دنیا میں210 کھرب ڈالرٹیکس حکام کی پہنچ سے باہر
2000ء میں4ٹریلین ڈالرٹیکس سے بچائے گئے، پانچ سال قبل یہ رقم ڈیڑھ ٹریلین تھی،رپورٹ
ٹیکس چوری پرایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ دنیا میں21 ٹریلین یا 210 کھرب ڈالرکی رقم ایسے مقامات پرجمع ہے جو ٹیکس حکام کے دائرہ کارمیں نہیںآتے۔ یہ رقم امریکا اور جاپان کی مشترکہ مجموعی قومی پیداوارکے برابر ہے۔
بی بی سی کے مطابق یہ تحقیق ٹیکس جسٹس نیٹ ورک نے کی ہے اور اس تحقیقاتی رپورٹ میں یہ پہلو اجاگر کیاگیا ہے کہ کیسے بینک خفیہ طورپرامیرافرادکی رقم ایسے ممالک میں منتقل کرنے میں مدد کرتے ہیں کہ جہاں ٹیکس حکام کی پہنچ نہ ہو۔
ان ممالک میں سوئٹزرلینڈ اور جزیرہ کیمن بھی شامل ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہاگیاکہ تیل کی دولت سے مالا مال ممالک کو اس کا سب سے زیادہ نقصان ہوتا ہے کیونکہ ان کی رقم دوسرے ممالک منتقل کردی جاتی ہے۔یہ رپورٹ برطانوی اخبار آبزرور کو دی گئی ہے۔
اس رپورٹ میں کہاگیاکہ 13 سے 20 ٹریلین ڈالر تک کی رقم خفیہ طور پر سوئٹرز لینڈ اورجزیرہ کیمن جیسے ممالک میں منتقل کی گئی ہے اوراس میں نجی بینکوں نے امیر افراد کی مددکی ہے۔یہ رپورٹ مشہورمشاورتی کمپنی میکنزی کے سابق ماہر معاشیات اور ٹیکس بچانے کے ماہرجیمزہنری نے تیارکی ہے۔ رپورٹ میںکہاگیاکہ دس بڑے نجی بینکوں نے 2000ء میں 4 ٹریلین ڈالر ٹیکس حکام کی پہنچ سے دور کیے جبکہ پانچ سال قبل یہ رقم ڈیڑھ ٹریلین ڈالرتھی۔
جن بینکوں نے خفیہ طور پررقم کی منتقلی میں مددکی،ان میںسوئٹزر لینڈکے یوبی ایس اور کریڈٹ سوئس بینک اور امریکی انویسٹمنٹ بینک گولڈمین سیکس بھی شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 1970ء کے بعد سے ترقی پذیر ممالک سے جتنا پیسہ باہرگیا ہے وہ اتنی رقم تھی کہ اس سے پوری دنیا کے قرضے اتارے جاسکتے تھے۔
دنیامیںعدم مساوات کو نمایاںکرتی ہوئی رپورٹ کہتی ہے کہ دنیا میں تقریباً100 کھرب ڈالرکی املاک صرف 92,000لوگوں کے ہاتھوںمیںہیںجوکہ دنیاکی آبادی کا صرف 0.001فیصد ہے۔رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ دنیاکے ان مراء میںبہت زیادہ مشابہت پائی جاتی ہے جبکہ یہی لوگ اپنے ہی ممالک کے لوگوں سے کافی مختلف لگتے ہیں۔
بی بی سی کے مطابق یہ تحقیق ٹیکس جسٹس نیٹ ورک نے کی ہے اور اس تحقیقاتی رپورٹ میں یہ پہلو اجاگر کیاگیا ہے کہ کیسے بینک خفیہ طورپرامیرافرادکی رقم ایسے ممالک میں منتقل کرنے میں مدد کرتے ہیں کہ جہاں ٹیکس حکام کی پہنچ نہ ہو۔
ان ممالک میں سوئٹزرلینڈ اور جزیرہ کیمن بھی شامل ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہاگیاکہ تیل کی دولت سے مالا مال ممالک کو اس کا سب سے زیادہ نقصان ہوتا ہے کیونکہ ان کی رقم دوسرے ممالک منتقل کردی جاتی ہے۔یہ رپورٹ برطانوی اخبار آبزرور کو دی گئی ہے۔
اس رپورٹ میں کہاگیاکہ 13 سے 20 ٹریلین ڈالر تک کی رقم خفیہ طور پر سوئٹرز لینڈ اورجزیرہ کیمن جیسے ممالک میں منتقل کی گئی ہے اوراس میں نجی بینکوں نے امیر افراد کی مددکی ہے۔یہ رپورٹ مشہورمشاورتی کمپنی میکنزی کے سابق ماہر معاشیات اور ٹیکس بچانے کے ماہرجیمزہنری نے تیارکی ہے۔ رپورٹ میںکہاگیاکہ دس بڑے نجی بینکوں نے 2000ء میں 4 ٹریلین ڈالر ٹیکس حکام کی پہنچ سے دور کیے جبکہ پانچ سال قبل یہ رقم ڈیڑھ ٹریلین ڈالرتھی۔
جن بینکوں نے خفیہ طور پررقم کی منتقلی میں مددکی،ان میںسوئٹزر لینڈکے یوبی ایس اور کریڈٹ سوئس بینک اور امریکی انویسٹمنٹ بینک گولڈمین سیکس بھی شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 1970ء کے بعد سے ترقی پذیر ممالک سے جتنا پیسہ باہرگیا ہے وہ اتنی رقم تھی کہ اس سے پوری دنیا کے قرضے اتارے جاسکتے تھے۔
دنیامیںعدم مساوات کو نمایاںکرتی ہوئی رپورٹ کہتی ہے کہ دنیا میں تقریباً100 کھرب ڈالرکی املاک صرف 92,000لوگوں کے ہاتھوںمیںہیںجوکہ دنیاکی آبادی کا صرف 0.001فیصد ہے۔رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ دنیاکے ان مراء میںبہت زیادہ مشابہت پائی جاتی ہے جبکہ یہی لوگ اپنے ہی ممالک کے لوگوں سے کافی مختلف لگتے ہیں۔