ایسا تو ’’گلی کرکٹ‘‘ میں بھی نہیں ہوتا

اس سے زیادہ افسوس کی بات کیا ہےکہ دوسرے ٹیسٹ کے دوران ہی بورڈ چیف کوبلیک میل کرکےفیملیز کاانگلینڈ میں قیام بڑھوایا گیا

اس سے زیادہ افسوس کی بات کیا ہے کہ دوسرے ٹیسٹ کے دوران ہی بورڈ چیف کوبلیک میل کرکے فیملیز کا انگلینڈ میں قیام بڑھوایا گیا :فوٹو: فائل

کیا میں کوئی خواب دیکھ رہا ہوں، میں نے آنکھیں ملیں،ایسا توکسی میچ کی جھلکیوں میں بھی نہیں ہوتا، مجھے نہیں یاد پڑتا کہ بچپن میں جب ہم گلی میں کرکٹ کھیلتے تھے تو کبھی ایک رن پر چار وکٹیں گری ہوں، ایسا ٹیسٹ میچ میں کیسے ہو گیا،124/3 سے اسکور125/7کیسے ہوا؟ ڈرا کی جانب گامزن میچ اچانک پاکستانی ٹیم کی ہار پر کیسے ختم ہوا؟

کم از کم میں تو یہ نہیں سمجھ پایا، پی سی بی کے ایک آفیشل کا ''آف دی ریکارڈ'' خیال ہے کہ انگلینڈ نے بال ٹیمپرنگ کی، اسی لیے گیند اتنی زیادہ ریورس سوئنگ ہونے لگی، اگر یہ سچ ہے تو محمد عامر، سہیل خان اور راحت علی کی بیٹنگ کے وقت ریورس سوئنگ کہاں کھو گئی تھی، اسپنر معین علی بھی ریورس سوئنگ کر رہا تھا واہ، ہمیں اپنے گریبان میں جھانکتے ہوئے تسلیم کر لینا چاہیے کہ ہماری بیٹنگ لائن انتہائی ناقابل اعتبار ہے، پہلی اننگز میں جب پچ آسان تھی اور کیچز بھی ڈراپ ہوئے تو اسکور بنا دیا، اگلی باری میں پھر ہتھیار ڈال دیے، بڑے بڑے نام کچھ سمیع اسلم سے ہی سبق سیکھیں 20 سال کا وہ بچہ کتنے اعتماد سے کھیل رہا تھا، اب وہ کامیاب ہو گیا تو کریڈٹ لینے چیف سلیکٹر انضمام الحق سامنے آ رہے ہیں ، میں انھیں یاد دلاتا چلوں کہ جناب سمیع اسلم کو تو ایک سال قبل ہی قومی ٹیم کیلیے منتخب کیا جا چکا تھا، البتہ ابتدائی دو ٹیسٹ میں وہ کامیاب نہ رہے ۔

اب واپسی بھی رسمی طور پر ہوئی تھی، اگر شان مسعود نے گذشتہ چار اننگز میں ایک بھی ففٹی بنا دی ہوتی تو سمیع کا پانی پلا کر واپس آنا لازمی تھا، مجبوراً جب انھیں موقع دیا گیا تو صلاحیتوں کا بھرپور ثبوت پیش کر دیا، چیف سلیکٹر سے تو یہ پوچھنا چاہیے کہ محمد حفیظ جب انجرڈ تھے تو اچانک فٹ ہو کر ٹیم میں واپس کیسے آ گئے، اب 6 اننگز میں وہ ناکام رہے تو کسے کھلایا جائے گا، کیا ایک اور ناکام اوپنر شان مسعود کی واپسی ہو گی یا اظہرعلی کو اوپنر بنایا جائے گا؟ ویسے بھی اظہر ایک طرح سے اوپنر ہی ہیں بہت جلدی ان کی باری آ جاتی ہے، حفیظ کا چوتھے ٹیسٹ کی ٹیم سے ڈراپ ہونا ضروری ہے، اگر وہ پاکستانی کرکٹر نہ ہوتے تو شاید کیریئر ہی ختم ہو جاتا مگر ہمارے ملک میں تو ایک سیریز کے بعد ڈراپ پلیئر گھر پر بیٹھنے کے بعد پھر واپس آ جاتا ہے، حفیظ کی بولنگ پر پابندی اور وہ ایکشن کا ٹیسٹ کرانے سے بھی گریزاں ہیں، ایسے میں ان کیلیے مشکلات بڑھ سکتی ہیں، اسد شفیق لارڈز میں اچھی فارم میں دکھائی دیے تھے مگر اب ایجبسٹن میں پیئر کیا، کارکردگی میں ایسا عدم تسلسل سمجھ سے باہر ہے۔


