چہرے نہیں نظام کو بدلو
ملک کے مختلف سیاسی حلقوں کی جانب سے گزشتہ کئی برسوں سے تبدیلی کے نعرے بلند ہورہے ہیں،
ISLAMABAD:
ملک کے مختلف سیاسی حلقوں کی جانب سے گزشتہ کئی برسوں سے تبدیلی کے نعرے بلند ہورہے ہیں، دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کے عوام سیاست دانوں اور سیاسی اداروں سے مایوس ہیں ۔ ملک کی بڑی اکثریت ریاستی معاملات سے لاتعلق دکھائی دیتی ہے، اس کا اندازہ الیکشن میں ڈالے گئے ووٹ کے تناسب سے لگایا جاسکتا ہے، سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام نے اپنے مسائل کے حل کے لیے صوبہ پرستی کی سیاست سے لے کر وفاقی سیاست، مذہبی سیاست سے لے کر سیکولر سیاست، پارلیمانی نظام سے لے کر صدارتی نظام تمام ہی حربے آزما لیے لیکن عوام کے مسائل حل نہیں ہوئے۔
اس ملک میں طاقتور آمروں کی حکومت بھی رہی ہے اور تیسری دنیا کے ذہین ترین سیاستدان کی بھی۔اس ملک پر روایت پسندوں کا غلبہ بھی رہا ہے اور روشن خیالوں کا بھی۔ اس ملک میں ایسے حکمراں بھی رہے ہیں جنھیں تمام برائیوں کی جڑ قرار دیا گیا ہے اور ایسے حکمراں بھی آئے ہیں جنھیں مرد مومن اور مرد حق کے خطبات سے نوازا گیا، لیکن کوئی بھی عوام کے مسائل کو حل نہیں کرسکا اوران کی تقدیر بدل نہ سکا۔
ملک میں آج بھی معاشی عدم مساوات، طبقاتی نظام تعلیم، طبی سہولتوں کا فقدان، انصاف کے حصول میں مشکلات، وی آئی پی کلچر، بنیادی حقوق سے محرومی جیسے مسائل موجود ہیں۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے اس کی وجہ ایک ہی ہے وہ ہے نظام کی خرابی۔ پوری ریاستی مشینری پر مفاد پرست عناصرکی گرفت ہے۔ اس نظام میں فرد کچھ نہیں سارا کام ریاستی مشینری کرتی ہے۔
جو نظام کے تابع ہے جب نظام ہی غلط ہوگا تو نتیجہ بھی غلط ہوگا۔ نظام میں جزوی اصلاح سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ پورے نظام کو تبدیل کرنا ہوگا۔ الیکشن کے ذریعے چہرے تبدیل ہوں گے۔ جب بھی الیکشن ہوں گے اس میں مفاد پرست، مراعات یافتہ طبقہ ہی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگا ۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی جماعتوں کی دعوے دار جماعتیں خود ان جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی شمولیت کے بغیر نامکمل ہیں۔ متوسط طبقے کے کچھ لوگ بھی یقینا الیکشن میں کامیاب ہوتے ہیں وہ عموماً لسانی، فرقہ واریت اور برادری ازم کی بنیاد پر کامیاب ہوتے ہیں کیونکہ ان عناصر کی سوچ محدود ہوتی ہے ان کا کوئی سیاسی وژن نہیں ہوتا ، ان کی حیثیت اکثریت میں اقلیتی گروہ کی ہوتی ہے۔ اس لیے ملکی نظام میں کوئی موثر تبدیلی لانے سے قاصر ہوتے ہیں اور نتیجتاً خود اس نظام کا حصہ بن جاتے ہیں ایسے حالات میں بعض عناصر کی جانب سے الیکشن کی سیاست سے مایوسی کا اظہار کیا جاتا ہے اور مسائل کے حل کے لیے انقلاب کا نعرہ بلند کیا جاتا ہے اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ملک میں نظام کی تبدیلی کے حوالے سے انقلاب ناگزیر ہے۔
موجودہ حالات میں انقلاب ہی نظام کی تبدیلی کا واحد راستہ ہے۔ اور دنیا میں یہ تبدیلی کا ایک اہم ذریعہ بھی رہا ہے۔ لیکن ان عناصر کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اس طریقہ کارکی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اس نظام میں پرامن انتقال اقتدار کا طریقہ کار واضح نہیں ہوتا، اس سے معاشرے میں بغاوت، انتشار، خون خرابہ، مسلح تصادم کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے جس سے ریاست اور معاشرہ دونوں ہی سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوتے ہیں۔ دنیا میں جہاں جہاں اس طریقہ کار کو اپنایا گیا وہاں خون خرابہ کی صورتحال ہی رہی ہے، تاریخ میں اس کے بہت کم مثبت نتائج دیکھنے میں آئے ہیں۔
