ایک اور تعزیتی بیان

اقتدار کیا اتنی ہی ضروری چیز ہے کہ اس کے لیے سب کچھ قربان کیا جا سکتا ہے

اقتدار کیا اتنی ہی ضروری چیز ہے کہ اس کے لیے سب کچھ قربان کیا جا سکتا ہے

ڈکٹیٹر وردی والا ہو یا سادہ کپڑوں میں۔ دونوں کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ اقتدار کو طول کیسے دیا جائے۔ موجودہ جمہوری دور کے8برسوں میں مفاہمت کے جادوگر آصف علی زرداری نے اپنا 5 سالہ دور مکمل کرنے کے لیے اتحادیوں کو خوش رکھنے کی ہر کوشش کی۔

انھوں نے اپنے اتحادیوں کی جائز باتیں کم یا نہیں اور ناجائز فرمائشیں زیادہ پوری کیں۔ انھیں خطرہ رہتا تھا کہ انکار کی صورت میں حکومت ختم ہو جائے گی اور وہ اپنے ایجنڈے پر عملدرآمد میں ناکام ہو جائیں گے۔

ان کی مدت پوری ہوئی تو پہلی بار ایک سویلین حکومت سے دوسری سویلین حکومت کو اقتدار منتقل ہونے پر جشن منایاگیا۔ نواز شریف نے اقتدار سنبھالا تو 1997ء کی طرح اس بار بھی بھاری مینڈیٹ ان کے ساتھ تھا۔ بظاہر انھیں کسی کو خوش کرنے کی ضرورت نہیں تھی مگر انھوں نے بھی احتیاط کے دامن کو مضبوطی سے تھام رکھا ہے۔ میاں صاحب بھی کسی قسم کا رسک لینے کو تیار نہیں ہیں۔ ماضی میں جنرل ایوب، جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کی ترجیح بھی اپنے اقتدار کو مستقل قائم رکھنا تھا۔ حکمرانوں کی ترجیح اگر ذاتی اقتدار ہو تو پھر کوئٹہ جیسے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔کوئٹہ سانحہ میں تادم تحریر 70 افراد شہید اور 100سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔

یہ اس ملک میں ہونے والا پہلا سانحہ ہے اور نہ ہی اسے فی الحال آخری سمجھا جا سکتا ہے۔ پچھلے سانحے سے اس سانحے تک کچھ نہیں بدلا۔ وہی مناسب سیکیورٹی نہ ہونے کا رونا۔ سیاسی قائدین کے وہی تعزیتی اور مذمتی بیانات اور اسمبلیوں سے مذمتی قراردادوں کی منظوری۔ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے وہی پرانے دعوے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان ثناء اللہ زہری کہتے ہیں یہ بھارتی خفیہ ایجنسی ''را'' کی کارستانی ہے۔

ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ان کے پاس ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں کہ بلوچستان میں تخریب کاری کی کارروائیوں میں ''را''براہ راست ملوث ہے۔ ثناء اللہ زہری نے کبھی اس بات کا ذکر اپنے وزیراعظم سے بھی کیا ہے؟ میرا خیال ہے نہیں کیا ہو گا۔ وہ اگر ایسا کرتے تو ہمیں کبھی وزیراعظم کی طرف سے بھی ایسا سننے کو ملتا کہ وہ جس ملک کے وزیراعظم ہیں اس کے اندر بھارتی خفیہ ایجنسی کاررائیاں کر رہی ہے۔ اور تو اور وزیراعظم صاحب کے ہمدرد بھی ایسی جرات کبھی نہیں کرتے۔ اس ملک میں تو ''را'' کا بیانیہ بھی سننے کو مل جاتا ہے۔


بھارتی وزیرداخلہ سارک کانفرنس میں آتے ہیں تو ان کا ''شایان شان استقبال'' صرف چوہدری نثار ہی کرتے ہیں۔ ''را'' راجناتھ کی وزارت داخلہ کے ساتھ ہی مل کر کام کرتی ہے۔ دہشتگردی کی اس واردات اور تین سال قبل اسی تاریخ کو ہونے والی ایک اور کارروائی میں گہری مماثلت ہے۔ موجودہ 8اگست کی صبح بلوچستان بار کے صدر بلال انور کاسی کو منوجان روڈ پر نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کر کے شہید کردیا۔ منصوبہ سازوں کو معلوم تھا کہ ان کی میت سول اسپتال لائی جائے گی۔ ظاہر ہے جب کسی شعبے یا تنظیم کا سربراہ شہید ہوتا ہے تو اس کی کمیونٹی کی بڑی تعداد فوری طور پر پہنچتی ہے۔ اس سانحے میں بھی یہی ہوا، وکلا کی بڑی تعداد سول اسپتال پہنچ گئی۔ خود کش حملہ آور اسی موقع کے انتظار میں تھا۔ تین روایتی چوکیداروں کومات دے کر نکلنا مشکل نہیں ہوتا۔ وہ شعبہ حادثات کے بیرونی گیٹ پر پہنچا، اس نے فائرنگ کی اور پھر خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔

