مزدورں کے عظیم قائد مرزا محمد ابراہیم
آج ریلوے سمیت بڑے بڑے قومی اداروں کو فروخت کیا جا رہا ہے۔
برصغیر میں ٹریڈ یونین تحریک کے بانی، مزدور، کسان راج کی مسلسل جنگ لڑتے ہوئے بابائے محنت مرزا محمد ابراہیم 11 اگست 1999ء کو پاکستان کے محنت کشوں کو یتیم کر گئے۔ ان 17 برسوں میں حاصل کردہ حقوق محنت کشوں سے چھینے جا رہے ہیں۔
آج ریلوے سمیت بڑے بڑے قومی اداروں کو فروخت کیا جا رہا ہے۔ پاکستان اسٹیل، PIA، گیس کمپنیوں سمیت 69 قومی ادارے ورلڈ بینک اور IMF کے احکامات کے تحت غیر ملکیوں کو بیچے جا رہے ہیں۔ آج مرزا ابراہیم یاد آ رہے ہیں۔ مرزا ابراہیم 1905ء کالا گجراں میں ایک بے زمین کسان مرزا عبداﷲ کے گھر پیدا ہوئے تھے۔ ہندوستان کے وزیراعظم اندرکمال گجرال بھارتی فوج کے جنرل اڑوڑا سنگھ اور ہندوستان کے موجود شاعر اور دانشور گلزار بھی اسی گاؤں کے رہنے والے ہیں۔ مرزا ابراہیم جلسوں میں اکثر کہا کرتے تھے کہ میں اس علاقے کا ہوں جہاں مائیں فوجی جوان پیدا کرتی رہی ہیں۔
وہاں میں ایک باغی پیدا ہوا ہوں ۔مرزا ابراہیم نے برصغیر کے محنت کشوں کومتعدد مراعات دلوائیں جن میں پنشن اور گریجوٹی، حق ہڑتال، مریضوں کا علاج، سالانہ چھٹیوں سمیت محنت کشوں کو سر اٹھا کر جینے کا حق دلوایا مگر آج وہ مراعات ختم کی جا رہی ہیں۔
مرزا ابراہیم کے ایک بھائی اﷲ دتہ چغتائی تھے جو پشاور سے اردو اخبار روشنی نکالا کرتے تھے۔ ان کا ایک بیٹا مرزا حنیف بیگ اور ایک بیٹی جن کا نام قمر ہے ہیڈ مسٹریس ریٹائرڈ ہو گئی ہیں اور بقید حیات ہیں۔ مرزا ابراہیم مدرسہ تعلیم سے آگے نہ پڑھ سکے۔ انھوں نے اپنی ملازمت کا آغاز بطور مالی کیا پھر بھٹہ مزدور بن گئے اور پھر 1926ء میں برج ورکشاپ جہلم میں بطور معاون بھرتی ہوئے۔ جد وجہد کا آغاز خلافت موومنٹ سے کیا۔ جس کی قیادت مولانا محمد علی جوہر اور شوکت علی کر رہے تھے۔ برج ورک شاپ جہلم ہی سے انھوں نے ٹریڈ یونین کی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا۔ چونکہ 1920ء میں ریلوے میں یونین بن چکی تھی اور پھر 1926ء کا ٹریڈ یونین ایکٹ بھی آ چکا تھا۔
یونین کی سرگرمیوں کی وجہ سے ان کا تبادلہ جہلم سے لاہور مغپلورہ کیرج شاپ میں کر دیا گیا اور وہ 1930ء میں لاہور آ گئے، جہاں وہ ساری عمر رہے۔ فروری 1999ء کو وہ اپنے گاؤں کالا گجراں آ گئے۔ اس وقت ریلوے میں دو یونین تھیں نارتھ ویسٹرین ریلوے (NWR) جس میں مرزا ابراہیم نے کام کرنا شروع کر دیا اور وہ اس یونین میں مغلپورہ ورکشاپ کے صدر مقرر ہوئے جس کے مرکزی صدر ایک انگریز جے بی ملر (J.B.Milr) تھے۔ مرزا صاحب بڑھ چڑھ کر یونین کے کاموں میں حصہ لینا شروع کر دیا۔
