یہ تقسیم سندھ نہیں
سندھ نے اپنے ہی فرزندِ زمین محمد علی جناح کو قائد اعظم جیسی مضبوط شخصیت کے روپ میں پہلے پہل پہچانا۔
کیا یہ تقسیمِ سندھ نہیں؟ ایک درجن تاریخی واقعات ایسے ہیں جو سوال کرتے ہیں کہ صوبہ سرجری کے عمل سے گزر چکا ہے یا نہیں؟ نومبر میں ہم نے ''سندھ تقسیم ہوچکا ہے؟'' کے عنوان سے بارہ واقعات کا مختصر تذکرہ کیا تھا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پچھلے ستّر ، اسّی برسوں کی تاریخ تو ذرا کھول کر بیان کی جائے۔
سندھ نے اپنے ہی فرزندِ زمین محمد علی جناح کو قائد اعظم جیسی مضبوط شخصیت کے روپ میں پہلے پہل پہچانا۔ مسلم لیگ شہری سطح پر عبداللہ ہارون تو دیہی سطح پر جی ایم سیّد کی قیادت میں کام کررہی تھی۔ اب دیکھیں کہ سن 38ء میں مسلم لیگ سندھ نے قرارداد میں کیا کہا ''کانگریس نے جان بوجھ کر ہندو راج قائم کیا، برائے نام بھی کوئی مسلمانوں کا نمایندہ نہیں''۔ ''بندے ماترم'' گیت کو قومی ترانے کی حیثیت سے جبری رائج کیا جارہا ہے ۔ لیگ کی یہ قرارداد صوبے کی تقسیم کی جانب پہلا قدم تھا؟ سندھ اسمبلی نے 43ء میں ایک قرارداد پیش کی ''جب تیس کروڑ ہندو بغیر کسی معاہدے کے حکومت سنبھالیں گے تو دس کروڑ مسلمانوں کا کیا حال ہوگا؟''
جی ایم سیّد اپنی کتاب ''سندھ کی آواز'' میں اپنی تقریر کے الفاظ یوں نقل کرتے ہیں: ''پاکستان کا مطالبہ مسلمانوں کے جدا قوم ہونے کی بنیاد پر رکھا جاتا ہے، برہمن کا لباس مسلمانوں سے علیحدہ ہے، اگر مسلمان کا ہاتھ ہندو کے کھانے پر لگ جائے تو وہ اسے پھینک دینا زیادہ پسند کرتا ہے۔'' جی ایم سیّد کی یہ تقریر اسی سندھ مسلمان لیڈر کی تقریر تھی جس کے صوبے میں چالیس فیصد ہندو رہتے تھے۔ چالیس لاکھ میں سے سولہ لاکھ۔ تقریباً آدھے ہم زبانوں کو مذہب کی بنیاد پر کاٹ پھینکنے پر ان کا صوبہ متحد رہ سکے گا؟ کیا سندھ کے لیڈراس قدر بے خبر تھے؟ یوں سندھ کی قیادت دو مرتبہ سندھ کی تقسیم پر مہر ثبت نہیں کرچکی؟ لیگ کے اجلاس میں اور اسمبلی کے ایوان میں۔ کیا یہ تقسیم سندھ نہ تھی؟
''لے کے رہیں گے پاکستان' بٹ کے رہے گا ہندوستان'' کی گونج میں برصغیر کے مسلمان مسلم لیگ کے بینر تلے جمع ہوچکے تھے۔ بنگال آگے تھا تو سندھ اس کے پیچھے۔ دونوں مقامات پر ہندوؤں کا استحصال نمایاں تھا۔ مسلمانوں کی زمین رام کے ماننے والوں کے ہاتھوں میں گروی تھی تو وہ خود بنیئے کے آگے قرض کے جال میں پھنسا ہوا تھا۔ یہ نعرہ مسلم اکثریتی صوبوں میں مسلم برتری کا نعرہ تھا۔ بنگال اور سندھ کے مقروض مسلمان پاکستان کے نعرے میں ہندو کے پنجے سے نجات دیکھ رہے تھے۔
