دہلے پر دہلا اور انتہا پسندی کا بیانیہ
پیپلز پارٹی سندھ حکومت کے مزے لے رہی ہے،
دل تو چاہتا ہے کہ کراچی پر بات کروں، پچھلے کالم میں یہ وعدہ بھی کیا تھا، کہنے کو بہت کچھ ہے لیکن کوئٹہ کا سانحہ ایسا ہے کہ اس کے احساس اور کرب سے بچ کر نکلنا بہت مشکل ہے لہٰذا آج اسی بارے میں اپنے کچے پکے خیالات آپ کی نذر کرنے کو دل چاہتا ہے۔ کراچی کی ملاقاتوں کے بارے میں پھر کبھی سہی۔ کوئٹہ کے اسپتال میں جو لوگ خود کش حملے کی نذر ہو گئے، ان کے اہل خانہ کے لیے قیامت برپا ہو گئی ہے۔ غالب نے کہا تھا،
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب!قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
ویسے بھی ہمارا سفر تو ایک قیامت سے شروع ہوتا ہے اور دوسری قیامت پر ختم ہوتا ہے۔دہشت گردی اور اس سے منسلک بیانیہ آج بھی پوری آب و تاب سے زندہ ہے۔ میاں محمد نواز شریف آج ہمارے وزیراعظم ہیں، وہ دہشت گردوں کو جڑ سے اکھاڑنے کے نعرے بلند کر رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ ذہنی اور نظریاتی طور پر انتہا پسندی اور اس سے نتھی بیانیے کے خلاف ہیں یا کنفیوژن کا شکار ہیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب وہ دوسری بار وزیراعظم بنے، اس وقت طالبان افغانستان میں برسراقتدار آ چکے تھے، پاکستان، سعودی عرب اور یو اے ای دنیا میں ایسے ممالک تھے جنھوں نے ملا عمر کی حکومت کو تسلیم کر لیا تھا، دائیں بازو کے دانشور جو آج بھی مسلم لیگ ن کی صفوں میں موجود ہیں، اس حکومت کو آئیڈیلائز کرنے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہے تھے، ان ہی ایام میں میاں صاحب نے بھی شاید موقع کی مناسبت کو دیکھتے ہوئے نعرہ لگایا تھا، ہم پاکستان میں بھی طالبان جیسا نظام لائیں گے۔
آج میاں صاحب دہشت گردی کے خلاف لڑنے کی بات کر رہے ہیں، اپنے اس جذبے میں وہ سچے بھی ہوں گے لیکن سوال وہی ہے کہ کیا وہ دہشت گردی کی آبیاری کرنے والے نظریاتی بیانیے کی ہلاکت خیزی کا ادراک رکھتے ہیں؟ کیا وہ اس نظریاتی بیانیے کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے کوئی عملی اقدامات کر رہے ہیں؟ عملاً ایسا نظر نہیں آ رہا۔ نصاب تعلیم میں جوہری تبدیلی نہیں ہو رہی ہے،دہشت گردوں کے سہولت کاروں کا کھوج لگانے کی بھی سنجیدہ کوششیں نظر نہیں آ رہیں۔یہ محض میاں صاحب کی بات نہیں، پیپلز پارٹی جو لبرل نظریات کا علم بلند کرتی ہے، اس نے کیا کیا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے یقیناً اس ملک کے لیے متفقہ آئین بنایا،مزدوروں،کسانوںاورنچلے طبقات کو سیاسی شعور دیا لیکن کیا اس حقیقت سے انکار کیا جا سکتا ہے کہ ان کی حکومت میں ہی ایسے اقدامات کیے گئے جو انتہا پسند بیانیے کو آگے بڑھانے کی سیڑھی بنے۔کیا ان ہی کے دور میں افغانستان کے انتہا پسندوں کی پاکستان میں آمد کا سلسلہ شروع نہیں ہوا؟ میں ان کے دور میں بنائے گئے آئین میں موجود ان شقوں کی بات نہیں کرتا جو انتہا پسندوں کو سیاسی قوت فراہم کرنے کا باعث بنیں، صرف 1977 میں قومی اتحاد کی احتجاجی تحریک کو ڈی فیوز کرنے کے لیے انھوں نے جو اعلانات اور فیصلے کیے، ان ہی کا جائزہ لے لیں، کیا وہ اس ملک کو جدیدیت کی راہ پر ڈالنے والے تھے؟ آج کے ٹین ایجرز کو تو شاید میری بات سمجھ نہ آئے لیکن میری عمر کے لوگ یقیناً سمجھ گئے ہوں گے کہ میں کن اعلانات اور فیصلوں کی بات کر رہا ہوں۔ ضیاء الحق کو تو چھوڑ ہی دیتے ہیں کیونکہ اس نے جو کچھ کیا، وہ اظہر من الشمس اور سب کے سامنے ہے لیکن اصل باریک کام تو انھوں نے کیا جو خود کو ماڈریٹ یا لبرل کا خطاب دیتے ہیں۔
کیا محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں طالبان کی تیاری شروع نہیں ہوئی جنھوں نے بعد میں افغانستان پر قبضہ کیا، جنرل پرویز مشرف کو بھی چھوڑیں کہ وہ تو آمر تھا،وہ اسٹیبلشمنٹ کا نمایندہ تھا، اس نے اچھے اور برے طالبان کا جھانسہ دے کر وہی کچھ کرنے کی کوشش کی جو اسٹیبلشمنٹ چاہتی تھی لیکن آصف زرداری کے دور میں کیا ہوا، انھوں نے اپنے تئیں اٹھارھویں ترمیم کا کارنامہ سرانجام دیا لیکن اس کارنامے میں بھی ایسی ترمیم کی ملاوٹ کر دی جس کے تحت اقلیتوں سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص وزیراعظم نہیں بن سکتا۔ بلاول بھٹو کو شاید اس کا پتہ نہیں ورنہ وہ یہ نہ کہتے کہ میں کسی اقلیتی رکن کو پاکستان کا وزیراعظم دیکھنا چاہتا ہوں۔ اب ہم حقیقی جمہوریت کا دوسرا فیز بھگت رہے ہیں، یہ ایسا حقیقی جمہوری فیز ہے جس میں پانامالیکس والے تو حکومت میں ہیں لیکن پانامالیکس کی بنیاد پر اپوزیشن کرنے والے بھی حکومت میں ہیں۔
پیپلز پارٹی سندھ حکومت کے مزے لے رہی ہے، تحریک انصاف خیبرپختونخوا کے اقتدار پر قابض ہے، جماعت اسلامی اس صوبائی حکومت میں اپنے حصے کا کیک کھا رہی ہے، جے یو آئی فضل الرحمن مرکز میں اپنا حصہ لے کر بیٹھی ہے، بلوچستان میں محمود خان اچکزئی کی پختونخوا میپ، عبدالمالک بلوچ اور حاصل بزنجو کی بلوچستان نیشنل پارٹی مسلم لیگ ن کے ساتھ اقتدار کے دسترخوان پر بیٹھی'' نمکین گوشت'' کا مزہ لے رہی ہے۔ قارئین! آپ خود ہی سوچیں پاکستان میں حزب اقتدار کون ہے اور حزب اختلاف کون ہے۔ کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں۔
پاکستان ایسے فیز میں داخل ہے۔ جہاں اسٹیبلشمنٹ کے اندر بھی تقسیم نظر آ رہی ہے، کوئی ایک بیانیے کو لے کر آگے بڑھ رہا ہے اور کوئی اسے روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ کشمکش کیا حشر برپا کر رہی ہے اور مستقبل میں کیا کرے گی، ذرا انتظار کیجیے، ابھی تو مولانا شیرانی بولے ہیں، اور بھی بولیں گے۔اسٹیبلشمنٹ کو اپنی پڑ جائے گی لیکن اسٹیبلشمنٹ کی درگت بنتے دیکھ کر خوش ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کو پنجرے میں بند کرنے کے خواہش مند جمہوریت والوں کا تذکرہ تو آپ نے سن ہی لیا ہے، اسٹیبلشمنٹ اگر حکم کا دھلا ہے تو جمہوریت پسند بھی اس دھلے سے کم نہیں ہیں، ہم انھیں دھلے پہ دھلا کہہ سکتے ہیں۔
