اٹھے گا جب جم سرفروشاں
غصے میں بپھرے ہوئے اتنے سارے لوگ جب ایک دوسرے سے صرف چند سیکنڈ کی دوری پر ہوں تو اس کا انجام بہت خوفناک بھی ہو سکتا ہے
وہ لوگ جو ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف چلائی جانے والی 1977ء کی عوامی تحریک کے دوران بقائمی ہوش و حواس تھے اور ان کا تعصب کسی ایک پارٹی یعنی پیپلزپارٹی یا پاکستانی عوامی اتحاد کی جانب نہیں تھا، وہ ایک گواہی ضرور دیں گے کہ یہ پاکستان کی تاریخ کی وہ واحد تحریک تھی جو چھوٹے چھوٹے قصبوں سے لے کر بڑے بڑے شہروں میں بیک وقت، ایک جیسی قوت کے ساتھ چل رہی تھی۔ نہ اس زمانے میں آزاد میڈیا کے اسّی کے قریب چینل تھے جن کی رپورٹ کرتی ہوئی گاڑیاں چھتوں پر سیٹلائٹ ڈشیں لگائے براہ راست خبریں نشر کر رہی ہوتی تھیں اور نہ ہی کوئی ایسا آزاد ذریعہ تھا جس کے توسط سے لیڈران اپنا آیندہ احتجاج کا پروگرام بتاتے۔
پوری کی پوری قیادت جیل میں تھی۔ دوسرے اور تیسرے درجے کے سیاسی کارکنوں سے بھی جیلیں بھری جا چکی تھیں۔ ایسے میں پاکستان قومی اتحاد کا دفتر عام ورکروں کے ہاتھ میں تھا جو روزانہ شام کو اگلے دن کے احتجاج کے بار ے میں ایک پریس ریلیز نکالتے' جسے نہ پاکستان ٹیلی ویژن پر جگہ ملتی اور نہ ریڈیو اسے نشر کرتے کہ دونوں سرکاری کنٹرول میں تھے۔ رات کو آٹھ بجے لوگ ٹرانسٹر ریڈیو پر بی بی سی کے پروگرام سیربین کا انتظار کرتے۔ بی بی سی پورے دن میں جس شہر میں بھی جلوس نکلے ہوتے' ان کا حال بتاتا۔
پولیس کی کارروائیوں کی خبر دیتا اور پھر اگلے دن کے بارے میں پاکستان قومی اتحاد کے احتجاجی پروگرام کی خبر نشر کرتا۔ عوام وہ خبر سنتے اور اگلے دن اس احتجاجی پروگرام پر عمل درآمد کرتے۔ صرف ایک دو اخبار ایسے تھے جو احتجاج کی خبریں نشر کرتے۔ یہ تحریک اس قدر مؤثر تھی کہ اس میں ہر طبقہ خیال کے لوگ موجود تھے۔ علمائے کرام میں سے کوئی مسلک ایسا نہ تھا جس کی نمایندگی نہ ہو، سیاسی پارٹیوں میں دائیں بازو کی مسلم لیگ جیسی پارٹیاں اور بائیں بازو کی سوشلسٹ اور کمیونسٹ پارٹیاں بھی اتحاد میں شامل تھیں۔
پاکستان کی کوئی قوم پرست پارٹی ایسی نہ تھی جو ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف اس تحریک کا حصہ نہ ہو۔ سندھ، بلوچستان اور اس زمانے کے صوبہ سرحد کے تمام قوم پرست ہراول دستے کی طرح ساتھ تھے۔ بھٹو کی مخالفت میں نہ کسی کو اپنے مسلک کا اختلاف یاد تھا اور نہ ہی قوم کا تعصب۔ اس تحریک کی کامیابی کا اندازہ سیاسی تجزیہ نگاروں کو اسی دن ہو گیا تھا جب قومی اسمبلی کے الیکشن کے نتائج پر پاکستانی قومی اتحاد نے دھاندلی کا الزام لگایا اور تین دن بعد ہونے والے صوبائی اسمبلی کے الیکشنوں کا بائیکاٹ کیا تو پورے ملک کے پولنگ بوتھوں پر سناٹا چھا گیا۔
