غیرت کے نام پر قتل کے منفی رجحان میں اضافہ
ہر سال متعدد خواتین قانونی سقم اور غلط رسم و رواج کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں
FAISALABAD:
وطن عزیز میں گزشتہ سال سینکڑوں خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا، جن میں ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں جن میں بہت سی لڑکیوں نے پسند کی شادی کی، جس میں انہیں والدین کی حمایت بھی حاصل تھی لیکن بھائیوں کی غیرت جاگ اٹھنے کے باعث انہیں وحشیانہ طریقے سے قتل کر دیا گیا۔
خیبر پختون خوا بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں، گزشتہ اڑھائی سال کے دوران دو ہزار سے زائد خواتین کو اغواء کرنے کے واقعات سامنے آئے ہیں، زیادہ تر واقعات میں شادی کا جھانسہ دے کر خواتین کو اغوا کیا گیا۔ اپنی مرضی سے گھروں سے نکلنے والی خواتین کی بڑی تعداد بھی اس میں شامل ہیں۔ تھانوں میں کثیر تعداد میں ایسے مقدمات درج ہوئے ہیں جس میں گھروں سے جانے والے جوڑوں کو معاف کرنے کے بہانے گھر واپس بلا کرقتل کردیاگیا۔
خیبر پختون خوا میں غیرت کے نام پر خواتین کے علاوہ مردوں کو بھی قتل کیا جاتا ہے اور اکثر یہ کام لڑکی کاکوئی رشتہ دار سرانجام دیتا ہے۔ کئی واقعات میں تو خاتون و مرد گھروں سے نکلتے بھی نہیں لیکن سنی سنائی باتوں یا موبائل پر رابطہ ان کے قتل کا باعث بن جاتا ہے۔ سینکڑوں معصوم بچیوں کو زہر دے کر گھروں کے اندر پراسرار طریقے سے مارا گیا۔ پسند کی شادی کروانا جرم اور غیرت کے نام پر قتل ایک فیشن بن گیا ہے جو معاشروں کی زوال اور پستی کی عکاسی کرتا ہے۔
خواتین کے اغواء یا گھروں سے نکلنے کے واقعات میں اکثر بے گناہ بھی پکڑے جاتے ہیں جن کا کیس سے کوئی لینا دینا ہی نہیں ہوتا، سنٹرل پولیس آفس پشاورکے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق جنوری 2014 سے لے کر 30جولائی 2016ء تک پورے صوبے میں خواتین کے اغواء کے 2070کے لگ بھگ مقدمات درج ہوئے ہیں،یہ تعداد زیادہ بھی ہوسکتی ہے کیونکہ اکثر لوگ ایسی صورت حال میں تھانوں کا رخ نہیں کرتے۔
ہزارہ ڈویژن صوبے کا وہ علاقہ ہے، جہاںپر ایسے واقعات اکثر رونماء ہوتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ان اڑھائی سالوں میں ایبٹ آباد میں276، مانسہرہ 281، پشاور 178ڈی آئی خان164،مردان 161،صوابی 109، ہری پور 106، کرک105،لکی مروت 98، چارسدہ 90،سوات 24، نوشہرہ 57، کوہاٹ 44، ہنگو 11، بٹ گرام 54، کوہستان 2، تورغر7، بنو ں 74، ٹانک 56، شانگلہ 20، بونیر36،دیر لوئر35، دیر بالا 12 اور چترال میں40خواتین کے اغواء کے واقعات سامنے آ ئے ہیں۔
ایسی مصدقہ یا حتمی معلومات سرکار کے پاس نہیں ہیں، جس میں یہ بتایا گیا ہو کہ شادی کے نام پر گھروںسے نکلنے والے کتنے جوڑوں کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا لیکن ایک اندازے کے مطابق درجنوں افراد کو بے گناہ مارا گیا۔ اس کا اندازہ پشاور میں دو جوڑوں کے قتل کرنے سے لگایا جاسکتا ہے۔ ایسے کئی دل خراش واقعات بھی سامنے آئے ہیں جہاں لڑکا اور لڑکی کو معاف کرنے کے بہانے گھروں کو واپس لایا گیا جو بعد میں اپنے قریب ترین افراد کے ہاتھوں مار ے گئے۔
معلومات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ گھروں سے نکلنے والی خواتین کی بڑی تعداد کی عمریں18سال یا اس سے کم ہیں، ان تنازعات پر اکثر اوقات دو خاندانوں کے درمیان لمبے عرصے تک عداوتیں چلتی ہیں، جو دونوں اطراف سے خون خرابے کا باعث ہیں۔ غیرت کے نام پر قتل جیسے مقدمات میں گرفتار افراد کو آج تک سزا نہیں ملی اور اس کی بڑی وجہ مدعی کا صلح کرنا ہوتا ہے۔