سندھ کے مسلمان لیگ کے ساتھ تو ہندو کانگریس کے حامی تھے۔ 46ء کے انتخابات کا نتیجہ آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔ لیگ اٹھائیس، کانگریس اکیس تو سید و آزاد گروپ کی سات نشستیں۔ پاکستان کے نعرے کی گونج میں بھی سندھ کے ہندو نہایت طاقتور تھے۔ ان انتخابات میں سندھی مسلمانوں اور سندھی ہندوؤں کا تقسیم ہوجانا سندھ کی تقسیم کی جانب ایک قدم نہ تھا؟ آئیے قدم اور نقش قدم کا گہرائی سے جائزہ لیتے ہیں اور ایک انوکھے اور اچھوتے سوال پر غور کرتے ہیں۔
تقسیم ہند کے موقعے پر سندھ تقسیم کیوں نہ ہوا؟ نہایت اہم سوال۔ شاید پہلی مرتبہ اخبارات کے صفحات پر اٹھایا جانے والا سوال۔ جب بنگال کا ہندو اور پنجاب کا سکھ اپنی زمین کے ساتھ جدید ہندوستان میں شامل ہوا تو سندھ کا ہندو چالیس فیصد ہونے کے باوجود خالی ہاتھ کیوں ہندوستان روانہ ہوگیا؟ تیرہ لاکھ ہندو، اگر ہندوؤں کی اکثریت ان ضلعوں میں ہوتی جن کی سرحد بھارت سے ملتی ہے تو سندھ بھی پنجاب و بنگال کی طرح 47ء میں تقسیم ہوجاتا۔ پورے سندھ میں بکھرے ہندو تہی دست رہے۔ وہ پنجابی سکھوں اور بنگالی ہندوؤں کو حسرت سے دیکھتے رہے جو اپنی سرزمین کے ساتھ گاندھی کے دیس میں شامل ہورہے تھے۔ جی ایم سیّد ''سندھ کی آواز'' میں کہتے ہیں کہ ''تقسیم کے نتیجے میں سندھی قوم بھی تقسیم ہوگئی۔'' صفحہ 43۔ یہی وہ سوال ہے جسے ہم نے سندھ کی تیسری تقسیم کے نام سے پوچھا ہے؟
کراچی صوبے کا دارالخلافہ تھا، لیکن قیام پاکستان کے موقعے پر یہاں بہت کم سندھی بولنے والے تھے۔ ہندوستان کے مسلم اقلیتی صوبوں سے مسلمانوں کی ہجرت نے ثقافتی طور پر کراچی کو قدیم سندھیوں سے ہمیشہ کے لیے جدا کردیا۔ سندھی ٹوپی اور اجرک کے لیے دن منایا جانا اسی تقسیم کی نشانی ہے۔ ثقافتیں بھی کہیں پروپیگنڈے سے نافذ ہوئی ہیں۔ قدیم و جدید سندھیوں کی اس ثقافتی تقسیم کو سندھ کی چوتھی تقسیم قرار دیا جاسکتا ہے؟
70ء کے انتخابات میں سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں کے ووٹ دینے کا رجحان بالکل مختلف تھا۔ پروفیسر غفور احمد، شاہ احمد نورانی، محمود اعظم فاروقی اور ظفر احمد انصاری مسلم اقلیتی صوبوں کے پیدائشی تھے۔ ہجرت ان لوگوں کا امتیاز تھا۔ عبدالستار گبول، عبدالحفیظ پیرزادہ، غلام مصطفیٰ جتوئی اور ممتاز بھٹو صدیوں سے سندھ میں بسنے کی تاریخ رکھتے ہیں۔ کوئی ایک پارٹی نہ تھی جس پر دونوں طبقے اعتماد کا اظہار کرتے۔ یہ الگ الگ پسند سندھ کی پانچویں تقسیم نہ تھی؟
ذوالفقار علی بھٹو کے ''ٹیلینٹڈ کزن'' ممتاز بھٹو نے صوبے کی اسمبلی میں ''لسانی بل'' پیش کیا۔ یہ سندھی کو صوبے کی واحد زبان بنانے کی جانب ایک قدم تھا۔ ''اُردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم دھام سے نکلے'' کے نعرے لگے۔ اسی ہنگامہ آرائی کو دیکھ کر سندھ کو دو لسانی صوبہ قرار دیا گیا۔ اُردو اور سندھی صوبے کی سرکاری زبانیں قرار پائیں۔ جس طرح بنگال کی علیحدگی کی بنیاد اس دن رکھ دی گئی تھی جب پاکستان دو لسانی ملک قرار دیا گیا تھا۔
