جنرل ضیاء الحق کی ہلاکت اور سرگودھا کے سیاستدان گزشتہ سے پیوستہ
جنرل ضیاء الحق کی ہلاکت نے پورے ملک کی سیاست کوالٹ پلٹ کر رکھ دیا۔
17اگست 1988ء کی شام کو میں بھیرہ سے بھلوال آرہا تھا کہ وائرلیس پر میسج ملا کہ فوراً آئی جی صاحب سے بات کریں، بہت ضروری بات ہے اسوقت موبائل فون نہیں تھے اس لیے ڈرائیور نے جیپ کی رفتار بڑھادی تاکہ جلد از جلد بھلوال پہنچ کر بات کی جاسکے۔کچھ دیر بعد کنٹرول روم سے میسج ریلے ہوگیا کہ بہاولپور میں جہاز کریش ہوگیا ہے جسمیں جنرل ضیاء الحق ہلاک ہوگئے ہیں، دفتر پہنچ کرمیں نے آئی جی پنجاب نثارچیمہ صاحب سے بات کی تو انھوں نے امن وامان قائم رکھنے کے سلسلے میں مختصر سی ہدایات دیں(کسی بھی بڑے حادثے کی صورت میں آئی جی اورڈی آئی جی صاحبان اپنے تمام ماتحت افسروں کو چوکس رہنے کی ہدایات دیتے ہیں مگرکئی ڈی آئی جی اور ایس ایس پی اس SOPپر اتنی وارفتگی سے عمل کرتے ہیں کہ دھماکا عراق میں ہوا ہو یا فرانس میں،تو بھی وائرلیس کے ذریعے احکامات جاری کردیتے ہیں کہ تمام ایس ایچ او اور ایس ڈی پی او باہر نکل آئیںاور ڈبل سواری پر پابندی لگادی جائے ) ۔
پیپلز پارٹی نے (جسے جنرل ضیاء الحق نے گیارہ سال تک دبائے رکھّا)ان کی ہلاکت پر مٹھائیاں بانٹیں مگردوسرے لوگوں کا ردّ ِعمل ملاجلا تھا۔قائم مقام صدر غلام اسحاق خان نے اپنی پہلی تقریر میں ہی انتخابات جماعتی بنیادوں پر کرانے کا اعلان کردیا۔دوسرے روز مجھے ایس ایس پی کی طرف سے راولپنڈی پہنچنے کی ہدایات ملیں۔ راولپنڈی پولیس لائینزمیں پورے پنجاب سے پولیس افسران بلائے گئے تھے جنھیںجنرل ضیاء الحق مرحوم کے جنازے کے لیے آئی اہم شخصیات کے ساتھ سیکیورٹی ڈیوٹی کے لیے تعینات کیا گیا۔ میری ڈیوٹی اُس تقریب کی اہم ترین شخصیت امریکی وزیرِ خارجہ جارج شلز کے ساتھ لگائی گئی، وہ جنازے میں شرکت کے علاوہ کچھ اور جگہوں پر بھی گئے۔ ان کے ساتھ امریکن سیکیورٹی اسٹاف بھی تھا جسکے اصرار کے باوجود ہم نے VVIPکارواں (Cavalcade)کی ترتیب میں ردّو بدل نہیں ہونے دیا۔ ویسے امریکیوں سے اہم شخصیات کی سیکیورٹی کے سلسلے میں بڑی مفید باتیںسیکھنے کوملیں۔
جنرل ضیاء الحق کی ہلاکت نے پورے ملک کی سیاست کوالٹ پلٹ کر رکھ دیا۔ سرگودھا اور بھلوال کے سیاستدانوں کی قلابازیاں میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ تقریباً سبھی نے پارٹیاں بدل لیں۔ صوبائی وزیر احسان الحق پراچہ جھنڈے والی کار سمیت کراچی بلاول ہاؤس پہنچے اور لباس کے ساتھ ہی پارٹی بھی بدل لی اور ضلع سرگودھا کے لیے پی پی پی کے سارے ٹکٹ لے آئے۔ اُدھر ڈاکٹر اعجاز بھرتھ پی پی پی سے فارغ ہوئے تو انھوں نے ترنگا پھینک کر لاہور کا رخ کیا ،مسلم لیگ میں شامل ہوگئے اوراپنے لیے صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ لے آئے۔
