عوام کا استحصال
ہمارے حکمران و سیاست دان عوام کا استحصال کر رہے ہیں جس کی ایک مثال کراچی الیکٹرک ہے
ISLAMABAD:
ایک خبر ہے کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کا مالی بحران شدت اختیارکر گیا ہے۔ بلدیہ کو تنخواہوں اور پنشن کی مد میں ہر ماہ ساڑھے نو کروڑ روپے کمی کا سامنا ہے جب کہ یوٹیلٹی بلز، اسپتالوں اور ادویات کی فراہمی، جانوروں کی خوراک کی فراہمی کا مسئلہ اس کے علاوہ ہے جس کے باعث ادارے نے سفاری پارک میں موجود 12 اونٹوں اور 15 گھوڑوں کو بیچنے کا فیصلہ کیا ہے جب کہ گدھے بعد میں فروخت کیے جائیںگے۔ حالات کے سردوگرم سے نبرد آزما بلدیہ عظمیٰ کراچی نے شاید تمام مسائل سے جان چھڑانے اور ان کا سامنا کرنے کے بجائے گھوڑے بیچ کرسونے کا فیصلہ کر لیا ہے، ویسے بھی ملک میں نجکاری کے نام پر تمام منافع بخش ادارے فروخت کیے جا رہے ہیں۔ شاید ہمارے حکمراں گھوڑے بیچ کر سونے والے محاورے پر عمل پیرا ہیں۔
ایک اور خبر ہے کہ خسارہ زدہ اسٹیل ملز کے گیس کے واجبات 40 ارب روپے سے تجاوزکرگئے ہیں۔ چیئرمین نج کاری کمیشن نے قوم کو یہ نوید سنائی ہے کہ مل کے اثاثے واجبات کی شکل اختیار کر گئے ہیں اور مل اس کو دیا جائے گا جو پہلے سوئی گیس کے 40 ارب روپے کے واجبات ادا کرے گا۔ انھوں نے اسٹیل ملزکو چلانے کے لیے حکومت کی طرف سے کسی بیل آؤٹ پیکیج کے امکان کو بھی مسترد کر دیا۔ اسٹیل ملز کی حالت یہ ہے کہ اس کے تمام کارخانے کئی ماہ سے مکمل طور پر بند ہیں۔ ملازمین کو چھ چھ ماہ تنخواہیں نہیں ملتی ہیں۔ ان کی اکثر مراعات ختم کر دی گئیں، علاج کے لیے سہولیات ختم کی جا چکی ہیں۔
30 سال پہلے پیداوار شروع کرنے والے ادارے کے ملازمین کی بڑی تعداد ریٹائر ہو چکی ہے بقیہ ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ چکی ہے۔ ان ملازمین کو کہیں اور روزگار ملنے کے مواقعے بند ہیں، شدید ذہنی دباؤ کے باعث ملازمین کی اموات کی شرح بڑھ گئی ہے۔ ریٹائرڈ ملازمین سالوں سے اپنے واجبات کے لیے ایڑیاں رگڑنے پر مجبور ہیں، فولادی صنعت کسی بھی ملک میں صنعتوں کی ماں کہلاتی ہے۔ ان سے منافعے کی توقع نہیں کی جاتی بلکہ دیگر صنعتوں کے فروغ کے لیے اس صنعت کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے مگر ہمارے ملک میں اسٹیل ملز کو ہر دور میں ذاتی سیاسی مفادات کی خاطر تباہی سے دو چار کیا گیا، اور سیاسی مداخلت کی وجہ سے آج اسٹیل ملز اس مقام پر پہنچ چکا ہے جہاں اس کے جانبر ہونے کے امکانات معدوم ہیں۔ حالانکہ 5 ارب روپے سالانہ سے زائد ٹیکس ادا کرنے والا یہ ادارہ اپنی لاگت سے کہیں زیادہ رقم حکومت کو ٹیکسز کی مد میں لوٹا چکا ہے۔
