مکالمے کی بنیاد۔ پاکستان کا مفاد

اپنا قانونی حق مانگنے والے نہتے کشمیری مسلمانوں پر بھارتی مظالم عالمی ضمیرکے سامنے ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہیں

DHAKA:
امریکا، یورپ اوردیگرخطوں کے جمہوری ممالک ہوں۔ بادشاہی، فوجی یا نیم جمہوری نظام والے ممالک سب ہی اپنے قومی مفاد کو اولیت دیتے ہیں۔ مسلم ملکوں کی اکثریت بھی مذہبی تعلق کو ثانوی حیثیت دیتے ہوئے پہلے اپنا مفاد دیکھتی ہے۔

اپنا قانونی حق مانگنے والے نہتے کشمیری مسلمانوں پر بھارتی مظالم عالمی ضمیرکے سامنے ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہیں۔ فلسطینی عوام اپنی خودمختارحکومت کے قیام کے لیے جدوجہدکررہے ہیں۔کشمیرکے مسلمانوں اورفلسطینیوں کو ان کے حق دلوانے میں مسلم ممالک کا مجموعی کردار کیا ہے؟ کشمیری مسلمانوں پر بھارتی فوج کے مظالم رکوانے کے لیے با رسوخ مسلم ممالک نے کتنا موثرکردارادا کیا؟ عوامی حلقوں میں کہا جاتا ہے کہ کئی مسلم ممالک بھارت پردباؤ اس لیے نہیں ڈال رہے کہ یہ ممالک اپنا قومی مفاد بھارت کے ساتھ تعلقات کی بہتری میں سمجھتے ہیں۔ فلسطین کے مسئلے پرعرب دارالحکومتوں کی سوچ بھی ان کے قومی مفاد کے تابع ہو رہی ہے۔ اب خلیج کے کئی ملکوں میں مسئلہ فلسطین حل ہوئے بغیراپنے قومی مفاد کی خاطر اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرلینے کی سوچ پروان چڑھ رہی ہے۔

میرے گزشتہ کالم ''مناقشہ نہیں مکالمہ ہونا چاہیے'' پرکئی قارئین نے اپنی آرا سے مجھے آگاہ کیا۔ ایم اے پولیٹیکل سائنس کی ایک طالبہ نے مجھ سے کہا کہ فی الوقت تو ہمارے معاشرے میں پولرائزیشن بہت شدید ہے۔ ایسی صورت میں بالفرض محال آپ کی تجویز پرکوئی مکالمہ شروع ہو بھی جائے تو اس کا ایجنڈا کیا ہونا چاہیے؟ میں نے اس بیٹی کوجواب دیا کہ روایت پسندوںاورجدت پسندوں کے درمیان مکالمے کی تجویزکوئی نئی نہیں۔اس تجویز کے حوالے سے میرے ذہن میں صرف ایک خیال ہے اوروہ ہے پاکستان کا مفاد۔

قارئین کرام! جب ہم پاکستان کے مفاد کی بات کرتے ہیں تو اس میں پاکستانی سماج کی بہتری، ملک کا استحکام، معاشی ترقی،عورتوں کی عزت واحترام اور ان کے حقوق کا تحفظ، علم وتحقیق کا فروغ، سیاسی، مذہبی، سماجی، علمی، ادبی اور دیگر شعبوں میں مختلف خیالات ونظریات کے لیے کشادگی، دلیل کو فوقیت، فنون لطیفہ کی پذیرائی جیسے امور شامل ہوتے ہیں۔

افغانستان پر سوویت یونین کے غاصبانہ قبضے سے پہلے پاکستانی معاشرہ نسبتاً بہت پرامن اور ترقی کرتا ہوا معاشرہ تھا۔ 70 کے عشرے میں ہمارے ملک میں مذہبی فکرکی نمایندگی کرتے ہوئے سید ابوالاعلیٰ مودودی، شاہ احمد نورانی، حضرت مفتی محمود، علامہ رشید ترابی جیسے عالم اور سیاستدان موجود تھے۔ سوشلسٹ یا کمیونسٹ فکرکی ترجمانی ذوالفقار علی بھٹو، خان عبدالولی خان، میرغوث بخش بزنجو اور دیگر شخصیات کے ذریعے ہورہی تھی۔ قیام پاکستان کی جدوجہد میں حصہ لینے والے مسلم لیگیوں میں سے خان عبدالقیوم، میاں ممتازدولتانہ، جی ایم سید، ایوب کھوڑو، پیرالٰہی بخش، راجہ صاحب محمودآباد، نواب صدیق علی خان اور دیگر سیاستدان بھی بقیدِ حیات تھے۔ قائد اعظم کے ایک قریبی ساتھی میر جعفرخان جمالی کے انتقال کو بھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا۔