اسی طرح سرفراز احمد سے بھی جب امیدیں تھیں تو وہ ٹیم کو مشکلات میں گھرا چھوڑ کر وکٹ گنوا بیٹھے، یونس خان کو اب صرف ریکارڈز میں دلچسپی ہے اور وہ دس ہزار رنز مکمل کرنے کیلیے کھیل رہے ہیں،ون ڈے میں بھی انھوں نے انا کو تسکین پہنچانے کیلیے واپسی اختیار کی اور پھر ریٹائر ہو گئے تھے، جس طرح سے وہ کھیل رہے ہیں دو سیریز میں بھی دس ہزار رنز مکمل نہیں کر سکتے، پچ پر انھیں اچھل کود کرتے دیکھنا مداحوں کو بالکل بھی اچھا نہیں لگتا، ان کیلیے اب کوئی فیصلہ کر لینا ہی مناسب ہو گا، پاکستان کے سارے میچز تو یو اے ای میں نہیں ہو سکتے ہیں ناں، سیریز میں ہمارا انحصار مصباح الحق اور یونس خان پر ہی تھا مگر بدقسمتی سے اب سارا بوجھ کپتان پر آیا ہوا ہے، وہ بھی دباؤ محسوس کر رہے ہیں جس کا اندازہ بیٹنگ سے لگایا جا سکتا ہے، ایک کھلاڑی اکیلا کیسے پوری بیٹنگ کو سنبھال سکتا ہے دیگر کو بھی ذمہ داری محسوس کرنا ہوگی، اس وقت ٹیم کے بیٹنگ کوچ گرانٹ فلاور پر بھی کئی سوالات اٹھ رہے ہیں، ہر ماہ لاکھوں روپے لے کر وہ کیا کام کر رہے ہیں؟ مشتاق احمد پریس کانفرنسز میں مترجم بننے کے سوا اور کیا ذمہ داری نبھا رہے ہیں، یاسر جیسا بولر اچانک بے اثر کیسے ہو گیا انھیں اس کا جواب دینا چاہیے۔

آفیشلز کی فوج کے باوجود ایسی مایوس کن کارکردگی ناقابل قبول ہے، سہیل خان نے پہلی اننگز میں اچھی بولنگ کی مگر دوسری باری میں وہ تھکے ہوئے نظر آئے، ایسی فٹنس سے وہ کیسے ورلڈکلاس بولر بن سکیں گے؟ اگر کوئی بولر پانچ وکٹیں لے اور حریف ٹیم تقریباً 300 رنز بنا لے تو اس سے بہت زیادہ ایڈوانٹیج حاصل نہیں کیا جا سکتا، بدقسمتی سے دیگر بولرز نے پہلی اننگز میں سہیل کا ساتھ نہ دیا، آپ دوسری اننگز دیکھ لیں انگلینڈ کے پانچوں بولرز نے دو، دو وکٹیں لے کر پاکستانی بیٹنگ کو ناکام بنایا، ہمیں بھی ایسی ہی کارکردگی درکار ہے، لارڈز میں انگلینڈ نے غلطی سے اسپن بولنگ کیلیے سازگار وکٹ بنا دی جس کا خمیازہ بھگتنا پڑا مگر اس کے بعد بیٹسمینوں نے غلطیوں سے سبق سیکھ کر جس طرح یاسر شاہ کو ناکام بنایا وہ قابل تعریف ہے، ہمارے کھلاڑی بدقسمتی سے پہلا ٹیسٹ جیت کر اونچی ہواؤں میں اڑنے لگے، انھیں اہل خانہ کی سیرو تفریح میں زیادہ دلچسپی تھی۔

اس سے زیادہ افسوس کی بات کیا ہو گی کہ دوسرے ٹیسٹ کے دوران ہی بورڈ چیف کو بلیک میل کر کے فیملیز کا انگلینڈ میں قیام بڑھوایا گیا اور پھر اخراجات کی آدھی رقم بھی وصول کرلی، ہمارا بورڈ بھی اتنا کمزور ہے جس نے آسانی سے ہتھیار ڈال دیے، اس وقت آفیشلز کی تمام ترتوجہ انگلینڈ کے دورے پر ہے، بورڈ کاکوئی بدقسمت آفیسر ہی ایسا ہو گا جو اب تک وہاں نہیں گیا، ایک ''غریب بورڈ'' نے صرف دورے پر ہی ڈھائی کروڑ روپے خرچ کر دیے جو انتہائی حیران کن بات ہے، چیف سلیکٹر ٹی وی پر میچز دیکھ سکتے تھے، وہ کس چکر میں انگلینڈ گئے، کون سا گوہر نایاب انھوں نے وہاں تلاش کر لیا، اسی طرح ڈائریکٹر اکیڈمیز نے کیوں ٹور کیا؟ اس طرح کے اور بھی کئی سوالات ہیں مگر بدقسمتی سے ان کا جواب دینے والا کوئی موجود نہیں،سب اپنے مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں شاید اسی لیے پاکستانی کرکٹ اس نہج پر پہنچ چکی ہے، نجانے بہتری کب آئے گی۔
Load Next Story