بین الاقوامی آئی ٹی معاہدے میں شمولیت کھٹائی میں پڑگئی

وزارت تجارت کی دستاویزکے مطابق پاکستان نے ابھی تک انفارمیشن ٹیکنالوجی ایگریمنٹ منظور نہیں کیا،

وزارت تجارت کی دستاویزکے مطابق پاکستان نے ابھی تک انفارمیشن ٹیکنالوجی ایگریمنٹ منظور نہیں کیا، فوٹو: فائل

وزارت صنعت وپیداوار اور وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے انفارمیشن ٹیکنالوجی معاہدے (آئی ٹی اے) میں شمولیت کی حمایت کر دی تاہم فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی مخالفت کے باعث پاکستان کا آئی ٹی اے میں شمولیت کا فیصلہ تعطل کا شکار ہو گیا ہے۔

واضح رہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی ایگریمنٹ (آئی ٹی اے) عالمی ادارہ تجارت (ڈبلیوٹی او) کی سربراہی میں طے پایا، یہ معاہدہ وزارتی اعلامیہ برائے تجارت آئی ٹی مصنوعات کے ذریعے 1996 میں پایہ تکمیل کو پہنچا اور اس کا اطلاق یکم جولائی 1997سے کیا گیا، 1997 سے ڈبلیوٹی او کی ایک کمیٹی مذکورہ اعلامیے اور اس کے نفاذ کی نگرانی کر رہی ہے، اس معاہدے کا مقصد اس پر دستخط کرنے والے ممالک کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی پروڈکٹس پر تمام ٹیکسز اور ٹیرف کو صفر تک لانا ہے۔

وزارت تجارت کی دستاویزکے مطابق پاکستان نے ابھی تک انفارمیشن ٹیکنالوجی ایگریمنٹ منظور نہیں کیا، حکومت پاکستان کی اس معاہدے میں شامل ہونے سے گریز کی 2 اہم وجوہ ہیں، پہلی وجہ ایف بی آر کا رضامند نہ ہونا ہے کیونکہ ڈیوٹیز کے خاتمے سے ریونیوکا نقصان ہو سکتا ہے، دوسرا وزارت صنعت و پیداوار کی رائے ہے کہ ٹیرف کے مناسب تحفظ کے بغیر پاکستان میں آئی ٹی سے متعلق انڈسٹریز کا قیام فائدہ مند نہ ہوگا تاہم وزارت صنعت نے معاہدے کے حوالے سے نقطہ نظر میں تبدیلی کی ہے۔


دستاویزات کے مطابق نومبر2015 میں وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے معاہدے میں شمولیت سے اتفاق کیا تھا، معاہدے پر حکومتی رضامندی کے لیے کابینہ کی منظوری حاصل کرنے کے لیے وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے مسودہ تیار کیا ہے، اس مسودے کو رائے کے لیے وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی، وزارت صنعت وپیداوار اور ایف بی آر کو ارسال کیا گیا۔

وزارت آئی ٹی اور وزارت صنعت وپیداوار نے پاکستان کی آئی ٹی اے میں شمولیت کی حمایت کردی ہے جبکہ ایف بی آر کی رائے جاننے کے لیے وزارت تجارت کا ڈبلیو ٹی او ونگ باقاعدگی سے پیروی کر رہا ہے تاہم ایف بی آر ابھی تک اپنے موقف پر قائم ہے کہ ڈیوٹیز کا خاتمہ ریونیوکے نقصان پر منتج ہو سکتا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کا آئی ٹی اے میں شمولیت کا فیصلہ تعطل کا شکار ہوگیا ہے۔

 
Load Next Story