وہ بہترین مقرر تھے۔ بعد ازاں ان کا رابطہ ایک طالب علم جے گوپال کے ذریعے کمیونسٹ پارٹی سے ہو گیا۔ جے گوپال بھیس بدل کر ریلوے یونین میں کام کرتا تھا اور مرزا ابراہیم کے ساتھ تھا۔ مرزا ابراہیم نے ہمیں بتایا کہ مجھے کمیونسٹ پارٹی والوں نے اسٹڈی سرکل میں خوب پڑھایا۔ سرمایہ کیا ہے، مزدور کیا ہے، ٹریڈ یونین کیوں بناتے ہیں، سامراج کیا ہے، مذہب کیا ہے، محنت کیا ہے، سرمایہ داری، جاگیرداری کیا ہے، سرپلس ویلیوکیا ہے طبقات کیا ہیں، ہم کمیونسٹ پارٹی میں کیوں کام کرتے ہیں اور کس طرح مزدور طبقہ جد وجہد کر کے اقتدار پر قبضہ کر سکتا ہے؟ 1917ء میں روس میں انقلاب آ چکا تھا جس کے اثرات پورے ہندوستان سمیت دنیا بھر میں پھیل رہے تھے۔ پارٹی سے رابطے کے بعد کانگریس سے مل کر ریلوے مین فیڈریشن (Railway Man Federation) کی بنیاد رکھی اور سینئر نائب صدر جب کہ صدر وی وی گری مقرر ہوئے جو بعد میں ہندوستان کے صدر بنے اس دور میں انگریزوں کے خلاف سخت نفرت تھی، دوسری عالمی جنگ کے خاتمے پر حکمرانوں نے فیصلہ کیا کہ ریلوے میں دوران جنگ جو عارضی ملازمین رکھے گئے تھے ان کو فارغ کیا جائے۔
1946ء بغاوتوں کا سال تھا اس دوران پولیس ملازمین نیول فوج اور انبالا میں رائل ایئر فورس نے بھی بغاوت کر دی اور پھر ریلوے میں بھی یکم مئی 1946ء کو ریل کا پہیہ صبح 8 بجے تا 12 بجے جام ہو گیا اور 27 جون 1946 رات 12 بجے سے مکمل ہڑتال ہو گئی۔ مرزا ابراہیم اور ان کے ساتھی گرفتار کر لیے گئے، ملک تقسیم ہونے جا رہا تھا، حکمرانوں نے یونین رہنماؤں سے مذاکرات کیے اور ڈیڑھ لاکھ مزدور بے روزگار ہونے سے بچ گئے اور ان کی تنخواہیں بھی بڑھا دی گئیں۔ مگر پاداش میں مرزا ابراہیم کو تقسیم سے 5 ماہ قبل مارچ 1947ء میں ملازمت سے برطرف کر دیا گیا اس وقت ان کی ملازمت کو 23 برس ہو گئے تھے اور واٹرمین کے عہدے پر تھے، حکومت اور ریلوے نے انھیں کوئی معاوضہ نہیں دیا۔
ملک کی تقسیم کے بعد وہ پارٹی اور فیڈریشن کے کل وقتی کارکن بن گئے۔ انھوں نے 1948ء میں پاکستان میں پہلی مزدور فیڈریشن کی بنیاد رکھی جس کا نام پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن رکھا گیا جس کے بانی صدر بنے جب کہ فیڈریشن میں فیض احمد فیض، سی آر اسلم، ایرک سپرین، سردار شوکت علی، سوبھوگیان چندانی بھی شامل تھے۔ جنرل سیکریٹری ایم اے مالک تھے جو بعد میں مشرقی پاکستان کے گورنر بھی بنے۔ اس طرح یہ ملک کی پہلی مزدور فیڈریشن تھی۔ مرزا ابراہیم نے برصغیر کے کئی ایک بڑے بڑے نامور سیاست دانوں کے ساتھ ملاقاتیں بھی کیں اور کام بھی کیا جن میں موہن داس گاندھی، پنڈت جواہر لال نہرو، قائد اعظم محمد علی جناح، لیاقت علی خان، خان عبدالغفار خان، بی ایم سید، عبدالصمد اچکزئی، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، سوبھاش چندربوس سمیت کئی رہنما شامل تھے جن کے ساتھ جد وجہد کی اور جیل میں بھی رہے۔
