شاہ جی آپ بس ڈٹے رہیں
مراد علی شاہ کا عوامی ماڈل پرویز خٹک اور میاں شہباز شریف دونوں کے لیے چیلنج ثابت ہو گا
مجھے پچھلے ہفتے سے محسوس ہو رہا ہے سندھ میں پنجاب اور خیبر پختونخواہ سے پہلے تبدیلی آ جائے گی اور لوگ پیپلز پارٹی زندہ باد کے نعرے لگانے پر مجبور ہو جائیں گے۔
مراد علی شاہ نے 29 جولائی کو سندھ کی وزارت اعلیٰ کا حلف اٹھایا، پہلے دن دو سیاسی قدم اٹھائے، پہلا قدم، وزیراعلیٰ ہاؤس کے سامنے سے رکاوٹیں ہٹا دیں، یہ رکاوٹیں طویل عرصے سے عوام کے لیے عذاب بنی ہوئی تھیں، رکاوٹوں کے خاتمے کے لیے عوام نے بھی احتجاج کیے، پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں نے بھی دھرنے دیے اور ایم کیو ایم نے بھی رکاوٹوں کے خلاف بار ہا آواز اٹھائی لیکن قائم علی شاہ کے دور میں یہ رکاوٹیں قائم رہیں، مراد علی شاہ نے اقتدار سنبھالتے ہی یہ رکاوٹیں ہٹا دیں، یہ ان کا پہلا اچھا قدم تھا، دوسرا قدم پروٹوکول کی پانچ گاڑیوں کی واپسی تھی، قائم علی شاہ کے ساتھ پروٹوکول کی 9 گاڑیاں چلتی تھیں، نئے سی ایم نے چار گاڑیاں رکھ لیں اور پانچ واپس کر دیں۔
وزیراعلیٰ نے دوسرے دن ''سندھ کیبنٹ'' کے نام سے وزراء کا واٹس ایپ گروپ بنایا، گروپ کے ایڈمنسٹریٹر خود بنے اور تمام وزراء کو یہ واٹس ایپ گروپ جوائن کرنے کا حکم دے دیا، وزراء اب واٹس ایپ کے ذریعے چیف منسٹر سے رابطے میں رہتے ہیں، یہ چیف منسٹر کو روزانہ اپنی کارکردگی سے بھی مطلع کرتے رہتے ہیں، وزیراعلیٰ واٹس ایپ کے ذریعے انھیں ہدایات بھی جاری کرتے رہتے ہیں، وزیراعلیٰ نے اگلے تین دنوں میں اپنے اسٹاف، وزراء اور تمام صوبائی محکموں کے افسروں کو وقت کا پابند بھی بنا دیا، کل آٹھ برس بعد پہلی بار کابینہ کا اجلاس صبح آٹھ بجے ہوا، وزیراعلیٰ صبح آٹھ بجے اپنے دفتر بھی آ جاتے ہیں، اسٹاف بھی وقت پر دفتر پہنچ رہا ہے، سرکاری محکموں میں بھی تبدیلی آ رہی ہے، افسر اور ماتحت بھی اب وقت کی پابندی کر رہے ہیں، وزیراعلیٰ نے دسمبر تک 21 ترقیاتی اسکیمیں مکمل کرنے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔
ان اسکیموں میں سڑکیں، انڈر پاس اور فلائی اوور شامل ہیں، شاہ صاحب کراچی شہر میں بھی دکھائی دے رہے ہیں، 6 اگست کو کراچی میں بارش ہو رہی تھی، یہ شہر میں نکل آئے، کارپوریشن کے عملے کو بلایا اور پانی نکالنے کی ہدایات دیں، ناشتہ صدر کے چھوٹے سے ریستوران میں کیا اور بل پرنسپل سیکریٹری سے ادھار لے کر ادا کیا، حیدرآباد میں بارش ہوئی، لوگوں کے گھروں میں پانی چلا گیا، شہری زندگی مفلوج ہو گئی، مراد علی شاہ نے مولا بخش چانڈیو کو حیدر آباد بھجوا دیا، سرکاری اہلکاروں کی چھٹیاں منسوخ کر دیں اور کارپوریشن کے عملے کو شہر کی صفائی اور بحالی کا حکم دے دیا۔
