سانحۂ بلدیہ ٹائون۔۔۔ متاثرہ خواتین سے جُڑے المیے
امداد کی رقم اتنی نہیں کہ جس سے اپنا مکان بھی لے سکیں، اور وہ رقم بھی آہستہ آہستہ گھریلو اخرجات کی نذر ہو رہی ہے
ٹوٹی کھڑکیوں سے نکلتے افقی سیاہ نشان 11ستمبر 2012ء کو بھڑک اٹھنے والی خوف ناک آگ کا پتا دے رہے تھے۔۔۔ بیرونی دیوار کے ساتھ ادھ جلے کپڑوں کے ڈھیر لگے تھے۔۔۔ مختلف تنظیموں کی جانب سے متاثرین سے اظہار یک جہتی کے لیے رکھے گئے پھولوں کے انبار پڑے پڑے سیاہی مائل ہو چکے۔۔۔ رنگ برنگی اور نرم ونازک پنکھڑیاں مرجھا کر اب کسی لڑی میں الجھے ہوئے بوسیدہ برادے کی شکل میں موجود تھیں۔
کسی تازہ گل دستے یا پھول کی عدم موجودگی یہ بتا رہی تھی کہ شاید ملکی تاریخ کے خوف ناک ترین حادثے کو فراموش کر دیا گیا ہے۔ فیکٹری کے دروازے پر رکھا گیا کمیونٹی پولیس کا کنٹینر ذرا کھسکا دیا گیا تھا۔ عدالتی حکم پر سیل رہنے والی علی انٹرپرائزز کھول دی گئی ہے۔ لگ بھگ 300 جانوں کا خوف ناک مقتل بننے والی یہ فیکٹری اب خاموشی میں ڈوبے کسی سنسان کھنڈر کا منظر پیش کر رہی ہے۔
جس کی بد ترین آگ نے ایک خوف ناک انسانی المیے کو جنم دیا، سیکڑوں ملازمین سے جڑے اس سانحے میں ایک بہت بڑی تعداد خواتین کی بھی ہے، نہ صرف وہ خواتین جو یہاں کام کر کے اپنے گھر کی کفالت میں اہم کردار ادا کر رہی تھیں، متاثر ہوئیں بلکہ بہت سی خواتین کی اگرچہ جان بچ گئی لیکن اب انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں، امداد کا محور اور مرکز بھی جان سے گزر جانے والوں کے گرد ہی رہا اور ان میں سے بھی وہ اس مدد سے محروم رہ گئے جن کے پیاروں کی میتیں اب تک شناخت ہی نہ کی جاسکی تھیں۔
فیکٹری میں کام کرنے والی خواتین کے اہل خانہ اور ان کے معاش سے جڑے لوگ ابتداً تو رفاحی تنظیموں اور مخیر حضرات کی طرف سے مدد کیے جاتے رہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ لوگ بھی پس منظر میں چلے گئے۔ روز نت نئی خبروں کے متلاشی مزاج نے اس بھیانک سانحے کے متاثرین کو تو محو کر ہی دیا ساتھ ہی ہر بڑے سانحے کی طرح وقت کی گرد پڑنے کے ساتھ حادثے کی وجوہات اور ذمہ داران کا معاملہ بھی سرد خانے کی نذر ہونے کا خدشہ ہے اور متاثرین کے نقصان کا ازالہ خاصا مشکل نظر آرہا ہے، اس سلسلے میں اگلی سطور میں چند خواتین اور ان سے نتھی الم ناک حقائق کا جائزہ لیا گیا ہے۔
مہاجر کیمپ نمبر 3 بلدیہ ٹائون کی رہایشی شہناز اپنی بیٹیوں رحیمہ اور دعا اور بیٹوں فرحان اور عمران کے ساتھ علی انٹرپرائزز میں کام کرتی تھیں۔ حادثے میں ان کا 22 سالہ بیٹا فرحان جاں بحق ہوا، جو فیکٹری میں کاری گر تھا، خوش قسمتی سے وہ اور ان کی دونون بیٹیاںحادثے کے روز چھٹی پر تھیں، چھوٹا بیٹا 19 سالہ عمران بھی کھانا کھانے گھر آیا اور رک گیا جس کی وجہ سے وہ حادثے سے بچ گئے۔ شوہر اکثرو بیشتر بے روزگار رہتے ہیں، اب ان کے پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ شہناز بھی حادثے کے بعد سے بے روزگار ہیں، کرائے کے مکان اور روزمرہ ضروریات کے لیے فقط ملنے والی امداد پر گزر بسر ہے۔