ترقی پسند ادیب اور شعرا بھی تھے اور روایت پسند ادیب اور شعرا بھی مگر ہمارے معاشرے میں عدم برداشت، غصہ اور تشدد کے رویے عام نہیں تھے۔ یہ توکہا جاتا تھا کہ غیر ملکی طاقتیں خصوصاً امریکا پاکستان کے معاملات میں بہت دخیل ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا تھا کہ امریکا، سوویت یونین اور بعض دیگر ممالک اپنے اپنے حامیوں کی مالی سرپرستی بھی کرتے ہیں۔ پچاس، ساٹھ اور ستر کے عشرے میں ہمارے ملک میں سیاست، صحافت اور ادب سرخ اور سبز کے خانوں میں تو بٹے ہوئے تھے، ایک دوسرے کو استحصالی، لادینی، امریکا کا یار، سوویت یونین کے پٹھو یا دیگر القابات سے پکارنے کے باوجود مختلف نظریات کے حامل ایک دوسرے کے دشمن نہیں تھے۔

پاکستانی معاشرے کے موجودہ حالات کی ذمے داری صرف افغانستان پر سوویت یلغار پر ڈال دینا درست نہیں ہوگا۔ موجودہ حالات تک پہنچنے کے کئی اسباب ہیں تاہم یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاکستان کے حالات کی خرابی میں افغانستان میں سوویت یلغار پرامریکا اور چند عرب ممالک کے ردعمل اور ان کی حکمت عملی کا بہت بڑا حصہ ہے۔


امریکا نے اپنے حریف سوویت یونین کو افغانستان میں نیچا دکھانے کے لیے افرادی قوت مسلمان ملکوں سے حاصل کی۔ اس کام کے لیے امریکا نے مسلمانوں کے مذہبی جذبے کو بطور شعلہ گر یا سوزندہ (Igniter) استعمال کیا۔ امریکی ٹیکنالوجی اور بھرپور مالی اعانت کے ساتھ ہونے والے جہاد کے افغان کمانڈروں کو امریکی صدر نے وائٹ ہاؤس میں مدعوکیا۔ امریکی اور مغربی یورپی ممالک میں افغان مجاہدین کی بہت عزت افزائی کی جاتی رہی۔

مشرقی یورپ کے کئی ممالک میں سوویت جارحیت کی تاریخ کے پیش نظر پاکستان بجا طور پر فکر مند تھا کہ سوویت یونین کے افغانستان میں قدم جمانے کے بعد اس کا اگلا ہدف پاکستان ہوگا۔

افغانستان پر سوویت یلغارکے بعد پاکستان میں سرخ و سبز کی تقسیم نا صرف گہری ہوئی بلکہ اس میں دونوں طرف سے شدت بھی آگئی۔ یعنی ایک طرف مذہبی انتہا پسند اوردوسری طرف پروگریسو (یا اب ایک نئی اصطلاح لبرل) انتہا پسند۔ ان دونوں بڑے طبقات اور ان کے ذیلی طبقات کی انتہا پسندی پاکستانی قوم کی خوشحالی، اعلیٰ اقدار کی پاسداری اور نشوونما، تخلیقی صلاحیتوں کے فروغ اور سب سے بڑھ کر ہماری نئی نسلوں کی سوچ کی تشکیل کے لیے بہت ضرر رساں ہے۔