یہ چند اقدامات ہیں، یہ ناکافی ہیں، سندھ بالخصوص کراچی کو ہنگامی بنیادوں پر بے تحاشہ توجہ کی ضرورت ہے لیکن آپ یہ بھی یاد رکھیں مراد علی شاہ کو ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں، یہ آٹھ دن ''وارم اپ ڈیز'' ہیں، یہ اصل میچ اگلے مہینے کھیلیں گے اور میرا خیال ہے یہ کامیاب بھی ہو جائیں گے، کیوں؟ کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی کا پورا مستقبل مراد علی شاہ پر لگ چکا ہے، ان کی ناکامی پوری پارٹی کی ناکامی ہو گی جس کے بعد سندھ بھی پارٹی کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور بلاول بھٹو زرداری کے وزیراعظم بننے کا خواب بھی ٹوٹ جائے گا اور پارٹی یہ افورڈ نہیں کر سکتی چنانچہ پارٹی اور مراد علی شاہ دونوں ایڑھی چوٹی کا زور لگا دیں گے، میاں نواز شریف بھی مراد علی شاہ کو سپورٹ کریں گے۔
کیوں؟ کیونکہ عمران خان ایک بار پھر دھرنا دے رہے ہیں، میاں نواز شریف دھرنے کے مہلک اثرات سے بچنے کے لیے بہت جلد پاکستان پیپلز پارٹی کی مدد لینے پر مجبور ہو جائیں گے، پیپلز پارٹی عمران خان کے ساتھ سڑکوں پر نہیں آ رہی، یہ اگلے ماہ احتجاج شروع کرے گی، پارٹی ایک ماہ میاں نواز شریف کا رویہ دیکھے گی، وفاقی حکومت اگر نئے وزیراعلیٰ کو سپورٹ دے گی، یہ اگر اگست میں سندھ حکومت کی تمام درخواستیں نبٹا دے گی تو پھر پاکستان پیپلز پارٹی کی مخالفت سندھ کے چند شہروں میں جلسوں اور وفاقی حکومت کے خلاف نعروں تک محدود ہو جائے گی اور اگر حکومت مراد علی شاہ کی مدد نہیں کرتی، یہ سندھ کو فنڈز جاری نہیں کرتی، یہ بجلی کے معاملات میں کراچی کو رعایت نہیں دیتی، یہ کراچی میٹرو کا فنڈ ریلیز نہیں کرتی اور یہ سندھ کے بقایا جات ادا نہیں کرتی تو پھر میاں صاحب کی قسمت بلاول بھٹو کو عمران خان کے کنٹینر سے دور نہیں رکھ سکے گی اور آپ یہ بھی ذہن میں رکھیں اگر کبھی اسٹیبلشمنٹ کو عمران خان اور بلاول بھٹو میں سے کسی ایک کا فیصلہ کرنا پڑا تو یہ لوگ بلاول بھٹو کو فوقیت دیں گے، کیوں؟ اس کی دو وجوہات ہیں، پہلی وجہ عمران خان ہیں، عمران خان ضدی اور نہ ماننے والے مشکل انسان ثابت ہو رہے ہیں، یہ ناتجربہ کار بھی ہیں۔
یہ خیبر پختونخواہ میں ڈیلیور بھی نہیں کر سکے اور یہ اپنی زبان کو بھی قابو میں نہیں رکھ پا رہے، اسٹیبلشمنٹ کبھی ایسے شخص کے ساتھ کمفرٹ ایبل نہیں ہوگی، دوسری وجہ بلاول بھٹو ہیں، یہ خاندان کے تیسرے وزیراعظم ہوں گے، بلاول بھٹو کی پشت پر پارٹی کا طویل سیاسی اثاثہ، حکومت کی پچاس سالہ تاریخ اور آکسفورڈ کی اعلیٰ تعلیم ہو گی، یہ نوجوان بھی ہیں اور یہ کچھ کرنا بھی چاہتے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے ہماری ملٹری اسٹیبلشمنٹ میاں برادران کے مقابلے میں بھٹوز کے ساتھ زیادہ کمفرٹ ایبل رہتی ہے، جنرل ضیاء الحق نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے والد کو پھانسی پر لٹکا دیا تھا لیکن پاکستان پیپلز پارٹی نے اقتدار میں آ کر کبھی فوج سے بدلہ لینے کی کوشش نہیں کی، جرنیلوں کے خاندان جتنے محفوظ پیپلز پارٹی کے ادوار میں ہوتے ہیں، یہ نواز شریف کے دور میں اس کا تصور تک نہیں کر سکتے، پاک فوج کشمیر اور افغانستان دونوں کے بارے میں بہت حساس ہے اور یہ تاریخ ہے پیپلزپارٹی نے کبھی فوج کی اس حساسیت کو چھیڑنے کی غلطی نہیں کی، آپ تحقیق کر لیں آپ حیران رہ جائیں گے مقبوضہ کشمیر میں جب بھی اپ رائزنگ ہوئی یا مقبوضہ کشمیر کے آزادی پسند نوجوانوں کو جب بھی فنڈز، اسلحہ، سفارتی سپورٹ اور پناہ دی گئی۔
