پاکستانی برانڈ
100 امیر ترین لوگوں میں سے 98فیصد کسی نہ کسی برانڈ کے مالک ہیں۔ 2فیصد امیر ترین لوگوں کا تعلق غیر برانڈڈ اداروں سے ہے۔
لفظ ''برانڈ '' کسی ادارے کی پروڈکٹ جس کی اپنی منفرد شناخت ہو اس کو پہچان کہتے ہیں عالمی معیشت میں اس وقت ''برانڈڈ کمپنیوں'' کی مسلمہ حکمرانی ہے جتنے بڑے سرمایہ والے ادارے ہیں سب کسی نہ کسی برانڈ کی پہچان رکھتے ہیں۔ موجودہ جدید معیشت کے دور میں اشتہاری کمپنیوں کی اہمیت برانڈ کی وجہ سے ہوئی ہے۔ ہر برانڈ خریدار کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے اس کی اپنی پہچان ہوتی ہے اور وہ پہچان برانڈ ہوتا ہے ۔اس وقت دنیا کی معیشت پر برانڈ اونرز کی حکمرانی ہے۔
فوربیس ڈاٹ کام (Forbes.com) میگزین کی سالانہ عالمی سروے رپورٹ کے مطابق دنیا کی کل دولت کا 40فیصد حصہ 500 فورچون برانڈ (fortune brand) اونرز کے پاس ہے ڈیڑھ سے دو ہزار فورچون برانڈ (fortune brand) کی ملکیت دنیا کی کل دولت کا 80فیصد برانڈ اونرز کے ہاتھ میں ہو سکتا ہے۔ برانڈ کی اہمیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ عالمی معیشت کی باگ ڈور اس وقت برانڈڈ اداروں کے ہاتھ میں ہے، برانڈ اونرز جب چاہیں جو چاہیں کر سکتے ہیں ۔
اس وقت دنیا کے 100 امیر ترین لوگوں میں سے 98فیصد کسی نہ کسی برانڈ کے مالک ہیں صرف 2فیصد دنیا کے امیر ترین لوگوں کا تعلق غیر برانڈڈ اداروں سے ہے ۔ آج کی ترقی یافتہ دنیا میں بچوں کے دودھ سے لے کر ڈائپر اور روزمرہ کی گروشری تک ہر شے کے خریداروںکی اکثریت برانڈ کی مصنوعات کو فوقیت دیتی ہے کیونکہ صارفین برانڈ والی اشیاء پر مطمئن ہوتے ہیں ،انھیں معلوم ہے کہ برانڈ والی اشیاء کا معیار ہمیشہ ایک ہی ہوتا ہے ۔
ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے قوانین کے نفاذ کے بعد دنیا کی عالمی معیشت میں کسی بھی ملک کے معاشی استحکام کا دارومدار مالیاتی نظم وضبط اور معیاری مینو فیکچرنگ پر ہوتا ہے ۔ مشہور کمپنیاں بیرون ملک بھی صرف برانڈکے نام سے ہی اپنے کاروبار کو وسیع سے وسیع تر کر رہی ہیں۔ برانڈڈ کمپنیوں کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کو روزگار مہیا ہوتا ہے اور معیاری اشیائے صرف تک رسائی ملتی ہے۔ یہ سب برانڈکی بدولت ممکن ہوتا ہے۔ آج کی عالمی معیشت کی جنگ اپنے استحکام اور ترقی یافتہ قوموں کے مابین سبقت حاصل کرنے کا واحد راستہ برانڈکو اہمیت دینے پر ہے۔
پاکستان دنیا کے ان10پرکشش ممالک میں سے ایک ہے جس کے صارفین تعداد کے اعتبار سے 10بڑے ممالک کی مارکیٹ میں سے ایک ہیں اس کے باوجود مقامی مینوفیکچرنگ اور فورچون برانڈ کے 80فیصد سے زائد ادارے اپنی مصنوعات کو پاکستان میں تجارت اور مارکیٹنگ کرنے سے گریزاں نظر آتے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے ملک میں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری اور انڈسٹریل اسٹیٹ ہونے سے محروم ہے اس کی ایک بڑی اہم وجہ پاکستان میں غیر قانونی مصنوعات کی اسمگلنگ اور مقامی طورپر کسی بھی پروڈکٹ کی کاپی تیار کرنے یا اس سے ملتے جلتے ٹمپرنگ کر کے اشیائے صرف کی مارکیٹ میں فروخت عام سی بات ہے۔
کراچی سے خیبر تک کسی بھی بازار میں آپ کو ہر جانے پہچانے برانڈ کی نمبر ٹوکاپی کم قیمت پر با آسانی دستیاب ہے مگر ہمارے حکومتی ادارے جن کی یہ ذمے داری ہے کہ کاپی رائٹ کے تحت جعلی یا ٹمپرنگ کی گئی اشیاء کو فروخت کر نے کے جرم کو روکنے میں بری طرح ناکام نظر آتے ہیں۔ کاپی رائٹ قوانین کی خلاف ورزی پر حکومتی ادارے کوئی کارروائی عمل میں نہیں لاتے، اس تشویش ناک صورت سے حال میں فورچون برانڈ (fortune brand) ادارے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے سے گریزاں نظر آتے ہیں۔
