اگست کل اور آج
جولائی 1947ء میں قائداعظم نے ایک سلیکشن بورڈ بنایا تھا
گالوں پر گہرے گڑھے، ہڈیاں ابھری، آنکھیں نقاہت کے باعث اندر کو کچھ دھنسی لیکن قدرتی طور پر نہایت روشن، استخوانی جسامت لیکن نہایت مستعد۔ یہ ہے تصویر میرے قائداعظم محمد علی جناح کی۔ جنھوں نے پاکستان بننے کے 392 دنوں تک آزادی سے اس سرزمین کو گل و گلزار بنانے کے لیے نہایت تیز رفتاری سے کام کیے، تا کہ اس وطن کو مستقبل میں مسائل درپیش نہ رہیں اور اس وقت کیونکہ ملک میں مہاجرین کی آمد کی وجہ سے ایک ٹینشن کی صورتحال قائم تھی وہ جلد از جلد رفع ہو اور اپنے گھر بار، کاروبار کو چھوڑ کر آنے والے سکون سے اپنے آزاد وطن میں آباد ہو سکیں۔
آج اگست کے اس مہینے اور 2016ء میں پاکستان کس مقام پر ہے، یہاں گوناگوں مسائل ہیں، جن کی وجوہات کچھ بھی ہوں ان کے حل کے لیے فائلیں در فائلیں جمع ہوتی گئیں، لیکن مسائل...؟
جولائی 1947ء میں قائداعظم نے ایک سلیکشن بورڈ بنایا تھا جس کا مقصد تجربہ کار اور اہل افراد کا انتخاب کیا جا سکے جو اس ملک کے لیے ایک مضبوط انتظامیہ تشکیل دے سکے۔ اس سلسلے میں شروع میں تجربہ کار برطانوی سول اور فوجی افسران کی خدمات بھی حاصل کی گئیں، کیونکہ وہ پہلے سے ریاست کو برطانوی عہد میں چلانے کے ماہر تھے۔ قائداعظم جانتے تھے کہ اس وقت مسئلہ قومیت کا نہیں ریاست کو رواں انداز میں چلانے اور دوسرے افسران کی تربیت کا ہے۔ ملک کی ترقی کے لیے 1948ء کے شروع میں ترقیاتی بورڈ تشکیل دیا گیا تا کہ نئے ملک کی ترقی کے لیے ترقیاتی منصوبے شروع کیے جا سکیں، سول سروس کے آفیسرز کے لیے ایک اکیڈمی قائم کی گئی، جن کے لیے اردو اور بنگلہ زبان سیکھنی ضروری قرار دی گئی۔ پولیس، اکاؤنٹ اور فارن سروس کے لیے الگ الگ شعبے بنائے۔
یہ تمام کام آپ کرتے چلے گئے۔ وہ جذبے، وہ ارادے، مقاصد کچھ اور تھے۔ جوش تھا تو اپنے وطن کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کا۔ آپ کے ساتھ بہت سے قابل باعمل لوگ تھے جو اس کام میں بدستور آپ کے ساتھ رہے۔ یہ ادارے آج بھی ہیں۔ یہ عہدے آج بھی ہیں، ترقیاتی منصوبے آج بھی ہیں اور ان کی تکمیل کے مراحل آج بھی ہیں۔ ان 69 برسوں میں وہ تمام ادارے مختلف ناموں سے آج بھی سرگرم عمل ہیں جن کے افسران اعلیٰ سرکاری رہائش گاہوں میں مقیم ہیں، جن کی تنخواہوں اور دیگر مراعات زبردست ہیں، اتنی شاندار اور عالی شان کہ لوگوں کی رالیں ٹپک ٹپک کر اقربا پروری، کرپشن اور دیگر پوشیدہ خانوں سے سرائیت کرتی ان عہدوں کی کرسیوں کو بھی آلودہ کر چکی ہیں۔ آپ صاحب۔ میں آپ کا سائل نہیں غلام ہوں آقا۔ جو میرے صاحب کی مرضی۔ میں کیا جانوں۔ میں تو عوام ہوں صاحب۔