الیکشن ایک ایسی صورت حال ہوتی ہے جس میں دونوں جانب کے ووٹر ووٹ ڈالنے کے لیے میدان میں نکلتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس دن کے کامیاب بائیکاٹ نے یہ اعلان کر دیا تھا کہ عوام کی ایک واضح اکثریت نہ اس دھاندلی کو مانتی ہے اور نہ ہی ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کو مزید مہلت دینا چاہتی ہے۔ نیلا گنبد لاہور کی مسجد میں گلوں میں قرآن لٹکائے قومی اتحاد کے رہنما عصر کے بعد تحریک کے آغاز کے لیے برآمد ہوئے۔ عوام کا ایک ہجوم ان کے ساتھ تھا، جلوس کا جوش و جذبہ دیکھ کر اگلے دن پولیس کو کارروائی کرنے کے لیے کہا گیا۔
اگلے دن جلوس مسجد شہداء لاہور سے برآمد ہوا۔ جیسے ہی لوگ باہر نکلے' پولیس لاٹھیاں لے کر ان پر پل پڑی۔ بدترین تشدد، آنسو گیس، ایک معرکہ تھا جو کئی گھنٹے چلتا رہا۔ قومی اتحاد کی قیادت گرفتار کر لی گئی۔ اب قومی اتحاد نے اپنی حکمت عملی بدلی۔ تمام شہروں کو جلوس نکالنے، جلسے کرنے اور احتجاج منعقد کرنے کے لیے آزاد کر دیا گیا۔ تحریک تھوڑی سرد پڑ گئی کیونکہ صرف کراچی اور حیدر آباد میں جلسے اور جلوس نکل رہے تھے۔ باقی پورے ملک میں روز چار یا پانچ افراد فی شہر گرفتاریاں دے رہے تھے۔
کراچی سے لوگ پنجاب کو چوڑیاں بھیج رہے تھے لیکن پورے ملک میں کوئی شہر یا قصبہ ایسا نہ تھا جہاں روز تحریک کا کوئی چھوٹا یا بڑا ہنگامہ نہ ہوتا۔ لوگ بی بی سی کا سیرسبین روزانہ رات کو سنتے، مارچ، اپریل کے مہینوں میں انھیں جلوسوں، گرفتاریوں اور لوگوں پر پولیس کے تشدد کی خبریں ملتی رہیں۔ 9 اپریل 1977ء کا لاہور اسمبلی کے سامنے مظاہرہ جب میدان جنگ بنا اور پولیس کی فائرنگ سے لاشیں گریں تو تفصیل صرف بی بی سی پر نشر ہوئی۔
اس کے بعد میکلورڈ روڈ لاہور کا وہ تاریخی واقعہ کہ جب جوش میں ابلتے جلوس پر رتن سینما سے فائرنگ کی گئی تو ہجوم گولیوں کی بوچھاڑ میں چھت پر چڑھا اور فائرنگ کرنے والوں کو اوپر سے گرا دیا۔ اس کے بعد رات کو بی بی سی پر جلوسوں، ہنگاموں اور جلسوں کی خبریں آتیں لیکن پولیس تشدد کی خبر نشر نہ ہوتی۔ یوں لگتا تھا جیسے پولیس تھک چکی ہے۔ تین ماہ کی مسلسل تحریک، روز جلوس، جلسے، پولیس کی ہمت جواب دے گئی ہے۔ مجھے بھی یوں ہی لگتا تھا۔
فوج بلائی گئی، لوگ سینہ تان کر سامنے کھڑے ہو گئے، فوج نے گولی چلانے سے انکار کر دیا۔ میں اسے ایک سازش سمجھتا تھا۔ لیکن 31 سال انتظامیہ میں رہنے کے بعد آج اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر اس ملک میں کوئی ملک گیر تحریک چل نکلے جس میں وہی جذبہ موجود ہو جو 1977ء میں تھا تو پاکستان کی پولیس یا پیرا ملٹری فورسز میں اہلیت ہی نہیں کہ اس تحریک کو روک سکے یا اس پر قابو پا سکے۔ اس لیے کہ پاکستان میں امن عامہ کے نفاذ کے تمام ادارے جو افرادی قوت رکھتے ہیں وہ بیس کروڑ عوام کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے۔