اس لیے دنیا میں طاقت کے ذریعے تبدیلی کے عمل کو غیر آئینی قرار دیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں ایک بات پرامن انقلاب کی بھی کی جاتی ہے ان سادہ لوح عناصر کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ نظام کی تبدیلی کی صورت میں جن عناصر پر ضرب پڑتی ہے ان کی جانب سے جب ردعمل آتا ہے تو اس میں لازمی طور پر تشدد شامل ہوتا ہے تشدد کی یہ لہر پرامن جدوجہد کو پرتشدد بنادیتی ہے۔
بعض عناصر مسائل کے حل کے لیے مارشل لا کو دعوت دیتے نظر آتے ہیں یہ عناصر انگریزی کا یہ مقولہ بھول جاتے ہیں کہ ''مارشل لا'' شیرکی سواری ہے جو ہوتی تو بڑی شاندار ہے لیکن سوار کو یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ اگر اترا توکیا حالات ہوں گے اور اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ مارشل لا کے ذریعے اقتدار میں آنے والے قومی مفادات کے بجائے اپنے ذاتی مفاد یعنی اپنے اقتدار کو تحفظ دینے کی فکر میں مبتلا رہتے ہیں اور ایسے اقدامات کرتے ہیں جس سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔
وہ سیاسی گدھ جو مارشل لا کو دعوت دیتے ہیں انھیں آمر اور عوامی رہنما کے فرق کو سمجھنا چاہیے آمر کتنے ہی عرصے حکومت کر لے اس کے پیر جب اکھڑتے ہیں تو اس کی سب نشانیاں مٹ جاتی ہیں اس کے ساتھی تو دور کی بات ہے اس کے ورثا بھی اس کی نسبت کا حوالہ نہیں دیتے اس کی یادیں رات کے اندھیرے میں کیے گئے گناہ لگتے ہیں۔ عوامی رہنما کی یادوں کو تازہ کیا جاتا ہے تو اس کی نسبت قابل فخر بن جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مہذب ملکوں میں مارشل لا کو نفرت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور اسے قومی خودکشی کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ملک میں جاری سیاسی نظام کی اصلاح کے لیے کیا کیا جانا چاہیے۔اس کا بہتر جواب تو سیاست سے وابستہ افراد اور سیاست کے طالب علم ہی بہتر دے سکتے ہیں میری ناقص رائے میں سیاسی نظام کی اصلاح کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی عمل بالخصوص جمہوری سیاسی عمل جاری رہنا چاہیے۔ جو لوگ جمہوریت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں وہ سیاسی بصیرت سے محروم ہوتے ہیں انھیں یہ بات سمجھنی چاہیے جب ہم روٹی کا نوالہ کھاتے ہیں اگر اس نوالے کو چبا کر منہ سے باہر نکال دیا جائے تو کوئی بھی اس نوالے کو دیکھنا پسند نہیں کرے گا۔
لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ یہی نوالہ اپنا غذائی پروسس مکمل کرلیتا ہے تو وہ خون کی شکل اختیارکرلیتا ہے اور اس خون کے بغیر انسانی زندگی کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ جمہوریت کی مثال بھی ایسے ہی ہے اسے چلتے رہنا چاہیے۔ یہ عمل جاری رہے تو اس کے ثمرات ہمارے سامنے آئیں گے جس طرح دنیا کے دوسرے جمہوری ملکوں میں سامنے آئے ہیں ہمارے یہاں یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب جمہوریت کو اس کی روح کے ساتھ نافذ کیا جائے۔جمہوری عمل اسی صورت میں ہی جاری اور مضبوط ہوتا ہے جب سیاسی جماعتیں ٹکراؤ اور تصادم کی پالیسی سے گریزکرتی ہیں اگر سیاسی جماعتیں اس کے برعکس طرز عمل اختیار کرتی ہیں تو غیرسیاسی عناصرکو سیاسی نظام میں مداخلت کا موقع ملتا ہے اس سے سیاسی اور جمہوری عمل کو ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے۔
کسی بھی ملک میں سیاسی جماعتوں کے درمیان مقابلے کی فضا قائم رہنی چاہیے یہ جمہوریت کی ترقی کے لیے بھی ضروری ہے اور عوامی مفادات کے بھی عین مطابق ہے جب سیاسی جماعتوں میں مقابلے کی فضا ہوتی ہے تو وہ اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر بناتی ہیں اور عوام کو اتحاد میں لینے کی کوشش کرتی ہیں اور ان کی ترجیحات میں تمام باتیں شامل ہوتی ہیں۔ جو ملک کی ترقی اور خوشحالی کی ضامن ہوتی ہیں۔