امداد کی رقم اتنی نہیں کہ جس سے اپنا مکان بھی لے سکیں، اور وہ رقم بھی آہستہ آہستہ گھریلو اخرجات کی نذر ہو رہی ہے۔ شہناز کا کہنا ہے حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنے بچوں کو پڑھا بھی نہ سکے اور ان کا بچپن اس فیکٹری میں کھپا دیا لیکن اس کے باوجود انہیں کیا صلہ ملا۔ ٹھیکے پر کام کے دوران ہفتے کے ساتوں دن گیارہ گیارہ گھنٹے کام کے باوجوداجرت پانچ ساڑھے پانچ ہزار ہی بن پاتی۔ متاثرین کے لیے کیا جانے والا راشن کا نظام بھی فقط ایک دو روز ہی چل سکا۔ اس کے بعد سب بھول گئے۔ شہناز کے مطابق جلنے والا حصہ زیادہ تر ٹھیکے داری نظام کے تحت تھا۔ یہ اور ان کی بیٹیاں بھی ٹھیکے پر کام کرتی تھیں جب کہ فرحان اور عمران تن خواہ پر تھے۔ حادثے کے بعد شہناز کا نہ صرف بڑا بیٹا جان سے گیا بلکہ وہ اور اس کے تین بچے بھی بے روزگار ہوگئے۔
شعلوں کی نذر ہونے والی نسرین ناز نے 8 سال قبل پسند کی شادی کی۔ وہ اپنے شوہر عبدالغنی عرف بابر کے ساتھ ایک عشرے سے زاید عرصے سے اس فیکٹری سے منسلک تھی۔ یہیں کام کے دوران یہ دونوں شادی کے بندھن میں بندھے۔ حادثے کے روز نسرین نے کھانے کی غرض سے گھر جانے والے شوہر کو فون کر کے آگ لگنے سے آگاہ کیا۔ بابر فوری طور پر فیکٹری پہنچا تو اس نے فیکٹری کو شعلوں میں گھرا ہوا پایا۔ بیوی کو فون کیا تو اس کا مصروف ملنے والا فون بھی بند ہوگیا۔ کافی جدوجہد کے بعد جب وہ اندر گیا مگر نسرین اس دار فانی سے کوچ کرچکی تھی۔ حادثے کے نتیجے میں نہ صرف نسرین جاں بحق ہوئی بلکہ اس کے ساتھ کام کرنے والا اس کا شوہر بھی بے روزگار ہو گیا۔ اس کی دو بیٹیاں مقدس اور زینب بالترتیب 5سال اور 8 ماہ کی ہیں۔ حادثے کو 3 ماہ ہونے کو ہیں لیکن اسے کہیں ملازمت نہیں مل سکی۔
ممتاز بی بی متاثرہ فیکٹری میں اسپیشل مشین آپریٹر تھیں۔ فیکٹری کی صورت حال کے حوالے سے انہوںنے بتایا کہ حادثے کے وقت انہوںنے یکے بعد دیگرے کئی دھماکے سنے جس کے بعد پتا چلا کے نیچے آگ لگ گئی ہے، اس کے بعد فیکٹری کارکنوں میں بھگدڑ مچ گئی اور کچھ لوگ سیڑھیوں کی طرف بھاگے لیکن پھر واپس نہ آ سکے۔ اس کے ساتھ پراسرار طور پر فیکٹری کی بالائی منزل پر بھی آگ بھڑک اٹھی، نچلی اور بالائی منزلوں پر آگ لگنے کے بعد لوگوں کی ایک بڑی تعداد اندر محصور ہو کر رہ گئی اور کمرے میں دھواں بھرنے لگا اور اب بچنے کا کوئی راستہ نہ تھا لہٰذا لوگوں نے جان بچانے کے لیے کھڑکی کا جال توڑ کر چھلانگ لگانا شروع کر دی۔
کھڑکیوں کے نیچے سخت پتھر، نالا اور جھاڑیاں تھیں، فیکٹری کی ایک معمر خاتون زیتون بی بی عرف نانی کھڑکی سے کودیں اور سر پر چوٹ لگنے کی وجہ سے انتقال کر گئیں۔ اس صورت حال میں ممتاز بی بی نے مایوس ہو کر گھر میں اپنی بیٹی کو فون کر کے کہہ دیا کہ فیکٹری میں آگ لگ گئی ہے اور اب میرے بچنے کا کوئی راستہ نہیں! لیکن خوش قسمتی سے فوری طور پر پہنچنے والے اہل محلہ نے انہیں رسے اور سیڑھی کی مدد سے بروقت نکال لیا، ان کی جان تو بچ گئی لیکن وہ دس برس سے اپنے ایک لگے بندھے روزگار سے گئیں، ممتاز بی بی کا کہنا ہے کہ جیسے تیسے ان کی جان تو بچ گئی لیکن 3 ماہ سے کوئی پرسان حال نہیں، شوہر کی بھی کوئی مستقل آمدنی نہیں، دو جوان بیٹیاں اور بیٹوں کا ساتھ ہے جب کہ بڑی بیوہ بہن کی کفالت بھی ان کے ذمے ہے جو کہ دل کی مریضہ ہیں، اور اب انہیں ان کے علاج معالجے کے سلسلے میں شدید مسائل کا سامنا ہے۔
