’’شادی نہیں کرنی۔۔۔‘‘
تلخیوں سے گھبرا کر مزید مسائل نہ چنیں
وہ خواتین جنہوں نے زندگی میں ناخوش گوار تجربات بھگتے ہوں، وہ عملی زندگی میں بہت سے نفسیاتی مسائل کا شکار رہتی ہیں، اکثر گھرانوں میں والد اہل خانہ کی موجودگی میں والدہ کی تذلیل کرتے ہیں۔
بچیوں کے کچے ذہن پر اس کے بہت برے اثرات پڑتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں بیٹے شاید اتنے متاثر نہیں ہوتے۔ جب کہ بیٹیاں گھر میں ہوتی ہیں، دوسرا یہ کہ وہ ماں کی جگہ خود کو دیکھ رہی ہوتی ہیں۔ وہ اپنے والد کی عزت تو کرتی ہیں، لیکن والدہ سے والد کی بد سلوکی، توہین آمیز رویہ یا تشدد دیکھ کر ان کے اندر ایک ایسا خوف جنم لیتا ہے، جو آنے والی زندگی سے متنفر کردیتا ہے۔ ان کو خوف ہوتا ہے کہ شادی ہونے کی صورت میں میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا۔
اسی طرح جن بچوں کے والدین کے درمیان علیحدگی ہو جاتی ہے اور علیحدگی کے بعد وہ ددھیال یا ننھیال کے کسی رشتے دار کے گھر میں رہنے لگتے ہیں۔ والد یا والدہ معاشی لحاظ سے مستحکم نہ ہوں، تو عموماً رشتے دار بچوں کی پرورش تو کرتے ہیں، لیکن ظاہر ہے ماں باپ جیسی تعلیم وتربیت نہیں ہوتی۔ بعض اوقات ان کی تعلیم کا سلسلہ منقطع کر دیا جاتا ہے۔ بچے عموماً ایسے حالات میں خاصے حساس ہو جاتے ہیں۔ رشتے داروں کی جانب سے تضحیک یا خاندان میں جھگڑے ہوں، تو بچے بڑے ہوں تو تنہا رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
میاں بیوی کے درمیان ہونے والی ضد کی جنگ میں بچے جدائی کا ایسا عذاب سہتے ہیں کہ ماں باپ سے ہی نہیں بھائی بہنوں سے بھی ملنے پر پابندیاں عائد کر دی جاتی ہیں۔ میاں بیوی علیحدگی کے بعد بچوں کو اپنے پاس رکھنے کے لیے خاندان کے بزرگوں سے لے کر قانونی مدد تک حاصل کرتے ہیں اور بچوں کی حوالگی کے کیس میں میاں بیوی کے درمیان بچے پس جاتے ہیں۔ وہ یہ سوچتے ہیں کہ آخر میرے والدین ساتھ کیوں نہیں رہتے؟ میں کسی ایک کے ساتھ کیوں ہوں؟ دوسرے بچوں کی طرح میں اپنی ماں باپ دونوں کے ساتھ کیوں نہیں رہ سکتا؟ ماں اور باپ کے درمیان مجھے کسی ایک کا انتخاب کیوں کرنا ہے؟ اور یوں بچپن کے بے فکری کے حسین دن سوچوں کی بھٹی میں سلگتے گزرتے ہیں۔ اپنی ہی ذات کے منجدھار میں مقید اپنے ہی سوالوں میں الجھ کر ایسے بچے تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
اکثر بچے والدین سے علیحدہ ہونے کے بعد اکثر یہ بھی نہیں جانتے کہ ماں یا باپ کہاں رہتے ہیں اور کس حال میں ہیں؟ عموماً ماں یا باپ کی دوسری شادی کے بعد بچے اپنی ذات میں مزید تنہا ہو جاتے ہیں اور بیٹیوں کے ساتھ یہ صورت حال اور بھی بری ہوتی ہے۔ بچے باپ کے ساتھ رہتے ہوں، تو سوتیلی ماں کا رویہ، لڑائیاں جھگڑے، چیخ پکار ان کی زندگی اجیرن کر دیتا ہے اور ماں کے پاس ہوں تو سوتیلی باپ کا تشدد، غصہ، ڈانٹ ڈپٹ ان میں جینے کی رمق ختم کر دیتی ہے۔ ایسی بچیاں احساس محرومی کا سب سے زیادہ شکار ہوتی ہیں۔ ان کے نزدیک زندگی میں کوئی دل چسپی باقی نہیں رہتی، ان بچیوں کو محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے سب گنوا دیا ہے۔ تہی دست و تہی داماں ہوگئی ہیں۔
