کہیں ہم غفلت میں نہ سوئے رہیں
ایک اندازے کے مطابق بھارت میں ہر سال 60ہزار سے زیادہ بچے اغواء ہوتے ہیں
ایک اندازے کے مطابق بھارت میں ہر سال 60ہزار سے زیادہ بچے اغواء ہوتے ہیں۔ ہیٹی، میکسیکو، وینزویلا، کولمبیا اور برازیل کے بعد دنیا کا یہ چھٹا بڑا ملک ہے جہاں اتنی بڑی تعداد میںبچے اغوا ہوتے ہیں۔ ''اغواء کار'' والدین کو ہی ''رشوت'' یعنی معاوضہ دے کر بچے اغواء کر لیتے ہیں۔ تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اغواء ہونے والے بچوں کو انسانی اسمگلنگ کی عالمی منڈیوں میں فروخت کیا جاتا ہے جہاں ان کے دل گردوں کی قیمت کروڑوں روپے لگتی ہے۔ ایک اغواء ہونے والے بچے کی بدولت کروڑوں روپے کمائے جاتے ہیں۔ یہ کاروبار لاطینی امریکا، جنوبی و شمالی افریقہ سے ہوتا ہوا اب جنوبی ایشیائی ممالک تک آن پہنچا ہے۔ بھارت کی مثال میں نے اس لیے دی کہ ہوا کے ہلکے ہلکے تھپیڑے اب پاکستان بھی آن پہنچے ہیں جہاں بچوں کے اغوا کا سلسلہ چل نکلا ہے ۔
کچھ دن پہلے سنگاپور میں ایک ٹرک پکڑا گیا جس میں بچوں کے منہ ٹیپ سے بند کر کے بیہوشی کے انجکشن لگا کر بند کیا گیا تھا۔ یہ بچے دنیا کے مختلف ملکوں سے اغوا کر کے لائے گئے تھے ۔ان کے جسموں سے انسانی اعضا نکالنے کا کام کیا جانا تھا۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کے پیچھے محرکات کیا ہیں؟ یہ جاننے کے لیے میں نے امریکا میں گردے کی ٹرانسپلانٹیشن کی کل فیس پر ریسرچ کی تو یہ فیس تقریباََ 5لاکھ ڈالر یعنی ساڑھے پانچ کروڑ پاکستانی روپے تھی جب کہ غریب ممالک میں یہ فیس 15سے 20ہزار ڈالر یا شاید اس سے بھی کم تھی۔ اب انسان فروشوں کے نزدیک یہ بڑا زبردست کاروبار تھا کہ ایک ایک بچے سے لاکھوں ڈالر کمائے جا سکتے تھے۔ امیر ممالک کے لوگوں کے لیے پیسہ کوئی معنی نہیں رکھتا اس لیے وہ اپنی زندگی کی ہر قیمت ادا کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ ترقی پذیر ملکوں میں یہ مذموم کاروبار پوری شدت سے جاری ہے۔
یہ تو میرے چند خدشات تھے ، خدا کرے کہ میں غلط ہوں اور ہمارے بچوں کے ساتھ کبھی ایسا نہ ہو کیوں کہ جس ماں کا لخت جگر اس سے جدا ہوتا ہے اور جس باپ کا سہاراکہیں کھو جاتا ہے اس کے لیے دنیا ختم ہو جاتی ہے۔ کاش یہ احساس ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی ہو جائے کہ ہر گزرتے دن بعد لاہور سمیت کئی علاقوں میں بچوں کو کس طرح اغواء کیا جا رہا ہے۔ محکمہ داخلہ پنجاب کی جانب سے اعلیٰ حکام کو بھیجی جانیوالی رپورٹ میں لکھا ہے کہ یکم جنوری 2016تا جون 2016تک 6ماہ میں پنجاب بھر سے 652بچوں کو اغواء کیا گیا۔لاہور 312کی تعداد کے ساتھ سر فہرست ہے۔