گھریلو مسائل کے باعث ان کے بچوں نے بھی پڑھائی ادھوری چھوڑ دی، دوسری طرف سانحے سے متاثر ہونے کے بعد ان کا اپنا گزر بسر بھی مشکل ہوگیا ہے۔ چند سماجی اور سیاسی تنظیموں کی جانب سے تھوڑی بہت امداد کے نتیجے میں ان کی زندگی کی گاڑی کسی حد تک آگے بڑھی۔ کچھ محلے کے دکان داروں کی طرف سے ادھار پر راشن ملنے کی وجہ سے کسی کے آگے دست دراز کرنے کی نوبت نہیں آئی۔ حکومت کو سانحے سے متاثرہ ممتاز بی بی جیسی خواتین کے روزگار کے حوالے سے بھی کوئی موثر حکمت عملی طے کرنی چاہیے جو اپنے گھر کی کفالت میں بنیادی کردار ادا کر رہی تھیںاور اب بے روزگاری کے باعث شدید مسائل سے دوچار ہیں۔
سانحۂ بلدیہ میں جاں بحق ہونے والی رباب، سمیرا اور صبا سگی بہنیں تھیں، جن کی عمریں بالترتیب 18، 19اور 20 سال تھیں، ان کی چچا زاد 25 سالہ زویا، سگا بھائی 23 سالہ اعجاز علی کے علاوہ پھوپھی رفیق النسا بھی اس سانحے کی نذر ہوگئیں۔ یہ خاندان اس حوالے سے بھی بد قسمت رہا کہ جاں بحق 6 افراد میں سے فقط زویا کی میت ہی شناخت کی جاسکی جب کہ باقی 5 افراد بدستور لاپتا ہیں۔ دوسری طرف ایدھی سرد خانے میں 28 نامعلوم سوختہ لاشیں تاحال ڈی این اے ٹیسٹ کی منتظر ہیں۔
سمیرا، صبا اور رباب کے والد سید عظمت علی کا کہنا ہے کہ ایک طرف ان کا خاندان اجڑ گیا، دوسری طرف اسلام آباد سے ڈی این اے کے نتائج آنے میں تاخیر ہو رہی ہے جب کہ یہ خدشہ بھی موجود ہے کہ کہیں ان کی 3 بیٹیوں، ایک بیٹے اور بہن کی ناقابل شناخت نعشیں کسی اور نے نہ دفنا دی ہو، کیوں کہ ڈی این اے کے منتظر بہت سے خاندانوں نے نتائج آنے سے قبل ہی سرد خانوں سے اپنے پیاروں کی نعشیں اپنے طور پر پہچان کر دفنا دی ہیں، جس کی وجہ سے ہم اس وقت دہری تہری اذیت سے دوچار ہیں۔
سانحے نے ہمارے بھرے پرے گھر کو ویران کرنے کے ساتھ معاشی طور پر بھی شدید مشکلات سے دو چار کر دیا، اوپر سے ہمیں اب تک لاشیں بھی نہ مل سکیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر معاملے کی تحقیقات کر کے فوری طور پر ہمیں ہمارے بچوں اور بہن کی نعش دلوائے۔ سانحہ میں جاں بحق عظمت علی کی ہمشیرہ 52 سالہ رفیق النسا بھی اپنے گھر کی کفالت میں اہم کردار ادا کرتی تھیں، ان کے شوہر شمشاد گردوں کی بیماری کی وجہ سے محنت مزدوری کرنے سے قاصر ہیں۔
اپنے چچا عظمت علی کے یہاں پلنے بڑھنے والی زویا اس بدقسمت خاندان کے 6 افراد میں سے واحد لڑکی ہے، جس کی نعش کی شناخت ممکن ہو سکی، لیکن اس کے لواحقین کے مطابق دیگر جاں بحق افراد کے برعکس زویا کی امدادی رقم تاحال نہیں مل سکی۔ دوسری طرف اس کی امداد کے حوالے سے بھی نزاعی صورت حال پیدا ہونے کا اندیشہ ہے، چوں کہ زویا کم سنی ہی سے دادی اور پھر چچا عظمت علی (جو کہ اس کے سگے خالو بھی ہیں) کے ہاں رہ رہی تھی، جب کہ اس کے حقیقی والدین حشمت علی اور شاہدہ کوٹری میں ہیں اور ان کے تعلقات اپنے بھائی عظمت علی سے اچھے نہیں۔
علی انٹرپرائزز میں اسٹچنگ کا کام کرنے والی اورنگی ٹائون کی رہائشی فرزانہ بھی اپنے اکلوتے بھائی شاہ نواز کے ساتھ اس اندوہ ناک واقعے کے نتیجے میں زندگی ہار گئی۔ ابتداً فرزانہ اور شاہ نواز کے علاوہ دیگر دو بہنیں شبانہ اور ریشماں بھی اس فیکٹری میں کام کرتی تھیں، تاہم ماں کی معذوری اور بوڑھے والد کی علالت کے باعث یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا۔ یوں فرزانہ اپنے اکلوتے بھائی کے شانہ بشانہ گھر کی کفالت میں اہم کردار ادا کر رہی تھی۔ سانحۂ بلدیہ میں دو بچوں کے دنیا سے جانے کے بعد بیمار والدین پر نہ صرف مصائب و آلام کے پہاڑ ٹوٹ پڑے بلکہ معاشی طور پر بھی شدید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