ان میں سید سجاد ظہیر، حسن ناصر، دادا امیر حیدر، فیروزالدین منصور، محمود الحق عثمانی، مولانا عبدالحمید بھاشانی، ولی خان، فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، حبیب جالب، سی آر اسلم، انیس ہاشمی، سوبھوگیان چندانی، امام علی نازش، ڈاکٹر اعزاز نذیر، سردار شوکت علی، میجر محمد اسحاق افضل بنگش، غلام نبی کلو، عابد حسین منٹو،کنیز فاطمہ، محمد حسین عطا، احمد الطاف، حیدر بخش جتوئی، کیپٹن ظفر اﷲ پوشنی، چوہدری فتح محمد، طفیل عباس، زین الدین خان لودھی سمیت کئی ایک رہنما شامل تھے۔
تقسیم کے بعد دانیال لطیفی کے گھر پر وزیراعظم لیاقت علی خان سے ملاقات ہوئی۔ اس موقعے پر لیاقت علی خان نے کہا کہ مرزا صاحب! اب پاکستان بن گیا ہے جس کی حمایت کمیونسٹ پارٹی نے بھی کی ہے۔ آپ کمیونسٹ پارٹی چھوڑ کر مسلم لیگ میں شامل ہو جائیں، آپ کو وزارت محنت کا قلم دان دیا جائے گا۔ آپ وزیر محنت بن جائیں۔ انھوں نے اس پیش کش کو ٹھکرا دیا اور کہا کہ آپ کی مسلم لیگ فرقہ پرست جماعت ہے، میں اس میں شامل نہیں ہو سکتا اور یوں پہلی مرتبہ ان کا ٹکراؤ حکومت سے ہو گیا۔ پھر انھیں دسمبر 1947ء میں گرفتار کر لیا گیا اور یوں وہ پاکستان کے پہلے سیاسی قیدی بنے۔ انھیں شاہی قلعہ لاہور میں قید رکھا گیا، رہائی کے بعد سیاسی سرگرمیاں تیز رکھی گئیں۔ انھیں پھر 1949ء میں دوبارہ گرفتار کر لیاگیا پھر 1951ء میں گرفتار ہوئے جہاں سے انھوں نے پنجاب اسمبلی کا الیکشن جیل میں رہتے ہوئے لڑا، وہ پاکستان کمیونسٹ پارٹی اور پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کی جانب سے امیدوار تھے جن کے مقابلے میں مسلم لیگ کے رہنما احمد سعید کرمانی تھے جن کے بیٹے اب بھی نواز شریف کے نمایندے ہیں۔
اس الیکشن میں مرزا ابراہیم کے حامیوں نے انھیں ووٹ کے ساتھ نوٹ بھی دیے جو الیکشن کے موقعے پر ان کے ڈبوں سے برآمد بھی ہوئے، محنت کش عوام میں بڑا جوش و خروش تھا ان کی کامیابی کا بھی اعلان ریڈیو پاکستان نے کیا بعد میں وزیراعظم لیاقت علی خان کی مداخلت پر نتیجہ تبدیل کیا گیا یوں پہلی مرتبہ الیکشن میں دھاندلی اور جھرلو الیکشن ہوا اور ان کے ڈھائی ہزار ووٹ کو مسترد کر دیا گیا اور ہارنے والے امیدوار احمد سعیدکرمانی کو کامیاب قرار دیا گیا۔ اس طرح 1954ء میں کمیونسٹ پارٹی انجمن ترقی پسند مصنفین اور پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن پر پابندی لگا کر ایک مرتبہ پھر مرزا ابراہیم گرفتار ہوئے۔ انھوں نے 6 مرتبہ شاہی قلعہ اور 17مرتبہ جیل کاٹی اور ہر مرتبہ سی کلاس جیل میں رہے۔ اس دوران ان کی ملاقات حسن ناصر سے بھی ہوتی رہی جنھیں ایوب خان کے دور میں تشدد کے ذریعے شہید کر دیا گیا۔ انھوں نے ایوب خان کے دور میں اکتوبر 1967ء میں ملک گیر ہڑتال کرائی۔ گرفتار ہوئے، راقم الحروف بھی گرفتار ہوا۔