سوال یہ ہے کہ بلدیہ عظمیٰ سفاری پارک میں موجود 12 اونٹوں اور 15 گھوڑوں کو فروخت کر کے اپنے مالی بحران پر قابو پا لے گی؟ جس کے پاس نہ ملازمین کو تنخواہیں اور پنشن دینے کے لیے پیسے ہیں نہ یوٹیلٹی بلز اور ادویات فراہم کرنے کے لیے۔ گاڑیاں ورکشاپس میں کھڑی ہونے کی وجہ سے ڈینگی اسپرے کی مہم تک تعطل کا شکار ہے اور کروڑوں روپے کی ادویات میعاد ختم ہونے پر ضایع ہو رہی ہیں۔ کروڑوں کی صحت کو خطرات لاحق ہیں۔ ڈینگی،کانگو اور نگلیریا سے اموات بھی واقع ہو رہی ہیں۔
ہمارے حکمران و سیاست دان عوام کا استحصال کر رہے ہیں جس کی ایک مثال کراچی الیکٹرک ہے جو شہریوں کا بے دریغ استحصال کرنے میں مشغول ہے۔ نیپرا بھی کے ای کے خلاف تحقیقات کر رہی ہے۔ جس میں کے ای کے دس سالہ ٹیرف کے حوالے سے کراچی کی نمایندگی کرنے اور انھیں ریلیف پہنچانے کے لیے جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمن کی بطور فریق بننے کی درخواست منظور کر لی گئی ہے۔ نعیم الرحمن کا موقف ہے کہ کے ای کا 40 ارب روپے سے زائد کا منافع کراچی کے لوگوں سے جبری بھتہ وصولی ہے جس کی بنیاد اضافی میٹر ریڈنگ کے ذریعے زائد بلز اور غیر اعلانیہ طویل لوڈ شیڈنگ کے ذریعے لوٹ مار کا عمل ہے۔
بجلی کے معاملات و تنازعات کے حل کے لیے چیف الیکٹریکل انسپکٹر سندھ کا ادارہ قائم ہے جہاں شہری کے ای سے متعلق شکایات کے لیے رجوع کرتے ہیں مگر حال ہی میں ہمارے حکمرانوں نے سندھ اسمبلی سے ایک قانون پاس کر دیا ہے جس کے تحت اب کسی بھی شکایت کنندہ کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ شکایتی درخواست کے ہمراہ متنازعہ بل کی آدھی مالیت کے مساوی رقم کا پے آرڈر بنام الیکٹریکل انسپکٹر حکومت سندھ منسلک کرے گا۔ اگر فیصلہ شکایت کنندہ صارف کے حق میں ہو جائے تو اس کو جمع کرائی گئی رقم کی ادائیگی کے ای کے اپیل کی مدت گزر جانے کے بعد واپس کی جاتی ہے جس کے لیے شکایت کنندہ کو بخشش اور مٹھائی کے نام پر رقم ادا کرنی پڑتی ہے۔ وکیل کرے تو اس کی فیس بھی ادا کرنی پڑتی ہے۔
ایسے محکموں میں غریب و نادار بیواؤں کو منت سماجت اور بین کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ راقم نے تو جوان لوگوں کو بھی آنسووں سے روتا دیکھا ہے جو جائز بل ادا کرنا چاہتے ہیں مگر ان کی سکت سے زائد ناجائز بل بھیج کر انھیں رونے و گڑگڑانے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ ایسے مناظر دیکھ کر دل کانپ اٹھتا ہے۔ ارباب اقتدار و اختیار اپنے جائز و ناجائز مفادات کی بندربانٹ میں جتے رہتے ہیں اپنا پروٹوکول اپنا استحقاق واختیارات انھیں سب سے زیادہ عزیز ہیں اس کے لیے وہ ہر سیاسی سوچ اور نظریہ سے بالاتر ایک نظر آتے ہیں۔ اپنی تنخواہیں اور مراعات بڑھانے کے معاملے میں ان میں کوئی اختلاف رائے نہیں پایا جاتا۔