شبانہ اور ریشماں اب گھر میں ہی محدود پیمانے پر اسٹچنگ کا کام کر کے زندگی کی گاڑی جیسے تیسے آگے دھکیل رہی ہیں۔ ان کے والد ٹی بی کی بیماری میں مبتلا ہیں، دو بچوں کی ہلاکت نے انہیں دل کا مریض بھی بنا دیا ہے۔ ایک طرف پہلے ہی گزر اوقات مشکل تر ہوگئی تو دوسری طرف والدین کے علاج کی خاطر بعض اوقات نوبت فاقوں تک آجاتی ہے، باقاعدہ روزگار اور کسی کفیل سے محروم گھر کی فقط امدادی رقم سے کب تک گزر اوقات ہو گی۔
ریشماں اور شبانہ کو واقعے کے ذمہ داران کے حوالے سے انصاف کی امید نہیں، ان کا کہنا ہے کہ ان کا اکلوتا بھائی اور ایک بہن دنیا سے چلے گئے لیکن مالکان کو آنچ تک نہ آئی اور نہ ہی انہوںنے کبھی پلٹ کر اس حادثے کے نتیجے میں متاثر ہونے والوں کی کوئی خبر لی جب کہ دیگر لوگوں نے بھی وقت گزرنے کے ساتھ متاثرین اور ان کے گھر والوں کو فراموش کر دیا۔ اس سانحے میں فیکٹری نہیں بلکہ ہمارا گھر جل گیا۔ اس کے ذمہ دارن کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے اور اس کی متاثرہ خواتین کی بحالی کے لیے مستقل بنیادوں پر کوئی حکمت عملی طے ہونی چاہیے۔
ایک فون کال آئی اور پھر۔۔۔
سانحے کے بعد بے روزگار ہونے والی خواتین کے مسائل جاننے کے بعد جب ہم نے فیکٹری میں کام کی بحالی کے حوالے سے جاننے کے لیے فیکٹری کا دورہ کیا تو بظاہر فوری بحالی کے کوئی آثار نہیں دکھائی دیے۔ اس موقع پر موجود ملازم سلیم نے بتایا کہ مالکان کی طرف سے اسے صرف فیکٹری کھولنے کا کہا گیا لہٰذا اس نے حکم کی تعمیل کی۔ تاہم کام کی بحالی کا اسے کچھ علم نہیں، ابھی اس سے گفت گو جاری تھی کہ اسے ایک فون کال موصول ہوئی' جسے سننے کے بعد اس نے ہم سے مزید بات کرنے سے معذرت کرلی۔
خوف ناک آگ بھی رشتوں کی سرد مہری ختم نہ کر سکی!
ملکی تاریخ کی بد ترین آگ نے جہاں ایک ایک گھر کے کئی کئی افراد کو جلا کر بھسم کیا وہیں بد ترین معاشرتی بے حسی بھی سامنے آئی۔ بھیانک شعلوں نے عظمت علی کے بد نصیب خاندان کے 6 افراد کو نگل لیا جس میں اس کی 3 سگی بیٹیاں، ایک بیٹا اور سگی بہن کے علاوہ بھتیجی زویا بھی شامل ہے جو کہ بچپن سے ان ہی کے ہاں بیٹیوں کی طرح رہتی تھی، دوسری طرف عظمت کی سلہج اور اس کا بھائی بھی اس بے رحم آگ کی نذر ہوا۔
بدقسمتی کے ساتھ افسوس ناک بے حسی کا پہلو یہ ہے کہ اس قیامت کی سی صورت حال کے باوجود عظمت کے اپنے سالے بابر اور سگے بھائی حشمت سے سرد مہری کے شکار تعلقات میں کسی قسم کی گرم جوشی یا بحالی پیدا ہونے کے بجائے مزید فاصلے پیدا ہوگئے۔ دو طرفہ الزامات اور گلے شکوے پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گئے۔ زندگی کے رشتے ناتے خوشی منانے اور غم بانٹنے کا ہی تو نام ہے اگر خوشیوں میں ایک دوسرے کو فراموش کرنے کے بعد اب چٹان جیسے غموں پر بھی دل نہ پسیجے تو اسے نرم سے نرم الفاظ میں بے حسی کی انتہا کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے!
''جب مما واپس آجائیں گی۔۔۔!'' ننھی مقدس کو ماں کے لوٹ آنے کی امید!
