ہمارا کاروبار

باکمال ہیں وہ لوگ جو اپنے پرانے بوڑھے بالوں کو کالا رنگ کرا کے میری طرح انھیں جوان کر لیتے ہیں

Abdulqhasan@hotmail.com

باکمال ہیں وہ لوگ جو اپنے پرانے بوڑھے بالوں کو کالا رنگ کرا کے میری طرح انھیں جوان کر لیتے ہیں اور پھر ان میں چمک دمک پیدا کرنے کے لیے بازار حسن سے طرح طرح کے لوشن لاتے ہیں جن کی وجہ سے ان کا خیال ہے کہ ان کے بال چمک دار ہو جاتے ہیں اور ان میں ایک نئی رونق اور زندگی آ جاتی ہے۔ بال ہوں یا جسم کا کوئی حصہ اس کو آراستہ کرنا اور صاف ستھرا رکھنا صاحبِ جسم کا فرض ہے۔

اگر کوئی آدمی میلا کچیلا رہتا ہے تو وہ گویا دوسرے انسانوں کی طرح خوشگوار زندگی بسر نہیں کرتا یا بسر کرنے کا فن نہیں جانتا۔ انسان کی شکل و صورت جو بھی ہے وہ قدرت کا عطیہ ہے اور اس میں کسی کا کوئی دخل نہیں ہے لیکن جو شکل و صورت بھی قدرت نے دے دی ہے اس کو قائم رکھنا لازم ہے ورنہ یہ انسان کی اپنے آپ سے لاپروائی ہو گی جو کوئی اچھی بات نہیں یعنی جسے اچھا نہیں سمجھا جاتا اس لیے انسان کو اپنی دیکھ بھال اچھی طرح کرنی چاہیے تا کہ اس کی اپنی طبیعت پر خوشگوار اثرات مرتب ہوں اور انسان اپنی ذات سے مطمئن رہے۔

بن سنور کر رہنا اور بات ہے لیکن جس حد تک ممکن ہو بظاہر اپنا حلیہ درست رکھنا ایک انسانی وصف ہے اور اس وصف کو تسلیم کیا گیا ہے اس لیے اسے اپنے آپ کو زندہ رکھنا بہت مناسب ہے۔ آپ کی زندگی آپ کے سپرد کر دی گئی ہے اور اسے آپ نے ہی باقی رکھنے اور سلامتی کے ساتھ زندہ رکھنے کی کوشش کرنا ہے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ اس قدر لاپروائی برتتے ہیں کہ اپنے آپ سے خود پریشان ہو جاتے ہیں۔

یہ باتیں مجھے ایک واقعہ سے یاد آئی ہیں ایک بار حضور پاکؐ کی خدمت میں کوئی بدو حاضر ہوا اس حال میں کہ کپڑے میلے اور بال بکھرے ہوئے۔ حضورؐ نے جب اس پر ایک نظر ڈالی تو اس انتہائی نفیس مزاج شخص کو کوفت ہوئی اور حضورؐ نے اسے قریب کر کے اس کو ہدایت فرمائی کہ جاؤ نہاؤ دھو اور کپڑے صاف پہنو۔ یہ ممکن نہیں تھا کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم کسی ناگوار منظر کو برداشت کر سکیں۔

خوش پوشی مسلمانوں کا پرانا وصف رہی ہے اور انھوں نے پاک صاف لباس پہنا ہے اسی میں ان کو نماز بھی ادا کرنی ہوتی ہے اس لیے کوئی مسلمان غریب تو ہو سکتا ہے مگر گندہ نہیں ہو سکتا اور اس کے لباس میں اسلامیت باقی رہتی ہے یعنی ایک مسلمان اپنے لباس کی تراش خراش اور صفائی سے پہچانا جاتا ہے اور دور سے وہ ایک شائستہ انسان دکھائی دیتا ہے۔


حقیقت یہ ہے کہ مسلمان جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے کہ وہ گندہ نہیں ہوتا اور اپنے جسم و جاں کی صفائی کو مقدم رکھتا ہے۔ اسے بطور ایک مسلمان کے دوسروں سے ملنا ہوتا ہے اور انھیں صاف ستھرے کپڑوں میں فرائض ادا کرنے ہوتے ہیں ورنہ نماز، روزہ ادا نہیں ہو سکتے اور ایک ایسے انسان کو مسلسل کوفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو اپنے آپ کو فرائض کی ادائیگی پر ہر وقت تیار رکھتا ہے۔ مسلمانوں کے ہاں عبادت اور پاکیزگی ایک لازمی جزو ہے اور ایک مسلمان کی زندگی اس جزو کا دوسرا نام ہے۔