گزشتہ دنوں سپریم کورٹ نے حکومت سے سوال کیا کہ ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈکس قانون کے تحت بانٹے جاتے ہیں؟ ان کاکام ترقیاتی منصوبے بنانا نہیں بلکہ قانون سازی کرنا ہے۔ بدقسمتی سے ہماری حکومتیں یا توآرڈیننسوں سے کام چلاتی ہیں یا پھر وقتی، نمائشی و تفریحی اور مفادات پر مبنی قانون سازی کی جاتی ہے جس کے مثبت نتائج نہیں نکلتے، اپنے اختیارات کیسے بڑھائے جائیں، دوسروں کے کیسے کم کیے جائیں، دوسروں کی اچھائی پر پانی پھیر کر اپنی خرابیوں اورکوتاہیوں کو کیسے کارنامے بنا کر پیش کیے جائیں، حکمرانوں اور سیاست دانوں اور ان کے حاشیہ نویسوں اور خوشامدیوں کی تمام صلاحیتیں اور توانائیاں اسی عمل میں صرف ہوتی ہیں اسی لیے گٹر کے ڈھکن پر سیاست کرنے والے شخص کو سادہ لوح افراد اپنا مسیحا و نجات دھندہ سمجھنے لگتے ہیں۔
بیڈ گورننس کی وجہ سے عروس البلاد کراچی کے باسی بجلی، پانی، گیس کے بحران میں مبتلا ہیں، شہر میں ٹینکر مافیا، لینڈ مافیا، بلڈرمافیا، اغوا، تاوان، بھتہ گیری، قتل وغارت گری کرنے والے دہشتگرد دندناتے پھر رہے ہیں چنگ چی زدہ شہر میں صحت وصفائی کی سہولیات ماضی کی داستان بن چکی ہیں۔ پولیس بے بس، ناکام ہے رینجرزکو اختیارات دینے یا نہ دینے پر بحث چل رہی ہے۔ خوفزدہ تاجر رینجرز کو اختیارات نہ دینے کی صورت میں وزیراعلیٰ ہاؤس کے گھیراؤکی دھمکی دے رہے ہیں۔ غرض ہر طرف افراتفری، لاقانونیت اور غیریقینی صورتحال ہے اس سے جو فضا اور جذبات پروان چڑھ رہے ہیں اور جو نفسیاتی عوارض اور رد عمل جنم لے رہے ہیں بڑے خطرناک ہیں ان کوکوئی بھی اندرونی و بیرونی قوت باآسانی کوئی بھی رخ دے سکتی ہے۔
ایک خبر ہے کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کا مالی بحران شدت اختیارکر گیا ہے۔ بلدیہ کو تنخواہوں اور پنشن کی مد میں ہر ماہ ساڑھے نو کروڑ روپے کمی کا سامنا ہے جب کہ یوٹیلٹی بلز، اسپتالوں اور ادویات کی فراہمی، جانوروں کی خوراک کی فراہمی کا مسئلہ اس کے علاوہ ہے جس کے باعث ادارے نے سفاری پارک میں موجود 12 اونٹوں اور 15 گھوڑوں کو بیچنے کا فیصلہ کیا ہے جب کہ گدھے بعد میں فروخت کیے جائیںگے۔ حالات کے سردوگرم سے نبرد آزما بلدیہ عظمیٰ کراچی نے شاید تمام مسائل سے جان چھڑانے اور ان کا سامنا کرنے کے بجائے گھوڑے بیچ کرسونے کا فیصلہ کر لیا ہے، ویسے بھی ملک میں نجکاری کے نام پر تمام منافع بخش ادارے فروخت کیے جا رہے ہیں۔ شاید ہمارے حکمراں گھوڑے بیچ کر سونے والے محاورے پر عمل پیرا ہیں۔
ایک اور خبر ہے کہ خسارہ زدہ اسٹیل ملز کے گیس کے واجبات 40 ارب روپے سے تجاوزکرگئے ہیں۔ چیئرمین نج کاری کمیشن نے قوم کو یہ نوید سنائی ہے کہ مل کے اثاثے واجبات کی شکل اختیار کر گئے ہیں اور مل اس کو دیا جائے گا جو پہلے سوئی گیس کے 40 ارب روپے کے واجبات ادا کرے گا۔ انھوں نے اسٹیل ملزکو چلانے کے لیے حکومت کی طرف سے کسی بیل آؤٹ پیکیج کے امکان کو بھی مسترد کر دیا۔ اسٹیل ملز کی حالت یہ ہے کہ اس کے تمام کارخانے کئی ماہ سے مکمل طور پر بند ہیں۔ ملازمین کو چھ چھ ماہ تنخواہیں نہیں ملتی ہیں۔ ان کی اکثر مراعات ختم کر دی گئیں، علاج کے لیے سہولیات ختم کی جا چکی ہیں۔