شہدا کی اکثریت کا تعلق وکلا برادری سے ہے۔ ہماری برادری کے دو افراد بھی شہید ہو گئے۔ آج نیوز کے کیمرہ مین شہزاد اور ڈان نیوز کے کیمرہ مین محمود خان اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران شہادت پا گئے۔ تین سال پہلے 8اگست کے ہی دن دہشتگردوں نے کوئٹہ میں ہی ایک پولیس افسر کو ٹارگٹ کر کے شہید کیا اور پھر اس کے جنازے میں خود کش حملہ کر دیا۔ اس دھماکے میں ڈی آئی جی، ایس پی اور ڈی ایس پی سمیت 30 اہلکار شہید ہو گئے تھے۔ ایسا نہیں کہ ان دو کارروائیوں کے دوران کوئی اور کارروائی نہیں ہوئی۔

دہشتگردوں کو جب اور جہاں موقع ملتا ہے وہ کارروائی کرگزرتے ہیں۔ پھر ایک بڑی کارروائی ہوتی ہے اس کے بعد جو کچھ ہوتا ہے یوں لگتا ہے کہ وہ کسی کتاب میں کہیں لکھ کر رکھ دیا گیا ہے۔ کل بھی آرمی چیف پہلے کوئٹہ پہنچے وہ سول اسپتال میں زخمیوں کی عیادت کے لیے گئے۔ انھوں نے دھماکے کی جگہ کا معائنہ کیا اور کور ہیڈکوارٹرز چلے گئے جہاں ایک اجلاس ہوا۔ آرمی چیف نے جیسے ہی کوئٹہ میں لینڈ کیا، وزیراعظم صاحب نے بھی ساری مصروفیات ترک کر دیں اور کوئٹہ کے لیے روانہ ہو گئے۔ ابھی کئی اجلاس ہوں گے، سانحہ کوئٹہ کی رپورٹ پیش کی جائے گی، دہشتگردوں کے خلاف کارروائی جاری رکھنے کا اعلان ہو گا، ملک بھر میں سوگ کا اعلان پہلے ہی کیا جا چکا ہے، شہدا کے ورثا کے لیے مالی امداد کا اعلان ہو چکا ہوگا یا ہو جائے گا۔ اس سب کے بعد کیا ہو گا، کچھ بھی نہیں، وہی سکوت ہو گا۔

پھر کسی نئے سانحے کا انتظار کیا جائے گا، نیشنل ایکشن پلان پر عمل کرنے کی یقین دہانی کرائی جائے گی، عمران خان کو پشاور تا کوہاٹ مارچ پر انقرہ مارچ کا طعنہ دیا جائے گا، طاہرالقادری اور ان کے ساتھ احتجاج میں شریک ہونے والوں کو ملک میں ہونے والی ''شاندار''ترقی کا دشمن قرار دیا جائے گا، ہمیں بتایا جائے گا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں انصاف مل چکا، پانامہ لیکس کا ذکر کرنے والے ترقی کا پہیہ روکنا چاہتے ہیں اور فلاں فلاں لوگ جمہوریت کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ پھر سے یاد دہانی کرائی جائے گی کہ آف شور کمپنی بنانا کوئی غیر قانونی کام نہیں۔ ملک سے پیسہ کیسے باہر گیا اس کا کوئی ثبوت پیش کرنے کے بجائے مخالفین سے کہا جائے گا کہ وہ ثابت کریں اس ملک سے پیسہ باہر گیا ہے۔ یوم آزادی سے چند روز قبل اس ملک کو پھر خون میں نہلا دیا گیا ہے۔ ہماری قیادت ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھی۔ ان کی آنیاں جانیاں قوم دیکھ سکتی ہے۔

اقتدار کیا اتنی ہی ضروری چیز ہے کہ اس کے لیے سب کچھ قربان کیا جا سکتا ہے۔ جی ہاں! سب کچھ۔ اور کیا سڑکیں اور پل بنانا ہی ترقی ہے، ہمیں تو یہی بتایا جاتا ہے۔ گذرے کل ایک خبر تھی کہ امریکی صدر اوباما کی بیٹی ساشا نے ایک ریسٹورنٹ میں ویٹر کی نوکری کر لی ہے۔ اتنا طاقتور صدر اور اس کی بیٹی ایک معمولی ویٹر۔ کوئی ہم سے پوچھے تو ہم فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے وزیراعظم کی صاحبزادی وزیراعظم ہاؤس میں قومی خدمات انجام دیتی ہیں۔ قوم کا درد کس کو زیادہ ہے؟ فیصلہ آپ خود کر لیں۔اس تحریر کو کچھ اور نہ سمجھا جائے ۔ ڈھیر سارے تعزیتی بیانات آپ سن اور پڑھ چکے ہیں۔ اسے بھی ایک تعزیتی بیان ہی سمجھا جائے ۔ ہم اور کر بھی کیا سکتے ہیں!
Load Next Story