اکثر کیسز میں قتل لڑکی کا ماموں زاد یا بھائی کرتا ہے جو بعد میں دونوں یا ایک مقتول کے والدین مدعی کو معاف کرتے ہیں اور یہی سب سے بڑی خرابی ہے۔ اس طرح کے مقدمات میں ایسا طریقہ نکالنا چاہیے کہ حکومت اس میں مدعی بنے اور کوئی بھی مجرم سزا سے نہ بچ پائے۔
ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کو چیئرمین کامران عارف نے غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کے حوالے سے ''ایکسپریس'' کو بتایاکہ جب کسی بھی معاشرے میں روایات اور رسم و رواج قانون سے زیادہ طاقت ور ہوں تو اس معاشرے میں خواتین کے اغواء اور غیرت کے نام پر قتل جیسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔
قوانین میں بھی سقم ہیں، فوجداری مقدمات کو جرگوں کے سپرد کر دیا گیا ہے، جس کے تحت حکومت عوام کو تحفظ دینے جیسی اہم ذمہ داری سے بری الذمہ ہونے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے، تاہم انہوں نے واضح کیا کہ وقت آگیا ہے کہ حکومت واضح فیصلہ کرے اور لوگوں کو بتائے کہ مرضی کی شادی کوئی جرم نہیں ہے، بہنوں اور بیٹیوں کو جائیداد میں حصہ نہیں دیا جاتا لیکن پسند کی شادی میں سب کی غیرت جاگ جاتی ہے، کامران عارف نے بتایاکہ ایسے کئی واقعات ان کے ذاتی مشاہدے میں ہیں کہ لڑکے کو بازار اور خواتین کو گھر میں قتل کردیا گیا، حالانکہ وہ دونوں گھروں سے نکلے ہی نہیں تھے۔
پشاور ہائی کورٹ کے سابق صدر اور نامور وکیل فدا گل ایڈوکیٹ نے بتایا کہ شادی کے معاملے پر ہمارے معاشرے میں لوگوں نے اپنی روایات بنائی ہیں، کچھ لوگ اپنے خاندان کے علاوہ دوسرے خاندانوں میں لڑکیوں کے رشتے نہیں دیتے یا ذات پات و طبقاتی نظام پر یقین رکھتے ہیں جس کی وجہ سے بچیوں کی زندگیاں تباہ ہوجاتی ہیں اور ان کی شادیاں نہیں ہوپاتیں۔ اگرملک میں رائج قوانین پر عمل درآمد کیا جائے تو مرضی کی شادی سمیت دیگر مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
وطن عزیز میں گزشتہ سال سینکڑوں خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا، جن میں ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں جن میں بہت سی لڑکیوں نے پسند کی شادی کی، جس میں انہیں والدین کی حمایت بھی حاصل تھی لیکن بھائیوں کی غیرت جاگ اٹھنے کے باعث انہیں وحشیانہ طریقے سے قتل کر دیا گیا۔
خیبر پختون خوا بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں، گزشتہ اڑھائی سال کے دوران دو ہزار سے زائد خواتین کو اغواء کرنے کے واقعات سامنے آئے ہیں، زیادہ تر واقعات میں شادی کا جھانسہ دے کر خواتین کو اغوا کیا گیا۔ اپنی مرضی سے گھروں سے نکلنے والی خواتین کی بڑی تعداد بھی اس میں شامل ہیں۔ تھانوں میں کثیر تعداد میں ایسے مقدمات درج ہوئے ہیں جس میں گھروں سے جانے والے جوڑوں کو معاف کرنے کے بہانے گھر واپس بلا کرقتل کردیاگیا۔
خیبر پختون خوا میں غیرت کے نام پر خواتین کے علاوہ مردوں کو بھی قتل کیا جاتا ہے اور اکثر یہ کام لڑکی کاکوئی رشتہ دار سرانجام دیتا ہے۔ کئی واقعات میں تو خاتون و مرد گھروں سے نکلتے بھی نہیں لیکن سنی سنائی باتوں یا موبائل پر رابطہ ان کے قتل کا باعث بن جاتا ہے۔ سینکڑوں معصوم بچیوں کو زہر دے کر گھروں کے اندر پراسرار طریقے سے مارا گیا۔ پسند کی شادی کروانا جرم اور غیرت کے نام پر قتل ایک فیشن بن گیا ہے جو معاشروں کی زوال اور پستی کی عکاسی کرتا ہے۔
خواتین کے اغواء یا گھروں سے نکلنے کے واقعات میں اکثر بے گناہ بھی پکڑے جاتے ہیں جن کا کیس سے کوئی لینا دینا ہی نہیں ہوتا، سنٹرل پولیس آفس پشاورکے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق جنوری 2014 سے لے کر 30جولائی 2016ء تک پورے صوبے میں خواتین کے اغواء کے 2070کے لگ بھگ مقدمات درج ہوئے ہیں،یہ تعداد زیادہ بھی ہوسکتی ہے کیونکہ اکثر لوگ ایسی صورت حال میں تھانوں کا رخ نہیں کرتے۔