ان احساسات و خیالات کا غلبہ رہے، تو نوجوان اپنی زندگی سے مایوس ہو کر انتہائی قدم کی طرف سوچنے لگتے ہیں۔ کسی بھی انسان کے ماضی کی تلخ یادوں کو بھلادینا یا دل و دماغ سے ان تلخ تجربات کو مٹا دینا ناممکن ہے، لیکن ان کی اصلاح کی جا سکتی ہے۔ خصوصاً ایسی لڑکیاں جو شادی سے متنفر ہوتی ہیں۔ شادی کے خوب صورت بندھن سے خوف زدہ رہتی ہیں، بچپن کی تلخ یادیں ان کی عملی زندگی میں رکاوٹ کا سبب بنتی ہیں۔ اپنے ساتھ اس تلخی کا تصور انہیں لرزا دیتا ہے کہ میرے بچے بھی اسی طرح در بدر ہوں گے اور احساس محرومی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوںگے۔
ایسے میں ضروری ہے کہ وہ اپنی تلخ زندگی کو ایک ماضی کا حصہ سمجھ کر آگے بڑھنے کی ہمت کریں۔ ماں یا باپ میں سے کسی ایک کو زیادہ ذمہ دار سمجھنے کی سوچ فراموش کر دیں۔ مانا بہت تکالیف بیتی ہیں، لیکن اب کیا کیا جا سکتا ہے۔گڑے مردے اکھاڑنے سے صرف دکھ ہی ملے گا تو اس مشق کو اب ترک کر دیں اور دل سے اپنے ماں اور باپ کی عزت کریں۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ والدین بھی انسان ہیں اور انسان سے غلطیاں ہو جاتی ہیں۔ شاید یہ سب سے مشکل کام ہو، لیکن ایسے نوجوانوں کی شخصیت کے اضطراب و بے چینی کو اسی طرح سکون ملے گا۔
بظاہر زبان سے والدین سے شاید کبھی شکوہ تک نہ کیا ہو کبھی اپنی ذات کی تضحیک اور شخصیت کی ٹوٹ پھوٹ کا گلہ نہ کیا ہو، لیکن اندر ہی اندر ایک جنگ جاری رہتی ہے، زندگی کے ہر لمحے، ہر قدم پر جب کسی ناکامی کا سامنا ہو، جب بد سلوکی ہو۔ وہ ہمیشہ اپنے والدین کو مورد الزام ٹھہرانے لگتے ہیں اور اس کیفیت کا شکار اولاد عموماً تنہا اور اداس رہنے لگتی ہے اور اکثر اوقات اپنی زندگی کے خاتمے کے متعلق سوچتے ہیں۔ لہٰذا ایسی لڑکیاں اپنے والدین کو دل سے معاف کرکے اس کیفیت سے باہر نکل سکتے ہیں۔ کسی کاؤنسلرز کی مدد حاصل کی جاسکتی ہے۔
اپنی سوچ کو لفظوں کا روپ دینے سے انسان ہمیشہ بہتر محسوس کرتا ہے۔ لہٰذا اپنے احساسات اور جذبات کے متعلق اپنے بہن بھائیوں سے، اپنے قابل اعتماد دوستوں، رشتے داروں یا استاد سے گفتگو کر سکتی ہیں۔ اپنی سوچ کو تحریر کا روپ بھی دیا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ اپنے دوست خود بنیں یہ تصور کریں کہ ایک اچھا باپ یا ماں کیسا برتاؤ کرتی؟ کس طرح بات کرتی؟ اس طرح خود اپنے سے ویسا ہی اچھا سلوک کریں۔ اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کریں۔ اپنے خوابوں کو تعبیر کا روپ دیں۔ مثبت سوچیں اور اپنی منصوبہ بندی کو تحریر کرلیں اور انہیں پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے سوچیں اور تمام منفی سوچوں کو اپنے ذہن سے جھٹک دیں۔