سیاستدان جمہوریت سے صرف یہی مراد لیتے ہیں کہ جو ووٹ لے کر جیت جائے، اسے حکومت نہیں بلکہ من مانی کرنے کا حق ہے، انھیں جمہوری رویوں کی کوئی پروا نہیں، نظریاتی محاذ آرائی سے انھیں کوئی علاقہ نہیں، جو منڈی کی معیشت کے حامی ہیں، انھیں یہ پتہ نہیں کہ اس طرز معیشت اور طرز زندگی کے بھی چند اصول ہوتے ہیں، وہ دہشت گردی کو بھی روایتی جرائم کی ہی ایک قسم سمجھ کر اسے ہتھیاروں اور گرفتاریوں سے ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، انھیں نظریاتی ہتھیاروں کی ہلاکت خیزی کا شعور نہیں ہے، اگر انھیں یہ شعور ہوتا تو خیبرپختونخوا کی حکومت کبھی ایک مخصوص مدرسے کو عوام کے ٹیکسوں سے اکٹھی کی ہوئی سرکاری رقم کا بھاری حصہ تحفتاً نہ دیتی۔
پاکستان کو ''دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو کے مقام ''تک پہنچانے میں اکیلی اسٹیبلشمنٹ نہیں بلکہ یہ نیلے پیلے، سرخ اور سبز نظریات کے حاصل جمہوریت کی راگنی گانے والے سیاستدان بھی شامل ہیں۔ مجھے اپنا ایک مرحوم عزیز یاد آ رہا ہے، وہ اکثر کہا کرتا تھا، ''اوئے اسیں کدی دوسرے دا نقصان نئیں کیتا، ہمیشہ اپنے گھر نوں اگ لا کے تماشاویکھیا اے''۔(اوئے، ہم نے کبھی کسی دوسرے کو نقصان نہیں پہنچایا، ہمیشہ اپنے گھر کو آگ لگا کر تماشا دیکھا ہے)سچ بتائیے، پاکستان کو چلانے والے ایسا ہی نہیں کر رہے۔
دھلے پہ دھلے کی اس جنگ میں عوام مارے جا رہے ہیں۔ بم دھماکے اور خود کش حملے ہوتے ہیں، لاشیں گرتی ہیں، ایک دھلا کہتا ہے، دہشت گردوں کو نہیں چھوڑیں گے، پھر دوسرا دھلا دھاڑتا ہے، آخر ی دہشت گرد کے خاتمے تک جنگ جاری رہے گی جب کہ ہماری حالت اس شعر کی تصویر ہے
ہم سے قاتل کا ٹھکانا ڈھونڈا نہیں جاتا
ہم بڑی دھوم سے بس سوگ منا لیتے ہیں
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب!قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
ویسے بھی ہمارا سفر تو ایک قیامت سے شروع ہوتا ہے اور دوسری قیامت پر ختم ہوتا ہے۔دہشت گردی اور اس سے منسلک بیانیہ آج بھی پوری آب و تاب سے زندہ ہے۔ میاں محمد نواز شریف آج ہمارے وزیراعظم ہیں، وہ دہشت گردوں کو جڑ سے اکھاڑنے کے نعرے بلند کر رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ ذہنی اور نظریاتی طور پر انتہا پسندی اور اس سے نتھی بیانیے کے خلاف ہیں یا کنفیوژن کا شکار ہیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب وہ دوسری بار وزیراعظم بنے، اس وقت طالبان افغانستان میں برسراقتدار آ چکے تھے، پاکستان، سعودی عرب اور یو اے ای دنیا میں ایسے ممالک تھے جنھوں نے ملا عمر کی حکومت کو تسلیم کر لیا تھا، دائیں بازو کے دانشور جو آج بھی مسلم لیگ ن کی صفوں میں موجود ہیں، اس حکومت کو آئیڈیلائز کرنے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہے تھے، ان ہی ایام میں میاں صاحب نے بھی شاید موقع کی مناسبت کو دیکھتے ہوئے نعرہ لگایا تھا، ہم پاکستان میں بھی طالبان جیسا نظام لائیں گے۔