راولپنڈی سے 62، فیصل آباد سے 27، ملتان 25 اور سرگودھا میں 24 بچے اغوا ء یا لا پتہ ہوئے جب کہ دیگر تمام اضلاع میں بھی اس طرح کی وارداتیں ہوئی ہیں۔ یہ تو تھی جون تک کی رپورٹ اس کے بعد کے اعداد و شمار کا کوئی سرکاری ریکارڈ موجود ہی نہیں ہے۔ آپ کو یہ سن کر حیرت ہو گی کہ غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پنجاب بھر میں گزشتہ ایک ماہ میں 700سے بچوں کو اغوا کیا گیا ہے۔ ریاستی مشینری اور وزارت قانون کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے ۔حالات یہ ہیں کہ راولا کوٹ میں ایک سول جج کا بیٹا اغواء کر لیا گیا جس کی بازیابی کے لیے ہائی کورٹ میں سول جج کو روتے دیکھا گیا۔ بے بسی کا عالم یہ ہے کہ انصاف دینے والے خود انصاف کے متلاشی نظر آرہے ہیں۔
جرائم کی یہ بڑھتی ہوئی شرح ہم سب کے لیے انتہائی تشویش ناک ہے اور سب سے بڑی تشویش ناک اور تکلیف دہ بات یہ ہے کہ مظلوم عوام کی داد رسی کرنے والا کوئی نہیں۔ پاکستان کو غیر محفوظ ترین ملک بنا دیا گیا ہے۔ میرا بیٹا فاتح گزشتہ کئی سالوں سے امریکا میں مقیم ہے ۔ میں نے اسے پاکستان میں سیٹ ہونے کا کہا تو اس نے سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا اور بولا،'' آپ پہلے پاکستان کو محفوظ تو بنائیں''۔ میرے ذہن میں صرف ایک شعر ہی اس وقت رہ گیا کہ
جبر کی بھاری چٹانیں ہر طرف رکھ دی گئیں
مجھ کو یوں چنوایا گیا زیست کی دیوار میں
خیر بچوں کا اغواء کسی قومی سانحہ سے کم نہیں ہے۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ کیا پولیس کو یہ بھی علم نہیں ہے کہ ہر چوراہے پر بھیک مانگتے یہ چھوٹے چھوٹے بچے کہاں سے آتے ہیں؟ ان میں سے کتنے غیر فطری معذوری کا شکار دکھائی دیتے ہیں؟ کیا پولیس اس بات پر حیران نہیں ہوتی کہ بھکارنوں کی گود میں لیٹے بچے ہمیشہ سوئے کیوں رہتے ہیں؟کیا کبھی کسی پولیس افسر نے اس بات پر غور کیا ہے کہ ایک چوک پر کھڑی بھکارن کے ہاتھوں میں موجود بچہ پانچ دس دن بعد تبدیل کیوں ہو جاتا ہے؟ کیا اسپتالوں سے نومولود بچے بھی اپنے گھریلو حالات کی وجہ سے اپنے پالنے سے فرار ہو جاتے ہیں؟ کیا پاکستان میں بیگار کیمپ نہیں ہوتے ہیں؟ کیا غریب کے بچے کو تاوان کے لیے اغوا کیا جائے گا یا اسے بھکاری یا بیگاری بنانے کے لیے اٹھایا جائے گا؟ہمیں تو یہی لگتا ہے کہ حکومت پنجاب یہ کہہ رہی ہے کہ بچوں کی تعلیم اور صحت کے بعد اب ان کی سیکیورٹی کو بھی پرائیویٹائز کر دیا گیا ہے۔ جس نے اپنے بچوں کی حفاظت کرنی ہے، وہ خود ہی کر لے۔