سب سے اہم یہ یاد رکھنا ہے کہ زندگی کی تمام خوشیوں پر آپ کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا دوسروں کا۔ لہٰذا ماضی کی تلخ یادوں کے حصار سے نکل کر زندگی میں آگے بڑھیں۔ ایک بہترین شریک حیات کا انتخاب کریں اور ایک خوش گوار زندگی کی شروعات کریں۔ ماضی کی کڑواہٹ کو بھول جائیں اور اپنے رشتے داروں اور دوستوں کو بھی اس بات کی قطعی اجازت نہ دیں کہ وہ ہمدردی جتاتے ہوئے بار بار ماضی کے تکلیف دہ تجربات کا تذکرہ کریں۔ اس سلسلے میں بلا جھجھک پورے احترام کے ساتھ باقاعدہ معذرت کرکے منع کیا جا سکتا ہے۔ بسا اوقات بچپن کی تلخ یادوں کو کوشش کے باوجود بھلانا آسان نہیں ہوتا۔
اگر آپ کو لگے کہ آپ اس کیفیت سے نہیں نکل پا رہیں، تو کسی ماہر نفسیات سے مدد حاصل کی جا سکتی ہے۔ نئی زندگی شروع کرنے سے پہلے اس ذہنی کیفیت سے نجات ضروری ہے، ورنہ نئی زندگی متاثر ہوتی ہے۔ اکثر نا خوش گوار ازدواجی زندگی کے پس پشت ایسی ہی وجوہات موجود ہوتی ہیں، جو اختلافات کو جنم دے کر علیحدگی کا سبب بنتی ہیں لہٰذا شادی سے قبل اس کا تدارک کرنا ضروری ہے۔
زندگی ایک دفعہ ملتی ہے اور اس کی تمام خوشیوں پر ہر انسان کا پورا حق ہے۔ شادی ایک خوب صورت بندھن ہے، نئے رشتوں اور ذمے داریوں سے خوف زدہ ہونے کے بہ جائے اپنے سامنے ایسے جوڑوں کی مثالیں رکھیں جو کئی سال گزرنے کے بعد بھی خوش گوار ازدواجی زندگی گزار رہے ہیں۔ مثبت سوچیں، خوش رہیں اور خوش رکھیں۔ زندگی میں کوئی آپ کو اتنا نقصان نہیں پہنچا سکتا، جتنا انسان کی اپنی منفی سوچیں، لہٰذا مثبت سوچ کے ذریعے اپنی نئی زندگی کا آغاز کریں۔
بچیوں کے کچے ذہن پر اس کے بہت برے اثرات پڑتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں بیٹے شاید اتنے متاثر نہیں ہوتے۔ جب کہ بیٹیاں گھر میں ہوتی ہیں، دوسرا یہ کہ وہ ماں کی جگہ خود کو دیکھ رہی ہوتی ہیں۔ وہ اپنے والد کی عزت تو کرتی ہیں، لیکن والدہ سے والد کی بد سلوکی، توہین آمیز رویہ یا تشدد دیکھ کر ان کے اندر ایک ایسا خوف جنم لیتا ہے، جو آنے والی زندگی سے متنفر کردیتا ہے۔ ان کو خوف ہوتا ہے کہ شادی ہونے کی صورت میں میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا۔
اسی طرح جن بچوں کے والدین کے درمیان علیحدگی ہو جاتی ہے اور علیحدگی کے بعد وہ ددھیال یا ننھیال کے کسی رشتے دار کے گھر میں رہنے لگتے ہیں۔ والد یا والدہ معاشی لحاظ سے مستحکم نہ ہوں، تو عموماً رشتے دار بچوں کی پرورش تو کرتے ہیں، لیکن ظاہر ہے ماں باپ جیسی تعلیم وتربیت نہیں ہوتی۔ بعض اوقات ان کی تعلیم کا سلسلہ منقطع کر دیا جاتا ہے۔ بچے عموماً ایسے حالات میں خاصے حساس ہو جاتے ہیں۔ رشتے داروں کی جانب سے تضحیک یا خاندان میں جھگڑے ہوں، تو بچے بڑے ہوں تو تنہا رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