نسرین ناز کی 5 سالہ بیٹی مقدس کو آج بھی اپنی ماں کے واپس آنے کی آس ہے۔ اس کے والد عبدالغنی عرف بابر کا کہنا ہے کہ ننھی مقدس ماں کو یاد کرتی ہے تو میں اسے بتاتا ہوں کہ مما حج پر گئی ہوئی ہیں اور اب میں ہی تمہاری مما بھی ہوں اور تمہارا پپا بھی۔۔۔! جواب میں مقدس کہتی ہے کہ ''ہاں ٹھیک ہے لیکن جب مما واپس آجائیں گی تو آپ پھر سے صرف پپا بن جائیں گے!''
کسی تازہ گل دستے یا پھول کی عدم موجودگی یہ بتا رہی تھی کہ شاید ملکی تاریخ کے خوف ناک ترین حادثے کو فراموش کر دیا گیا ہے۔ فیکٹری کے دروازے پر رکھا گیا کمیونٹی پولیس کا کنٹینر ذرا کھسکا دیا گیا تھا۔ عدالتی حکم پر سیل رہنے والی علی انٹرپرائزز کھول دی گئی ہے۔ لگ بھگ 300 جانوں کا خوف ناک مقتل بننے والی یہ فیکٹری اب خاموشی میں ڈوبے کسی سنسان کھنڈر کا منظر پیش کر رہی ہے۔
جس کی بد ترین آگ نے ایک خوف ناک انسانی المیے کو جنم دیا، سیکڑوں ملازمین سے جڑے اس سانحے میں ایک بہت بڑی تعداد خواتین کی بھی ہے، نہ صرف وہ خواتین جو یہاں کام کر کے اپنے گھر کی کفالت میں اہم کردار ادا کر رہی تھیں، متاثر ہوئیں بلکہ بہت سی خواتین کی اگرچہ جان بچ گئی لیکن اب انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں، امداد کا محور اور مرکز بھی جان سے گزر جانے والوں کے گرد ہی رہا اور ان میں سے بھی وہ اس مدد سے محروم رہ گئے جن کے پیاروں کی میتیں اب تک شناخت ہی نہ کی جاسکی تھیں۔
فیکٹری میں کام کرنے والی خواتین کے اہل خانہ اور ان کے معاش سے جڑے لوگ ابتداً تو رفاحی تنظیموں اور مخیر حضرات کی طرف سے مدد کیے جاتے رہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ لوگ بھی پس منظر میں چلے گئے۔ روز نت نئی خبروں کے متلاشی مزاج نے اس بھیانک سانحے کے متاثرین کو تو محو کر ہی دیا ساتھ ہی ہر بڑے سانحے کی طرح وقت کی گرد پڑنے کے ساتھ حادثے کی وجوہات اور ذمہ داران کا معاملہ بھی سرد خانے کی نذر ہونے کا خدشہ ہے اور متاثرین کے نقصان کا ازالہ خاصا مشکل نظر آرہا ہے، اس سلسلے میں اگلی سطور میں چند خواتین اور ان سے نتھی الم ناک حقائق کا جائزہ لیا گیا ہے۔
مہاجر کیمپ نمبر 3 بلدیہ ٹائون کی رہایشی شہناز اپنی بیٹیوں رحیمہ اور دعا اور بیٹوں فرحان اور عمران کے ساتھ علی انٹرپرائزز میں کام کرتی تھیں۔ حادثے میں ان کا 22 سالہ بیٹا فرحان جاں بحق ہوا، جو فیکٹری میں کاری گر تھا، خوش قسمتی سے وہ اور ان کی دونون بیٹیاںحادثے کے روز چھٹی پر تھیں، چھوٹا بیٹا 19 سالہ عمران بھی کھانا کھانے گھر آیا اور رک گیا جس کی وجہ سے وہ حادثے سے بچ گئے۔ شوہر اکثرو بیشتر بے روزگار رہتے ہیں، اب ان کے پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ شہناز بھی حادثے کے بعد سے بے روزگار ہیں، کرائے کے مکان اور روزمرہ ضروریات کے لیے فقط ملنے والی امداد پر گزر بسر ہے۔
امداد کی رقم اتنی نہیں کہ جس سے اپنا مکان بھی لے سکیں، اور وہ رقم بھی آہستہ آہستہ گھریلو اخرجات کی نذر ہو رہی ہے۔ شہناز کا کہنا ہے حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنے بچوں کو پڑھا بھی نہ سکے اور ان کا بچپن اس فیکٹری میں کھپا دیا لیکن اس کے باوجود انہیں کیا صلہ ملا۔ ٹھیکے پر کام کے دوران ہفتے کے ساتوں دن گیارہ گیارہ گھنٹے کام کے باوجوداجرت پانچ ساڑھے پانچ ہزار ہی بن پاتی۔ متاثرین کے لیے کیا جانے والا راشن کا نظام بھی فقط ایک دو روز ہی چل سکا۔ اس کے بعد سب بھول گئے۔ شہناز کے مطابق جلنے والا حصہ زیادہ تر ٹھیکے داری نظام کے تحت تھا۔ یہ اور ان کی بیٹیاں بھی ٹھیکے پر کام کرتی تھیں جب کہ فرحان اور عمران تن خواہ پر تھے۔ حادثے کے بعد شہناز کا نہ صرف بڑا بیٹا جان سے گیا بلکہ وہ اور اس کے تین بچے بھی بے روزگار ہوگئے۔
