلط فہمیوں کا توڑ کرسکے۔ چناں چہ 1991ء میں انھوں نے ڈاکٹری چھوڑ کر مبلغ بننے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ غیر مسلموں ہی نہیں بے شعور مسلمانوں کو بھی اسلام کا حقیقی روشن چہرہ دکھاسکیں۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک اب تک اسلام اور تقابل مذاہب سے متعلق چار ہزار سے زائد لیکچر دے چکے۔ ان کے لیکچروں کی ویڈیو ریکارڈنگ ہوتی ہے۔ وہ پھر بذریعہ سی ڈی یا ''پیس ٹیلی ویژن'' دنیا بھر میں دیکھے جاتے ہیں۔ یہ ٹی وی چینل ڈاکٹر ذاکر کا قائم کردہ ہے۔ مزید براں انہوں نے تبلیغ کی خاطر ایک تنظیم، اسلامک ریسرچ فائونڈیشن بھی بنارکھی ہے۔جب ڈاکٹر ذاکر کے خلاف حالیہ مہم شروع ہوئی، تو بی جے پی کی ایک انتہا پسند لیڈر سدھوی رتمبرا نے اعلان کردیا کہ جوڈاکٹر ذاکر کو قتل کرے گا، اسے وہ 50لاکھ روپے انعام دیں گی۔
اسلام کے بارے میں مغالطے
1991ء سے ڈاکٹر ذاکرنائیک کا استدلال ہے کہ دور جدید میں اسلام کے متعلق مغالطے پھیلانے میں سب سے بڑا کردار مغربی یا غیر مسلم میڈیا نے ادا کیا ۔ اس مغربی میڈیا کا خاص ہتھیار یہ ہے کہ وہ اسلامی دنیا میں موجود جنگجوؤں کی خوب تشہیر کرکے انہیں بطور ''مثالی مسلمان'' پیش کرتا ہے۔ یہ مغربی میڈیا دن رات اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں مغالطے پھیلاتا ہے۔ اس کے مسلسل منفی پروپیگنڈے کی وجہ سے یورپ اور امریکا میں یہ حال ہوچکا کہ عام غیر مسلم اسلامی لباس میں ملبوس کسی مسلمان کو دیکھتے ہی بدک اٹھتے ہیں۔ مغربی میڈیا میں ٹی وی چینل، اخبارات، رسائل و جرائد، ویب سائیٹس اور این جی اوز شامل ہیں۔ڈاکٹر ذاکر کی سب سے بڑی تمنا ہے کہ مغربی میڈیا کا بھرپور مقابلہ کرنے کی خاطر عالمی سطح پر طاقتور اسلامی میڈیا کا قیام عمل میں آ جائے۔
ان کا کہنا ہے:''آج میڈیا معلومات پھیلانے کا سب سے اہم ذریعہ بن چکا مگر ساتھ ساتھ یہ نفرت و شر کا اہم منبع بھی ہے۔ یہ ذریعہ اتنی زبردست طاقت رکھتا ہے کہ سفید کو سیاہ اور سیاہ کو سفید بناکر پیش کرسکے۔ لہٰذا یہ ہر مسلمان کی ذمے داری ہے کہ وہ مغربی میڈیا کے وضع کردہ مغالطے دور کرے اور دنیا والوں کو اسلام کا حقیقی رخ دکھائے جو محبت و امن سے متصف ہے۔''
بھارتی مبلغ اسلام واضح کرتے ہیں کہ جرمنی کا ہٹلر مسلمان نہیں تھا، مگر اس نے لاکھوں یہود کو مار ڈالا۔ وہ دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد تھا۔ مگر آج ہالی وڈ کی فلموں میں مسلمانوں کو دہشت گرد بناکر پیش کیا جاتا ہے۔ ان کی وجہ سے غیر مسلموں میں یہ تاثر جنم لے چکا کہ مسلمان جب بھی ''اللہ اکبر'' کا نعرہ لگائیں تو وہ حملہ کردیتے ہیں۔ چناں چہ یورپ یا امریکہ میں کوئی بھی غیر مسلم ''اللہ اکبر'' کے الفاظ سنے، تو اپنی جان بچانے کی خاطر دوڑ پڑتا ہے۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک اپنی تقریروں کے ذریعے غیر مسلموں پر زور دیتے ہیں کہ وہ حقیقی اسلام سے متعارف ہونے کے لیے قرآن پاک اور احادیث کا مطالعہ کریں۔ دور جدید کے مسلمانوں کو دیکھ کراسلام کے بارے میں غلط تصّورات قائم نہ کریں۔ یہ بات تو ایسے ہی ہے کہ مرسڈیز چلانے والا ڈرائیور حادثہ کر بیٹھے، تو کار کو مورالزام ٹھہرایا جائے۔ حالانکہ حادثے کا قصور وار تو ڈرائیور ہوتا ہے۔ ڈاکٹر ذاکر کے نزدیک مسلمانوں میں بہترین اور مثالی مسلمان رحمت العالمین، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔
مغربی میڈیا کا ایک اور طریق واردات یہ ہے کہ وہ سیاق و سباق کا حوالہ دیئے بغیر قرآن وحدیث سے ایسے اقتباسات دیتا ہے جو اسلام کو جنگجو اور متشدد مذہب بناکر پیش کریں۔ مثال کے طور پر سورہ توبہ آیت 9 اکثر نمایاں کی جاتی ہے جس میں آیا ہے کہ جہاں کسی کافر کو پاؤ، اسے قتل کردو۔مگر یہ ایک جنگی اصول ہے، کوئی عام حکم نہیں... دین اسلام میں امن و سلامتی کو جنگ پر ترجیح دی گئی ہے۔
دراصل ایک جنگجو نے اپنی فیس بک وال پر ڈاکٹر ذاکر کا یہ جملہ لگا رکھا تھا: ''ہر مسلمان کو دہشت گرد ہونا چاہیے۔'' بھارتی میڈیا اسی جملے کی آڑ میں ڈاکٹر ذاکر نائیک پر چڑھ دوڑا۔ اس نے انہیں دہشت گردوں کا رہنما ثابت کرنے کی خاطر ایڑی چوٹی کا زور لگادیا۔ حتیٰ کہ بھارت سمیت دنیا بھر میں بہت سے لوگ یہی سمجھنے لگے کہ ڈاکٹر ذاکر دہشت گردانہ نظریات کا پرچار کرتے ہیں۔
اُدھر ڈاکٹر ذاکر یہ کہہ کہہ کر تھک گئے کہ وہ داعش کو غیر اسلامی تنظیم سمجھتے ہیں اور اس کی جنگجویانہ سرگرمیوں سے متفق نہیں۔بھارتی میڈیا نے دراصل مغربی میڈیا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ڈاکٹر ذاکر نائیک کے ایک جملے کو سیاق و سباق کے بغیر شائع کیا اور اسے اپنے پروپیگنڈے کا مرکز بنالیا۔ ڈاکٹر ذاکر نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا: ''دہشت گرد وہ انسان ہے جو معاشرے میں خوف و دہشت پھیلاتا ہے۔
جب چور یا ڈاکو پولیس کو دیکھے، تو وہ بھی خوفزدہ ہو جاتا ہے۔ گویا چور کے لیے سپاہی دہشت گرد ہی ہوا۔ اسی طرح ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ معاشرے کا امن و چین برباد کرنے والے جرائم پیشہ عناصر کے لیے دہشت گرد بن جائے۔ ایک وقت ایسا آئے کہ جب بھی کوئی چور، ڈاکو یا زانی مسلمان کو دیکھے، تو وہ خوفزدہ ہوکر فرار ہوجائے۔ یہ صحیح ہے کہ معروف معنی میں دہشت گرد وہ ہے جو عام لوگوں کو دہشت زدہ کرے۔ مگر حقیقی مسلمان کو ایسا دہشت گرد ہونا چاہیے جو صرف معاشرہ دشمن عناصر کو خوفزدہ کرے۔ حقیقی مسلمان عام اور معصوم انسانوں کے لیے تو امن و محبت کی علامت ہوتا ہے۔''
