امیر کا …’’مقام‘‘

53 سالہ امیر مقام پیشے کے لحاظ سے انجینئر ہیں یوں انھیں انجینئر امیر مقام کے نام سے یاد کیا جاتا ہے

53 سالہ امیر مقام پیشے کے لحاظ سے انجینئر ہیں یوں انھیں انجینئر امیر مقام کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔شانگلہ کے علاقے پورن کے گجر قبیلے میں پیدا ہوئے۔انجینئرنگ یونی ورسٹی پشاور سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔صوبائی حکومت کے کئی ترقیاتی منصوبوں کے ٹھیکے لیے یوں ٹھیکیدار قرار پائے۔

سیاست کا شوق ہوا تو 2001 میں یونین کونسل کے انتخابات میں حصہ لیا اور ناظم بن گئے۔ بنیادی تعلق جماعت اسلامی سے تھا ۔2008ء کے عام انتخابات میں حصہ لیا اور رکن قومی اسمبلی بن گئے۔پاکستان مسلم لیگ ق جوائن کی اور وفاقی وزیر بن گئے۔مسلم لیگ ق اور پیپلز پارٹی کا اکٹھ ہوا تو وزارت سے ا ستعفیٰ دے دیا۔خیال تھا کہ تبدیلی کی ہوا چلنے پر پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہو جائیں گے لیکن میاں نواز شریف پشاور کے فائیو اسٹار ہوٹل میں آئے، امیر مقام سے ملاقات کی تو امیر کا مقام پاکستان مسلم لیگ نواز ٹھہرا۔

سوات میں جلسہ کیا تو مخالفین نے بھی ان کی اہمیت تسلیم کی۔نواز شریف نے مہربانی کی تو امیر مقام کو اپنا مشیر مقرر کر دیا ۔جولوگ امیر مقام کو قریب سے جانتے ہیں ان کے نزدیک اپنی مدد آپ کے تحت انفرادی طور پر کسی بھی پارٹی کے لیے خدمت بلاشبہ صرف اور صرف انھی کا خاصہ ہے۔

جب سے انھوں نے مسلم لیگ ن کا دامن تھاما ہے تب سے مسلم لیگ کے چند" بڑے" ان کے نہیں بن سکے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کو جس قدر پزیرائی اس فرد واحد نے دی ہے وہ ماضی کے کئی سالوں میں پارٹی کے عہدے دار نہیں دلا سکے۔جب وہ جماعت اسلامی میں تھے تب بھی اور جب پاکستان مسلم لیگ ق میں آئے اس وقت بھی دونوں جماعتیں ان کے حوصلے اور جذبے کی معترف تھیں اور جنہوں نے مسلم لیگ ن میں آمد پر انھیں اپنے لیے خطرہ جانا وہ جانتے ہیں کہ سیاسی پارٹیاں محض عہدوں سے نہیں بلکہ عوام کی خدمت سے مقبولیت حاصل کرتی ہیں۔

امیر مقام کا ذکر اس لیے ہوا کہ گذشتہ تین برسوں میں میری ان سے دوسری ملاقات تھی اور چند لمحوں کی اس ملاقات سے یہ اندازہ لگانے میں کوئی مشکل نہ ہوئی کہ وہ صوبے کے مسلم لیگیوں کی آنکھوں کا تارہ بن چکے ہیں، روایتی مسلم لیگی جو اس صوبے کے گورنر بھی بنے اور آج کل بھی پارٹی عہدوں پر براجمان ہیں وہ نہیں چاہتے کہ مسلم لیگ ہزارہ کے ساتھ ساتھ سارے صوبے میں مقبول ہو اور دیگر سیاسی جماعتوں کے لیے انتخابات میں مشکلات پیدا کرے، اسی حوالے سے انھیں کریدنے کی بہت کوشش کی مگر آفرین ہے ان پر کہ کسی ایک کو بھی انھوں نے برا بھلا نہیں کہا۔

دوستوں کا کہنا تھا کہ نواز شریف جب سے وزیر اعظم بنے ہیں سب کچھ بھول بیٹھے ہیں کہ مسلم لیگی بھی اس وطن میں بستے ہیں ،انھیں یہ بھی یاد نہیں کہ وزارت عظمیٰ چھننے کے بعد بہت سے ان کے ہمدرد آج بھی اچھے دنوں کے منتظر ہیں اور وہ جو ان کے لیے جلسے جلوسوں میں نعرے لگاتے ہیں ان کے بناء وہ بھی تو کچھ نہیں اور ایسا نہ ہو پاکستان تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی جو منہ چھپاتے اسمبلی میں تو جاتے ہیں کہیں حقیقی استعفے دے کر گھر کو جاتے بنیں اور ساتھ میں بلاول بھٹو کو بھی جوش دلا دیں تو پھر میاں صاحب بڑی مشکل میں پڑ جائیں گے۔

ایسے میں شاید امیر مقام اس صوبے میں مسلم لیگ ن کے لیے بہت کچھ کر سکیں۔بہر طور امیر مقام نہیں مانے کہ نواز شریف اپنوں کو بھی نظر انداز کیے ہوئے ہیں بلکہ ان کا ماننا تھا کہ جب بھی انھوں نے وزیر اعظم سے وقت مانگا انھیں کبھی پریشانی نہیں ہوئی اور خاص طور پر مالاکنڈ میں کسٹم ایکٹ کی واپسی کے حوالے سے انھوں نے وزیر اعظم سے کئی بار رابطہ کیا اور بالآخر کسٹم ایکٹ واپس لے لیا گیا، یہ ایکٹ صوبائی حکومت کی جانب سے تجویز کیا گیا تھا اور اس وقت کے مسلم لیگی گورنر سردار مہتاب احمد خان نے اسے وفاقی حکومت کو بھیجا تھا جب ایکٹ کے نفاذ پر سارا مالاکنڈ سراپا احتجاج بن گیا تو امیر مقام نے اس ایکٹ کی واپسی کے لیے جو جدوجہد کی بلاشبہ وہ لائق ستائش ہے۔


