نریندرہ مودی چائے فروشی سے گورکنی تک
اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ مودی حکومت بھارتیوں کی عدم برداشت اور انتہا پسندی کو تاریخ کی بلند ترین سطح تک لے گئی
بھارت میں دو سال قبل جب عام انتخابات میں ہندوتوا کے فلسفے کی چرچا کرتے ہوئے چمکتے ہندوستان کا نعرہ لگاکر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اقتدار میں آئی، یہ وہ وقت تھا جب وزیراعظم کے لیے نامزد نریندرہ مودی کا امریکہ میں داخلہ بند تھا۔ ان کو امریکہ جانے سے اس لیے روکا گیا کیونکہ ان پر بدنامِ زمانہ گجرات فسادات میں مسلمانوں کی نسل کشی کا الزام تھا جو بعد میں ان کے وزیر اعلی ہونے کی وجہ سے ثابت نہ ہوسکا۔ یاد رہے مودی جب گجرات کے وزیراعلی تھے تب انتہا پسند ہندووں کے ہاتھوں ہزاروں مسلمانوں کا قتلِ عام ہوا اور سینکڑوں عورتوں کی عصمت دری کی گئی مگر وہ اپنے تمام اختیارات کے ساتھ اس سب کو کسی کھیل تماشے کی طرح دیکھتے رہے۔
2014ء کے عام انتخابات میں بے جے پی کی فتح نے مودی کو 'دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت' کا وزیراعظم بنا دیا تو شاید طاقت کے ایوانوں میں بیٹھے انسانوں نے ان کے ماضی کی اس حیوانی حرکت پرانھیں 'معاف' کرکے خوشی سے گلے لگا لیا، جبکہ دوسری طرف یہ عین ممکن ہے کہ انسانیت کا درد رکھنے والے روتے پیٹتے رہے ہوں گے اور انھوں نے قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ بھی کیا ہوگا۔ مگر وہ ہوئے ہی کتنے ہوں گے۔ دس، بیس، سو، دو سو؟
اربوں کی آبادی کی اس دنیا میں چند ایک نے مودی کے انتہاپسند ماضی پر احتجاج کیا، کچھ لکھا، کہا، تو کیا فرق پڑا۔ سرمایہ دار میڈیا کا ہر قلم اور ہر کیمرہ موصوف کی جیب میں آگیا۔ جلد ہی ایک چائے فروش محنتی بچے کی کہانی جو بڑھا ہوکر سوا ارب آبادی کے نیوکلیر ملک کا وزیراعظم بن گیا سب کو سچ اور مکمل سچ لگنے لگی۔
لیکن یہ ادھورا سچ ہے۔ یہ درست ہے کہ مودی کے دورے حکومت میں بھارت نے امریکہ سے لیکر سعودی عرب تک ہر ایک ملک کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کیے۔ بھارت کو امریکہ سے نیوکلیر ڈیل دلوائی، سعودی عرب سے عزت کا ایوارڈ لا کر دیا۔ چین اور روس سے کروڑوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کروائی۔ ایران سے تجارت بڑھائی۔ متحدہ عرب امارت سمیت دنیا بھر میں مقیم بھارتی ڈیاسفورا کے لیے عبادت گاہوں کی تعمیر جیسے تاریخی کارنامے سرانجام دیے۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ مودی حکومت بھارتیوں کی عدم برداشت اور انتہا پسندی کو تاریخ کی بلند ترین سطح تک لے گئی ہے۔ دیش بھگتی کے نام پر جس سوچ کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے وہ قوم پرستی نہیں انتہا پسندی اور اور انتہا پرستی ہے۔ مذہبی منافرت کا بول بالا چاہنے والی راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی کوک سے جنم لینے والی بی جے پی کہنے کو تو چمکتے بھارت کا نعرہ لگا رہی ہے مگر حقیقت میں اس کے انتہاپسند اقدامات بھارت کی چمک دھمک کو ہمیشہ کے لیے خاک میں ملانے کے لیے کافی ہیں۔
حقیقت پسند حلقوں میں اس بات پر اتفاق ہے کہ چونکہ پاکستان اور بھارت دونوں ہی نیوکلیر طاقتیں ہیں اس لیے معمولی تناو سے کبھی بھی ان کے مابین بڑی جنگ نہیں چھڑ سکتی۔ نہ پاکستان روایتی طریقوں سے بھارت کو ہرا سکتا ہے اور نہ بھارت پاکستان کو۔ اور کبھی جو یہ نوبت آئے تو یہی ڈر ہوگا کہ دونوں میں سے کوئی بھی نیوکلیئر استعمال نہ کردے۔ اس لیے آج کی ایٹمی طاقتوں کے لیے دوسرے ملک یا دوسرے ایٹمی ملک خطرہ نہیں بلکہ اصل خطرہ دہشت گردی ہے اور دہشت گردوں نے جب امریکہ، فرانس اور انگلستان جیسے محفوظ ترین ملکوں کو بے بس کردیا ہے تو وہ یقیناً مودی کے 'چمکتے بھارت' کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا سکتی ہے۔