وہ پاکستان پیپلز پارٹی کا دور تھا، پیپلز پارٹی نے افغان ایشو پر بھی کبھی ''ریڈ لائین'' پر پاؤں نہیں رکھا، یہ لوگ ہمیشہ فوج کو ساتھ لے کر چلے جب کہ میاں نواز شریف کی اپروچ یکسر مختلف ہے، یہ پاکستان کو کشمیر اور افغانستان دونوں سے نکالنا چاہتے ہیں اور یہ وہ نقطہ ہے جہاں سے فوج اور ان کے درمیان اختلافات پیدا ہوتے ہیں، حکومت کے موجودہ حالات بھی اسی گملے میں پیدا ہوئے اور میاں نواز شریف کی انا نے انھیں پانی دے کر صرف تین برس میں گھنا جنگل بنا دیا اور عمران خان اب دوسری بار اس جنگل کے سائے میں بیٹھ رہے ہیں لیکن اس کا پھل بہرحال بلاول بھٹو زرداری ہی سمیٹیں گے، ملک کی فیصلہ کن طاقتوں کو بلاول بھٹو عمران خان سے بہتر محسوس ہو رہے ہیں اور مراد علی شاہ بلاول بھٹو کی پہلی بڑی سیاسی چال ہیں، یہ چال اگر کامیاب ہو گئی تو پھر کوئی طاقت بلاول کو کے پی کے اور پنجاب آنے سے نہیں روک سکے گی اور یوں پاکستان پیپلز پارٹی دوبارہ زندہ ہو جائے گی۔
مراد علی شاہ کا عوامی ماڈل پرویز خٹک اور میاں شہباز شریف دونوں کے لیے چیلنج ثابت ہو گا، میاں شہباز شریف 2008ء سے 2013ء تک عوامی وزیر اعلیٰ رہے، شاید اس کی وجہ وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی، یہ لوگ جانتے تھے ہم نے اگر عوام کو ہاتھ میں نہ رکھا تو ہم وفاق میں حکومت نہیں بنا سکیں گے چنانچہ میاں شہباز شریف 2013ء تک وزیراعلیٰ کے بجائے خادم اعلیٰ رہے لیکن جوں ہی پاکستان مسلم لیگ ن نے وفاق میں حکومت بنائی، میاں شہباز شریف خادم اعلیٰ سے وزیراعلیٰ بن گئے اور یہ اب آپ کو عوامی جیکٹ کے بجائے سوٹ بوٹ میں دکھائی دیتے ہیں، یہ اب عوام سے فاصلے پر بھی ہیں۔
اسی طرح پرویز خٹک عمران خان کی تبدیلی کے سفیر تھے مگر عمران خان کے دھرنوں اور غلط سیاسی فیصلوں نے ان کا سیاسی بھرکس نکال دیا، آپ جب بھی ٹھنڈے دل و دماغ سے تجزیہ کریںگے، آپ میری بات سے اتفاق کریں گے عمران خان کے دھرنوں کا میاں برادران کو اتنا نقصان نہیں ہوا جتنا نقصان پرویز خٹک اور خیبر پختونخواہ نے اٹھایا، عمران خان اگر پرویز خٹک کو کام کرنے دیتے تو پاکستان تحریک انصاف آج ریلیاں نہ نکال رہی ہوتی، یہ آج بسوں کی چھت پر بیٹھ کر اٹک تک نہ آ رہی ہوتی، تبدیلی اب تک پیدل چل کر پنجاب میں داخل ہو چکی ہوتی، یہ خان کے غلط فیصلے ہیں جن کی وجہ سے تبدیلی ماں کی کوکھ ہی میں فوت ہو گئی چنانچہ میاں شہباز شریف کے سوٹ بوٹ اور پرویز خٹک کی ناکامی کے درمیان سے مراد علی شاہ کا ابھرنا پیپلز پارٹی کی خوش نصیبی ہے، یہ خوش نصیبی اگر اسی طرح چلتی رہی تو دونوں صوبوں کے وزراء اعلیٰ مراد علی شاہ کی تقلید پر مجبور ہو جائیں گے یا پھر سیاسی ریٹائرمنٹ کے دور میں داخل ہو جائیں گے۔