ہم نے اپنے اصولوں کے مطابق پولیس کی طرف سے مکمل غیرجانبدار ی قائم رکھی۔ بھلوال میں پہلے محترمہ بینظیر بھٹو کا جلسہ ہوا اور پھر میاں نواز شریف کا۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ کا جلسہ قدرے بڑا تھا، پی پی پی کے ورکروں میں گیارہ سال بعد الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت ملنے پر بہت جوش و خروش تھا، اور محسوس ہوتا تھاکہ ان کی پوزیشن قدرے بہتر ہے۔ میاں نواز شریف آئی جے آئی کے قائد کی حیثیّت سے الیکشن مہم کو لیڈ کررہے تھے۔ ان کا جلسہ بھی خاصا بڑا تھا۔وہ چونکہ پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ بھی تھے اس لیے ان کا سرکاری اسٹاف بھی ساتھ تھا ان ہی میں ہمارا جی سی کا کلاس فیلو اور دوست نذیر سعید (ریٹائرڈ فیڈرل سیکریٹری) بھی تھا جو چیف منسٹر کے ساتھ ڈپٹی سیکریٹری تھا۔ نذیر سعید مجھے اسٹیج کی ایک سائیڈ پرلے گیا اور کہنے لگا ''آج اگرتم یہاں ہو تو صرف میری وجہ سے ہو''۔
میں نے کہا '' کیا مطلب؟''وہ رازدارانہ انداز میں بتانے لگاکہ ''تمہار ا یہاں سے تبادلہ ہوچکا تھا صوبائی وزیر احسان پراچہ نے چیف منسٹر صاحب سے شکایت کی تھی کہ الیکشن قریب ہیں اور اے ایس پی ہماری بات نہیں مانتا، اسے تبدیل کرکے ہمارے مطلب کا افسر لگادیں۔ وزیرِ اعلیٰ نے مجھے کہہ دیا تھا کہ آرڈر اِشو کرادیں، میں نے یہ کہہ کر تھوڑا سا Delayکرادیا کہ '' اچھا افسر ہے اس کی چوائس پوچھ کر اسے کوئی اور پوسٹنگ دے دی جائے'' سی ایم صاحب نے اتفاق کیا، بس ایک دن کا وقفہ مل گیا اسی روز پراچہ صاحب نے پارٹی بدل لی اور تمہارا تبادلہ رک گیا۔'' احسان الحق پراچہ قومی اسمبلی اور ان کے چھوٹے بھائی انعام الحق پراچہ صوبائی اسمبلی کے لیے امیدوار تھے۔ ڈاکٹر اعجاز بھرتھ ،انعام پراچہ کے مقابلے میں الیکشن لڑرہے تھے۔
ہم نے سیکیورٹی کے لیے موثّرانتظامات کرلیے تھے۔ پوری سب ڈویژن میں پولیس کا فلیگ مارچ میں نے خود لیڈ کیا۔کہیں کوئی ایسی صورتِ حال نہیں تھی جسے پولیس کنٹرول نہ کرسکے، اس کے باوجود ہماری رائے لیے بغیر صوبائی حکومت نے یا لاہور میں بیٹھے ہوئے بابوؤں نے ہر جگہ فوج بھجوادی، فوجی دستے کے کمانڈر ایک کرنل صاحب تھے۔ بھلوال میں کوئی ریسٹ ہاؤس نہیں تھا اس لیے انھیںکالج میں قیام کرنا پڑا۔ میں نے کرنل صاحب سے کہا کہ ''اگر خدانخواستہ صورتِ حال ہمارے کنٹرول سے باہر ہوگئی تو پھر ہم آپ کو زحمت دیں گے ورنہ آپ آرام کریں، پرامن علاقہ ہے فوج کے گشت کرنے سے شہریوں میں خوف و ھراس پیدا ہوگا''۔ وہ مان گئے، اﷲ کا شکر ہے توقع کیمطابق فوج کو بلانے کی ضرورت نہیں پڑی۔