ہزارہ ڈویژن صوبے کا وہ علاقہ ہے، جہاںپر ایسے واقعات اکثر رونماء ہوتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ان اڑھائی سالوں میں ایبٹ آباد میں276، مانسہرہ 281، پشاور 178ڈی آئی خان164،مردان 161،صوابی 109، ہری پور 106، کرک105،لکی مروت 98، چارسدہ 90،سوات 24، نوشہرہ 57، کوہاٹ 44، ہنگو 11، بٹ گرام 54، کوہستان 2، تورغر7، بنو ں 74، ٹانک 56، شانگلہ 20، بونیر36،دیر لوئر35، دیر بالا 12 اور چترال میں40خواتین کے اغواء کے واقعات سامنے آ ئے ہیں۔
ایسی مصدقہ یا حتمی معلومات سرکار کے پاس نہیں ہیں، جس میں یہ بتایا گیا ہو کہ شادی کے نام پر گھروںسے نکلنے والے کتنے جوڑوں کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا لیکن ایک اندازے کے مطابق درجنوں افراد کو بے گناہ مارا گیا۔ اس کا اندازہ پشاور میں دو جوڑوں کے قتل کرنے سے لگایا جاسکتا ہے۔ ایسے کئی دل خراش واقعات بھی سامنے آئے ہیں جہاں لڑکا اور لڑکی کو معاف کرنے کے بہانے گھروں کو واپس لایا گیا جو بعد میں اپنے قریب ترین افراد کے ہاتھوں مار ے گئے۔
معلومات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ گھروں سے نکلنے والی خواتین کی بڑی تعداد کی عمریں18سال یا اس سے کم ہیں، ان تنازعات پر اکثر اوقات دو خاندانوں کے درمیان لمبے عرصے تک عداوتیں چلتی ہیں، جو دونوں اطراف سے خون خرابے کا باعث ہیں۔ غیرت کے نام پر قتل جیسے مقدمات میں گرفتار افراد کو آج تک سزا نہیں ملی اور اس کی بڑی وجہ مدعی کا صلح کرنا ہوتا ہے۔
اکثر کیسز میں قتل لڑکی کا ماموں زاد یا بھائی کرتا ہے جو بعد میں دونوں یا ایک مقتول کے والدین مدعی کو معاف کرتے ہیں اور یہی سب سے بڑی خرابی ہے۔ اس طرح کے مقدمات میں ایسا طریقہ نکالنا چاہیے کہ حکومت اس میں مدعی بنے اور کوئی بھی مجرم سزا سے نہ بچ پائے۔
ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کو چیئرمین کامران عارف نے غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کے حوالے سے ''ایکسپریس'' کو بتایاکہ جب کسی بھی معاشرے میں روایات اور رسم و رواج قانون سے زیادہ طاقت ور ہوں تو اس معاشرے میں خواتین کے اغواء اور غیرت کے نام پر قتل جیسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔
قوانین میں بھی سقم ہیں، فوجداری مقدمات کو جرگوں کے سپرد کر دیا گیا ہے، جس کے تحت حکومت عوام کو تحفظ دینے جیسی اہم ذمہ داری سے بری الذمہ ہونے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے، تاہم انہوں نے واضح کیا کہ وقت آگیا ہے کہ حکومت واضح فیصلہ کرے اور لوگوں کو بتائے کہ مرضی کی شادی کوئی جرم نہیں ہے، بہنوں اور بیٹیوں کو جائیداد میں حصہ نہیں دیا جاتا لیکن پسند کی شادی میں سب کی غیرت جاگ جاتی ہے، کامران عارف نے بتایاکہ ایسے کئی واقعات ان کے ذاتی مشاہدے میں ہیں کہ لڑکے کو بازار اور خواتین کو گھر میں قتل کردیا گیا، حالانکہ وہ دونوں گھروں سے نکلے ہی نہیں تھے۔
پشاور ہائی کورٹ کے سابق صدر اور نامور وکیل فدا گل ایڈوکیٹ نے بتایا کہ شادی کے معاملے پر ہمارے معاشرے میں لوگوں نے اپنی روایات بنائی ہیں، کچھ لوگ اپنے خاندان کے علاوہ دوسرے خاندانوں میں لڑکیوں کے رشتے نہیں دیتے یا ذات پات و طبقاتی نظام پر یقین رکھتے ہیں جس کی وجہ سے بچیوں کی زندگیاں تباہ ہوجاتی ہیں اور ان کی شادیاں نہیں ہوپاتیں۔ اگرملک میں رائج قوانین پر عمل درآمد کیا جائے تو مرضی کی شادی سمیت دیگر مسائل حل ہوسکتے ہیں۔