شعلوں کی نذر ہونے والی نسرین ناز نے 8 سال قبل پسند کی شادی کی۔ وہ اپنے شوہر عبدالغنی عرف بابر کے ساتھ ایک عشرے سے زاید عرصے سے اس فیکٹری سے منسلک تھی۔ یہیں کام کے دوران یہ دونوں شادی کے بندھن میں بندھے۔ حادثے کے روز نسرین نے کھانے کی غرض سے گھر جانے والے شوہر کو فون کر کے آگ لگنے سے آگاہ کیا۔ بابر فوری طور پر فیکٹری پہنچا تو اس نے فیکٹری کو شعلوں میں گھرا ہوا پایا۔ بیوی کو فون کیا تو اس کا مصروف ملنے والا فون بھی بند ہوگیا۔ کافی جدوجہد کے بعد جب وہ اندر گیا مگر نسرین اس دار فانی سے کوچ کرچکی تھی۔ حادثے کے نتیجے میں نہ صرف نسرین جاں بحق ہوئی بلکہ اس کے ساتھ کام کرنے والا اس کا شوہر بھی بے روزگار ہو گیا۔ اس کی دو بیٹیاں مقدس اور زینب بالترتیب 5سال اور 8 ماہ کی ہیں۔ حادثے کو 3 ماہ ہونے کو ہیں لیکن اسے کہیں ملازمت نہیں مل سکی۔
ممتاز بی بی متاثرہ فیکٹری میں اسپیشل مشین آپریٹر تھیں۔ فیکٹری کی صورت حال کے حوالے سے انہوںنے بتایا کہ حادثے کے وقت انہوںنے یکے بعد دیگرے کئی دھماکے سنے جس کے بعد پتا چلا کے نیچے آگ لگ گئی ہے، اس کے بعد فیکٹری کارکنوں میں بھگدڑ مچ گئی اور کچھ لوگ سیڑھیوں کی طرف بھاگے لیکن پھر واپس نہ آ سکے۔ اس کے ساتھ پراسرار طور پر فیکٹری کی بالائی منزل پر بھی آگ بھڑک اٹھی، نچلی اور بالائی منزلوں پر آگ لگنے کے بعد لوگوں کی ایک بڑی تعداد اندر محصور ہو کر رہ گئی اور کمرے میں دھواں بھرنے لگا اور اب بچنے کا کوئی راستہ نہ تھا لہٰذا لوگوں نے جان بچانے کے لیے کھڑکی کا جال توڑ کر چھلانگ لگانا شروع کر دی۔
کھڑکیوں کے نیچے سخت پتھر، نالا اور جھاڑیاں تھیں، فیکٹری کی ایک معمر خاتون زیتون بی بی عرف نانی کھڑکی سے کودیں اور سر پر چوٹ لگنے کی وجہ سے انتقال کر گئیں۔ اس صورت حال میں ممتاز بی بی نے مایوس ہو کر گھر میں اپنی بیٹی کو فون کر کے کہہ دیا کہ فیکٹری میں آگ لگ گئی ہے اور اب میرے بچنے کا کوئی راستہ نہیں! لیکن خوش قسمتی سے فوری طور پر پہنچنے والے اہل محلہ نے انہیں رسے اور سیڑھی کی مدد سے بروقت نکال لیا، ان کی جان تو بچ گئی لیکن وہ دس برس سے اپنے ایک لگے بندھے روزگار سے گئیں، ممتاز بی بی کا کہنا ہے کہ جیسے تیسے ان کی جان تو بچ گئی لیکن 3 ماہ سے کوئی پرسان حال نہیں، شوہر کی بھی کوئی مستقل آمدنی نہیں، دو جوان بیٹیاں اور بیٹوں کا ساتھ ہے جب کہ بڑی بیوہ بہن کی کفالت بھی ان کے ذمے ہے جو کہ دل کی مریضہ ہیں، اور اب انہیں ان کے علاج معالجے کے سلسلے میں شدید مسائل کا سامنا ہے۔
گھریلو مسائل کے باعث ان کے بچوں نے بھی پڑھائی ادھوری چھوڑ دی، دوسری طرف سانحے سے متاثر ہونے کے بعد ان کا اپنا گزر بسر بھی مشکل ہوگیا ہے۔ چند سماجی اور سیاسی تنظیموں کی جانب سے تھوڑی بہت امداد کے نتیجے میں ان کی زندگی کی گاڑی کسی حد تک آگے بڑھی۔ کچھ محلے کے دکان داروں کی طرف سے ادھار پر راشن ملنے کی وجہ سے کسی کے آگے دست دراز کرنے کی نوبت نہیں آئی۔ حکومت کو سانحے سے متاثرہ ممتاز بی بی جیسی خواتین کے روزگار کے حوالے سے بھی کوئی موثر حکمت عملی طے کرنی چاہیے جو اپنے گھر کی کفالت میں بنیادی کردار ادا کر رہی تھیںاور اب بے روزگاری کے باعث شدید مسائل سے دوچار ہیں۔