30 سال پہلے پیداوار شروع کرنے والے ادارے کے ملازمین کی بڑی تعداد ریٹائر ہو چکی ہے بقیہ ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ چکی ہے۔ ان ملازمین کو کہیں اور روزگار ملنے کے مواقعے بند ہیں، شدید ذہنی دباؤ کے باعث ملازمین کی اموات کی شرح بڑھ گئی ہے۔ ریٹائرڈ ملازمین سالوں سے اپنے واجبات کے لیے ایڑیاں رگڑنے پر مجبور ہیں، فولادی صنعت کسی بھی ملک میں صنعتوں کی ماں کہلاتی ہے۔ ان سے منافعے کی توقع نہیں کی جاتی بلکہ دیگر صنعتوں کے فروغ کے لیے اس صنعت کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے مگر ہمارے ملک میں اسٹیل ملز کو ہر دور میں ذاتی سیاسی مفادات کی خاطر تباہی سے دو چار کیا گیا، اور سیاسی مداخلت کی وجہ سے آج اسٹیل ملز اس مقام پر پہنچ چکا ہے جہاں اس کے جانبر ہونے کے امکانات معدوم ہیں۔ حالانکہ 5 ارب روپے سالانہ سے زائد ٹیکس ادا کرنے والا یہ ادارہ اپنی لاگت سے کہیں زیادہ رقم حکومت کو ٹیکسز کی مد میں لوٹا چکا ہے۔
سوال یہ ہے کہ بلدیہ عظمیٰ سفاری پارک میں موجود 12 اونٹوں اور 15 گھوڑوں کو فروخت کر کے اپنے مالی بحران پر قابو پا لے گی؟ جس کے پاس نہ ملازمین کو تنخواہیں اور پنشن دینے کے لیے پیسے ہیں نہ یوٹیلٹی بلز اور ادویات فراہم کرنے کے لیے۔ گاڑیاں ورکشاپس میں کھڑی ہونے کی وجہ سے ڈینگی اسپرے کی مہم تک تعطل کا شکار ہے اور کروڑوں روپے کی ادویات میعاد ختم ہونے پر ضایع ہو رہی ہیں۔ کروڑوں کی صحت کو خطرات لاحق ہیں۔ ڈینگی،کانگو اور نگلیریا سے اموات بھی واقع ہو رہی ہیں۔
ہمارے حکمران و سیاست دان عوام کا استحصال کر رہے ہیں جس کی ایک مثال کراچی الیکٹرک ہے جو شہریوں کا بے دریغ استحصال کرنے میں مشغول ہے۔ نیپرا بھی کے ای کے خلاف تحقیقات کر رہی ہے۔ جس میں کے ای کے دس سالہ ٹیرف کے حوالے سے کراچی کی نمایندگی کرنے اور انھیں ریلیف پہنچانے کے لیے جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمن کی بطور فریق بننے کی درخواست منظور کر لی گئی ہے۔ نعیم الرحمن کا موقف ہے کہ کے ای کا 40 ارب روپے سے زائد کا منافع کراچی کے لوگوں سے جبری بھتہ وصولی ہے جس کی بنیاد اضافی میٹر ریڈنگ کے ذریعے زائد بلز اور غیر اعلانیہ طویل لوڈ شیڈنگ کے ذریعے لوٹ مار کا عمل ہے۔
بجلی کے معاملات و تنازعات کے حل کے لیے چیف الیکٹریکل انسپکٹر سندھ کا ادارہ قائم ہے جہاں شہری کے ای سے متعلق شکایات کے لیے رجوع کرتے ہیں مگر حال ہی میں ہمارے حکمرانوں نے سندھ اسمبلی سے ایک قانون پاس کر دیا ہے جس کے تحت اب کسی بھی شکایت کنندہ کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ شکایتی درخواست کے ہمراہ متنازعہ بل کی آدھی مالیت کے مساوی رقم کا پے آرڈر بنام الیکٹریکل انسپکٹر حکومت سندھ منسلک کرے گا۔ اگر فیصلہ شکایت کنندہ صارف کے حق میں ہو جائے تو اس کو جمع کرائی گئی رقم کی ادائیگی کے ای کے اپیل کی مدت گزر جانے کے بعد واپس کی جاتی ہے جس کے لیے شکایت کنندہ کو بخشش اور مٹھائی کے نام پر رقم ادا کرنی پڑتی ہے۔ وکیل کرے تو اس کی فیس بھی ادا کرنی پڑتی ہے۔