پنجاب کی ایک سب ڈویژن میں ایک قومی اور دو صوبائی اسمبلی کی نشستیں ہوتی ہیں مگر بھلوال اتنی بڑی سب ڈویژن تھی کہ اسمیں دو قومی اسمبلی اور چار صوبائی اسمبلی کی نشستیں تھیں۔ قومی اسمبلی کے دوسرے حلقے سے پیپلز پارٹی کے ریٹائرڈ کرنل قادر بخش میلہ امیدوار تھے۔کرنل صاحب بڑے زمیندار ، مگر دھیمے مزاج کے نفیس انسان تھے ۔ ایک دن کے لیے میرا اسلام آباد جانا ہوا، واپسی کے لیے میں نے راولپنڈی سے بھلوال جانے والی ویگن میں سیٹ بک کرائی۔اس کی روانگی میں تھوڑا سا وقت تھا اس لیے میں نے ویگن اڈیّ پر اخبارات دیکھنے شروع کردیے ۔ انگریزی اخبار'' دی مسلم ''کے صفحۂ اوّل پر نظر پڑی تو میں چونک پڑا۔ لکھا تھا ، ''سرگودھا کے ایک جاگیردار ریٹائرڈکرنل قادر بخش میلہ اور ان کے ساتھیوں نے حکم عدولی پر گاؤں کے غریب لوگوں پر ظلم کی انتہا کردی اور ان کی عورتوں کو برہنہ کرکے چلاتے رہے اور ان پر تشدد کرتے رہے۔مقامی تھانے میں ان کے خلاف مقدمہ درج ہوگیا ہے اور پولیس ان کی گرفتاری کے لیے چھاپے ماررہی ہے''۔
میرا دل نہیں مانتا تھا کہ کرنل میلہ جیسا شریف الّنفس انسان ایسا کرسکتا ہے۔ موبائل فو ن کی سہولت میّسر ہوتی تو میں فوراً حقائق دریافت کرلیتامگر اُسوقت تو بھلوال پہنچ کر ہی حقیقت معلوم کی جاسکتی تھی۔ میں نے واپس پہنچتے ہی تفتیشی افسر اور SHOکو بلوایا۔SHOنے پہلے آئیں بائیں شائیں کرنے کی کوشش کی،میں نے دبایا تو اس نے بتا دیا کہ کرنل میلہ کے سیاسی مخالفین کے دباؤ پر پرچہ درج ہوا ہے۔ میں نے SHOکو بتادیا کہ اس کیس کی تفتیش میں خود کرونگا۔ دوسرے روز کرنل میلہ بڑی پریشانی کے عالم میں مجھے ملے اور آتے ہی کہنے لگے''Sir I am ruined''(میں برباد ہوگیاہوں)۔
میں نے کہا ''جو ہونا تھا وہ تو ہوچکا مگر مقدمے کی تفتیش میرٹ پر ہوگی اور میں خود کرونگا''۔کہنے لگے اس جھوٹے کیس نے میری عزّت کے ساتھ ساتھ میرا سیاسی کیرئیر بھی بربادکردیا ہے۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ نے اخبار میں یہ خبر پڑھنے کے بعد پارٹی کے ضلعی اور صوبائی صدر سے کہہ دیا ہے کہ اتنے سنگین الزام کے بعد میں کرنل میلہ کو ٹکٹ نہیں دے سکتی۔ میں نے پھرکہاکہ ''ہم میرٹ پر تفتیش کریں گے اور انشاء اﷲ انصاف ہوگا''۔ میں نے مدعی اورگواہوں سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ مقدمہ بالکل بے بنیاد اور جھوٹا ہے۔ یعنی تھانے والوں کو رشوت دیکر جھوٹا مقدمہ درج کرانے کا مقصد اپنے سیاسی حریف کو اخبارات کے ذریعے بدنام کرنا تھا۔