درج بالا تقریر سے عیاں ہے کہ ڈاکٹر ذاکرنائیک مسلمانوں کو سماج دشمن عناصر کے خلاف ابھارنا چاہتے ہیں۔ مگر بھارتی میڈیا یہ واویلا مچانے لگا کہ وہ مسلمانوں کو دہشت گرد بننے کی تلقین کررہے ہیں۔ حالانکہ ڈاکٹر ذاکر اپنی کئی تقریروں میں داعش اور اس جیسی جنگجو تنظیموں کو اسلام دشمن قرار دے چکے۔ مغربی میڈیا داعش کو ''اسلامی ریاست'' کہہ کر پکارتا ہے مگر ڈاکٹر ذاکر کبھی یہ نام استعمال نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس نام سے فائدہ اٹھا کر مغربی میڈیا اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنا چاہتا ہے۔
مخالفانہ مہم کی وجہ
بھارتی میڈیا نے منظم طریقے سے ڈاکٹر ذاکر نائیک کے خلاف مذموم مہم کا آغاز کیا۔ ڈاکٹر صاحب تقابل مذاہب کے عالم ہیں۔ وہ اپنی تقریروں میں قرآن مجید کے علاوہ دیگر مذاہب کی مذہبی کتب مثلاً انجیل، توریت، وید، پران، بھگوت گیتا وغیرہ کے بہ کثرت حوالے دیتے ہیں۔ ہندومت اور اسلام کا تقابلی جائزہ ان کا خاص موضوع ہے۔ڈاکٹر ذاکر اکثر اپنی تقریروں میں بھگوت گیتا اور ویدوں وغیرہ کے حوالے دے کر ہندومت کی خامیاں اجاگر کرتے ہیں۔ چونکہ عام ہندو ان خامیوں سے آشنا نہیں ہوتے لہٰذا وہ انگشت بداماں رہ جاتے ہیں۔ اپنے مذہب کی خامیاں جان کر بہت سے ہندو مسلمان ہوچکے۔ ان کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ مگر ہندوؤں کو مسلمان ہوتا دیکھ کر قدامت پسند ہندو جماعتوں کے لیڈر غصے سے پیچ و تاب کھاتے رہتے ہیں۔ ان کا بس نہیں چلتا ورنہ وہ ڈاکٹر ذاکر کوکچا چباجائیں۔
پچھلے چند برس سے قدامت پسند ہندو جماعتوں مثلاً آر ایس ایس، وشوا ہندو پریشد، بجرنگ دل وغیرہ کا یہ وتیرہ بن چکا کہ جب ڈاکٹر ذاکر کسی بھی بھارتی شہر میں تقریر کا پروگرام بنائیں، تو ان کی بھر پور سعی ہوتی ہے کہ وہ منسوخ ہوجائے۔ یہ ہندو کبھی عدالت میں دہائی مچاتے ہیں کہ ڈاکٹر ذاکر ہندومت کی مخالفت اور توہین کرتا ہے، اسے روکا جائے۔ کبھی وہ عوام میں یہ شر انگیز پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ ڈاکٹر عام لوگوں کو ہندومت کے خلاف ابھارتا ہے۔2014ء میں قدامت پسند ہندوؤں کے لیڈر، نریندر مودی کی حکومت آئی، تو ڈاکٹر ذاکر نائیک پر حملے تیز ہوگئے۔ قدامت پسند ہندو ایسے موقع کی تلاش میں رہنے لگے کہ وہ ڈاکٹر ذاکر کو بدنام کرسکیں۔ ڈھاکہ کی دہشت گردی کے ذریعے آخر انہیں یہ موقع ہاتھ آگیا۔ مودی حکومت نے پھر بھارتی میڈیا کوحکم جاری کیا کہ وہ ڈاکٹر ذاکر کے خلاف بھر پور مہم چلائیں۔ چناں چہ کئی اخبارات نے ڈاکٹر صاحب کے خلاف ایڈیشن شائع کردیئے جبکہ ٹی وی نیٹ ورکس میں نام نہاد اینکر اپنی تمام تر طاقتِ لسانی استعمال کرنے لگے تاکہ انہیں دہشت گردوں کا ساتھی ثابت کیا جاسکے۔