فروری 1948ء میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات کا تعین کرنے کے لیے پے کمیشن قائم کیا، آپ اس وقت اعلیٰ عہدے پر تھے اور آپ کی تنخواہ تھی ایک روپیہ۔ یہ تنخواہ وہ علامتی طور پر وصول کرتے تھے۔ میرے قائد جانتے تھے کہ ان کی زندگی کے دن بہت کم ہیں اسی لیے انھوں نے ساری زندگی اپنا جو کچھ بھی سرمایہ کما کر جمع کیا، اپنے ملک کے نام کر دیا۔ ہر سال 14 اگست کو ننھے منے معصوم، جو ان کی قربانیوں سے بھی واقف نہیں، ان کے حق میں ہاتھ اٹھاکر ان کے سفید سنگ مرمر کے مزار کے سامنے کھڑے ہو کر دعا کرتے ہیں۔ ایک انسان کے لیے بس یہی تو ہے عمر بھر کی جمع شدہ پونجی۔ اگر سمجھنا چاہیں تو۔
1935ء کے ایکٹ میں ترمیم کر کے دستور ساز اسمبلی نے عبوری طور پر سرکاری حلف سے برطانوی بادشاہ سے وفاداری کا ریفرنس ختم کر دیا، دوسرا اہم کام یہ کیا کہ سرکاری ملازمتوں اور مناصب کے لیے نامزدگیوں کا اختیار بھی گورنر جنرل یعنی آپ پر ڈال دیا گیا۔ کیونکہ وہ یہ جانتے تھے کہ آپ اس عمل میں اپنی دیانت و عقل سے افراد کا انتخاب کریں گے۔ یہ ان کا اعتماد تھا آپ پر، گو آپ کی صحت نہایت خراب تھی۔ آپ پر اس نئے کام کے باعث بوجھ خاصا بڑھ گیا تھا لیکن یہ ایک ایسا جذبہ تھا جس نے اپنی صحت کی بھی پرواہ نہ کی۔ بہتر سے بہتر، اچھے سے اچھا کی تلاش جاری تھی، خود مشین بن گئے تھے، روزانہ فائلیں نہایت توجہ سے پڑھتے، پھر اس پر ریمارکس تحریر کرتے، محض فائلوں پر چڑیا اڑانے کے عمل سے گریز کیا۔ چڑیا سے یاد آیا۔ آج ایسی چڑیوں کے انتظار میں سائل برسوں انتظار کرتے ہیں، فریادیں ابھرتی ہیں، وعدے ہوتے ہیں، نیک تمنائیں کہ وہ وعدے وفا بھی ہوں۔ میرے قائد کا یہ حال تھا کہ ایک بار کسی فائل میں عمل درآمد میں تاخیر پر معذرت طلب کی گئی تو آپ نے فرمایا۔
''میں چاہتا ہوں کہ ایڈمنسٹریشن مستعدی سے کام کرے اور مجھ سے توقع نہ رکھے کہ میں کسی ٹھوس وجہ کے بغیر ان کے فرائض میں تاخیر کو نظرانداز کروں گا''۔
آج ہماری اعلیٰ عدالتوں کے جج بھی رو رہے ہیں، چلا رہے ہیں کہ ان کا گمشدہ بچہ بازیاب کرایا جائے۔ کوئی کچھ کیوں نہیں کر رہا۔ یہ تاخیر کس لیے، وجہ کیا ہے؟ کوئی تو بات، کوئی تو نکتہ۔ کیوں یہ قوم تاخیر کی دلدل میں اترتی جا رہی ہے، کیوں؟ جب ایک بیمار، قریب المرگ شخص راتوں کو جاگ جاگ کر اپنے فرائض انجام دے سکتا ہے، اپنے ملک و ملت کی بھلائی کے لیے اپنی ذات کی بھی پرواہ نہیں کرتا، تو آج اس آزاد ریاست کے آزاد اور پرسکون لوگ کیوں تساہل برت رہے ہیں۔
تقسیم کے وقت ہندوستان کے علاقوں سے بجلی آئی تھی، لیکن حسد و جلن نے اسے کاٹ دیا۔ پاکستان کی زراعت کو ناکارہ بنانے کے لیے یہاں آنے والی نہروں کا پانی یکم اپریل 1948ء کو بند کر دیا گیا، لیکن آپ نے فوری طور پر میانوالی ہائیڈرو پراجیکٹ موخر کر کے تین نہروں بی آر بی، جرالر، راوی لینڈ، اور بلوکی سلیمانکی لنک کی تعمیر بغیر کسی قرضے گرانٹ یا غیر ملکی ماہرین کے شروع کرائی۔ اس سے پہلے آپ نے میانوالی کے دورے میں میانوالی ہائیڈرو پراجیکٹ کی تعمیر کا اعلان کیا تھا تا کہ بجلی کے لیے ہندوستان کی طرف نہ دیکھا جائے۔ یہ آپ کے فیصلوں کی مستعدی تھی اور فوری ضرورت کے پیش نظر اقدامات۔ آج ہم بجلی کے ساتھ ساتھ پانی کی کمی کا بھی رونا رو رہے ہیں۔ اب بچے بچے کی سمجھ میں بھی ڈیم کی افادیت اور ضرورت آ گئی ہے لیکن 1948ء سے لے کر آج تک شروع شروع کے علاوہ اب تک کتنے نئے ڈیم بنے، پانی کی کمی اور سیلاب کی تباہی۔ یہ فرق کب ختم ہو گا، اور کیسے ختم ہو گا؟