جب زبانیں الگ الگ ہوں، رہائشیں سیکڑوں کلومیٹر کے فاصلے پر ہوں اور سیاسی پسند الگ الگ ہو تو پھر یکجائی کیسی؟ اس چھٹی تقسیم کو ایک سال بھی نہ گزرا تھا کہ 73ء کے آئین میں کوٹہ سسٹم نافذ کردیا گیا۔ ملکی سطح پر کراچی کے لیے دو فیصد کوٹہ اور صوبائی سطح پر کراچی، حیدر آباد اور سکھر کے لیے چالیس فیصد کوٹہ۔ اس سسٹم کی بدولت ایسے اشتہارات دیکھے گئے جن میں ان تین شہروں کے ڈومیسائل رکھنے والوں کو ملازمت کے لیے درخواست دینے کی ممانعت کی جاتی۔ یہ عمل پاکستان کو پانچ اور سندھ کو ''دو صوبوں'' میں بانٹنے کی جانب ایک قدم نہ تھا؟ کوٹہ سسٹم سندھ کو ساتویں بار تقسیم نہ کرگیا؟
الطاف حسین اور جی ایم سیّد کی 87ء میں ہونے والی ملاقات کو کون کہہ سکتا ہے کہ یہ سندھی اور اُردو بولنے والوں کی ملاقات نہ تھی؟ اس سے قبل کبھی اس طرح کی ملاقات ہوئی ہے کہ ایک اربن سندھ کا نمایندہ ہے تو دوسرا رُورَل سندھ کے حقوق کا دعویدار۔ کیا یہ سندھ کی آٹھویں تقسیم نہ تھی؟ 89ء میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے منتخب نمایندوں کے مذاکرات شہری سندھ اور اندرون سندھ کے حقوق کی کھینچا تانی نہ تھی۔ ان مذاکرات کو سندھ کی نویں تقسیم کہا جاسکتا ہے؟
نئی صدی میں بھٹو خاندان کے مقابل الطاف حسین کی تصاویر کے سائے میں مذاکرات، حقوق کی جنگ نہیں؟ اسے سندھ کی دسویں تقسیم کہا جاسکتا ہے؟ 2008ء سے پیپلز پارٹی اور ایم کیوایم ایک ہی حکومتی کشتی کے سوار ہیں۔ بیسویں صدی میں سینئر صوبائی وزیر طارق جاوید کے قائم مقام وزیر اعلیٰ بننے پر شور مچانے والے قوم پرستوں نے اکیسویں صدی میں گورنر عشرت العباد کے شہری معاملات کو دیکھنے پر چپ سادھ لی۔ وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کا صوبے کے دیہی امور تک محدود رہنا سندھ کی گیارہویں تقسیم نہیں؟
2012ء کے بلدیاتی آرڈیننس کو سندھ کی تقسیم کے خطرے کا سگنل سمجھ کر احتجاج کیا جارہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ عمل قیام پاکستان سے قبل ہی عمل میں آچکا تھا۔ جو صوبہ مذہب کے نام پر دو قراردادوں میں صدیوں سے ساتھ رہنے والے ہندوؤں کو بغیر زمین دیے کاٹ چکا ہو وہ کیسے پیٹ سے محفوظ رہ سکتا ہے؟ پہلے پورے صوبے میں سندھی ہندو بکھرے تھے تو اب دو بڑے شہروں میں نان سندھی اسپیکنگ مسلمان رہ رہے ہیں۔ یہ تاریخ کا جبر ہے۔ اسے کراچی کو پولیس سمیت تمام حقوق دے کر روکا جاسکتا ہے۔اگر اس میں رکاوٹ پیدا کی جائے تو کیا ہوگا؟ اس سلسلے کا پانچواں کالم ''کراچی صوبہ بنے گا؟'' کے عنوان سے آئے گا۔ اب فیصلہ اہلِ سندھ کو کرنا ہے۔ حقوق نہ دینے کی ضد اور بارہ تاریخی واقعات کی یہ کڑیاں کہیں تقسیم سندھ تو نہیں؟