سانحۂ بلدیہ میں جاں بحق ہونے والی رباب، سمیرا اور صبا سگی بہنیں تھیں، جن کی عمریں بالترتیب 18، 19اور 20 سال تھیں، ان کی چچا زاد 25 سالہ زویا، سگا بھائی 23 سالہ اعجاز علی کے علاوہ پھوپھی رفیق النسا بھی اس سانحے کی نذر ہوگئیں۔ یہ خاندان اس حوالے سے بھی بد قسمت رہا کہ جاں بحق 6 افراد میں سے فقط زویا کی میت ہی شناخت کی جاسکی جب کہ باقی 5 افراد بدستور لاپتا ہیں۔ دوسری طرف ایدھی سرد خانے میں 28 نامعلوم سوختہ لاشیں تاحال ڈی این اے ٹیسٹ کی منتظر ہیں۔
سمیرا، صبا اور رباب کے والد سید عظمت علی کا کہنا ہے کہ ایک طرف ان کا خاندان اجڑ گیا، دوسری طرف اسلام آباد سے ڈی این اے کے نتائج آنے میں تاخیر ہو رہی ہے جب کہ یہ خدشہ بھی موجود ہے کہ کہیں ان کی 3 بیٹیوں، ایک بیٹے اور بہن کی ناقابل شناخت نعشیں کسی اور نے نہ دفنا دی ہو، کیوں کہ ڈی این اے کے منتظر بہت سے خاندانوں نے نتائج آنے سے قبل ہی سرد خانوں سے اپنے پیاروں کی نعشیں اپنے طور پر پہچان کر دفنا دی ہیں، جس کی وجہ سے ہم اس وقت دہری تہری اذیت سے دوچار ہیں۔
سانحے نے ہمارے بھرے پرے گھر کو ویران کرنے کے ساتھ معاشی طور پر بھی شدید مشکلات سے دو چار کر دیا، اوپر سے ہمیں اب تک لاشیں بھی نہ مل سکیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر معاملے کی تحقیقات کر کے فوری طور پر ہمیں ہمارے بچوں اور بہن کی نعش دلوائے۔ سانحہ میں جاں بحق عظمت علی کی ہمشیرہ 52 سالہ رفیق النسا بھی اپنے گھر کی کفالت میں اہم کردار ادا کرتی تھیں، ان کے شوہر شمشاد گردوں کی بیماری کی وجہ سے محنت مزدوری کرنے سے قاصر ہیں۔
اپنے چچا عظمت علی کے یہاں پلنے بڑھنے والی زویا اس بدقسمت خاندان کے 6 افراد میں سے واحد لڑکی ہے، جس کی نعش کی شناخت ممکن ہو سکی، لیکن اس کے لواحقین کے مطابق دیگر جاں بحق افراد کے برعکس زویا کی امدادی رقم تاحال نہیں مل سکی۔ دوسری طرف اس کی امداد کے حوالے سے بھی نزاعی صورت حال پیدا ہونے کا اندیشہ ہے، چوں کہ زویا کم سنی ہی سے دادی اور پھر چچا عظمت علی (جو کہ اس کے سگے خالو بھی ہیں) کے ہاں رہ رہی تھی، جب کہ اس کے حقیقی والدین حشمت علی اور شاہدہ کوٹری میں ہیں اور ان کے تعلقات اپنے بھائی عظمت علی سے اچھے نہیں۔
علی انٹرپرائزز میں اسٹچنگ کا کام کرنے والی اورنگی ٹائون کی رہائشی فرزانہ بھی اپنے اکلوتے بھائی شاہ نواز کے ساتھ اس اندوہ ناک واقعے کے نتیجے میں زندگی ہار گئی۔ ابتداً فرزانہ اور شاہ نواز کے علاوہ دیگر دو بہنیں شبانہ اور ریشماں بھی اس فیکٹری میں کام کرتی تھیں، تاہم ماں کی معذوری اور بوڑھے والد کی علالت کے باعث یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا۔ یوں فرزانہ اپنے اکلوتے بھائی کے شانہ بشانہ گھر کی کفالت میں اہم کردار ادا کر رہی تھی۔ سانحۂ بلدیہ میں دو بچوں کے دنیا سے جانے کے بعد بیمار والدین پر نہ صرف مصائب و آلام کے پہاڑ ٹوٹ پڑے بلکہ معاشی طور پر بھی شدید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