آج میاں صاحب دہشت گردی کے خلاف لڑنے کی بات کر رہے ہیں، اپنے اس جذبے میں وہ سچے بھی ہوں گے لیکن سوال وہی ہے کہ کیا وہ دہشت گردی کی آبیاری کرنے والے نظریاتی بیانیے کی ہلاکت خیزی کا ادراک رکھتے ہیں؟ کیا وہ اس نظریاتی بیانیے کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے کوئی عملی اقدامات کر رہے ہیں؟ عملاً ایسا نظر نہیں آ رہا۔ نصاب تعلیم میں جوہری تبدیلی نہیں ہو رہی ہے،دہشت گردوں کے سہولت کاروں کا کھوج لگانے کی بھی سنجیدہ کوششیں نظر نہیں آ رہیں۔یہ محض میاں صاحب کی بات نہیں، پیپلز پارٹی جو لبرل نظریات کا علم بلند کرتی ہے، اس نے کیا کیا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے یقیناً اس ملک کے لیے متفقہ آئین بنایا،مزدوروں،کسانوںاورنچلے طبقات کو سیاسی شعور دیا لیکن کیا اس حقیقت سے انکار کیا جا سکتا ہے کہ ان کی حکومت میں ہی ایسے اقدامات کیے گئے جو انتہا پسند بیانیے کو آگے بڑھانے کی سیڑھی بنے۔کیا ان ہی کے دور میں افغانستان کے انتہا پسندوں کی پاکستان میں آمد کا سلسلہ شروع نہیں ہوا؟ میں ان کے دور میں بنائے گئے آئین میں موجود ان شقوں کی بات نہیں کرتا جو انتہا پسندوں کو سیاسی قوت فراہم کرنے کا باعث بنیں، صرف 1977 میں قومی اتحاد کی احتجاجی تحریک کو ڈی فیوز کرنے کے لیے انھوں نے جو اعلانات اور فیصلے کیے، ان ہی کا جائزہ لے لیں، کیا وہ اس ملک کو جدیدیت کی راہ پر ڈالنے والے تھے؟ آج کے ٹین ایجرز کو تو شاید میری بات سمجھ نہ آئے لیکن میری عمر کے لوگ یقیناً سمجھ گئے ہوں گے کہ میں کن اعلانات اور فیصلوں کی بات کر رہا ہوں۔ ضیاء الحق کو تو چھوڑ ہی دیتے ہیں کیونکہ اس نے جو کچھ کیا، وہ اظہر من الشمس اور سب کے سامنے ہے لیکن اصل باریک کام تو انھوں نے کیا جو خود کو ماڈریٹ یا لبرل کا خطاب دیتے ہیں۔
کیا محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں طالبان کی تیاری شروع نہیں ہوئی جنھوں نے بعد میں افغانستان پر قبضہ کیا، جنرل پرویز مشرف کو بھی چھوڑیں کہ وہ تو آمر تھا،وہ اسٹیبلشمنٹ کا نمایندہ تھا، اس نے اچھے اور برے طالبان کا جھانسہ دے کر وہی کچھ کرنے کی کوشش کی جو اسٹیبلشمنٹ چاہتی تھی لیکن آصف زرداری کے دور میں کیا ہوا، انھوں نے اپنے تئیں اٹھارھویں ترمیم کا کارنامہ سرانجام دیا لیکن اس کارنامے میں بھی ایسی ترمیم کی ملاوٹ کر دی جس کے تحت اقلیتوں سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص وزیراعظم نہیں بن سکتا۔ بلاول بھٹو کو شاید اس کا پتہ نہیں ورنہ وہ یہ نہ کہتے کہ میں کسی اقلیتی رکن کو پاکستان کا وزیراعظم دیکھنا چاہتا ہوں۔ اب ہم حقیقی جمہوریت کا دوسرا فیز بھگت رہے ہیں، یہ ایسا حقیقی جمہوری فیز ہے جس میں پانامالیکس والے تو حکومت میں ہیں لیکن پانامالیکس کی بنیاد پر اپوزیشن کرنے والے بھی حکومت میں ہیں۔