جب اس مقدّمے کے محرک رانجھا صاحبان کو علم ہوا کہ تفتیش اے ایس پی نے اپنے ہاتھ میں لے لی ہے تو وہ بھی میرے پاس آئے۔ رانجھا صاحبان میرے ننہالی رشتے دار بھی بنتے تھے مگر ان کا موقّف غلط تھا اس لیے ان کی بات نہ مانی گئی اور میں نے مقدمہ ڈسچارج کرکے اخراج رپورٹ لکھ دی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ کیس کے بارے میں ایس ڈی پی او کی رپورٹ یا Findingsلے کرمیلہ صاحب کراچی پہنچے اور بے نظیر صاحبہ سے درخواست کی کہ ''راشی تھانیدار کے جھوٹے مقدمے کی بنیاد پر آپ نے میرا ٹکٹ کینسل کیا تھا اب وہاں کے ایک ایماندار اے ایس پی کی Findingsپڑھ لیں اور پھر فیصلہ کریں''۔ چونکہ کرنل صاحب بے گناہ تھے اس لیے انھیں انصاف بھی ملا اور پارٹی کا ٹکٹ بھی مل گیا۔چند روز بعد انتخابات ہوئے بھلوال میں کرنل میلہ اور احسان پراچہ سمیت پی پی پی کے تمام امیدوار جیت گئے صرف انعام پراچہ ڈاکٹر اعجاز بھرتھ سے شکست کھاگئے۔
انتخابات کے نتیجے میں بے نظیربھٹو وزیرِ اعظم بن گئیں اورمیاں نواز شریف دوبارہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب ۔ بھلوال کے دونوں ایم این اے کابینہ میں شامل کرلیے گئے، پراچہ صاحب وزیرِ خزانہ اور میلہ صاحب اسپورٹس کے وزیرِمملکت بن گئے۔ چونکہ بھلوال سے حکومتی پارٹی کے چھ امیدواروں میں سے صرف ڈاکٹر اعجازمرحوم (آجکل ان کا خوبرو اور پڑھا لکھا بیٹا پنجاب اسمبلی کا ممبر ہے) جیت سکے تھے اس لیے وہ پنجاب حکومت کے چہیتے بن گئے۔ انھیں پہلی بار حکمرانوں کا قرب نصیب ہوا تووہ توازن برقرار نہ رکھ سکے۔جس محکمے کے ملازم نے ماضی میں ان کاکام نہیں کیا یا گرمجوشی سے نہ ملاتھا، ڈاکٹر صاحب نے اس کا تبادلہ کرادیا۔ اے سی، تحصیلدار اور ایم ایس وغیرہ سب ڈاکٹر صاحب کے غیض و غضب کا نشانہ بن گئے۔ میرے ساتھ وہ شائد اس لیے مودّب رہے کہ میں نے برے وقتوںمیں ان کے آنسو پونچھے تھے ۔ (جاری ہے)
پیپلز پارٹی نے (جسے جنرل ضیاء الحق نے گیارہ سال تک دبائے رکھّا)ان کی ہلاکت پر مٹھائیاں بانٹیں مگردوسرے لوگوں کا ردّ ِعمل ملاجلا تھا۔قائم مقام صدر غلام اسحاق خان نے اپنی پہلی تقریر میں ہی انتخابات جماعتی بنیادوں پر کرانے کا اعلان کردیا۔دوسرے روز مجھے ایس ایس پی کی طرف سے راولپنڈی پہنچنے کی ہدایات ملیں۔ راولپنڈی پولیس لائینزمیں پورے پنجاب سے پولیس افسران بلائے گئے تھے جنھیںجنرل ضیاء الحق مرحوم کے جنازے کے لیے آئی اہم شخصیات کے ساتھ سیکیورٹی ڈیوٹی کے لیے تعینات کیا گیا۔ میری ڈیوٹی اُس تقریب کی اہم ترین شخصیت امریکی وزیرِ خارجہ جارج شلز کے ساتھ لگائی گئی، وہ جنازے میں شرکت کے علاوہ کچھ اور جگہوں پر بھی گئے۔ ان کے ساتھ امریکن سیکیورٹی اسٹاف بھی تھا جسکے اصرار کے باوجود ہم نے VVIPکارواں (Cavalcade)کی ترتیب میں ردّو بدل نہیں ہونے دیا۔ ویسے امریکیوں سے اہم شخصیات کی سیکیورٹی کے سلسلے میں بڑی مفید باتیںسیکھنے کوملیں۔