پاکستان میں اس وقت پولیس کی کل تعداد تین لاکھ اٹھاسی ہزار دوسو چونتیس (3,88,234) ہے۔ پنجاب (1,80,000)، سندھ (1,05,234)، خیبرپختونخواہ (65,000) اور بلوچستان (38,000)۔ ان میں افسران، حوالدار، سپاہی، چپڑاسی وغیرہ سب شامل ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 35 فیصد ایسے ہیں جو وی آئی پی سیکیورٹی پر مامور ہیں۔یہ ہو گئے ایک لاکھ نو ہزار دو سو چالیس (109,240)، ایسے سپاہی جو سب سے چاک و چوبند اور جدید اسلحہ اور گاڑیوں سے لیس ہیں۔ پولیس کا سرمایہ یہی ہے۔
باقی 2 لاکھ اٹھہتر ہزار نو سو چورانوے (2,78,994) میں اٹھہتر ہزار وہ سپاہی ہوں گے جو افسروں کے گھروں میں ذاتی ملازمتوں میں، دفتر میں چپڑاسی، تھانے میں تعمیلی اور دیگر جگہوں پر تعینات ہوں گے جن کا امن عامہ سے کوئی واسطہ نہ ہو گا۔ باقی رہ گئے دو لاکھ پولیس والے۔ پاکستان میں اس وقت چھوٹے بڑے شہروں کی تعداد 271 ہے۔ جن میں پچاس شہر تو ایسے ہیں جن میں کئی کئی شہر آباد ہیں۔ ان دو لاکھ سپاہیوں کو 271 پر تقسیم کیا جائے تو ہر شہر کے لیے 738 پولیس والے بنتے ہیں۔
یعنی کراچی، لاہور، حیدر آباد، فیصل آباد، راولپنڈی، پشاور اور کوئٹہ جیسے مقامات کے لیے بھی 738۔ ان شہروں میں اگر پانچ مقامات فی شہر بھی جلوس نکلنا شروع ہو جائیں تو پولیس کی سٹی گم ہو جائے۔ اب رہ گیا دوسری پیرا ملٹری فورسز یعنی رینجرز اور ایف سی کا معاملہ۔ رینجرز کے پاس اس وقت کل ایک لاکھ افراد ہیں جن میں سے آدھے سندھ اور پنجاب کے ساتھ بھارت کے بارڈر پر تعینات ہیں جب کہ بلوچستان اور سرحد میں ایف سی کی تعداد اسی ہزار ہے۔ ان میں سے بھی اکثریت افغانستان کے بارڈر پر موجود رہتی ہے۔
اگر ان دونوں سے مزید ایک لاکھ افراد کو بلا بھی لیا جائے تو وہ کبھی بھی عوام کے سامنے نہیں آتے کیونکہ ان کے پاس استعمال کے لیے نہ لاٹھی ہوتی ہے نہ آنسو گیس، نہ ربڑ کی گولیاں وغیرہ۔ وہ تو صرف بندوق تھامے ہوتے ہیں، جس کا استعمال انتہائی خطرناک ہوتا ہے۔ یہ ہے پاکستان میں کسی بڑی عوامی تحریک کو روکنے کے لیے حکومت کی کل صلاحیت اور کل اوقات۔
وہ پولیس جس پر پنجاب فی کس 97 روپے، بلوچستان 104 روپے، سندھ 112 روپے اور خیبرپختونخوا حکومت 121 روپے خرچ کرتی ہو' اسے آپ اس کھولتے ہوئے ہجوم کے سامنے کھڑا کرنا چاہتے ہیں جو لوڈشیڈنگ، بے روزگاری، بیماری، افلاس، بھوک اور روز روز کے استحصال سے تنگ آ چکا ہو۔ یہ وہ کھولتا ہوا ہجوم ہے کہ جو اگر اس ملک کے صرف 271 شہروں میں ہی بیک وقت نکل آیا تو کسی حکومت میں اتنی تاب و توانائی نہیں کہ ایک ہفتہ بھی ان کا سامنا کر سکے۔ انھیں خواب مت دکھاؤ۔ 1977ء میں یہ لوگ کسی خواب کے لیے باہر نہیں نکلے تھے۔ وہ صرف اور صرف ذوالفقار علی بھٹو کی آمرانہ جمہوریت سے تنگ آئے ہوئے تھے۔