میاں بیوی کے درمیان ہونے والی ضد کی جنگ میں بچے جدائی کا ایسا عذاب سہتے ہیں کہ ماں باپ سے ہی نہیں بھائی بہنوں سے بھی ملنے پر پابندیاں عائد کر دی جاتی ہیں۔ میاں بیوی علیحدگی کے بعد بچوں کو اپنے پاس رکھنے کے لیے خاندان کے بزرگوں سے لے کر قانونی مدد تک حاصل کرتے ہیں اور بچوں کی حوالگی کے کیس میں میاں بیوی کے درمیان بچے پس جاتے ہیں۔ وہ یہ سوچتے ہیں کہ آخر میرے والدین ساتھ کیوں نہیں رہتے؟ میں کسی ایک کے ساتھ کیوں ہوں؟ دوسرے بچوں کی طرح میں اپنی ماں باپ دونوں کے ساتھ کیوں نہیں رہ سکتا؟ ماں اور باپ کے درمیان مجھے کسی ایک کا انتخاب کیوں کرنا ہے؟ اور یوں بچپن کے بے فکری کے حسین دن سوچوں کی بھٹی میں سلگتے گزرتے ہیں۔ اپنی ہی ذات کے منجدھار میں مقید اپنے ہی سوالوں میں الجھ کر ایسے بچے تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
اکثر بچے والدین سے علیحدہ ہونے کے بعد اکثر یہ بھی نہیں جانتے کہ ماں یا باپ کہاں رہتے ہیں اور کس حال میں ہیں؟ عموماً ماں یا باپ کی دوسری شادی کے بعد بچے اپنی ذات میں مزید تنہا ہو جاتے ہیں اور بیٹیوں کے ساتھ یہ صورت حال اور بھی بری ہوتی ہے۔ بچے باپ کے ساتھ رہتے ہوں، تو سوتیلی ماں کا رویہ، لڑائیاں جھگڑے، چیخ پکار ان کی زندگی اجیرن کر دیتا ہے اور ماں کے پاس ہوں تو سوتیلی باپ کا تشدد، غصہ، ڈانٹ ڈپٹ ان میں جینے کی رمق ختم کر دیتی ہے۔ ایسی بچیاں احساس محرومی کا سب سے زیادہ شکار ہوتی ہیں۔ ان کے نزدیک زندگی میں کوئی دل چسپی باقی نہیں رہتی، ان بچیوں کو محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے سب گنوا دیا ہے۔ تہی دست و تہی داماں ہوگئی ہیں۔
ان احساسات و خیالات کا غلبہ رہے، تو نوجوان اپنی زندگی سے مایوس ہو کر انتہائی قدم کی طرف سوچنے لگتے ہیں۔ کسی بھی انسان کے ماضی کی تلخ یادوں کو بھلادینا یا دل و دماغ سے ان تلخ تجربات کو مٹا دینا ناممکن ہے، لیکن ان کی اصلاح کی جا سکتی ہے۔ خصوصاً ایسی لڑکیاں جو شادی سے متنفر ہوتی ہیں۔ شادی کے خوب صورت بندھن سے خوف زدہ رہتی ہیں، بچپن کی تلخ یادیں ان کی عملی زندگی میں رکاوٹ کا سبب بنتی ہیں۔ اپنے ساتھ اس تلخی کا تصور انہیں لرزا دیتا ہے کہ میرے بچے بھی اسی طرح در بدر ہوں گے اور احساس محرومی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوںگے۔
ایسے میں ضروری ہے کہ وہ اپنی تلخ زندگی کو ایک ماضی کا حصہ سمجھ کر آگے بڑھنے کی ہمت کریں۔ ماں یا باپ میں سے کسی ایک کو زیادہ ذمہ دار سمجھنے کی سوچ فراموش کر دیں۔ مانا بہت تکالیف بیتی ہیں، لیکن اب کیا کیا جا سکتا ہے۔گڑے مردے اکھاڑنے سے صرف دکھ ہی ملے گا تو اس مشق کو اب ترک کر دیں اور دل سے اپنے ماں اور باپ کی عزت کریں۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ والدین بھی انسان ہیں اور انسان سے غلطیاں ہو جاتی ہیں۔ شاید یہ سب سے مشکل کام ہو، لیکن ایسے نوجوانوں کی شخصیت کے اضطراب و بے چینی کو اسی طرح سکون ملے گا۔