جنرل ضیاء الحق کی ہلاکت نے پورے ملک کی سیاست کوالٹ پلٹ کر رکھ دیا۔ سرگودھا اور بھلوال کے سیاستدانوں کی قلابازیاں میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ تقریباً سبھی نے پارٹیاں بدل لیں۔ صوبائی وزیر احسان الحق پراچہ جھنڈے والی کار سمیت کراچی بلاول ہاؤس پہنچے اور لباس کے ساتھ ہی پارٹی بھی بدل لی اور ضلع سرگودھا کے لیے پی پی پی کے سارے ٹکٹ لے آئے۔ اُدھر ڈاکٹر اعجاز بھرتھ پی پی پی سے فارغ ہوئے تو انھوں نے ترنگا پھینک کر لاہور کا رخ کیا ،مسلم لیگ میں شامل ہوگئے اوراپنے لیے صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ لے آئے۔
ہم نے اپنے اصولوں کے مطابق پولیس کی طرف سے مکمل غیرجانبدار ی قائم رکھی۔ بھلوال میں پہلے محترمہ بینظیر بھٹو کا جلسہ ہوا اور پھر میاں نواز شریف کا۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ کا جلسہ قدرے بڑا تھا، پی پی پی کے ورکروں میں گیارہ سال بعد الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت ملنے پر بہت جوش و خروش تھا، اور محسوس ہوتا تھاکہ ان کی پوزیشن قدرے بہتر ہے۔ میاں نواز شریف آئی جے آئی کے قائد کی حیثیّت سے الیکشن مہم کو لیڈ کررہے تھے۔ ان کا جلسہ بھی خاصا بڑا تھا۔وہ چونکہ پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ بھی تھے اس لیے ان کا سرکاری اسٹاف بھی ساتھ تھا ان ہی میں ہمارا جی سی کا کلاس فیلو اور دوست نذیر سعید (ریٹائرڈ فیڈرل سیکریٹری) بھی تھا جو چیف منسٹر کے ساتھ ڈپٹی سیکریٹری تھا۔ نذیر سعید مجھے اسٹیج کی ایک سائیڈ پرلے گیا اور کہنے لگا ''آج اگرتم یہاں ہو تو صرف میری وجہ سے ہو''۔
میں نے کہا '' کیا مطلب؟''وہ رازدارانہ انداز میں بتانے لگاکہ ''تمہار ا یہاں سے تبادلہ ہوچکا تھا صوبائی وزیر احسان پراچہ نے چیف منسٹر صاحب سے شکایت کی تھی کہ الیکشن قریب ہیں اور اے ایس پی ہماری بات نہیں مانتا، اسے تبدیل کرکے ہمارے مطلب کا افسر لگادیں۔ وزیرِ اعلیٰ نے مجھے کہہ دیا تھا کہ آرڈر اِشو کرادیں، میں نے یہ کہہ کر تھوڑا سا Delayکرادیا کہ '' اچھا افسر ہے اس کی چوائس پوچھ کر اسے کوئی اور پوسٹنگ دے دی جائے'' سی ایم صاحب نے اتفاق کیا، بس ایک دن کا وقفہ مل گیا اسی روز پراچہ صاحب نے پارٹی بدل لی اور تمہارا تبادلہ رک گیا۔'' احسان الحق پراچہ قومی اسمبلی اور ان کے چھوٹے بھائی انعام الحق پراچہ صوبائی اسمبلی کے لیے امیدوار تھے۔ ڈاکٹر اعجاز بھرتھ ،انعام پراچہ کے مقابلے میں الیکشن لڑرہے تھے۔