یوں تو داعش (دولتِ اسلامیہ عراق و شام) جیسی اسلامسٹ دہشت گرد تنظیموں کے لیے بھارت کو دہشت گردی کا نشانے بنانے کے لیے اس کا 'گائے کی پوچا' کرنے والا ہندو ملک ہونا ہی کافی ہے (جیسا کہ متعدد بار کہا جا چکا) لیکن مودی حکومت جس بے دردی کے ساتھ کشمیر میں مظالم ڈھا رہی ہے وہ کشمیر کے سیاسی اور سماجی بحران کو مزید گہرا کرکے ایسے عناصر کو ایک اضافی وجہ فراہم کر رہے ہیں۔ ماضی قریب کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں جہاں جہاں سیاسی اور سماجی بحران گہرے ہوئے ہیں وہاں دہشت گرد تنظیموں نے نہ صرف بڑی تعداد میں جنم لیا ہے بلکہ انھوں نے انتہائی تیزی کے ساتھ طاقت بھی پکڑی ہے۔ افغانستان، عراق، شام، لیباء، یمن، ترکی، پاکستان اور سومالیہ میں طالبان، داعش، حزب اللہ، القاعدہ اور الشباب جیسی سینکڑوں چھوٹی اور بڑی دہشت گرد تنظیموں کا وجود اس کا بات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
مودی حکومت کی تشدد اور انتہاء پسندی پر مبنی پالیساں نہ صرف بھارت سے بڑی تعداد میں نوجوانوں کو دہشت گرد تنظیموں کے پلیٹ فارم پر لانے کی صلاحیت رکھتی ہیں بلکہ انتہائی حالات میں پاکستان کی سیاست کو بھی بُری طرح متاثر کرسکتی ہیں۔ نصف صدی سے زائد کے جھگڑے نے نہ صرف بھارت میں پاکستان دشمنی کو دیش بھگتی بنادیا ہے بلکہ اس نے پاکستان میں بھی بھارت دشمنی کو حب الوطنی کا درجہ دے رکھا۔ ایسے حالات میں جب بھارت میں ایک کٹر ہندو پرست جماعت کا ظالمانہ راج ہو تو یہ بعید از قیاس نہیں کہ پاکستان میں بھی کوئی انتہاء پسند بھارت دشمنی کی بناء پر برسرِاقتدار آجائے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ جس کسی کا بس چلے وہ مودی صاحب کو بھارت کے معصوم انسانوں کی اجتماعی قبریں کھودنے سے روکے، اور انھیں بتائے کہ بھائی جان، آپ چائے فروشی سے گورکنی تک آگئے ہیں اب بس کریں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
2014ء کے عام انتخابات میں بے جے پی کی فتح نے مودی کو 'دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت' کا وزیراعظم بنا دیا تو شاید طاقت کے ایوانوں میں بیٹھے انسانوں نے ان کے ماضی کی اس حیوانی حرکت پرانھیں 'معاف' کرکے خوشی سے گلے لگا لیا، جبکہ دوسری طرف یہ عین ممکن ہے کہ انسانیت کا درد رکھنے والے روتے پیٹتے رہے ہوں گے اور انھوں نے قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ بھی کیا ہوگا۔ مگر وہ ہوئے ہی کتنے ہوں گے۔ دس، بیس، سو، دو سو؟
اربوں کی آبادی کی اس دنیا میں چند ایک نے مودی کے انتہاپسند ماضی پر احتجاج کیا، کچھ لکھا، کہا، تو کیا فرق پڑا۔ سرمایہ دار میڈیا کا ہر قلم اور ہر کیمرہ موصوف کی جیب میں آگیا۔ جلد ہی ایک چائے فروش محنتی بچے کی کہانی جو بڑھا ہوکر سوا ارب آبادی کے نیوکلیر ملک کا وزیراعظم بن گیا سب کو سچ اور مکمل سچ لگنے لگی۔