دراصل کوئی نہیں چاہتا کہ مالاکنڈ کے شہریوں کو ٹیکس نہیں دینا چاہیے تاہم اس کے لیے طریقہ وضع کرنے اور منصوبہ بندی کے تحت کام کرنے کی ضرورت ہے۔اسی طرح جب پاکستان تحریک انصاف نے احتجاجی تحریک کی تیاریاں شروع کیں تو پشاور میں امیر مقام ان کے مد مقابل آ گئے کہ دھرنوں اور احتجاجوں کی بجائے ترقیاتی کاموں سے عوام کا دل جیتنا چاہیے اور اس سلسلے میں انھوں نے عوام کو ایک بڑے جلسے میں اکٹھا کر کے بڑا واضح پیغام بھی دیا۔

مستقبل میں ہونے والے عام انتخابات میں کون سی پارٹی اکثریت حاصل کرتی ہے، پاکستان تحریک انصاف کا مستقبل کیا ہو گا اور کیا پھر تین سے چار جماعتیں مل کر اس صوبے میں حکومت بنائیں گی، وزیر اعلیٰ کس پارٹی سے ہو گا یہ سوالات ابھی سے زیر بحث آنا شروع ہو گئے ہیں لیکن مسلم لیگی پوچھتے ہیں کہ مسلم لیگ کا مستقبل کیا ہو گا اور اس سوال کا بڑا آسان سا جواب ہے کہ اگر امیر کو اس کا مقام مل جائے تو پھر بڑے برج الٹ سکتے ہیں ۔

گذشتہ ہفتے پاکستان میں قائم برطانوی سفارت خانے کی جانب سے ہزاروں پاکستانیوں کی ویزہ درخواستیں مسترد کیے جانے اور سالانہ تین ارب روپے وصول کرنے کے حوالے سے لکھا جانے والا کالم ہفتہ بھر موضوع بحث رہا اور لاتعداد قارئین کی ای میلز اور ٹیلی فون کالز موصول ہوئیں بہت سوں نے خوب دل کی بھڑاس نکالی اور کئی نے مزید دلچسپ واقعات بیان کیے تو سوچا کہ اسی معاملے کو لے کر آگے بڑھا جائے۔

اسپین سے عتیق الرحمان نے لکھا کہ ایک سال سے برطانوی سفارت خانہ ویزہ فیسیں لے رہا ہے مگر بلا وجہ درخواست مسترد کر دی جاتی ہے، وزٹ ویزہ کو رہنے دیں ان کے بھائی اور وہ خود اپنے اہل خانہ کے ہمراہ یورپی شہری ہیں اور ان کی خواہش تھی کہ والدہ چند روز لندن میں قیام کریں حالانکہ وہ کئی بار ہالینڈ آ چکی ہیں اور کافی عرصہ قیام پذیر بھی رہیں انھیں معلوم نہ تھا کہ برطانوی سفارت خانہ اس بار برا سلوک روا رکھے گا، انھوں نے درخواست جمع کروائی جسے بوجوہ مسترد کر دیا گیا۔

اسلام آباد کے ایک مقامی اسپورٹس جرنلسٹ نے بتایا کہ ان کے پاس ان کے ادارے کا خط بھی تھا جب کہ انگلش کرکٹ بورڈ کی جانب سے دعوت نامہ جس میں ان کے بارے میں واضح طور پر لکھا گیا تھا اسے بھی ملحوظ خاطر نہیں لایا گیا اور یہ بتایا گیا کہ ویزہ افسر کے خیال میں اس کی کم آمدنی اسے برطانیہ جانے کی اجازت نہیں دیتی۔

کراچی سے ولید ستی نے ٹیلی فون کیا اور کہا کہ انھوں نے دو بار ویزہ کی درخواست دی پہلے ہی ان کے پاسپورٹ پر کئی ممالک بشمول فرانس اور اٹلی کے ویزے موجود ہیں اور وہ کئی بار بیرون ملک بھی جا چکے ہیں لیکن برطانوی سفارت خانے نے چھ ماہ قبل ان کی درخواست مسترد کی اور انھیں اپیل کا حق بھی نہیں دیا دوسری بار انھوں نے تمام دستاویزات کے ساتھ درخواست جمع کروائی مگر اس بار بھی نتیجہ ناکامی کی صورت سامنے آیا۔

میں نے نوجوان سے پوچھا کہ کیا وہ برطانیہ جا کر وہیں ٹھہرنا چاہتا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ آج کل کے حالات میں یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی بھی غیر ملکی برطانیہ میں جا کر غیر قانونی قیام کرے اور پھر اسے ملک بدر کر دیا جائے، ایک پاکستانی شہری کے ناتے وہ محض چند دنوں کے لیے لندن جانا چاہتا تھا مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ویزہ فیس بھی واپس نہیں کی جاتی اگر سفارت خانہ کم از کم ویزہ فیس واپس کر دے تو شاید انھیں زیادہ دکھ نہ ہو۔ کئی بار سفارت خانے رابطے کی کوشش کی یہاں بھی ٹیلی فون پر ریکارڈنگ گفت گو میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوئی کہ پہلے فون ملتا نہیں اور جب ملتا ہے تو کوئی بات کرنے کو تیار نہیں ہوتا، ایسے میں صحافتی اصولوں سے روگردانی مجبوری بن جاتی ہے۔
Load Next Story