ترقی پسند سیاست ٹریڈ یونین روبہ زوال ہے۔ مرزا ابراہیم کو سرخ سلام۔
آج ریلوے سمیت بڑے بڑے قومی اداروں کو فروخت کیا جا رہا ہے۔ پاکستان اسٹیل، PIA، گیس کمپنیوں سمیت 69 قومی ادارے ورلڈ بینک اور IMF کے احکامات کے تحت غیر ملکیوں کو بیچے جا رہے ہیں۔ آج مرزا ابراہیم یاد آ رہے ہیں۔ مرزا ابراہیم 1905ء کالا گجراں میں ایک بے زمین کسان مرزا عبداﷲ کے گھر پیدا ہوئے تھے۔ ہندوستان کے وزیراعظم اندرکمال گجرال بھارتی فوج کے جنرل اڑوڑا سنگھ اور ہندوستان کے موجود شاعر اور دانشور گلزار بھی اسی گاؤں کے رہنے والے ہیں۔ مرزا ابراہیم جلسوں میں اکثر کہا کرتے تھے کہ میں اس علاقے کا ہوں جہاں مائیں فوجی جوان پیدا کرتی رہی ہیں۔
وہاں میں ایک باغی پیدا ہوا ہوں ۔مرزا ابراہیم نے برصغیر کے محنت کشوں کومتعدد مراعات دلوائیں جن میں پنشن اور گریجوٹی، حق ہڑتال، مریضوں کا علاج، سالانہ چھٹیوں سمیت محنت کشوں کو سر اٹھا کر جینے کا حق دلوایا مگر آج وہ مراعات ختم کی جا رہی ہیں۔
مرزا ابراہیم کے ایک بھائی اﷲ دتہ چغتائی تھے جو پشاور سے اردو اخبار روشنی نکالا کرتے تھے۔ ان کا ایک بیٹا مرزا حنیف بیگ اور ایک بیٹی جن کا نام قمر ہے ہیڈ مسٹریس ریٹائرڈ ہو گئی ہیں اور بقید حیات ہیں۔ مرزا ابراہیم مدرسہ تعلیم سے آگے نہ پڑھ سکے۔ انھوں نے اپنی ملازمت کا آغاز بطور مالی کیا پھر بھٹہ مزدور بن گئے اور پھر 1926ء میں برج ورکشاپ جہلم میں بطور معاون بھرتی ہوئے۔ جد وجہد کا آغاز خلافت موومنٹ سے کیا۔ جس کی قیادت مولانا محمد علی جوہر اور شوکت علی کر رہے تھے۔ برج ورک شاپ جہلم ہی سے انھوں نے ٹریڈ یونین کی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا۔ چونکہ 1920ء میں ریلوے میں یونین بن چکی تھی اور پھر 1926ء کا ٹریڈ یونین ایکٹ بھی آ چکا تھا۔
یونین کی سرگرمیوں کی وجہ سے ان کا تبادلہ جہلم سے لاہور مغپلورہ کیرج شاپ میں کر دیا گیا اور وہ 1930ء میں لاہور آ گئے، جہاں وہ ساری عمر رہے۔ فروری 1999ء کو وہ اپنے گاؤں کالا گجراں آ گئے۔ اس وقت ریلوے میں دو یونین تھیں نارتھ ویسٹرین ریلوے (NWR) جس میں مرزا ابراہیم نے کام کرنا شروع کر دیا اور وہ اس یونین میں مغلپورہ ورکشاپ کے صدر مقرر ہوئے جس کے مرکزی صدر ایک انگریز جے بی ملر (J.B.Milr) تھے۔ مرزا صاحب بڑھ چڑھ کر یونین کے کاموں میں حصہ لینا شروع کر دیا۔