شاہ جی آپ بس ڈٹے رہیں، عوام کو آپ جیسے ہی حکمران چاہئیں۔
مراد علی شاہ نے 29 جولائی کو سندھ کی وزارت اعلیٰ کا حلف اٹھایا، پہلے دن دو سیاسی قدم اٹھائے، پہلا قدم، وزیراعلیٰ ہاؤس کے سامنے سے رکاوٹیں ہٹا دیں، یہ رکاوٹیں طویل عرصے سے عوام کے لیے عذاب بنی ہوئی تھیں، رکاوٹوں کے خاتمے کے لیے عوام نے بھی احتجاج کیے، پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں نے بھی دھرنے دیے اور ایم کیو ایم نے بھی رکاوٹوں کے خلاف بار ہا آواز اٹھائی لیکن قائم علی شاہ کے دور میں یہ رکاوٹیں قائم رہیں، مراد علی شاہ نے اقتدار سنبھالتے ہی یہ رکاوٹیں ہٹا دیں، یہ ان کا پہلا اچھا قدم تھا، دوسرا قدم پروٹوکول کی پانچ گاڑیوں کی واپسی تھی، قائم علی شاہ کے ساتھ پروٹوکول کی 9 گاڑیاں چلتی تھیں، نئے سی ایم نے چار گاڑیاں رکھ لیں اور پانچ واپس کر دیں۔
وزیراعلیٰ نے دوسرے دن ''سندھ کیبنٹ'' کے نام سے وزراء کا واٹس ایپ گروپ بنایا، گروپ کے ایڈمنسٹریٹر خود بنے اور تمام وزراء کو یہ واٹس ایپ گروپ جوائن کرنے کا حکم دے دیا، وزراء اب واٹس ایپ کے ذریعے چیف منسٹر سے رابطے میں رہتے ہیں، یہ چیف منسٹر کو روزانہ اپنی کارکردگی سے بھی مطلع کرتے رہتے ہیں، وزیراعلیٰ واٹس ایپ کے ذریعے انھیں ہدایات بھی جاری کرتے رہتے ہیں، وزیراعلیٰ نے اگلے تین دنوں میں اپنے اسٹاف، وزراء اور تمام صوبائی محکموں کے افسروں کو وقت کا پابند بھی بنا دیا، کل آٹھ برس بعد پہلی بار کابینہ کا اجلاس صبح آٹھ بجے ہوا، وزیراعلیٰ صبح آٹھ بجے اپنے دفتر بھی آ جاتے ہیں، اسٹاف بھی وقت پر دفتر پہنچ رہا ہے، سرکاری محکموں میں بھی تبدیلی آ رہی ہے، افسر اور ماتحت بھی اب وقت کی پابندی کر رہے ہیں، وزیراعلیٰ نے دسمبر تک 21 ترقیاتی اسکیمیں مکمل کرنے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔
ان اسکیموں میں سڑکیں، انڈر پاس اور فلائی اوور شامل ہیں، شاہ صاحب کراچی شہر میں بھی دکھائی دے رہے ہیں، 6 اگست کو کراچی میں بارش ہو رہی تھی، یہ شہر میں نکل آئے، کارپوریشن کے عملے کو بلایا اور پانی نکالنے کی ہدایات دیں، ناشتہ صدر کے چھوٹے سے ریستوران میں کیا اور بل پرنسپل سیکریٹری سے ادھار لے کر ادا کیا، حیدرآباد میں بارش ہوئی، لوگوں کے گھروں میں پانی چلا گیا، شہری زندگی مفلوج ہو گئی، مراد علی شاہ نے مولا بخش چانڈیو کو حیدر آباد بھجوا دیا، سرکاری اہلکاروں کی چھٹیاں منسوخ کر دیں اور کارپوریشن کے عملے کو شہر کی صفائی اور بحالی کا حکم دے دیا۔