لیکن یہ ادھورا سچ ہے۔ یہ درست ہے کہ مودی کے دورے حکومت میں بھارت نے امریکہ سے لیکر سعودی عرب تک ہر ایک ملک کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کیے۔ بھارت کو امریکہ سے نیوکلیر ڈیل دلوائی، سعودی عرب سے عزت کا ایوارڈ لا کر دیا۔ چین اور روس سے کروڑوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کروائی۔ ایران سے تجارت بڑھائی۔ متحدہ عرب امارت سمیت دنیا بھر میں مقیم بھارتی ڈیاسفورا کے لیے عبادت گاہوں کی تعمیر جیسے تاریخی کارنامے سرانجام دیے۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ مودی حکومت بھارتیوں کی عدم برداشت اور انتہا پسندی کو تاریخ کی بلند ترین سطح تک لے گئی ہے۔ دیش بھگتی کے نام پر جس سوچ کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے وہ قوم پرستی نہیں انتہا پسندی اور اور انتہا پرستی ہے۔ مذہبی منافرت کا بول بالا چاہنے والی راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی کوک سے جنم لینے والی بی جے پی کہنے کو تو چمکتے بھارت کا نعرہ لگا رہی ہے مگر حقیقت میں اس کے انتہاپسند اقدامات بھارت کی چمک دھمک کو ہمیشہ کے لیے خاک میں ملانے کے لیے کافی ہیں۔
حقیقت پسند حلقوں میں اس بات پر اتفاق ہے کہ چونکہ پاکستان اور بھارت دونوں ہی نیوکلیر طاقتیں ہیں اس لیے معمولی تناو سے کبھی بھی ان کے مابین بڑی جنگ نہیں چھڑ سکتی۔ نہ پاکستان روایتی طریقوں سے بھارت کو ہرا سکتا ہے اور نہ بھارت پاکستان کو۔ اور کبھی جو یہ نوبت آئے تو یہی ڈر ہوگا کہ دونوں میں سے کوئی بھی نیوکلیئر استعمال نہ کردے۔ اس لیے آج کی ایٹمی طاقتوں کے لیے دوسرے ملک یا دوسرے ایٹمی ملک خطرہ نہیں بلکہ اصل خطرہ دہشت گردی ہے اور دہشت گردوں نے جب امریکہ، فرانس اور انگلستان جیسے محفوظ ترین ملکوں کو بے بس کردیا ہے تو وہ یقیناً مودی کے 'چمکتے بھارت' کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا سکتی ہے۔
یوں تو داعش (دولتِ اسلامیہ عراق و شام) جیسی اسلامسٹ دہشت گرد تنظیموں کے لیے بھارت کو دہشت گردی کا نشانے بنانے کے لیے اس کا 'گائے کی پوچا' کرنے والا ہندو ملک ہونا ہی کافی ہے (جیسا کہ متعدد بار کہا جا چکا) لیکن مودی حکومت جس بے دردی کے ساتھ کشمیر میں مظالم ڈھا رہی ہے وہ کشمیر کے سیاسی اور سماجی بحران کو مزید گہرا کرکے ایسے عناصر کو ایک اضافی وجہ فراہم کر رہے ہیں۔ ماضی قریب کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں جہاں جہاں سیاسی اور سماجی بحران گہرے ہوئے ہیں وہاں دہشت گرد تنظیموں نے نہ صرف بڑی تعداد میں جنم لیا ہے بلکہ انھوں نے انتہائی تیزی کے ساتھ طاقت بھی پکڑی ہے۔ افغانستان، عراق، شام، لیباء، یمن، ترکی، پاکستان اور سومالیہ میں طالبان، داعش، حزب اللہ، القاعدہ اور الشباب جیسی سینکڑوں چھوٹی اور بڑی دہشت گرد تنظیموں کا وجود اس کا بات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
مودی حکومت کی تشدد اور انتہاء پسندی پر مبنی پالیساں نہ صرف بھارت سے بڑی تعداد میں نوجوانوں کو دہشت گرد تنظیموں کے پلیٹ فارم پر لانے کی صلاحیت رکھتی ہیں بلکہ انتہائی حالات میں پاکستان کی سیاست کو بھی بُری طرح متاثر کرسکتی ہیں۔ نصف صدی سے زائد کے جھگڑے نے نہ صرف بھارت میں پاکستان دشمنی کو دیش بھگتی بنادیا ہے بلکہ اس نے پاکستان میں بھی بھارت دشمنی کو حب الوطنی کا درجہ دے رکھا۔ ایسے حالات میں جب بھارت میں ایک کٹر ہندو پرست جماعت کا ظالمانہ راج ہو تو یہ بعید از قیاس نہیں کہ پاکستان میں بھی کوئی انتہاء پسند بھارت دشمنی کی بناء پر برسرِاقتدار آجائے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ جس کسی کا بس چلے وہ مودی صاحب کو بھارت کے معصوم انسانوں کی اجتماعی قبریں کھودنے سے روکے، اور انھیں بتائے کہ بھائی جان، آپ چائے فروشی سے گورکنی تک آگئے ہیں اب بس کریں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