سندھ نے اپنے ہی فرزندِ زمین محمد علی جناح کو قائد اعظم جیسی مضبوط شخصیت کے روپ میں پہلے پہل پہچانا۔ مسلم لیگ شہری سطح پر عبداللہ ہارون تو دیہی سطح پر جی ایم سیّد کی قیادت میں کام کررہی تھی۔ اب دیکھیں کہ سن 38ء میں مسلم لیگ سندھ نے قرارداد میں کیا کہا ''کانگریس نے جان بوجھ کر ہندو راج قائم کیا، برائے نام بھی کوئی مسلمانوں کا نمایندہ نہیں''۔ ''بندے ماترم'' گیت کو قومی ترانے کی حیثیت سے جبری رائج کیا جارہا ہے ۔ لیگ کی یہ قرارداد صوبے کی تقسیم کی جانب پہلا قدم تھا؟ سندھ اسمبلی نے 43ء میں ایک قرارداد پیش کی ''جب تیس کروڑ ہندو بغیر کسی معاہدے کے حکومت سنبھالیں گے تو دس کروڑ مسلمانوں کا کیا حال ہوگا؟''
جی ایم سیّد اپنی کتاب ''سندھ کی آواز'' میں اپنی تقریر کے الفاظ یوں نقل کرتے ہیں: ''پاکستان کا مطالبہ مسلمانوں کے جدا قوم ہونے کی بنیاد پر رکھا جاتا ہے، برہمن کا لباس مسلمانوں سے علیحدہ ہے، اگر مسلمان کا ہاتھ ہندو کے کھانے پر لگ جائے تو وہ اسے پھینک دینا زیادہ پسند کرتا ہے۔'' جی ایم سیّد کی یہ تقریر اسی سندھ مسلمان لیڈر کی تقریر تھی جس کے صوبے میں چالیس فیصد ہندو رہتے تھے۔ چالیس لاکھ میں سے سولہ لاکھ۔ تقریباً آدھے ہم زبانوں کو مذہب کی بنیاد پر کاٹ پھینکنے پر ان کا صوبہ متحد رہ سکے گا؟ کیا سندھ کے لیڈراس قدر بے خبر تھے؟ یوں سندھ کی قیادت دو مرتبہ سندھ کی تقسیم پر مہر ثبت نہیں کرچکی؟ لیگ کے اجلاس میں اور اسمبلی کے ایوان میں۔ کیا یہ تقسیم سندھ نہ تھی؟
''لے کے رہیں گے پاکستان' بٹ کے رہے گا ہندوستان'' کی گونج میں برصغیر کے مسلمان مسلم لیگ کے بینر تلے جمع ہوچکے تھے۔ بنگال آگے تھا تو سندھ اس کے پیچھے۔ دونوں مقامات پر ہندوؤں کا استحصال نمایاں تھا۔ مسلمانوں کی زمین رام کے ماننے والوں کے ہاتھوں میں گروی تھی تو وہ خود بنیئے کے آگے قرض کے جال میں پھنسا ہوا تھا۔ یہ نعرہ مسلم اکثریتی صوبوں میں مسلم برتری کا نعرہ تھا۔ بنگال اور سندھ کے مقروض مسلمان پاکستان کے نعرے میں ہندو کے پنجے سے نجات دیکھ رہے تھے۔
سندھ کے مسلمان لیگ کے ساتھ تو ہندو کانگریس کے حامی تھے۔ 46ء کے انتخابات کا نتیجہ آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔ لیگ اٹھائیس، کانگریس اکیس تو سید و آزاد گروپ کی سات نشستیں۔ پاکستان کے نعرے کی گونج میں بھی سندھ کے ہندو نہایت طاقتور تھے۔ ان انتخابات میں سندھی مسلمانوں اور سندھی ہندوؤں کا تقسیم ہوجانا سندھ کی تقسیم کی جانب ایک قدم نہ تھا؟ آئیے قدم اور نقش قدم کا گہرائی سے جائزہ لیتے ہیں اور ایک انوکھے اور اچھوتے سوال پر غور کرتے ہیں۔