جب ڈھاکہ میں دہشت گردی ہوئی، تو ڈاکٹر ذاکر اہل خانہ کے ہمراہ عمرہ ادا کرنے سعودی عرب گئے ہوئے تھے۔ انہوں نے وہاں سے پریس کانفرنسوں اور ویڈیو بیانات کے ذریعے داعش کی سخت مذمت کی اور دہشت گردوں کا سرپرست ہونے سے انکار کیا۔ لیکن مودی حکومت ڈاکٹر صاحب کا نیٹ ورک ختم کرنے کا تہیہ کرچکی تھی۔ بھارت کی اصل حکمران، آر ایس ایس نے مودی سرکار کو حکم دے دیا تھا کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کی سرگرمیاں محدود کردی جائیں۔ چناں چہ بھارتی تحقیقاتی ادارے ڈاکٹر صاحب پر جھوٹے الزامات لگانے لگے۔
بھارتی میڈیا میں بھی انہیں بدنام کرنے کی مہم جاری رہی۔ڈاکٹر ذاکر نائیک کا اصل ''جرم'' یہ ہے کہ عام ہندوؤں کے سامنے ہندومت کی خامیاں اجاگر اور ہندوانہ مذہبی کتب کے نقائص بیان کرتے ہیں۔ ہندومت دراصل برہمن مت ہے۔ آج بھی برہمن طبقہ اس مذہب کا اجارہ دار بنا بیٹھا ہے۔ وہ کس طرح یہ گوارا کرے کہ انہی کی مملکت میں ایک ''ملیچھ'' برہمنوں کی طاقت و سیادت کو چیلنج کردے؟ وہ عرصے سے ڈاکٹر ذاکر کو نیچا دکھانے کی تاک میں تھے اور اب یہ سنہرا موقع انہیں مل ہی گیا۔
قدامات پسند ہندو ڈاکٹر ذاکر نائیک کی علمیت، سحر انگیز شخصیت اور عوام میں ان کی مقبولیت سے بھی بہت خار کھاتے ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر کوئی فرشتہ نہیں، ان میں خامیاں بھی موجود ہیں۔ بعض بھارتی مسلمان عالم بھی ان کے انداز تبلیغ سے مطمئن نہیں۔ مگر جب قدامات پسند ہندو لیڈروں، مودی سرکار اور بھارتی میڈیا نے ڈاکٹر ذاکر کے خلاف محاذ کھولا، تو بھارت بھر کے مسلمان رہنماؤں نے ڈاکٹر صاحب سے اظہار یک جہتی کیا اور انہیں معصوم اور بے خطا قرار دیا۔بھارت میں قوم پرست ہندووں کی بھرپور کوشش ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کو دہشت گردوں کا ساتھی بنادیا جائے۔ اپنا منصوبہ کامیاب بنانے کی خاطر وہ سازشوں میں مصروف ہیں۔ دیکھیے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک بے گناہ ہوئے، تو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے گھمنڈی ،متعصب اور طاقتور مودی سرکار ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔اور وہ بدستور بت پرستوں کو دین حق کی راہ پر لاتے رہیں گے۔
حالاتِ زندگی
