پاکستانی روپے پرپابندی قندھارپولیس چیف نے لگائی
قندھار پولیس چیف نے 2 ہفتے قبل افغانستان میں پاکستانی روپے میں کاروباری لین دین کوجرم قراردیا، افغان میڈیا
افغانستان کی جانب سے اپنے ملک میں پاکستانی روپے میں تجارتی سرگرمیوں پر پابندی اور افغانی کرنسی کی قدرمیں اضافے کے باعث افغان مارکیٹ میں پاکستانی مصنوعات12.5 فیصد سستی ہوگئیں۔ افغانستان کے ساتھ روپے میں تجارت کرنے والے تاجروں نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ افغانستان میں پاکستانی روپیہ کو''کلدار'' کے نام سے پہچانا جاتا ہے اور گزشتہ 30 سال سے افغان کرنسی کی بے قدری کے باعث وہاں تجارت ترجیحاً پاکستانی روپے میں ہی کی جاتی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ پاکستان سے پلاسٹک مصنوعات سمیت دیگر ان اشیا کی امریکی ڈالر میں برآمدات ہورہی ہیں جن پر متعلقہ برآمدکنندگان کوری بیٹ کی سہولت میسر ہے لیکن وہ مصنوعات جو افغانستان میں براہ راست چین ودیگر ممالک سے درآمدات نہیں ہوسکتیں انہیں افغان تاجر پاکستانی روپے (کلدار) میں درآمد کرتے تھے، یہ وہ مصنوعات ہیں جو بھاری وزن یا حجم کی حامل ہوتی ہیں ان میں سیمنٹ، اسٹیل کی چادریں، سریا، تعمیراتی میٹریل ودیگر مصنوعات شامل ہیں۔ پابندی سے قبل روپے میں کاروبار کرنے والے پاکستانی تاجروں نے بتایا کہ وہ افغان تاجروں کے ساتھ روپے میں تجارت باہمی اتفاق رائے سے کرتے تھے لیکن افغان حکومت کی جانب سے پاکستانی کرنسی میں تجارتی سرگرمیوں پر پابندی کے باعث تاجروں میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی ہے کیونکہ افغانستان بھیجی جانے والی مصنوعات کی ڈالر یاکسی اورغیرملکی کرنسی میں فروخت کے نتیجے میں پاکستانی تاجروں کواپنی ارسال کردہ مصنوعات کی 12.5 فیصد کم قیمت حاصل ہوں گی۔
علاوہ ازیں بین الاقوامی اور افغان میڈیا کے مطابق قندھار پولیس چیف جنرل عبدالرازق نے 2ہفتے قبل افغانستان میں پاکستانی روپے میں کاروباری لین دین کوجرم قراردیا تاہم اس جرم کی سزا تجویز نہیں کی۔ جنرل عبدالرازق نے عالمی میڈیا کو بتایا کہ وہ کاروبار کے خلاف نہیں لیکن افغانستان میں کسی دوسرے ملک بالخصوص پاکستانی اور ایرانی کرنسی کے استعمال کے خلاف ہیں۔ عالمی میڈیا کے مطابق قندھار پولیس چیف کی جانب سے عائد کردہ پابندی پر عمل درآمد شروع ہوگیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان تاجر افغانستان کے مشرقی اور جنوبی صوبوں میں پاکستانی روپے اور مغربی صوبوں میں ایرانی کرنسی میں لین دین کو ترجیح دیتے تھے۔ ا
فغان تاجروں نے بتایا کہ پابندی سے قبل افغان کرنسی کی قدر 623 افغانی کے مقابل 1000 پاکستانی روپے تھی لیکن اب افغانی کرنسی کی قدر بڑھ کر1.54457یا 525 افغانی کے مقابل 1000 پاکستانی روپے ہو گئی ہے۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ حکومت کوافغانستان کے اس طرز عمل کا جائزہ لینے اور فوری اقدامات کی ضرورت ہے کیونکہ افغانستان کی موجودہ حکومت سی پیک منصوبے سے خائف بھارت کی ایماپر پاکستان دشمن فیصلے کررہی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ پاکستان سے پلاسٹک مصنوعات سمیت دیگر ان اشیا کی امریکی ڈالر میں برآمدات ہورہی ہیں جن پر متعلقہ برآمدکنندگان کوری بیٹ کی سہولت میسر ہے لیکن وہ مصنوعات جو افغانستان میں براہ راست چین ودیگر ممالک سے درآمدات نہیں ہوسکتیں انہیں افغان تاجر پاکستانی روپے (کلدار) میں درآمد کرتے تھے، یہ وہ مصنوعات ہیں جو بھاری وزن یا حجم کی حامل ہوتی ہیں ان میں سیمنٹ، اسٹیل کی چادریں، سریا، تعمیراتی میٹریل ودیگر مصنوعات شامل ہیں۔ پابندی سے قبل روپے میں کاروبار کرنے والے پاکستانی تاجروں نے بتایا کہ وہ افغان تاجروں کے ساتھ روپے میں تجارت باہمی اتفاق رائے سے کرتے تھے لیکن افغان حکومت کی جانب سے پاکستانی کرنسی میں تجارتی سرگرمیوں پر پابندی کے باعث تاجروں میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی ہے کیونکہ افغانستان بھیجی جانے والی مصنوعات کی ڈالر یاکسی اورغیرملکی کرنسی میں فروخت کے نتیجے میں پاکستانی تاجروں کواپنی ارسال کردہ مصنوعات کی 12.5 فیصد کم قیمت حاصل ہوں گی۔
علاوہ ازیں بین الاقوامی اور افغان میڈیا کے مطابق قندھار پولیس چیف جنرل عبدالرازق نے 2ہفتے قبل افغانستان میں پاکستانی روپے میں کاروباری لین دین کوجرم قراردیا تاہم اس جرم کی سزا تجویز نہیں کی۔ جنرل عبدالرازق نے عالمی میڈیا کو بتایا کہ وہ کاروبار کے خلاف نہیں لیکن افغانستان میں کسی دوسرے ملک بالخصوص پاکستانی اور ایرانی کرنسی کے استعمال کے خلاف ہیں۔ عالمی میڈیا کے مطابق قندھار پولیس چیف کی جانب سے عائد کردہ پابندی پر عمل درآمد شروع ہوگیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان تاجر افغانستان کے مشرقی اور جنوبی صوبوں میں پاکستانی روپے اور مغربی صوبوں میں ایرانی کرنسی میں لین دین کو ترجیح دیتے تھے۔ ا
فغان تاجروں نے بتایا کہ پابندی سے قبل افغان کرنسی کی قدر 623 افغانی کے مقابل 1000 پاکستانی روپے تھی لیکن اب افغانی کرنسی کی قدر بڑھ کر1.54457یا 525 افغانی کے مقابل 1000 پاکستانی روپے ہو گئی ہے۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ حکومت کوافغانستان کے اس طرز عمل کا جائزہ لینے اور فوری اقدامات کی ضرورت ہے کیونکہ افغانستان کی موجودہ حکومت سی پیک منصوبے سے خائف بھارت کی ایماپر پاکستان دشمن فیصلے کررہی ہے۔