نظام مصطفیٰ کا نعرہ تو اپریل کے آخر میں لگایا گیا اور وہ بھی لیڈروں تک محدود تھا۔ عوام تو اپنا اپنا غصہ، اپنا اپنا دکھ اور اپنی اپنی اذیت کا انتقام لے کر باہر آئے تھے۔ آج یہ غصہ، دکھ اور انتقام 1977ء سے کئی گنا زیادہ ہے۔ ڈرو اس انتقام سے۔ یہ1977ء نہیں جب سب اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی ویژن سرکار کے قبضے میں تھے۔ ایک قصبے میں تشدد کی خبر کئی دنوں بعد ملتی تھی۔ آج تو انٹرنیٹ اور موبائل کا دور ہے۔ غصے میں بپھرے ہوئے اتنے سارے لوگ جب ایک دوسرے سے صرف چند سیکنڈ کی دوری پر ہوں تو اس کا انجام بہت خوفناک بھی ہو سکتا ہے۔
پوری کی پوری قیادت جیل میں تھی۔ دوسرے اور تیسرے درجے کے سیاسی کارکنوں سے بھی جیلیں بھری جا چکی تھیں۔ ایسے میں پاکستان قومی اتحاد کا دفتر عام ورکروں کے ہاتھ میں تھا جو روزانہ شام کو اگلے دن کے احتجاج کے بار ے میں ایک پریس ریلیز نکالتے' جسے نہ پاکستان ٹیلی ویژن پر جگہ ملتی اور نہ ریڈیو اسے نشر کرتے کہ دونوں سرکاری کنٹرول میں تھے۔ رات کو آٹھ بجے لوگ ٹرانسٹر ریڈیو پر بی بی سی کے پروگرام سیربین کا انتظار کرتے۔ بی بی سی پورے دن میں جس شہر میں بھی جلوس نکلے ہوتے' ان کا حال بتاتا۔
پولیس کی کارروائیوں کی خبر دیتا اور پھر اگلے دن کے بارے میں پاکستان قومی اتحاد کے احتجاجی پروگرام کی خبر نشر کرتا۔ عوام وہ خبر سنتے اور اگلے دن اس احتجاجی پروگرام پر عمل درآمد کرتے۔ صرف ایک دو اخبار ایسے تھے جو احتجاج کی خبریں نشر کرتے۔ یہ تحریک اس قدر مؤثر تھی کہ اس میں ہر طبقہ خیال کے لوگ موجود تھے۔ علمائے کرام میں سے کوئی مسلک ایسا نہ تھا جس کی نمایندگی نہ ہو، سیاسی پارٹیوں میں دائیں بازو کی مسلم لیگ جیسی پارٹیاں اور بائیں بازو کی سوشلسٹ اور کمیونسٹ پارٹیاں بھی اتحاد میں شامل تھیں۔
پاکستان کی کوئی قوم پرست پارٹی ایسی نہ تھی جو ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف اس تحریک کا حصہ نہ ہو۔ سندھ، بلوچستان اور اس زمانے کے صوبہ سرحد کے تمام قوم پرست ہراول دستے کی طرح ساتھ تھے۔ بھٹو کی مخالفت میں نہ کسی کو اپنے مسلک کا اختلاف یاد تھا اور نہ ہی قوم کا تعصب۔ اس تحریک کی کامیابی کا اندازہ سیاسی تجزیہ نگاروں کو اسی دن ہو گیا تھا جب قومی اسمبلی کے الیکشن کے نتائج پر پاکستانی قومی اتحاد نے دھاندلی کا الزام لگایا اور تین دن بعد ہونے والے صوبائی اسمبلی کے الیکشنوں کا بائیکاٹ کیا تو پورے ملک کے پولنگ بوتھوں پر سناٹا چھا گیا۔
الیکشن ایک ایسی صورت حال ہوتی ہے جس میں دونوں جانب کے ووٹر ووٹ ڈالنے کے لیے میدان میں نکلتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس دن کے کامیاب بائیکاٹ نے یہ اعلان کر دیا تھا کہ عوام کی ایک واضح اکثریت نہ اس دھاندلی کو مانتی ہے اور نہ ہی ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کو مزید مہلت دینا چاہتی ہے۔ نیلا گنبد لاہور کی مسجد میں گلوں میں قرآن لٹکائے قومی اتحاد کے رہنما عصر کے بعد تحریک کے آغاز کے لیے برآمد ہوئے۔ عوام کا ایک ہجوم ان کے ساتھ تھا، جلوس کا جوش و جذبہ دیکھ کر اگلے دن پولیس کو کارروائی کرنے کے لیے کہا گیا۔