ہم نے سیکیورٹی کے لیے موثّرانتظامات کرلیے تھے۔ پوری سب ڈویژن میں پولیس کا فلیگ مارچ میں نے خود لیڈ کیا۔کہیں کوئی ایسی صورتِ حال نہیں تھی جسے پولیس کنٹرول نہ کرسکے، اس کے باوجود ہماری رائے لیے بغیر صوبائی حکومت نے یا لاہور میں بیٹھے ہوئے بابوؤں نے ہر جگہ فوج بھجوادی، فوجی دستے کے کمانڈر ایک کرنل صاحب تھے۔ بھلوال میں کوئی ریسٹ ہاؤس نہیں تھا اس لیے انھیںکالج میں قیام کرنا پڑا۔ میں نے کرنل صاحب سے کہا کہ ''اگر خدانخواستہ صورتِ حال ہمارے کنٹرول سے باہر ہوگئی تو پھر ہم آپ کو زحمت دیں گے ورنہ آپ آرام کریں، پرامن علاقہ ہے فوج کے گشت کرنے سے شہریوں میں خوف و ھراس پیدا ہوگا''۔ وہ مان گئے، اﷲ کا شکر ہے توقع کیمطابق فوج کو بلانے کی ضرورت نہیں پڑی۔
پنجاب کی ایک سب ڈویژن میں ایک قومی اور دو صوبائی اسمبلی کی نشستیں ہوتی ہیں مگر بھلوال اتنی بڑی سب ڈویژن تھی کہ اسمیں دو قومی اسمبلی اور چار صوبائی اسمبلی کی نشستیں تھیں۔ قومی اسمبلی کے دوسرے حلقے سے پیپلز پارٹی کے ریٹائرڈ کرنل قادر بخش میلہ امیدوار تھے۔کرنل صاحب بڑے زمیندار ، مگر دھیمے مزاج کے نفیس انسان تھے ۔ ایک دن کے لیے میرا اسلام آباد جانا ہوا، واپسی کے لیے میں نے راولپنڈی سے بھلوال جانے والی ویگن میں سیٹ بک کرائی۔اس کی روانگی میں تھوڑا سا وقت تھا اس لیے میں نے ویگن اڈیّ پر اخبارات دیکھنے شروع کردیے ۔ انگریزی اخبار'' دی مسلم ''کے صفحۂ اوّل پر نظر پڑی تو میں چونک پڑا۔ لکھا تھا ، ''سرگودھا کے ایک جاگیردار ریٹائرڈکرنل قادر بخش میلہ اور ان کے ساتھیوں نے حکم عدولی پر گاؤں کے غریب لوگوں پر ظلم کی انتہا کردی اور ان کی عورتوں کو برہنہ کرکے چلاتے رہے اور ان پر تشدد کرتے رہے۔مقامی تھانے میں ان کے خلاف مقدمہ درج ہوگیا ہے اور پولیس ان کی گرفتاری کے لیے چھاپے ماررہی ہے''۔
میرا دل نہیں مانتا تھا کہ کرنل میلہ جیسا شریف الّنفس انسان ایسا کرسکتا ہے۔ موبائل فو ن کی سہولت میّسر ہوتی تو میں فوراً حقائق دریافت کرلیتامگر اُسوقت تو بھلوال پہنچ کر ہی حقیقت معلوم کی جاسکتی تھی۔ میں نے واپس پہنچتے ہی تفتیشی افسر اور SHOکو بلوایا۔SHOنے پہلے آئیں بائیں شائیں کرنے کی کوشش کی،میں نے دبایا تو اس نے بتا دیا کہ کرنل میلہ کے سیاسی مخالفین کے دباؤ پر پرچہ درج ہوا ہے۔ میں نے SHOکو بتادیا کہ اس کیس کی تفتیش میں خود کرونگا۔ دوسرے روز کرنل میلہ بڑی پریشانی کے عالم میں مجھے ملے اور آتے ہی کہنے لگے''Sir I am ruined''(میں برباد ہوگیاہوں)۔