وہ بہترین مقرر تھے۔ بعد ازاں ان کا رابطہ ایک طالب علم جے گوپال کے ذریعے کمیونسٹ پارٹی سے ہو گیا۔ جے گوپال بھیس بدل کر ریلوے یونین میں کام کرتا تھا اور مرزا ابراہیم کے ساتھ تھا۔ مرزا ابراہیم نے ہمیں بتایا کہ مجھے کمیونسٹ پارٹی والوں نے اسٹڈی سرکل میں خوب پڑھایا۔ سرمایہ کیا ہے، مزدور کیا ہے، ٹریڈ یونین کیوں بناتے ہیں، سامراج کیا ہے، مذہب کیا ہے، محنت کیا ہے، سرمایہ داری، جاگیرداری کیا ہے، سرپلس ویلیوکیا ہے طبقات کیا ہیں، ہم کمیونسٹ پارٹی میں کیوں کام کرتے ہیں اور کس طرح مزدور طبقہ جد وجہد کر کے اقتدار پر قبضہ کر سکتا ہے؟ 1917ء میں روس میں انقلاب آ چکا تھا جس کے اثرات پورے ہندوستان سمیت دنیا بھر میں پھیل رہے تھے۔ پارٹی سے رابطے کے بعد کانگریس سے مل کر ریلوے مین فیڈریشن (Railway Man Federation) کی بنیاد رکھی اور سینئر نائب صدر جب کہ صدر وی وی گری مقرر ہوئے جو بعد میں ہندوستان کے صدر بنے اس دور میں انگریزوں کے خلاف سخت نفرت تھی، دوسری عالمی جنگ کے خاتمے پر حکمرانوں نے فیصلہ کیا کہ ریلوے میں دوران جنگ جو عارضی ملازمین رکھے گئے تھے ان کو فارغ کیا جائے۔
1946ء بغاوتوں کا سال تھا اس دوران پولیس ملازمین نیول فوج اور انبالا میں رائل ایئر فورس نے بھی بغاوت کر دی اور پھر ریلوے میں بھی یکم مئی 1946ء کو ریل کا پہیہ صبح 8 بجے تا 12 بجے جام ہو گیا اور 27 جون 1946 رات 12 بجے سے مکمل ہڑتال ہو گئی۔ مرزا ابراہیم اور ان کے ساتھی گرفتار کر لیے گئے، ملک تقسیم ہونے جا رہا تھا، حکمرانوں نے یونین رہنماؤں سے مذاکرات کیے اور ڈیڑھ لاکھ مزدور بے روزگار ہونے سے بچ گئے اور ان کی تنخواہیں بھی بڑھا دی گئیں۔ مگر پاداش میں مرزا ابراہیم کو تقسیم سے 5 ماہ قبل مارچ 1947ء میں ملازمت سے برطرف کر دیا گیا اس وقت ان کی ملازمت کو 23 برس ہو گئے تھے اور واٹرمین کے عہدے پر تھے، حکومت اور ریلوے نے انھیں کوئی معاوضہ نہیں دیا۔
ملک کی تقسیم کے بعد وہ پارٹی اور فیڈریشن کے کل وقتی کارکن بن گئے۔ انھوں نے 1948ء میں پاکستان میں پہلی مزدور فیڈریشن کی بنیاد رکھی جس کا نام پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن رکھا گیا جس کے بانی صدر بنے جب کہ فیڈریشن میں فیض احمد فیض، سی آر اسلم، ایرک سپرین، سردار شوکت علی، سوبھوگیان چندانی بھی شامل تھے۔ جنرل سیکریٹری ایم اے مالک تھے جو بعد میں مشرقی پاکستان کے گورنر بھی بنے۔ اس طرح یہ ملک کی پہلی مزدور فیڈریشن تھی۔ مرزا ابراہیم نے برصغیر کے کئی ایک بڑے بڑے نامور سیاست دانوں کے ساتھ ملاقاتیں بھی کیں اور کام بھی کیا جن میں موہن داس گاندھی، پنڈت جواہر لال نہرو، قائد اعظم محمد علی جناح، لیاقت علی خان، خان عبدالغفار خان، بی ایم سید، عبدالصمد اچکزئی، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، سوبھاش چندربوس سمیت کئی رہنما شامل تھے جن کے ساتھ جد وجہد کی اور جیل میں بھی رہے۔