گزشتہ دنوں فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) نے برانڈ ایوارڈ کونسل کے چیف ایگزیکٹیو کی سربراہی میں پہلی بار ایک قائمہ کمیٹی برائے برانڈ پروٹیکشن اینڈ پروموشن کے نام سے قائم کی ہے۔ اس کمیٹی کا کام ملک بھر کی تجارتی تنظیموں اور چیمبر آف کامرس کے باہمی تعاون سے ایک روڈ میپ تیار کرنا ہے جس کا مقصد پاکستان میں برانڈڈ اداروں کو مکمل تحفظ فراہم کرنا ہے تاکہ دنیا بھر کے برانڈڈ اداروں کے لیے ساز گار ماحول فراہم کریں تا کہ برانڈڈ کمپنیاں پاکستان میں کاروبار کرنے کے لیے سرمایہ کاری کریں۔
موجودہ خوف ناک دور میں ہمارے ملک کی معیشت پر گھٹاٹوپ اندھیرا چھا رہا ہے جہاں مایوسی ، نا امیدی اور افراتفری صنعتی اور قومی اداروں کے ساتھ عوام میں بھی پھیلی ہوئی ہے۔ ہمارے ملک پاکستان کا کوئی وژن واضح نظر نہیں آرہا حکومت کی کوئی خاص ترجیحات واضح یا سامنے نہیںہیں اور معیشت زوال پذیر ہے اس صورتحال میںایف پی سی سی آئی کی طرف سے برانڈ پروٹیکشن اینڈپروموشن کا یہ اقدام خوش آیند ہے کہ برانڈ کے کاپی رائٹ کے تحت تحفظ اور عام پبلک میں برانڈ کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے اندھیرے میں چراغ روشن کرنے کے مترادف ہے۔
جس طرح ترقی یافتہ ملکوں میں برانڈ کی بنیاد پر کاروبار کرنے کی افادیت ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کے مانند ہوتی ہے اسی طرح پاکستان میں فورچون برانڈ (fortune brand) کو حکومت کاپی رائٹ کے تحت مکمل تحفظ فراہم کرے تو بین الاقوامی فورچون (fortune brand) ادارے پاکستان میں اربوںڈالر کی سرمایہ کاری کر کے اس ملک اور عوام کی کایا پلٹ سکتے ہیں اس سے پاکستانی برانڈ کو بھی دنیا میں کاروبارکرنے کا موقع فراہم ہو گا اور جب ملٹی نیشنل کمپنیاں صنعتیں لگائیں گی تو عوام کو روزگار ملے گا تو خوش حالی آئے گی اور خوش حالی آئے گی تو لوگ تعلیم،ادب تخلیق اور تحقیق کی طرف متوجہ ہوں گے ۔اس طرح خون آلودہ پاکستان جہالت کے اندھیروں سے نکل کر ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوجائے گا۔ (انشاء اﷲ تعالی)
فوربیس ڈاٹ کام (Forbes.com) میگزین کی سالانہ عالمی سروے رپورٹ کے مطابق دنیا کی کل دولت کا 40فیصد حصہ 500 فورچون برانڈ (fortune brand) اونرز کے پاس ہے ڈیڑھ سے دو ہزار فورچون برانڈ (fortune brand) کی ملکیت دنیا کی کل دولت کا 80فیصد برانڈ اونرز کے ہاتھ میں ہو سکتا ہے۔ برانڈ کی اہمیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ عالمی معیشت کی باگ ڈور اس وقت برانڈڈ اداروں کے ہاتھ میں ہے، برانڈ اونرز جب چاہیں جو چاہیں کر سکتے ہیں ۔
اس وقت دنیا کے 100 امیر ترین لوگوں میں سے 98فیصد کسی نہ کسی برانڈ کے مالک ہیں صرف 2فیصد دنیا کے امیر ترین لوگوں کا تعلق غیر برانڈڈ اداروں سے ہے ۔ آج کی ترقی یافتہ دنیا میں بچوں کے دودھ سے لے کر ڈائپر اور روزمرہ کی گروشری تک ہر شے کے خریداروںکی اکثریت برانڈ کی مصنوعات کو فوقیت دیتی ہے کیونکہ صارفین برانڈ والی اشیاء پر مطمئن ہوتے ہیں ،انھیں معلوم ہے کہ برانڈ والی اشیاء کا معیار ہمیشہ ایک ہی ہوتا ہے ۔
ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے قوانین کے نفاذ کے بعد دنیا کی عالمی معیشت میں کسی بھی ملک کے معاشی استحکام کا دارومدار مالیاتی نظم وضبط اور معیاری مینو فیکچرنگ پر ہوتا ہے ۔ مشہور کمپنیاں بیرون ملک بھی صرف برانڈکے نام سے ہی اپنے کاروبار کو وسیع سے وسیع تر کر رہی ہیں۔ برانڈڈ کمپنیوں کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کو روزگار مہیا ہوتا ہے اور معیاری اشیائے صرف تک رسائی ملتی ہے۔ یہ سب برانڈکی بدولت ممکن ہوتا ہے۔ آج کی عالمی معیشت کی جنگ اپنے استحکام اور ترقی یافتہ قوموں کے مابین سبقت حاصل کرنے کا واحد راستہ برانڈکو اہمیت دینے پر ہے۔