پیپلز پارٹی سندھ حکومت کے مزے لے رہی ہے، تحریک انصاف خیبرپختونخوا کے اقتدار پر قابض ہے، جماعت اسلامی اس صوبائی حکومت میں اپنے حصے کا کیک کھا رہی ہے، جے یو آئی فضل الرحمن مرکز میں اپنا حصہ لے کر بیٹھی ہے، بلوچستان میں محمود خان اچکزئی کی پختونخوا میپ، عبدالمالک بلوچ اور حاصل بزنجو کی بلوچستان نیشنل پارٹی مسلم لیگ ن کے ساتھ اقتدار کے دسترخوان پر بیٹھی'' نمکین گوشت'' کا مزہ لے رہی ہے۔ قارئین! آپ خود ہی سوچیں پاکستان میں حزب اقتدار کون ہے اور حزب اختلاف کون ہے۔ کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں۔
پاکستان ایسے فیز میں داخل ہے۔ جہاں اسٹیبلشمنٹ کے اندر بھی تقسیم نظر آ رہی ہے، کوئی ایک بیانیے کو لے کر آگے بڑھ رہا ہے اور کوئی اسے روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ کشمکش کیا حشر برپا کر رہی ہے اور مستقبل میں کیا کرے گی، ذرا انتظار کیجیے، ابھی تو مولانا شیرانی بولے ہیں، اور بھی بولیں گے۔اسٹیبلشمنٹ کو اپنی پڑ جائے گی لیکن اسٹیبلشمنٹ کی درگت بنتے دیکھ کر خوش ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کو پنجرے میں بند کرنے کے خواہش مند جمہوریت والوں کا تذکرہ تو آپ نے سن ہی لیا ہے، اسٹیبلشمنٹ اگر حکم کا دھلا ہے تو جمہوریت پسند بھی اس دھلے سے کم نہیں ہیں، ہم انھیں دھلے پہ دھلا کہہ سکتے ہیں۔
سیاستدان جمہوریت سے صرف یہی مراد لیتے ہیں کہ جو ووٹ لے کر جیت جائے، اسے حکومت نہیں بلکہ من مانی کرنے کا حق ہے، انھیں جمہوری رویوں کی کوئی پروا نہیں، نظریاتی محاذ آرائی سے انھیں کوئی علاقہ نہیں، جو منڈی کی معیشت کے حامی ہیں، انھیں یہ پتہ نہیں کہ اس طرز معیشت اور طرز زندگی کے بھی چند اصول ہوتے ہیں، وہ دہشت گردی کو بھی روایتی جرائم کی ہی ایک قسم سمجھ کر اسے ہتھیاروں اور گرفتاریوں سے ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، انھیں نظریاتی ہتھیاروں کی ہلاکت خیزی کا شعور نہیں ہے، اگر انھیں یہ شعور ہوتا تو خیبرپختونخوا کی حکومت کبھی ایک مخصوص مدرسے کو عوام کے ٹیکسوں سے اکٹھی کی ہوئی سرکاری رقم کا بھاری حصہ تحفتاً نہ دیتی۔
پاکستان کو ''دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو کے مقام ''تک پہنچانے میں اکیلی اسٹیبلشمنٹ نہیں بلکہ یہ نیلے پیلے، سرخ اور سبز نظریات کے حاصل جمہوریت کی راگنی گانے والے سیاستدان بھی شامل ہیں۔ مجھے اپنا ایک مرحوم عزیز یاد آ رہا ہے، وہ اکثر کہا کرتا تھا، ''اوئے اسیں کدی دوسرے دا نقصان نئیں کیتا، ہمیشہ اپنے گھر نوں اگ لا کے تماشاویکھیا اے''۔(اوئے، ہم نے کبھی کسی دوسرے کو نقصان نہیں پہنچایا، ہمیشہ اپنے گھر کو آگ لگا کر تماشا دیکھا ہے)سچ بتائیے، پاکستان کو چلانے والے ایسا ہی نہیں کر رہے۔
دھلے پہ دھلے کی اس جنگ میں عوام مارے جا رہے ہیں۔ بم دھماکے اور خود کش حملے ہوتے ہیں، لاشیں گرتی ہیں، ایک دھلا کہتا ہے، دہشت گردوں کو نہیں چھوڑیں گے، پھر دوسرا دھلا دھاڑتا ہے، آخر ی دہشت گرد کے خاتمے تک جنگ جاری رہے گی جب کہ ہماری حالت اس شعر کی تصویر ہے
ہم سے قاتل کا ٹھکانا ڈھونڈا نہیں جاتا
ہم بڑی دھوم سے بس سوگ منا لیتے ہیں