ڈاکٹر ذاکر عبدالکریم نائیک 18 اکتوبر 1965ء کو ممبئی ،بھارت میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد بھی ڈاکٹر تھے۔ لڑکپن سے تقابل ادعیان اور اسلام کے موضوع پر کتب پڑھنے لگے۔ مبلغ بننا چاہتے تھے مگر والدہ کی خواہش پر ڈاکٹری پڑھی۔ والدہ کی خواہش تھی کہ وہ ہارٹ ٹرانسپلانٹ کرنے والے دنیا کے پہلے سرجن، کرسچن برنارڈ کی طرح بن جائیں اور نام کمائیں جبکہ ذاکر نائیک جنوبی افریقہ ہی کے مشہور مبلغ، شیخ احمد دیدات کے نقش قدم پر چلنا چاہتے تھے۔ایک دن ذاکر نے والدہ سے دریافت کیا ''آپ کیا چاہتی ہیں؟ میں شیخ دیدات بن جائوں یا کرسچن برنارڈ؟'' انہوں نے جواب دیا ''دنوں''۔ چناںچہ والدہ کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے ذاکر نائیک نے ممبئی یونیورسٹی سے ایم بی بی ایس کرلیا۔ تاہم انہوں نے اسلامی تقابل ادیان کی کتب کا مطالعہ بھی جاری رکھا۔
کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ ذاکر نائیک لڑکپن میں ہکلاتے تھے۔ اسی لیے وہ مصنف بننا چاہتے تھے مبلغ نہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان کی راہ متعین کردی تھی۔ ذاکر نائیک اس راہ پر آسمانی ہدایت ہی سے گامزن ہوئے۔ہوا یہ کہ نوجوان ذاکر نائیک نے دیکھا، مسلمان نوجوانوں کی اکثریت اپنے مذہب اسلام کو دقیانوسی اور فرسودہ نظریات کا مجموعہ سمجھتی ہے۔ جب کبھی وہ غیر مسلموں سے اسلام پر گفتگو کرتے، تو معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرلیتے۔ یہ دیکھ کر ذاکر نائیک کو بہت تکلیف پہنچتی۔ ان کی تمنا تھی کہ ہر تعلیم یافتہ مسلمان نوجوان اپنے مذہب اسلام کی خوبیوں اور خصوصیات سے کماحقہ طور پر واقف ہو تاکہ وہ مغربی میڈیا کی پھیلائی غلط فہمیوں کا توڑ کرسکے۔ چناں چہ 1991ء میں انھوں نے ڈاکٹری چھوڑ کر مبلغ بننے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ غیر مسلموں ہی نہیں بے شعور مسلمانوں کو بھی اسلام کا حقیقی روشن چہرہ دکھاسکیں۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک اب تک اسلام اور تقابل مذاہب سے متعلق چار ہزار سے زائد لیکچر دے چکے۔ ان کے لیکچروں کی ویڈیو ریکارڈنگ ہوتی ہے۔ وہ پھر بذریعہ سی ڈی یا ''پیس ٹیلی ویژن'' دنیا بھر میں دیکھے جاتے ہیں۔ یہ ٹی وی چینل ڈاکٹر ذاکر کا قائم کردہ ہے۔ مزید براں انہوں نے تبلیغ کی خاطر ایک تنظیم، اسلامک ریسرچ فائونڈیشن بھی بنارکھی ہے۔جب ڈاکٹر ذاکر کے خلاف حالیہ مہم شروع ہوئی، تو بی جے پی کی ایک انتہا پسند لیڈر سدھوی رتمبرا نے اعلان کردیا کہ جوڈاکٹر ذاکر کو قتل کرے گا، اسے وہ 50لاکھ روپے انعام دیں گی۔
اسلام کے بارے میں مغالطے