تقسیم ہند کے موقعے پر سندھ تقسیم کیوں نہ ہوا؟ نہایت اہم سوال۔ شاید پہلی مرتبہ اخبارات کے صفحات پر اٹھایا جانے والا سوال۔ جب بنگال کا ہندو اور پنجاب کا سکھ اپنی زمین کے ساتھ جدید ہندوستان میں شامل ہوا تو سندھ کا ہندو چالیس فیصد ہونے کے باوجود خالی ہاتھ کیوں ہندوستان روانہ ہوگیا؟ تیرہ لاکھ ہندو، اگر ہندوؤں کی اکثریت ان ضلعوں میں ہوتی جن کی سرحد بھارت سے ملتی ہے تو سندھ بھی پنجاب و بنگال کی طرح 47ء میں تقسیم ہوجاتا۔ پورے سندھ میں بکھرے ہندو تہی دست رہے۔ وہ پنجابی سکھوں اور بنگالی ہندوؤں کو حسرت سے دیکھتے رہے جو اپنی سرزمین کے ساتھ گاندھی کے دیس میں شامل ہورہے تھے۔ جی ایم سیّد ''سندھ کی آواز'' میں کہتے ہیں کہ ''تقسیم کے نتیجے میں سندھی قوم بھی تقسیم ہوگئی۔'' صفحہ 43۔ یہی وہ سوال ہے جسے ہم نے سندھ کی تیسری تقسیم کے نام سے پوچھا ہے؟
کراچی صوبے کا دارالخلافہ تھا، لیکن قیام پاکستان کے موقعے پر یہاں بہت کم سندھی بولنے والے تھے۔ ہندوستان کے مسلم اقلیتی صوبوں سے مسلمانوں کی ہجرت نے ثقافتی طور پر کراچی کو قدیم سندھیوں سے ہمیشہ کے لیے جدا کردیا۔ سندھی ٹوپی اور اجرک کے لیے دن منایا جانا اسی تقسیم کی نشانی ہے۔ ثقافتیں بھی کہیں پروپیگنڈے سے نافذ ہوئی ہیں۔ قدیم و جدید سندھیوں کی اس ثقافتی تقسیم کو سندھ کی چوتھی تقسیم قرار دیا جاسکتا ہے؟
70ء کے انتخابات میں سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں کے ووٹ دینے کا رجحان بالکل مختلف تھا۔ پروفیسر غفور احمد، شاہ احمد نورانی، محمود اعظم فاروقی اور ظفر احمد انصاری مسلم اقلیتی صوبوں کے پیدائشی تھے۔ ہجرت ان لوگوں کا امتیاز تھا۔ عبدالستار گبول، عبدالحفیظ پیرزادہ، غلام مصطفیٰ جتوئی اور ممتاز بھٹو صدیوں سے سندھ میں بسنے کی تاریخ رکھتے ہیں۔ کوئی ایک پارٹی نہ تھی جس پر دونوں طبقے اعتماد کا اظہار کرتے۔ یہ الگ الگ پسند سندھ کی پانچویں تقسیم نہ تھی؟
ذوالفقار علی بھٹو کے ''ٹیلینٹڈ کزن'' ممتاز بھٹو نے صوبے کی اسمبلی میں ''لسانی بل'' پیش کیا۔ یہ سندھی کو صوبے کی واحد زبان بنانے کی جانب ایک قدم تھا۔ ''اُردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم دھام سے نکلے'' کے نعرے لگے۔ اسی ہنگامہ آرائی کو دیکھ کر سندھ کو دو لسانی صوبہ قرار دیا گیا۔ اُردو اور سندھی صوبے کی سرکاری زبانیں قرار پائیں۔ جس طرح بنگال کی علیحدگی کی بنیاد اس دن رکھ دی گئی تھی جب پاکستان دو لسانی ملک قرار دیا گیا تھا۔