بظاہر زبان سے والدین سے شاید کبھی شکوہ تک نہ کیا ہو کبھی اپنی ذات کی تضحیک اور شخصیت کی ٹوٹ پھوٹ کا گلہ نہ کیا ہو، لیکن اندر ہی اندر ایک جنگ جاری رہتی ہے، زندگی کے ہر لمحے، ہر قدم پر جب کسی ناکامی کا سامنا ہو، جب بد سلوکی ہو۔ وہ ہمیشہ اپنے والدین کو مورد الزام ٹھہرانے لگتے ہیں اور اس کیفیت کا شکار اولاد عموماً تنہا اور اداس رہنے لگتی ہے اور اکثر اوقات اپنی زندگی کے خاتمے کے متعلق سوچتے ہیں۔ لہٰذا ایسی لڑکیاں اپنے والدین کو دل سے معاف کرکے اس کیفیت سے باہر نکل سکتے ہیں۔ کسی کاؤنسلرز کی مدد حاصل کی جاسکتی ہے۔
اپنی سوچ کو لفظوں کا روپ دینے سے انسان ہمیشہ بہتر محسوس کرتا ہے۔ لہٰذا اپنے احساسات اور جذبات کے متعلق اپنے بہن بھائیوں سے، اپنے قابل اعتماد دوستوں، رشتے داروں یا استاد سے گفتگو کر سکتی ہیں۔ اپنی سوچ کو تحریر کا روپ بھی دیا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ اپنے دوست خود بنیں یہ تصور کریں کہ ایک اچھا باپ یا ماں کیسا برتاؤ کرتی؟ کس طرح بات کرتی؟ اس طرح خود اپنے سے ویسا ہی اچھا سلوک کریں۔ اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کریں۔ اپنے خوابوں کو تعبیر کا روپ دیں۔ مثبت سوچیں اور اپنی منصوبہ بندی کو تحریر کرلیں اور انہیں پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے سوچیں اور تمام منفی سوچوں کو اپنے ذہن سے جھٹک دیں۔
سب سے اہم یہ یاد رکھنا ہے کہ زندگی کی تمام خوشیوں پر آپ کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا دوسروں کا۔ لہٰذا ماضی کی تلخ یادوں کے حصار سے نکل کر زندگی میں آگے بڑھیں۔ ایک بہترین شریک حیات کا انتخاب کریں اور ایک خوش گوار زندگی کی شروعات کریں۔ ماضی کی کڑواہٹ کو بھول جائیں اور اپنے رشتے داروں اور دوستوں کو بھی اس بات کی قطعی اجازت نہ دیں کہ وہ ہمدردی جتاتے ہوئے بار بار ماضی کے تکلیف دہ تجربات کا تذکرہ کریں۔ اس سلسلے میں بلا جھجھک پورے احترام کے ساتھ باقاعدہ معذرت کرکے منع کیا جا سکتا ہے۔ بسا اوقات بچپن کی تلخ یادوں کو کوشش کے باوجود بھلانا آسان نہیں ہوتا۔
اگر آپ کو لگے کہ آپ اس کیفیت سے نہیں نکل پا رہیں، تو کسی ماہر نفسیات سے مدد حاصل کی جا سکتی ہے۔ نئی زندگی شروع کرنے سے پہلے اس ذہنی کیفیت سے نجات ضروری ہے، ورنہ نئی زندگی متاثر ہوتی ہے۔ اکثر نا خوش گوار ازدواجی زندگی کے پس پشت ایسی ہی وجوہات موجود ہوتی ہیں، جو اختلافات کو جنم دے کر علیحدگی کا سبب بنتی ہیں لہٰذا شادی سے قبل اس کا تدارک کرنا ضروری ہے۔
زندگی ایک دفعہ ملتی ہے اور اس کی تمام خوشیوں پر ہر انسان کا پورا حق ہے۔ شادی ایک خوب صورت بندھن ہے، نئے رشتوں اور ذمے داریوں سے خوف زدہ ہونے کے بہ جائے اپنے سامنے ایسے جوڑوں کی مثالیں رکھیں جو کئی سال گزرنے کے بعد بھی خوش گوار ازدواجی زندگی گزار رہے ہیں۔ مثبت سوچیں، خوش رہیں اور خوش رکھیں۔ زندگی میں کوئی آپ کو اتنا نقصان نہیں پہنچا سکتا، جتنا انسان کی اپنی منفی سوچیں، لہٰذا مثبت سوچ کے ذریعے اپنی نئی زندگی کا آغاز کریں۔