ایسے محکموں میں غریب و نادار بیواؤں کو منت سماجت اور بین کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ راقم نے تو جوان لوگوں کو بھی آنسووں سے روتا دیکھا ہے جو جائز بل ادا کرنا چاہتے ہیں مگر ان کی سکت سے زائد ناجائز بل بھیج کر انھیں رونے و گڑگڑانے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ ایسے مناظر دیکھ کر دل کانپ اٹھتا ہے۔ ارباب اقتدار و اختیار اپنے جائز و ناجائز مفادات کی بندربانٹ میں جتے رہتے ہیں اپنا پروٹوکول اپنا استحقاق واختیارات انھیں سب سے زیادہ عزیز ہیں اس کے لیے وہ ہر سیاسی سوچ اور نظریہ سے بالاتر ایک نظر آتے ہیں۔ اپنی تنخواہیں اور مراعات بڑھانے کے معاملے میں ان میں کوئی اختلاف رائے نہیں پایا جاتا۔
گزشتہ دنوں سپریم کورٹ نے حکومت سے سوال کیا کہ ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈکس قانون کے تحت بانٹے جاتے ہیں؟ ان کاکام ترقیاتی منصوبے بنانا نہیں بلکہ قانون سازی کرنا ہے۔ بدقسمتی سے ہماری حکومتیں یا توآرڈیننسوں سے کام چلاتی ہیں یا پھر وقتی، نمائشی و تفریحی اور مفادات پر مبنی قانون سازی کی جاتی ہے جس کے مثبت نتائج نہیں نکلتے، اپنے اختیارات کیسے بڑھائے جائیں، دوسروں کے کیسے کم کیے جائیں، دوسروں کی اچھائی پر پانی پھیر کر اپنی خرابیوں اورکوتاہیوں کو کیسے کارنامے بنا کر پیش کیے جائیں، حکمرانوں اور سیاست دانوں اور ان کے حاشیہ نویسوں اور خوشامدیوں کی تمام صلاحیتیں اور توانائیاں اسی عمل میں صرف ہوتی ہیں اسی لیے گٹر کے ڈھکن پر سیاست کرنے والے شخص کو سادہ لوح افراد اپنا مسیحا و نجات دھندہ سمجھنے لگتے ہیں۔
بیڈ گورننس کی وجہ سے عروس البلاد کراچی کے باسی بجلی، پانی، گیس کے بحران میں مبتلا ہیں، شہر میں ٹینکر مافیا، لینڈ مافیا، بلڈرمافیا، اغوا، تاوان، بھتہ گیری، قتل وغارت گری کرنے والے دہشتگرد دندناتے پھر رہے ہیں چنگ چی زدہ شہر میں صحت وصفائی کی سہولیات ماضی کی داستان بن چکی ہیں۔ پولیس بے بس، ناکام ہے رینجرزکو اختیارات دینے یا نہ دینے پر بحث چل رہی ہے۔ خوفزدہ تاجر رینجرز کو اختیارات نہ دینے کی صورت میں وزیراعلیٰ ہاؤس کے گھیراؤکی دھمکی دے رہے ہیں۔ غرض ہر طرف افراتفری، لاقانونیت اور غیریقینی صورتحال ہے اس سے جو فضا اور جذبات پروان چڑھ رہے ہیں اور جو نفسیاتی عوارض اور رد عمل جنم لے رہے ہیں بڑے خطرناک ہیں ان کوکوئی بھی اندرونی و بیرونی قوت باآسانی کوئی بھی رخ دے سکتی ہے۔