یہ چند اقدامات ہیں، یہ ناکافی ہیں، سندھ بالخصوص کراچی کو ہنگامی بنیادوں پر بے تحاشہ توجہ کی ضرورت ہے لیکن آپ یہ بھی یاد رکھیں مراد علی شاہ کو ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں، یہ آٹھ دن ''وارم اپ ڈیز'' ہیں، یہ اصل میچ اگلے مہینے کھیلیں گے اور میرا خیال ہے یہ کامیاب بھی ہو جائیں گے، کیوں؟ کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی کا پورا مستقبل مراد علی شاہ پر لگ چکا ہے، ان کی ناکامی پوری پارٹی کی ناکامی ہو گی جس کے بعد سندھ بھی پارٹی کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور بلاول بھٹو زرداری کے وزیراعظم بننے کا خواب بھی ٹوٹ جائے گا اور پارٹی یہ افورڈ نہیں کر سکتی چنانچہ پارٹی اور مراد علی شاہ دونوں ایڑھی چوٹی کا زور لگا دیں گے، میاں نواز شریف بھی مراد علی شاہ کو سپورٹ کریں گے۔
کیوں؟ کیونکہ عمران خان ایک بار پھر دھرنا دے رہے ہیں، میاں نواز شریف دھرنے کے مہلک اثرات سے بچنے کے لیے بہت جلد پاکستان پیپلز پارٹی کی مدد لینے پر مجبور ہو جائیں گے، پیپلز پارٹی عمران خان کے ساتھ سڑکوں پر نہیں آ رہی، یہ اگلے ماہ احتجاج شروع کرے گی، پارٹی ایک ماہ میاں نواز شریف کا رویہ دیکھے گی، وفاقی حکومت اگر نئے وزیراعلیٰ کو سپورٹ دے گی، یہ اگر اگست میں سندھ حکومت کی تمام درخواستیں نبٹا دے گی تو پھر پاکستان پیپلز پارٹی کی مخالفت سندھ کے چند شہروں میں جلسوں اور وفاقی حکومت کے خلاف نعروں تک محدود ہو جائے گی اور اگر حکومت مراد علی شاہ کی مدد نہیں کرتی، یہ سندھ کو فنڈز جاری نہیں کرتی، یہ بجلی کے معاملات میں کراچی کو رعایت نہیں دیتی، یہ کراچی میٹرو کا فنڈ ریلیز نہیں کرتی اور یہ سندھ کے بقایا جات ادا نہیں کرتی تو پھر میاں صاحب کی قسمت بلاول بھٹو کو عمران خان کے کنٹینر سے دور نہیں رکھ سکے گی اور آپ یہ بھی ذہن میں رکھیں اگر کبھی اسٹیبلشمنٹ کو عمران خان اور بلاول بھٹو میں سے کسی ایک کا فیصلہ کرنا پڑا تو یہ لوگ بلاول بھٹو کو فوقیت دیں گے، کیوں؟ اس کی دو وجوہات ہیں، پہلی وجہ عمران خان ہیں، عمران خان ضدی اور نہ ماننے والے مشکل انسان ثابت ہو رہے ہیں، یہ ناتجربہ کار بھی ہیں۔
یہ خیبر پختونخواہ میں ڈیلیور بھی نہیں کر سکے اور یہ اپنی زبان کو بھی قابو میں نہیں رکھ پا رہے، اسٹیبلشمنٹ کبھی ایسے شخص کے ساتھ کمفرٹ ایبل نہیں ہوگی، دوسری وجہ بلاول بھٹو ہیں، یہ خاندان کے تیسرے وزیراعظم ہوں گے، بلاول بھٹو کی پشت پر پارٹی کا طویل سیاسی اثاثہ، حکومت کی پچاس سالہ تاریخ اور آکسفورڈ کی اعلیٰ تعلیم ہو گی، یہ نوجوان بھی ہیں اور یہ کچھ کرنا بھی چاہتے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے ہماری ملٹری اسٹیبلشمنٹ میاں برادران کے مقابلے میں بھٹوز کے ساتھ زیادہ کمفرٹ ایبل رہتی ہے، جنرل ضیاء الحق نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے والد کو پھانسی پر لٹکا دیا تھا لیکن پاکستان پیپلز پارٹی نے اقتدار میں آ کر کبھی فوج سے بدلہ لینے کی کوشش نہیں کی، جرنیلوں کے خاندان جتنے محفوظ پیپلز پارٹی کے ادوار میں ہوتے ہیں، یہ نواز شریف کے دور میں اس کا تصور تک نہیں کر سکتے، پاک فوج کشمیر اور افغانستان دونوں کے بارے میں بہت حساس ہے اور یہ تاریخ ہے پیپلزپارٹی نے کبھی فوج کی اس حساسیت کو چھیڑنے کی غلطی نہیں کی، آپ تحقیق کر لیں آپ حیران رہ جائیں گے مقبوضہ کشمیر میں جب بھی اپ رائزنگ ہوئی یا مقبوضہ کشمیر کے آزادی پسند نوجوانوں کو جب بھی فنڈز، اسلحہ، سفارتی سپورٹ اور پناہ دی گئی۔