ان میں سید سجاد ظہیر، حسن ناصر، دادا امیر حیدر، فیروزالدین منصور، محمود الحق عثمانی، مولانا عبدالحمید بھاشانی، ولی خان، فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، حبیب جالب، سی آر اسلم، انیس ہاشمی، سوبھوگیان چندانی، امام علی نازش، ڈاکٹر اعزاز نذیر، سردار شوکت علی، میجر محمد اسحاق افضل بنگش، غلام نبی کلو، عابد حسین منٹو،کنیز فاطمہ، محمد حسین عطا، احمد الطاف، حیدر بخش جتوئی، کیپٹن ظفر اﷲ پوشنی، چوہدری فتح محمد، طفیل عباس، زین الدین خان لودھی سمیت کئی ایک رہنما شامل تھے۔
تقسیم کے بعد دانیال لطیفی کے گھر پر وزیراعظم لیاقت علی خان سے ملاقات ہوئی۔ اس موقعے پر لیاقت علی خان نے کہا کہ مرزا صاحب! اب پاکستان بن گیا ہے جس کی حمایت کمیونسٹ پارٹی نے بھی کی ہے۔ آپ کمیونسٹ پارٹی چھوڑ کر مسلم لیگ میں شامل ہو جائیں، آپ کو وزارت محنت کا قلم دان دیا جائے گا۔ آپ وزیر محنت بن جائیں۔ انھوں نے اس پیش کش کو ٹھکرا دیا اور کہا کہ آپ کی مسلم لیگ فرقہ پرست جماعت ہے، میں اس میں شامل نہیں ہو سکتا اور یوں پہلی مرتبہ ان کا ٹکراؤ حکومت سے ہو گیا۔ پھر انھیں دسمبر 1947ء میں گرفتار کر لیا گیا اور یوں وہ پاکستان کے پہلے سیاسی قیدی بنے۔ انھیں شاہی قلعہ لاہور میں قید رکھا گیا، رہائی کے بعد سیاسی سرگرمیاں تیز رکھی گئیں۔ انھیں پھر 1949ء میں دوبارہ گرفتار کر لیاگیا پھر 1951ء میں گرفتار ہوئے جہاں سے انھوں نے پنجاب اسمبلی کا الیکشن جیل میں رہتے ہوئے لڑا، وہ پاکستان کمیونسٹ پارٹی اور پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کی جانب سے امیدوار تھے جن کے مقابلے میں مسلم لیگ کے رہنما احمد سعید کرمانی تھے جن کے بیٹے اب بھی نواز شریف کے نمایندے ہیں۔
اس الیکشن میں مرزا ابراہیم کے حامیوں نے انھیں ووٹ کے ساتھ نوٹ بھی دیے جو الیکشن کے موقعے پر ان کے ڈبوں سے برآمد بھی ہوئے، محنت کش عوام میں بڑا جوش و خروش تھا ان کی کامیابی کا بھی اعلان ریڈیو پاکستان نے کیا بعد میں وزیراعظم لیاقت علی خان کی مداخلت پر نتیجہ تبدیل کیا گیا یوں پہلی مرتبہ الیکشن میں دھاندلی اور جھرلو الیکشن ہوا اور ان کے ڈھائی ہزار ووٹ کو مسترد کر دیا گیا اور ہارنے والے امیدوار احمد سعیدکرمانی کو کامیاب قرار دیا گیا۔ اس طرح 1954ء میں کمیونسٹ پارٹی انجمن ترقی پسند مصنفین اور پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن پر پابندی لگا کر ایک مرتبہ پھر مرزا ابراہیم گرفتار ہوئے۔ انھوں نے 6 مرتبہ شاہی قلعہ اور 17مرتبہ جیل کاٹی اور ہر مرتبہ سی کلاس جیل میں رہے۔ اس دوران ان کی ملاقات حسن ناصر سے بھی ہوتی رہی جنھیں ایوب خان کے دور میں تشدد کے ذریعے شہید کر دیا گیا۔ انھوں نے ایوب خان کے دور میں اکتوبر 1967ء میں ملک گیر ہڑتال کرائی۔ گرفتار ہوئے، راقم الحروف بھی گرفتار ہوا۔
ترقی پسند سیاست ٹریڈ یونین روبہ زوال ہے۔ مرزا ابراہیم کو سرخ سلام۔