قوم تو ابھی جاوید اقبال کو نہیں بھولی جس نے 1999ء میں سو سے زائد بچوں کو تیزاب میں جلا کر مارا تھا۔ میرے خیال میں والدین کو بھی چاہیے کہ ساری عمر رونے سے بہتر ہے کہ وہ اپنے بچوںکی حفاظت خود بھی کریں۔ انھیں اسکول سے لانے اور لے جانے کا مکمل بندوبست کریں۔ کسی جلسے جلوس میںبھیجنے سے گریز کریں اور ان کی تربیت میں یہ بات شامل کریں کہ وہ کسی کے بہکاوے میں ہر گز نہ آئیں۔ جاوید اقبال جیسے درندے آج بھی ہمارے درمیان موجود ہیں اور کہیں نہ کہیں انھیں حکام بالا کی آشیر باد بھی حاصل ہوگی کیوں کہ ہمارے سسٹم میں اوپری سطح پر کوئی اکیلا حرام نہیں کھا سکتا بلکہ ہمارا فرسودہ نظام سب کو مل بیٹھ کر کھانے کی ''اجازت'' دیتا ہے، اس لیے خدارا ہوش کے ناخن لیے جائیں ، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم خواب غفلت میں ہی سوئے رہ جائیں۔
کچھ دن پہلے سنگاپور میں ایک ٹرک پکڑا گیا جس میں بچوں کے منہ ٹیپ سے بند کر کے بیہوشی کے انجکشن لگا کر بند کیا گیا تھا۔ یہ بچے دنیا کے مختلف ملکوں سے اغوا کر کے لائے گئے تھے ۔ان کے جسموں سے انسانی اعضا نکالنے کا کام کیا جانا تھا۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کے پیچھے محرکات کیا ہیں؟ یہ جاننے کے لیے میں نے امریکا میں گردے کی ٹرانسپلانٹیشن کی کل فیس پر ریسرچ کی تو یہ فیس تقریباََ 5لاکھ ڈالر یعنی ساڑھے پانچ کروڑ پاکستانی روپے تھی جب کہ غریب ممالک میں یہ فیس 15سے 20ہزار ڈالر یا شاید اس سے بھی کم تھی۔ اب انسان فروشوں کے نزدیک یہ بڑا زبردست کاروبار تھا کہ ایک ایک بچے سے لاکھوں ڈالر کمائے جا سکتے تھے۔ امیر ممالک کے لوگوں کے لیے پیسہ کوئی معنی نہیں رکھتا اس لیے وہ اپنی زندگی کی ہر قیمت ادا کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ ترقی پذیر ملکوں میں یہ مذموم کاروبار پوری شدت سے جاری ہے۔
یہ تو میرے چند خدشات تھے ، خدا کرے کہ میں غلط ہوں اور ہمارے بچوں کے ساتھ کبھی ایسا نہ ہو کیوں کہ جس ماں کا لخت جگر اس سے جدا ہوتا ہے اور جس باپ کا سہاراکہیں کھو جاتا ہے اس کے لیے دنیا ختم ہو جاتی ہے۔ کاش یہ احساس ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی ہو جائے کہ ہر گزرتے دن بعد لاہور سمیت کئی علاقوں میں بچوں کو کس طرح اغواء کیا جا رہا ہے۔ محکمہ داخلہ پنجاب کی جانب سے اعلیٰ حکام کو بھیجی جانیوالی رپورٹ میں لکھا ہے کہ یکم جنوری 2016تا جون 2016تک 6ماہ میں پنجاب بھر سے 652بچوں کو اغواء کیا گیا۔لاہور 312کی تعداد کے ساتھ سر فہرست ہے۔
راولپنڈی سے 62، فیصل آباد سے 27، ملتان 25 اور سرگودھا میں 24 بچے اغوا ء یا لا پتہ ہوئے جب کہ دیگر تمام اضلاع میں بھی اس طرح کی وارداتیں ہوئی ہیں۔ یہ تو تھی جون تک کی رپورٹ اس کے بعد کے اعداد و شمار کا کوئی سرکاری ریکارڈ موجود ہی نہیں ہے۔ آپ کو یہ سن کر حیرت ہو گی کہ غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پنجاب بھر میں گزشتہ ایک ماہ میں 700سے بچوں کو اغوا کیا گیا ہے۔ ریاستی مشینری اور وزارت قانون کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے ۔حالات یہ ہیں کہ راولا کوٹ میں ایک سول جج کا بیٹا اغواء کر لیا گیا جس کی بازیابی کے لیے ہائی کورٹ میں سول جج کو روتے دیکھا گیا۔ بے بسی کا عالم یہ ہے کہ انصاف دینے والے خود انصاف کے متلاشی نظر آرہے ہیں۔