جب زبانیں الگ الگ ہوں، رہائشیں سیکڑوں کلومیٹر کے فاصلے پر ہوں اور سیاسی پسند الگ الگ ہو تو پھر یکجائی کیسی؟ اس چھٹی تقسیم کو ایک سال بھی نہ گزرا تھا کہ 73ء کے آئین میں کوٹہ سسٹم نافذ کردیا گیا۔ ملکی سطح پر کراچی کے لیے دو فیصد کوٹہ اور صوبائی سطح پر کراچی، حیدر آباد اور سکھر کے لیے چالیس فیصد کوٹہ۔ اس سسٹم کی بدولت ایسے اشتہارات دیکھے گئے جن میں ان تین شہروں کے ڈومیسائل رکھنے والوں کو ملازمت کے لیے درخواست دینے کی ممانعت کی جاتی۔ یہ عمل پاکستان کو پانچ اور سندھ کو ''دو صوبوں'' میں بانٹنے کی جانب ایک قدم نہ تھا؟ کوٹہ سسٹم سندھ کو ساتویں بار تقسیم نہ کرگیا؟
الطاف حسین اور جی ایم سیّد کی 87ء میں ہونے والی ملاقات کو کون کہہ سکتا ہے کہ یہ سندھی اور اُردو بولنے والوں کی ملاقات نہ تھی؟ اس سے قبل کبھی اس طرح کی ملاقات ہوئی ہے کہ ایک اربن سندھ کا نمایندہ ہے تو دوسرا رُورَل سندھ کے حقوق کا دعویدار۔ کیا یہ سندھ کی آٹھویں تقسیم نہ تھی؟ 89ء میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے منتخب نمایندوں کے مذاکرات شہری سندھ اور اندرون سندھ کے حقوق کی کھینچا تانی نہ تھی۔ ان مذاکرات کو سندھ کی نویں تقسیم کہا جاسکتا ہے؟
نئی صدی میں بھٹو خاندان کے مقابل الطاف حسین کی تصاویر کے سائے میں مذاکرات، حقوق کی جنگ نہیں؟ اسے سندھ کی دسویں تقسیم کہا جاسکتا ہے؟ 2008ء سے پیپلز پارٹی اور ایم کیوایم ایک ہی حکومتی کشتی کے سوار ہیں۔ بیسویں صدی میں سینئر صوبائی وزیر طارق جاوید کے قائم مقام وزیر اعلیٰ بننے پر شور مچانے والے قوم پرستوں نے اکیسویں صدی میں گورنر عشرت العباد کے شہری معاملات کو دیکھنے پر چپ سادھ لی۔ وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کا صوبے کے دیہی امور تک محدود رہنا سندھ کی گیارہویں تقسیم نہیں؟
2012ء کے بلدیاتی آرڈیننس کو سندھ کی تقسیم کے خطرے کا سگنل سمجھ کر احتجاج کیا جارہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ عمل قیام پاکستان سے قبل ہی عمل میں آچکا تھا۔ جو صوبہ مذہب کے نام پر دو قراردادوں میں صدیوں سے ساتھ رہنے والے ہندوؤں کو بغیر زمین دیے کاٹ چکا ہو وہ کیسے پیٹ سے محفوظ رہ سکتا ہے؟ پہلے پورے صوبے میں سندھی ہندو بکھرے تھے تو اب دو بڑے شہروں میں نان سندھی اسپیکنگ مسلمان رہ رہے ہیں۔ یہ تاریخ کا جبر ہے۔ اسے کراچی کو پولیس سمیت تمام حقوق دے کر روکا جاسکتا ہے۔اگر اس میں رکاوٹ پیدا کی جائے تو کیا ہوگا؟ اس سلسلے کا پانچواں کالم ''کراچی صوبہ بنے گا؟'' کے عنوان سے آئے گا۔ اب فیصلہ اہلِ سندھ کو کرنا ہے۔ حقوق نہ دینے کی ضد اور بارہ تاریخی واقعات کی یہ کڑیاں کہیں تقسیم سندھ تو نہیں؟