میں نے کہا ''جو ہونا تھا وہ تو ہوچکا مگر مقدمے کی تفتیش میرٹ پر ہوگی اور میں خود کرونگا''۔کہنے لگے اس جھوٹے کیس نے میری عزّت کے ساتھ ساتھ میرا سیاسی کیرئیر بھی بربادکردیا ہے۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ نے اخبار میں یہ خبر پڑھنے کے بعد پارٹی کے ضلعی اور صوبائی صدر سے کہہ دیا ہے کہ اتنے سنگین الزام کے بعد میں کرنل میلہ کو ٹکٹ نہیں دے سکتی۔ میں نے پھرکہاکہ ''ہم میرٹ پر تفتیش کریں گے اور انشاء اﷲ انصاف ہوگا''۔ میں نے مدعی اورگواہوں سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ مقدمہ بالکل بے بنیاد اور جھوٹا ہے۔ یعنی تھانے والوں کو رشوت دیکر جھوٹا مقدمہ درج کرانے کا مقصد اپنے سیاسی حریف کو اخبارات کے ذریعے بدنام کرنا تھا۔
جب اس مقدّمے کے محرک رانجھا صاحبان کو علم ہوا کہ تفتیش اے ایس پی نے اپنے ہاتھ میں لے لی ہے تو وہ بھی میرے پاس آئے۔ رانجھا صاحبان میرے ننہالی رشتے دار بھی بنتے تھے مگر ان کا موقّف غلط تھا اس لیے ان کی بات نہ مانی گئی اور میں نے مقدمہ ڈسچارج کرکے اخراج رپورٹ لکھ دی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ کیس کے بارے میں ایس ڈی پی او کی رپورٹ یا Findingsلے کرمیلہ صاحب کراچی پہنچے اور بے نظیر صاحبہ سے درخواست کی کہ ''راشی تھانیدار کے جھوٹے مقدمے کی بنیاد پر آپ نے میرا ٹکٹ کینسل کیا تھا اب وہاں کے ایک ایماندار اے ایس پی کی Findingsپڑھ لیں اور پھر فیصلہ کریں''۔ چونکہ کرنل صاحب بے گناہ تھے اس لیے انھیں انصاف بھی ملا اور پارٹی کا ٹکٹ بھی مل گیا۔چند روز بعد انتخابات ہوئے بھلوال میں کرنل میلہ اور احسان پراچہ سمیت پی پی پی کے تمام امیدوار جیت گئے صرف انعام پراچہ ڈاکٹر اعجاز بھرتھ سے شکست کھاگئے۔
انتخابات کے نتیجے میں بے نظیربھٹو وزیرِ اعظم بن گئیں اورمیاں نواز شریف دوبارہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب ۔ بھلوال کے دونوں ایم این اے کابینہ میں شامل کرلیے گئے، پراچہ صاحب وزیرِ خزانہ اور میلہ صاحب اسپورٹس کے وزیرِمملکت بن گئے۔ چونکہ بھلوال سے حکومتی پارٹی کے چھ امیدواروں میں سے صرف ڈاکٹر اعجازمرحوم (آجکل ان کا خوبرو اور پڑھا لکھا بیٹا پنجاب اسمبلی کا ممبر ہے) جیت سکے تھے اس لیے وہ پنجاب حکومت کے چہیتے بن گئے۔ انھیں پہلی بار حکمرانوں کا قرب نصیب ہوا تووہ توازن برقرار نہ رکھ سکے۔جس محکمے کے ملازم نے ماضی میں ان کاکام نہیں کیا یا گرمجوشی سے نہ ملاتھا، ڈاکٹر صاحب نے اس کا تبادلہ کرادیا۔ اے سی، تحصیلدار اور ایم ایس وغیرہ سب ڈاکٹر صاحب کے غیض و غضب کا نشانہ بن گئے۔ میرے ساتھ وہ شائد اس لیے مودّب رہے کہ میں نے برے وقتوںمیں ان کے آنسو پونچھے تھے ۔ (جاری ہے)