جرائم کی یہ بڑھتی ہوئی شرح ہم سب کے لیے انتہائی تشویش ناک ہے اور سب سے بڑی تشویش ناک اور تکلیف دہ بات یہ ہے کہ مظلوم عوام کی داد رسی کرنے والا کوئی نہیں۔ پاکستان کو غیر محفوظ ترین ملک بنا دیا گیا ہے۔ میرا بیٹا فاتح گزشتہ کئی سالوں سے امریکا میں مقیم ہے ۔ میں نے اسے پاکستان میں سیٹ ہونے کا کہا تو اس نے سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا اور بولا،'' آپ پہلے پاکستان کو محفوظ تو بنائیں''۔ میرے ذہن میں صرف ایک شعر ہی اس وقت رہ گیا کہ
جبر کی بھاری چٹانیں ہر طرف رکھ دی گئیں
مجھ کو یوں چنوایا گیا زیست کی دیوار میں
خیر بچوں کا اغواء کسی قومی سانحہ سے کم نہیں ہے۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ کیا پولیس کو یہ بھی علم نہیں ہے کہ ہر چوراہے پر بھیک مانگتے یہ چھوٹے چھوٹے بچے کہاں سے آتے ہیں؟ ان میں سے کتنے غیر فطری معذوری کا شکار دکھائی دیتے ہیں؟ کیا پولیس اس بات پر حیران نہیں ہوتی کہ بھکارنوں کی گود میں لیٹے بچے ہمیشہ سوئے کیوں رہتے ہیں؟کیا کبھی کسی پولیس افسر نے اس بات پر غور کیا ہے کہ ایک چوک پر کھڑی بھکارن کے ہاتھوں میں موجود بچہ پانچ دس دن بعد تبدیل کیوں ہو جاتا ہے؟ کیا اسپتالوں سے نومولود بچے بھی اپنے گھریلو حالات کی وجہ سے اپنے پالنے سے فرار ہو جاتے ہیں؟ کیا پاکستان میں بیگار کیمپ نہیں ہوتے ہیں؟ کیا غریب کے بچے کو تاوان کے لیے اغوا کیا جائے گا یا اسے بھکاری یا بیگاری بنانے کے لیے اٹھایا جائے گا؟ہمیں تو یہی لگتا ہے کہ حکومت پنجاب یہ کہہ رہی ہے کہ بچوں کی تعلیم اور صحت کے بعد اب ان کی سیکیورٹی کو بھی پرائیویٹائز کر دیا گیا ہے۔ جس نے اپنے بچوں کی حفاظت کرنی ہے، وہ خود ہی کر لے۔
قوم تو ابھی جاوید اقبال کو نہیں بھولی جس نے 1999ء میں سو سے زائد بچوں کو تیزاب میں جلا کر مارا تھا۔ میرے خیال میں والدین کو بھی چاہیے کہ ساری عمر رونے سے بہتر ہے کہ وہ اپنے بچوںکی حفاظت خود بھی کریں۔ انھیں اسکول سے لانے اور لے جانے کا مکمل بندوبست کریں۔ کسی جلسے جلوس میںبھیجنے سے گریز کریں اور ان کی تربیت میں یہ بات شامل کریں کہ وہ کسی کے بہکاوے میں ہر گز نہ آئیں۔ جاوید اقبال جیسے درندے آج بھی ہمارے درمیان موجود ہیں اور کہیں نہ کہیں انھیں حکام بالا کی آشیر باد بھی حاصل ہوگی کیوں کہ ہمارے سسٹم میں اوپری سطح پر کوئی اکیلا حرام نہیں کھا سکتا بلکہ ہمارا فرسودہ نظام سب کو مل بیٹھ کر کھانے کی ''اجازت'' دیتا ہے، اس لیے خدارا ہوش کے ناخن لیے جائیں ، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم خواب غفلت میں ہی سوئے رہ جائیں۔