شبانہ اور ریشماں اب گھر میں ہی محدود پیمانے پر اسٹچنگ کا کام کر کے زندگی کی گاڑی جیسے تیسے آگے دھکیل رہی ہیں۔ ان کے والد ٹی بی کی بیماری میں مبتلا ہیں، دو بچوں کی ہلاکت نے انہیں دل کا مریض بھی بنا دیا ہے۔ ایک طرف پہلے ہی گزر اوقات مشکل تر ہوگئی تو دوسری طرف والدین کے علاج کی خاطر بعض اوقات نوبت فاقوں تک آجاتی ہے، باقاعدہ روزگار اور کسی کفیل سے محروم گھر کی فقط امدادی رقم سے کب تک گزر اوقات ہو گی۔
ریشماں اور شبانہ کو واقعے کے ذمہ داران کے حوالے سے انصاف کی امید نہیں، ان کا کہنا ہے کہ ان کا اکلوتا بھائی اور ایک بہن دنیا سے چلے گئے لیکن مالکان کو آنچ تک نہ آئی اور نہ ہی انہوںنے کبھی پلٹ کر اس حادثے کے نتیجے میں متاثر ہونے والوں کی کوئی خبر لی جب کہ دیگر لوگوں نے بھی وقت گزرنے کے ساتھ متاثرین اور ان کے گھر والوں کو فراموش کر دیا۔ اس سانحے میں فیکٹری نہیں بلکہ ہمارا گھر جل گیا۔ اس کے ذمہ دارن کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے اور اس کی متاثرہ خواتین کی بحالی کے لیے مستقل بنیادوں پر کوئی حکمت عملی طے ہونی چاہیے۔
ایک فون کال آئی اور پھر۔۔۔
سانحے کے بعد بے روزگار ہونے والی خواتین کے مسائل جاننے کے بعد جب ہم نے فیکٹری میں کام کی بحالی کے حوالے سے جاننے کے لیے فیکٹری کا دورہ کیا تو بظاہر فوری بحالی کے کوئی آثار نہیں دکھائی دیے۔ اس موقع پر موجود ملازم سلیم نے بتایا کہ مالکان کی طرف سے اسے صرف فیکٹری کھولنے کا کہا گیا لہٰذا اس نے حکم کی تعمیل کی۔ تاہم کام کی بحالی کا اسے کچھ علم نہیں، ابھی اس سے گفت گو جاری تھی کہ اسے ایک فون کال موصول ہوئی' جسے سننے کے بعد اس نے ہم سے مزید بات کرنے سے معذرت کرلی۔
خوف ناک آگ بھی رشتوں کی سرد مہری ختم نہ کر سکی!
ملکی تاریخ کی بد ترین آگ نے جہاں ایک ایک گھر کے کئی کئی افراد کو جلا کر بھسم کیا وہیں بد ترین معاشرتی بے حسی بھی سامنے آئی۔ بھیانک شعلوں نے عظمت علی کے بد نصیب خاندان کے 6 افراد کو نگل لیا جس میں اس کی 3 سگی بیٹیاں، ایک بیٹا اور سگی بہن کے علاوہ بھتیجی زویا بھی شامل ہے جو کہ بچپن سے ان ہی کے ہاں بیٹیوں کی طرح رہتی تھی، دوسری طرف عظمت کی سلہج اور اس کا بھائی بھی اس بے رحم آگ کی نذر ہوا۔
بدقسمتی کے ساتھ افسوس ناک بے حسی کا پہلو یہ ہے کہ اس قیامت کی سی صورت حال کے باوجود عظمت کے اپنے سالے بابر اور سگے بھائی حشمت سے سرد مہری کے شکار تعلقات میں کسی قسم کی گرم جوشی یا بحالی پیدا ہونے کے بجائے مزید فاصلے پیدا ہوگئے۔ دو طرفہ الزامات اور گلے شکوے پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گئے۔ زندگی کے رشتے ناتے خوشی منانے اور غم بانٹنے کا ہی تو نام ہے اگر خوشیوں میں ایک دوسرے کو فراموش کرنے کے بعد اب چٹان جیسے غموں پر بھی دل نہ پسیجے تو اسے نرم سے نرم الفاظ میں بے حسی کی انتہا کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے!
''جب مما واپس آجائیں گی۔۔۔!'' ننھی مقدس کو ماں کے لوٹ آنے کی امید!
نسرین ناز کی 5 سالہ بیٹی مقدس کو آج بھی اپنی ماں کے واپس آنے کی آس ہے۔ اس کے والد عبدالغنی عرف بابر کا کہنا ہے کہ ننھی مقدس ماں کو یاد کرتی ہے تو میں اسے بتاتا ہوں کہ مما حج پر گئی ہوئی ہیں اور اب میں ہی تمہاری مما بھی ہوں اور تمہارا پپا بھی۔۔۔! جواب میں مقدس کہتی ہے کہ ''ہاں ٹھیک ہے لیکن جب مما واپس آجائیں گی تو آپ پھر سے صرف پپا بن جائیں گے!''