پاکستانی قوم کو انتہا پسندی سے باہر نکالنے اور اس کے مضر اثرات زائل کرنے کے لیے روایت پسند ہوں یا جدت پسند، سب دردمند محب وطن پاکستانیوں کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ سب کو اپنی اپنی غلطیوں کا ادراک و اعتراف کرنے کے بعد اصلاح احوال کے لیے آگے آنا ہوگا۔ ایک دوسرے کو حریف سمجھنے اور ایک دوسرے سے لاتعلق رہنے کے بجائے اپنے سماجی تعلقات کو بہتر بناتے ہوئے مختلف شعبہ حیات میں ہر پاکستانی کے اچھے کاموں کا اعتراف اور قدرکرنا ہوگی۔

مختلف طبقات کے درمیان پائی جانے والی لاتعلقی کا اظہارکس طرح ہوتا ہے؟ ہم اپنے معاشرے سے چند مثالیں پیش کرتے ہیں۔ علامہ غلام رسول سعیدی موجودہ دور کے ایک بہت بڑے مفسر قرآن اور محدث تھے۔ آپ نے قرآن پاک کی ایک تفسیر ''تبیان القرآن'' اور بخاری و مسلم کی شرحیں تحریر کیں۔ علامہ غلام رسول سعیدی کا انتقال (4 فروری 2016) قوم کے لیے ایک بڑا سانحہ تھا۔ پاکستان اور دنیا بھر سے کئی علمائے کرام نے تعزیت کا اظہار کیا۔ لیکن ہمارے ترقی پسند ادیبوں یا عالموں نے اس موقع پر کوئی تعزیتی کلمات نہیں کہے۔ استادالاساتذہ انتظار حسین اردو کے بہت بڑے ادیب اور ناول نگار تھے۔ آپ نے افسانہ نگاری اور کالم نویسی میں بھی نئی راہیں متعین کیں۔

برصغیر کے کئی ادیبوں، کالم نویسوں اور صحافیوں کے لیے انتظار حسین ایک درس گاہ کی حیثیت رکھتے تھے۔ انتظار حسین کے انتقال (2 فروری 2016) کو پاکستان، بھارت اور دنیا کے مختلف ممالک میں اردو ادب کا بہت بڑا نقصان قرار دیا گیا لیکن اردو ادب کے اس نقصان پر پاکستان میں مذہبی طبقے کی جانب سے رنج و غم کا کوئی خاص اظہار سامنے نہیں آیا۔ عوامی حقوق بالخصوص مزدوروں کے حقوق کے لیے معراج محمد خان ساری عمر جدوجہد، ایثار اور قربانیوں کا نشان بنے رہے۔ ان کے انتقال (21 جولائی 2016) پر زیادہ تر ان کے ہم خیال لوگوں نے ہی دکھ اور تعزیت کا اظہار کیا۔ معراج محمد خان کی جدوجہد صرف اپنے ہم خیالوں کے فائدے کے لیے نہ تھی۔ پاکستان کے سب غریبوں اور مزدوروں کے لیے تھی۔

ملک میں جمہوریت کے لیے جدوجہد کرنے والوں میں دائیں بازو کے پروفیسر غفور احمد کا کردار بہت نمایاں ہے۔ پروفیسر غفور احمد کے انتقال (26 دسمبر 2012) پر بائیں بازو کی چند سیاسی شخصیات نے غالباً رکن پارلیمنٹ ہونے کی وجہ سے تو تعزیت کی تاہم بحیثیت مجموعی بائیں بازو کے طبقات کی طرف سے کوئی تعزیتی ردعمل سامنے نہیں آیا۔

پاکستانی سماج کی بہتری اور ترقی کے لیے اختلاف رائے کا احترام، برداشت، رواداری، معاشرے کے کمزور طبقات خصوصاً تعلیم اور دیگر حقوق سے محروم رکھی جانے والی خواتین، دیہی و شہری مزدوروں کی مدد، اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور دیگر امور کے لیے معاشرے کی سوچ میں کئی تبدیلیوں کی ضرورت ہے ۔ اس مقصد کے لیے حکومت کی طرف سے کسی اقدام کے انتظار کے بجائے معاشرے کے مختلف طبقات کو خود آگے بڑھ کر مکالمے کا آغازکردینا چاہیے۔
Load Next Story