وہ پاکستان پیپلز پارٹی کا دور تھا، پیپلز پارٹی نے افغان ایشو پر بھی کبھی ''ریڈ لائین'' پر پاؤں نہیں رکھا، یہ لوگ ہمیشہ فوج کو ساتھ لے کر چلے جب کہ میاں نواز شریف کی اپروچ یکسر مختلف ہے، یہ پاکستان کو کشمیر اور افغانستان دونوں سے نکالنا چاہتے ہیں اور یہ وہ نقطہ ہے جہاں سے فوج اور ان کے درمیان اختلافات پیدا ہوتے ہیں، حکومت کے موجودہ حالات بھی اسی گملے میں پیدا ہوئے اور میاں نواز شریف کی انا نے انھیں پانی دے کر صرف تین برس میں گھنا جنگل بنا دیا اور عمران خان اب دوسری بار اس جنگل کے سائے میں بیٹھ رہے ہیں لیکن اس کا پھل بہرحال بلاول بھٹو زرداری ہی سمیٹیں گے، ملک کی فیصلہ کن طاقتوں کو بلاول بھٹو عمران خان سے بہتر محسوس ہو رہے ہیں اور مراد علی شاہ بلاول بھٹو کی پہلی بڑی سیاسی چال ہیں، یہ چال اگر کامیاب ہو گئی تو پھر کوئی طاقت بلاول کو کے پی کے اور پنجاب آنے سے نہیں روک سکے گی اور یوں پاکستان پیپلز پارٹی دوبارہ زندہ ہو جائے گی۔
مراد علی شاہ کا عوامی ماڈل پرویز خٹک اور میاں شہباز شریف دونوں کے لیے چیلنج ثابت ہو گا، میاں شہباز شریف 2008ء سے 2013ء تک عوامی وزیر اعلیٰ رہے، شاید اس کی وجہ وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی، یہ لوگ جانتے تھے ہم نے اگر عوام کو ہاتھ میں نہ رکھا تو ہم وفاق میں حکومت نہیں بنا سکیں گے چنانچہ میاں شہباز شریف 2013ء تک وزیراعلیٰ کے بجائے خادم اعلیٰ رہے لیکن جوں ہی پاکستان مسلم لیگ ن نے وفاق میں حکومت بنائی، میاں شہباز شریف خادم اعلیٰ سے وزیراعلیٰ بن گئے اور یہ اب آپ کو عوامی جیکٹ کے بجائے سوٹ بوٹ میں دکھائی دیتے ہیں، یہ اب عوام سے فاصلے پر بھی ہیں۔
اسی طرح پرویز خٹک عمران خان کی تبدیلی کے سفیر تھے مگر عمران خان کے دھرنوں اور غلط سیاسی فیصلوں نے ان کا سیاسی بھرکس نکال دیا، آپ جب بھی ٹھنڈے دل و دماغ سے تجزیہ کریںگے، آپ میری بات سے اتفاق کریں گے عمران خان کے دھرنوں کا میاں برادران کو اتنا نقصان نہیں ہوا جتنا نقصان پرویز خٹک اور خیبر پختونخواہ نے اٹھایا، عمران خان اگر پرویز خٹک کو کام کرنے دیتے تو پاکستان تحریک انصاف آج ریلیاں نہ نکال رہی ہوتی، یہ آج بسوں کی چھت پر بیٹھ کر اٹک تک نہ آ رہی ہوتی، تبدیلی اب تک پیدل چل کر پنجاب میں داخل ہو چکی ہوتی، یہ خان کے غلط فیصلے ہیں جن کی وجہ سے تبدیلی ماں کی کوکھ ہی میں فوت ہو گئی چنانچہ میاں شہباز شریف کے سوٹ بوٹ اور پرویز خٹک کی ناکامی کے درمیان سے مراد علی شاہ کا ابھرنا پیپلز پارٹی کی خوش نصیبی ہے، یہ خوش نصیبی اگر اسی طرح چلتی رہی تو دونوں صوبوں کے وزراء اعلیٰ مراد علی شاہ کی تقلید پر مجبور ہو جائیں گے یا پھر سیاسی ریٹائرمنٹ کے دور میں داخل ہو جائیں گے۔
شاہ جی آپ بس ڈٹے رہیں، عوام کو آپ جیسے ہی حکمران چاہئیں۔