1991ء سے ڈاکٹر ذاکرنائیک کا استدلال ہے کہ دور جدید میں اسلام کے متعلق مغالطے پھیلانے میں سب سے بڑا کردار مغربی یا غیر مسلم میڈیا نے ادا کیا ۔ اس مغربی میڈیا کا خاص ہتھیار یہ ہے کہ وہ اسلامی دنیا میں موجود جنگجوؤں کی خوب تشہیر کرکے انہیں بطور ''مثالی مسلمان'' پیش کرتا ہے۔ یہ مغربی میڈیا دن رات اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں مغالطے پھیلاتا ہے۔ اس کے مسلسل منفی پروپیگنڈے کی وجہ سے یورپ اور امریکا میں یہ حال ہوچکا کہ عام غیر مسلم اسلامی لباس میں ملبوس کسی مسلمان کو دیکھتے ہی بدک اٹھتے ہیں۔ مغربی میڈیا میں ٹی وی چینل، اخبارات، رسائل و جرائد، ویب سائیٹس اور این جی اوز شامل ہیں۔ڈاکٹر ذاکر کی سب سے بڑی تمنا ہے کہ مغربی میڈیا کا بھرپور مقابلہ کرنے کی خاطر عالمی سطح پر طاقتور اسلامی میڈیا کا قیام عمل میں آ جائے۔
ان کا کہنا ہے:''آج میڈیا معلومات پھیلانے کا سب سے اہم ذریعہ بن چکا مگر ساتھ ساتھ یہ نفرت و شر کا اہم منبع بھی ہے۔ یہ ذریعہ اتنی زبردست طاقت رکھتا ہے کہ سفید کو سیاہ اور سیاہ کو سفید بناکر پیش کرسکے۔ لہٰذا یہ ہر مسلمان کی ذمے داری ہے کہ وہ مغربی میڈیا کے وضع کردہ مغالطے دور کرے اور دنیا والوں کو اسلام کا حقیقی رخ دکھائے جو محبت و امن سے متصف ہے۔''
بھارتی مبلغ اسلام واضح کرتے ہیں کہ جرمنی کا ہٹلر مسلمان نہیں تھا، مگر اس نے لاکھوں یہود کو مار ڈالا۔ وہ دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد تھا۔ مگر آج ہالی وڈ کی فلموں میں مسلمانوں کو دہشت گرد بناکر پیش کیا جاتا ہے۔ ان کی وجہ سے غیر مسلموں میں یہ تاثر جنم لے چکا کہ مسلمان جب بھی ''اللہ اکبر'' کا نعرہ لگائیں تو وہ حملہ کردیتے ہیں۔ چناں چہ یورپ یا امریکہ میں کوئی بھی غیر مسلم ''اللہ اکبر'' کے الفاظ سنے، تو اپنی جان بچانے کی خاطر دوڑ پڑتا ہے۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک اپنی تقریروں کے ذریعے غیر مسلموں پر زور دیتے ہیں کہ وہ حقیقی اسلام سے متعارف ہونے کے لیے قرآن پاک اور احادیث کا مطالعہ کریں۔ دور جدید کے مسلمانوں کو دیکھ کراسلام کے بارے میں غلط تصّورات قائم نہ کریں۔ یہ بات تو ایسے ہی ہے کہ مرسڈیز چلانے والا ڈرائیور حادثہ کر بیٹھے، تو کار کو مورالزام ٹھہرایا جائے۔ حالانکہ حادثے کا قصور وار تو ڈرائیور ہوتا ہے۔ ڈاکٹر ذاکر کے نزدیک مسلمانوں میں بہترین اور مثالی مسلمان رحمت العالمین، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔
مغربی میڈیا کا ایک اور طریق واردات یہ ہے کہ وہ سیاق و سباق کا حوالہ دیئے بغیر قرآن وحدیث سے ایسے اقتباسات دیتا ہے جو اسلام کو جنگجو اور متشدد مذہب بناکر پیش کریں۔ مثال کے طور پر سورہ توبہ آیت 9 اکثر نمایاں کی جاتی ہے جس میں آیا ہے کہ جہاں کسی کافر کو پاؤ، اسے قتل کردو۔مگر یہ ایک جنگی اصول ہے، کوئی عام حکم نہیں... دین اسلام میں امن و سلامتی کو جنگ پر ترجیح دی گئی ہے۔