14 اگست 1947ء اور آج، کتنے فاصلے سمٹ گئے، کتنی دوریاں بڑھ گئیں، ہم نے کل کیا کر ڈالا اور آج تک کیا کر پائے؟ خود ہی سوچیے۔
آج اگست کے اس مہینے اور 2016ء میں پاکستان کس مقام پر ہے، یہاں گوناگوں مسائل ہیں، جن کی وجوہات کچھ بھی ہوں ان کے حل کے لیے فائلیں در فائلیں جمع ہوتی گئیں، لیکن مسائل...؟
جولائی 1947ء میں قائداعظم نے ایک سلیکشن بورڈ بنایا تھا جس کا مقصد تجربہ کار اور اہل افراد کا انتخاب کیا جا سکے جو اس ملک کے لیے ایک مضبوط انتظامیہ تشکیل دے سکے۔ اس سلسلے میں شروع میں تجربہ کار برطانوی سول اور فوجی افسران کی خدمات بھی حاصل کی گئیں، کیونکہ وہ پہلے سے ریاست کو برطانوی عہد میں چلانے کے ماہر تھے۔ قائداعظم جانتے تھے کہ اس وقت مسئلہ قومیت کا نہیں ریاست کو رواں انداز میں چلانے اور دوسرے افسران کی تربیت کا ہے۔ ملک کی ترقی کے لیے 1948ء کے شروع میں ترقیاتی بورڈ تشکیل دیا گیا تا کہ نئے ملک کی ترقی کے لیے ترقیاتی منصوبے شروع کیے جا سکیں، سول سروس کے آفیسرز کے لیے ایک اکیڈمی قائم کی گئی، جن کے لیے اردو اور بنگلہ زبان سیکھنی ضروری قرار دی گئی۔ پولیس، اکاؤنٹ اور فارن سروس کے لیے الگ الگ شعبے بنائے۔
یہ تمام کام آپ کرتے چلے گئے۔ وہ جذبے، وہ ارادے، مقاصد کچھ اور تھے۔ جوش تھا تو اپنے وطن کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کا۔ آپ کے ساتھ بہت سے قابل باعمل لوگ تھے جو اس کام میں بدستور آپ کے ساتھ رہے۔ یہ ادارے آج بھی ہیں۔ یہ عہدے آج بھی ہیں، ترقیاتی منصوبے آج بھی ہیں اور ان کی تکمیل کے مراحل آج بھی ہیں۔ ان 69 برسوں میں وہ تمام ادارے مختلف ناموں سے آج بھی سرگرم عمل ہیں جن کے افسران اعلیٰ سرکاری رہائش گاہوں میں مقیم ہیں، جن کی تنخواہوں اور دیگر مراعات زبردست ہیں، اتنی شاندار اور عالی شان کہ لوگوں کی رالیں ٹپک ٹپک کر اقربا پروری، کرپشن اور دیگر پوشیدہ خانوں سے سرائیت کرتی ان عہدوں کی کرسیوں کو بھی آلودہ کر چکی ہیں۔ آپ صاحب۔ میں آپ کا سائل نہیں غلام ہوں آقا۔ جو میرے صاحب کی مرضی۔ میں کیا جانوں۔ میں تو عوام ہوں صاحب۔
فروری 1948ء میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات کا تعین کرنے کے لیے پے کمیشن قائم کیا، آپ اس وقت اعلیٰ عہدے پر تھے اور آپ کی تنخواہ تھی ایک روپیہ۔ یہ تنخواہ وہ علامتی طور پر وصول کرتے تھے۔ میرے قائد جانتے تھے کہ ان کی زندگی کے دن بہت کم ہیں اسی لیے انھوں نے ساری زندگی اپنا جو کچھ بھی سرمایہ کما کر جمع کیا، اپنے ملک کے نام کر دیا۔ ہر سال 14 اگست کو ننھے منے معصوم، جو ان کی قربانیوں سے بھی واقف نہیں، ان کے حق میں ہاتھ اٹھاکر ان کے سفید سنگ مرمر کے مزار کے سامنے کھڑے ہو کر دعا کرتے ہیں۔ ایک انسان کے لیے بس یہی تو ہے عمر بھر کی جمع شدہ پونجی۔ اگر سمجھنا چاہیں تو۔