پاکستان دنیا کے ان10پرکشش ممالک میں سے ایک ہے جس کے صارفین تعداد کے اعتبار سے 10بڑے ممالک کی مارکیٹ میں سے ایک ہیں اس کے باوجود مقامی مینوفیکچرنگ اور فورچون برانڈ کے 80فیصد سے زائد ادارے اپنی مصنوعات کو پاکستان میں تجارت اور مارکیٹنگ کرنے سے گریزاں نظر آتے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے ملک میں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری اور انڈسٹریل اسٹیٹ ہونے سے محروم ہے اس کی ایک بڑی اہم وجہ پاکستان میں غیر قانونی مصنوعات کی اسمگلنگ اور مقامی طورپر کسی بھی پروڈکٹ کی کاپی تیار کرنے یا اس سے ملتے جلتے ٹمپرنگ کر کے اشیائے صرف کی مارکیٹ میں فروخت عام سی بات ہے۔
کراچی سے خیبر تک کسی بھی بازار میں آپ کو ہر جانے پہچانے برانڈ کی نمبر ٹوکاپی کم قیمت پر با آسانی دستیاب ہے مگر ہمارے حکومتی ادارے جن کی یہ ذمے داری ہے کہ کاپی رائٹ کے تحت جعلی یا ٹمپرنگ کی گئی اشیاء کو فروخت کر نے کے جرم کو روکنے میں بری طرح ناکام نظر آتے ہیں۔ کاپی رائٹ قوانین کی خلاف ورزی پر حکومتی ادارے کوئی کارروائی عمل میں نہیں لاتے، اس تشویش ناک صورت سے حال میں فورچون برانڈ (fortune brand) ادارے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے سے گریزاں نظر آتے ہیں۔
گزشتہ دنوں فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) نے برانڈ ایوارڈ کونسل کے چیف ایگزیکٹیو کی سربراہی میں پہلی بار ایک قائمہ کمیٹی برائے برانڈ پروٹیکشن اینڈ پروموشن کے نام سے قائم کی ہے۔ اس کمیٹی کا کام ملک بھر کی تجارتی تنظیموں اور چیمبر آف کامرس کے باہمی تعاون سے ایک روڈ میپ تیار کرنا ہے جس کا مقصد پاکستان میں برانڈڈ اداروں کو مکمل تحفظ فراہم کرنا ہے تاکہ دنیا بھر کے برانڈڈ اداروں کے لیے ساز گار ماحول فراہم کریں تا کہ برانڈڈ کمپنیاں پاکستان میں کاروبار کرنے کے لیے سرمایہ کاری کریں۔
موجودہ خوف ناک دور میں ہمارے ملک کی معیشت پر گھٹاٹوپ اندھیرا چھا رہا ہے جہاں مایوسی ، نا امیدی اور افراتفری صنعتی اور قومی اداروں کے ساتھ عوام میں بھی پھیلی ہوئی ہے۔ ہمارے ملک پاکستان کا کوئی وژن واضح نظر نہیں آرہا حکومت کی کوئی خاص ترجیحات واضح یا سامنے نہیںہیں اور معیشت زوال پذیر ہے اس صورتحال میںایف پی سی سی آئی کی طرف سے برانڈ پروٹیکشن اینڈپروموشن کا یہ اقدام خوش آیند ہے کہ برانڈ کے کاپی رائٹ کے تحت تحفظ اور عام پبلک میں برانڈ کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے اندھیرے میں چراغ روشن کرنے کے مترادف ہے۔
جس طرح ترقی یافتہ ملکوں میں برانڈ کی بنیاد پر کاروبار کرنے کی افادیت ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کے مانند ہوتی ہے اسی طرح پاکستان میں فورچون برانڈ (fortune brand) کو حکومت کاپی رائٹ کے تحت مکمل تحفظ فراہم کرے تو بین الاقوامی فورچون (fortune brand) ادارے پاکستان میں اربوںڈالر کی سرمایہ کاری کر کے اس ملک اور عوام کی کایا پلٹ سکتے ہیں اس سے پاکستانی برانڈ کو بھی دنیا میں کاروبارکرنے کا موقع فراہم ہو گا اور جب ملٹی نیشنل کمپنیاں صنعتیں لگائیں گی تو عوام کو روزگار ملے گا تو خوش حالی آئے گی اور خوش حالی آئے گی تو لوگ تعلیم،ادب تخلیق اور تحقیق کی طرف متوجہ ہوں گے ۔اس طرح خون آلودہ پاکستان جہالت کے اندھیروں سے نکل کر ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوجائے گا۔ (انشاء اﷲ تعالی)