مستند حدیث ہے کہ طہارت اور پاکیزگی نصف ایمان ہے۔ اگر کسی مسلمان کو عبادت نصیب نہیں تو پھر وہ ایک ادھورا مسلمان ہے۔ مسلمان کو پاکیزہ اور صاف ستھرا رہنے کی جو ہدایات دی گئی ہیں ان سے بچ کر رہنے کا مطلب نافرمانی کا ایک پہلو ہے جو سخت ناپسندیدہ ہے۔ آپ مسلمان دن میں پانچ وقت وضو کرتے ہیں۔

ہاتھوں کی انگلیوں سے لے کر پاؤں کی انگلیوں تک کو صاف کرتے ہیں اور تسلی کرتے ہیں کہ صفائی کا عمل مکمل ہو گیا ہے۔ اس کے بعد آپ خدا کے حضور حاضر ہوتے ہیں اور سجدہ ادا ہوتا ہے۔ یہ صرف باہر کی جسمانی صفائی ہی نہیں ہے اس کے اچھے اثرات انسانی وجود کے اندر بھی جاتے ہیں اور یوں انسان اندر باہر سے پاک صاف ہو جاتا ہے اور اس حال میں جب اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوتا ہے تو خدا اس کی اس صفائی کو قبول کرتا ہے۔ دلوں کی صفائی انسان کے اختیار میں نہیں ہے۔

آپ اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کریں تو آپ کو زندگی کی صفائی اور پاکیزگی کا ذکر بار بار ملے گا اور یہ صفائی صرف جسم کی صفائی ہی نہیں ہے پورے انسانی وجود کی صفائی ہے جو نہ صرف نظر بظاہر صفائی کا متقاضی ہے بلکہ کوشش کرتا ہے کہ ایک مسلمان دل و دماغ اور نیت میں بھی صفائی کی کوشش کرے تا کہ وہ ایک مکمل مسلمان دکھائی دے اور ایک ایسا مسلمان جس کو دیکھ کر لوگ رشک کریں کہ ایک صاف و ستھرا انسان کس طرح اپنی زندگی بسر کرتا ہے اور زندگی سے دوسروں کو بھی آرام دیتا ہے۔

موضوع تو بہت ہیں مگر میں نے دیکھا ہے کہ ہم کچھ سیاست میں زیادہ ہی الجھ گئے ہیں اور سیاست بھی ان لوگوں کی جن کے ہاں سیاست کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔ محض ایک مشغلہ ہے یا پھر ایک کاروبار ہے جس کو سیاست کے نام پر کیا جاتا ہے اور بازاروں میں یہی سیاست چلتی ہے اور ہم اس پر بہت خوش رہتے ہیں۔ سیاست یعنی کاروبار کا ہیر پھر ہماری زندگی کا ایک حصہ ہے اور کاروبار ایک ضرورت ہی ہے اور پاکستان اور دنیا بھر میں یہ چلتا ہے لیکن کاروبار کے کچھ طور طریقے بھی ہوتے ہیں جن کو آپ اور ہم سب خوب جانتے ہیں۔

کاروبار ایک زندگی کا بنیادی مشغلہ اور حصہ ہے۔ ہماری اسلامی و معاشرتی تہذیب میں یہ شامل ہے۔ مسلمانوں کے ہاں سیاست کو ایک عبادت بنا کر اختیار کیا جاتا ہے لیکن ہم دنیا سے الگ ہو کر اسے محض کاروبار اور نفع و نقصان نہیں بنا سکتے۔ اس میں بھی ہمیں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ اتنی احتیاط کہ ہم اپنا دامن جھوٹ و فریب اور دھوکہ دہی سے بچا سکیں۔ چنانچہ ہمارے یہاں یہی سیاست ہے جس کی مثالیں ہمیں خلفائے راشدین سے ملتی ہیں کہ انھوں نے اپنی کاروباری زندگی کیسے بسر کی۔
Load Next Story