اگلے دن جلوس مسجد شہداء لاہور سے برآمد ہوا۔ جیسے ہی لوگ باہر نکلے' پولیس لاٹھیاں لے کر ان پر پل پڑی۔ بدترین تشدد، آنسو گیس، ایک معرکہ تھا جو کئی گھنٹے چلتا رہا۔ قومی اتحاد کی قیادت گرفتار کر لی گئی۔ اب قومی اتحاد نے اپنی حکمت عملی بدلی۔ تمام شہروں کو جلوس نکالنے، جلسے کرنے اور احتجاج منعقد کرنے کے لیے آزاد کر دیا گیا۔ تحریک تھوڑی سرد پڑ گئی کیونکہ صرف کراچی اور حیدر آباد میں جلسے اور جلوس نکل رہے تھے۔ باقی پورے ملک میں روز چار یا پانچ افراد فی شہر گرفتاریاں دے رہے تھے۔
کراچی سے لوگ پنجاب کو چوڑیاں بھیج رہے تھے لیکن پورے ملک میں کوئی شہر یا قصبہ ایسا نہ تھا جہاں روز تحریک کا کوئی چھوٹا یا بڑا ہنگامہ نہ ہوتا۔ لوگ بی بی سی کا سیرسبین روزانہ رات کو سنتے، مارچ، اپریل کے مہینوں میں انھیں جلوسوں، گرفتاریوں اور لوگوں پر پولیس کے تشدد کی خبریں ملتی رہیں۔ 9 اپریل 1977ء کا لاہور اسمبلی کے سامنے مظاہرہ جب میدان جنگ بنا اور پولیس کی فائرنگ سے لاشیں گریں تو تفصیل صرف بی بی سی پر نشر ہوئی۔
اس کے بعد میکلورڈ روڈ لاہور کا وہ تاریخی واقعہ کہ جب جوش میں ابلتے جلوس پر رتن سینما سے فائرنگ کی گئی تو ہجوم گولیوں کی بوچھاڑ میں چھت پر چڑھا اور فائرنگ کرنے والوں کو اوپر سے گرا دیا۔ اس کے بعد رات کو بی بی سی پر جلوسوں، ہنگاموں اور جلسوں کی خبریں آتیں لیکن پولیس تشدد کی خبر نشر نہ ہوتی۔ یوں لگتا تھا جیسے پولیس تھک چکی ہے۔ تین ماہ کی مسلسل تحریک، روز جلوس، جلسے، پولیس کی ہمت جواب دے گئی ہے۔ مجھے بھی یوں ہی لگتا تھا۔
فوج بلائی گئی، لوگ سینہ تان کر سامنے کھڑے ہو گئے، فوج نے گولی چلانے سے انکار کر دیا۔ میں اسے ایک سازش سمجھتا تھا۔ لیکن 31 سال انتظامیہ میں رہنے کے بعد آج اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر اس ملک میں کوئی ملک گیر تحریک چل نکلے جس میں وہی جذبہ موجود ہو جو 1977ء میں تھا تو پاکستان کی پولیس یا پیرا ملٹری فورسز میں اہلیت ہی نہیں کہ اس تحریک کو روک سکے یا اس پر قابو پا سکے۔ اس لیے کہ پاکستان میں امن عامہ کے نفاذ کے تمام ادارے جو افرادی قوت رکھتے ہیں وہ بیس کروڑ عوام کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے۔
پاکستان میں اس وقت پولیس کی کل تعداد تین لاکھ اٹھاسی ہزار دوسو چونتیس (3,88,234) ہے۔ پنجاب (1,80,000)، سندھ (1,05,234)، خیبرپختونخواہ (65,000) اور بلوچستان (38,000)۔ ان میں افسران، حوالدار، سپاہی، چپڑاسی وغیرہ سب شامل ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 35 فیصد ایسے ہیں جو وی آئی پی سیکیورٹی پر مامور ہیں۔یہ ہو گئے ایک لاکھ نو ہزار دو سو چالیس (109,240)، ایسے سپاہی جو سب سے چاک و چوبند اور جدید اسلحہ اور گاڑیوں سے لیس ہیں۔ پولیس کا سرمایہ یہی ہے۔