1935ء کے ایکٹ میں ترمیم کر کے دستور ساز اسمبلی نے عبوری طور پر سرکاری حلف سے برطانوی بادشاہ سے وفاداری کا ریفرنس ختم کر دیا، دوسرا اہم کام یہ کیا کہ سرکاری ملازمتوں اور مناصب کے لیے نامزدگیوں کا اختیار بھی گورنر جنرل یعنی آپ پر ڈال دیا گیا۔ کیونکہ وہ یہ جانتے تھے کہ آپ اس عمل میں اپنی دیانت و عقل سے افراد کا انتخاب کریں گے۔ یہ ان کا اعتماد تھا آپ پر، گو آپ کی صحت نہایت خراب تھی۔ آپ پر اس نئے کام کے باعث بوجھ خاصا بڑھ گیا تھا لیکن یہ ایک ایسا جذبہ تھا جس نے اپنی صحت کی بھی پرواہ نہ کی۔ بہتر سے بہتر، اچھے سے اچھا کی تلاش جاری تھی، خود مشین بن گئے تھے، روزانہ فائلیں نہایت توجہ سے پڑھتے، پھر اس پر ریمارکس تحریر کرتے، محض فائلوں پر چڑیا اڑانے کے عمل سے گریز کیا۔ چڑیا سے یاد آیا۔ آج ایسی چڑیوں کے انتظار میں سائل برسوں انتظار کرتے ہیں، فریادیں ابھرتی ہیں، وعدے ہوتے ہیں، نیک تمنائیں کہ وہ وعدے وفا بھی ہوں۔ میرے قائد کا یہ حال تھا کہ ایک بار کسی فائل میں عمل درآمد میں تاخیر پر معذرت طلب کی گئی تو آپ نے فرمایا۔
''میں چاہتا ہوں کہ ایڈمنسٹریشن مستعدی سے کام کرے اور مجھ سے توقع نہ رکھے کہ میں کسی ٹھوس وجہ کے بغیر ان کے فرائض میں تاخیر کو نظرانداز کروں گا''۔
آج ہماری اعلیٰ عدالتوں کے جج بھی رو رہے ہیں، چلا رہے ہیں کہ ان کا گمشدہ بچہ بازیاب کرایا جائے۔ کوئی کچھ کیوں نہیں کر رہا۔ یہ تاخیر کس لیے، وجہ کیا ہے؟ کوئی تو بات، کوئی تو نکتہ۔ کیوں یہ قوم تاخیر کی دلدل میں اترتی جا رہی ہے، کیوں؟ جب ایک بیمار، قریب المرگ شخص راتوں کو جاگ جاگ کر اپنے فرائض انجام دے سکتا ہے، اپنے ملک و ملت کی بھلائی کے لیے اپنی ذات کی بھی پرواہ نہیں کرتا، تو آج اس آزاد ریاست کے آزاد اور پرسکون لوگ کیوں تساہل برت رہے ہیں۔
تقسیم کے وقت ہندوستان کے علاقوں سے بجلی آئی تھی، لیکن حسد و جلن نے اسے کاٹ دیا۔ پاکستان کی زراعت کو ناکارہ بنانے کے لیے یہاں آنے والی نہروں کا پانی یکم اپریل 1948ء کو بند کر دیا گیا، لیکن آپ نے فوری طور پر میانوالی ہائیڈرو پراجیکٹ موخر کر کے تین نہروں بی آر بی، جرالر، راوی لینڈ، اور بلوکی سلیمانکی لنک کی تعمیر بغیر کسی قرضے گرانٹ یا غیر ملکی ماہرین کے شروع کرائی۔ اس سے پہلے آپ نے میانوالی کے دورے میں میانوالی ہائیڈرو پراجیکٹ کی تعمیر کا اعلان کیا تھا تا کہ بجلی کے لیے ہندوستان کی طرف نہ دیکھا جائے۔ یہ آپ کے فیصلوں کی مستعدی تھی اور فوری ضرورت کے پیش نظر اقدامات۔ آج ہم بجلی کے ساتھ ساتھ پانی کی کمی کا بھی رونا رو رہے ہیں۔ اب بچے بچے کی سمجھ میں بھی ڈیم کی افادیت اور ضرورت آ گئی ہے لیکن 1948ء سے لے کر آج تک شروع شروع کے علاوہ اب تک کتنے نئے ڈیم بنے، پانی کی کمی اور سیلاب کی تباہی۔ یہ فرق کب ختم ہو گا، اور کیسے ختم ہو گا؟
14 اگست 1947ء اور آج، کتنے فاصلے سمٹ گئے، کتنی دوریاں بڑھ گئیں، ہم نے کل کیا کر ڈالا اور آج تک کیا کر پائے؟ خود ہی سوچیے۔