باقی 2 لاکھ اٹھہتر ہزار نو سو چورانوے (2,78,994) میں اٹھہتر ہزار وہ سپاہی ہوں گے جو افسروں کے گھروں میں ذاتی ملازمتوں میں، دفتر میں چپڑاسی، تھانے میں تعمیلی اور دیگر جگہوں پر تعینات ہوں گے جن کا امن عامہ سے کوئی واسطہ نہ ہو گا۔ باقی رہ گئے دو لاکھ پولیس والے۔ پاکستان میں اس وقت چھوٹے بڑے شہروں کی تعداد 271 ہے۔ جن میں پچاس شہر تو ایسے ہیں جن میں کئی کئی شہر آباد ہیں۔ ان دو لاکھ سپاہیوں کو 271 پر تقسیم کیا جائے تو ہر شہر کے لیے 738 پولیس والے بنتے ہیں۔
یعنی کراچی، لاہور، حیدر آباد، فیصل آباد، راولپنڈی، پشاور اور کوئٹہ جیسے مقامات کے لیے بھی 738۔ ان شہروں میں اگر پانچ مقامات فی شہر بھی جلوس نکلنا شروع ہو جائیں تو پولیس کی سٹی گم ہو جائے۔ اب رہ گیا دوسری پیرا ملٹری فورسز یعنی رینجرز اور ایف سی کا معاملہ۔ رینجرز کے پاس اس وقت کل ایک لاکھ افراد ہیں جن میں سے آدھے سندھ اور پنجاب کے ساتھ بھارت کے بارڈر پر تعینات ہیں جب کہ بلوچستان اور سرحد میں ایف سی کی تعداد اسی ہزار ہے۔ ان میں سے بھی اکثریت افغانستان کے بارڈر پر موجود رہتی ہے۔
اگر ان دونوں سے مزید ایک لاکھ افراد کو بلا بھی لیا جائے تو وہ کبھی بھی عوام کے سامنے نہیں آتے کیونکہ ان کے پاس استعمال کے لیے نہ لاٹھی ہوتی ہے نہ آنسو گیس، نہ ربڑ کی گولیاں وغیرہ۔ وہ تو صرف بندوق تھامے ہوتے ہیں، جس کا استعمال انتہائی خطرناک ہوتا ہے۔ یہ ہے پاکستان میں کسی بڑی عوامی تحریک کو روکنے کے لیے حکومت کی کل صلاحیت اور کل اوقات۔
وہ پولیس جس پر پنجاب فی کس 97 روپے، بلوچستان 104 روپے، سندھ 112 روپے اور خیبرپختونخوا حکومت 121 روپے خرچ کرتی ہو' اسے آپ اس کھولتے ہوئے ہجوم کے سامنے کھڑا کرنا چاہتے ہیں جو لوڈشیڈنگ، بے روزگاری، بیماری، افلاس، بھوک اور روز روز کے استحصال سے تنگ آ چکا ہو۔ یہ وہ کھولتا ہوا ہجوم ہے کہ جو اگر اس ملک کے صرف 271 شہروں میں ہی بیک وقت نکل آیا تو کسی حکومت میں اتنی تاب و توانائی نہیں کہ ایک ہفتہ بھی ان کا سامنا کر سکے۔ انھیں خواب مت دکھاؤ۔ 1977ء میں یہ لوگ کسی خواب کے لیے باہر نہیں نکلے تھے۔ وہ صرف اور صرف ذوالفقار علی بھٹو کی آمرانہ جمہوریت سے تنگ آئے ہوئے تھے۔
نظام مصطفیٰ کا نعرہ تو اپریل کے آخر میں لگایا گیا اور وہ بھی لیڈروں تک محدود تھا۔ عوام تو اپنا اپنا غصہ، اپنا اپنا دکھ اور اپنی اپنی اذیت کا انتقام لے کر باہر آئے تھے۔ آج یہ غصہ، دکھ اور انتقام 1977ء سے کئی گنا زیادہ ہے۔ ڈرو اس انتقام سے۔ یہ1977ء نہیں جب سب اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی ویژن سرکار کے قبضے میں تھے۔ ایک قصبے میں تشدد کی خبر کئی دنوں بعد ملتی تھی۔ آج تو انٹرنیٹ اور موبائل کا دور ہے۔ غصے میں بپھرے ہوئے اتنے سارے لوگ جب ایک دوسرے سے صرف چند سیکنڈ کی دوری پر ہوں تو اس کا انجام بہت خوفناک بھی ہو سکتا ہے۔