مقابلے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر نکتہ چینی کرنے پر اپنی پوری صلاحیت اور طاقت ضایع کریں اس تصادم کے نتیجے میں نظام میں پائی جانے والی خرابیوں کو ٹھیک کرنے کا رویہ ختم ہوجاتا ہے۔ جس سے قومی مفادات کو نقصان ہوتا ہے۔ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ کسی شخص کو اقتدار سے الگ کرکے دوسرے کو اقتدار میں لانے سے عوامی مسائل حل نہیں ہوں گے اس لیے ہمیں اپنے سیاسی نظام میں جو خرابیاں ہیں اس کی اصلاح کے لیے سیاسی جدوجہد کرنی ہوگی۔ محض چہروں کی تبدیلی سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
ملک کے مختلف سیاسی حلقوں کی جانب سے گزشتہ کئی برسوں سے تبدیلی کے نعرے بلند ہورہے ہیں، دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کے عوام سیاست دانوں اور سیاسی اداروں سے مایوس ہیں ۔ ملک کی بڑی اکثریت ریاستی معاملات سے لاتعلق دکھائی دیتی ہے، اس کا اندازہ الیکشن میں ڈالے گئے ووٹ کے تناسب سے لگایا جاسکتا ہے، سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام نے اپنے مسائل کے حل کے لیے صوبہ پرستی کی سیاست سے لے کر وفاقی سیاست، مذہبی سیاست سے لے کر سیکولر سیاست، پارلیمانی نظام سے لے کر صدارتی نظام تمام ہی حربے آزما لیے لیکن عوام کے مسائل حل نہیں ہوئے۔
اس ملک میں طاقتور آمروں کی حکومت بھی رہی ہے اور تیسری دنیا کے ذہین ترین سیاستدان کی بھی۔اس ملک پر روایت پسندوں کا غلبہ بھی رہا ہے اور روشن خیالوں کا بھی۔ اس ملک میں ایسے حکمراں بھی رہے ہیں جنھیں تمام برائیوں کی جڑ قرار دیا گیا ہے اور ایسے حکمراں بھی آئے ہیں جنھیں مرد مومن اور مرد حق کے خطبات سے نوازا گیا، لیکن کوئی بھی عوام کے مسائل کو حل نہیں کرسکا اوران کی تقدیر بدل نہ سکا۔
ملک میں آج بھی معاشی عدم مساوات، طبقاتی نظام تعلیم، طبی سہولتوں کا فقدان، انصاف کے حصول میں مشکلات، وی آئی پی کلچر، بنیادی حقوق سے محرومی جیسے مسائل موجود ہیں۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے اس کی وجہ ایک ہی ہے وہ ہے نظام کی خرابی۔ پوری ریاستی مشینری پر مفاد پرست عناصرکی گرفت ہے۔ اس نظام میں فرد کچھ نہیں سارا کام ریاستی مشینری کرتی ہے۔
جو نظام کے تابع ہے جب نظام ہی غلط ہوگا تو نتیجہ بھی غلط ہوگا۔ نظام میں جزوی اصلاح سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ پورے نظام کو تبدیل کرنا ہوگا۔ الیکشن کے ذریعے چہرے تبدیل ہوں گے۔ جب بھی الیکشن ہوں گے اس میں مفاد پرست، مراعات یافتہ طبقہ ہی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگا ۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی جماعتوں کی دعوے دار جماعتیں خود ان جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی شمولیت کے بغیر نامکمل ہیں۔ متوسط طبقے کے کچھ لوگ بھی یقینا الیکشن میں کامیاب ہوتے ہیں وہ عموماً لسانی، فرقہ واریت اور برادری ازم کی بنیاد پر کامیاب ہوتے ہیں کیونکہ ان عناصر کی سوچ محدود ہوتی ہے ان کا کوئی سیاسی وژن نہیں ہوتا ، ان کی حیثیت اکثریت میں اقلیتی گروہ کی ہوتی ہے۔ اس لیے ملکی نظام میں کوئی موثر تبدیلی لانے سے قاصر ہوتے ہیں اور نتیجتاً خود اس نظام کا حصہ بن جاتے ہیں ایسے حالات میں بعض عناصر کی جانب سے الیکشن کی سیاست سے مایوسی کا اظہار کیا جاتا ہے اور مسائل کے حل کے لیے انقلاب کا نعرہ بلند کیا جاتا ہے اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ملک میں نظام کی تبدیلی کے حوالے سے انقلاب ناگزیر ہے۔
موجودہ حالات میں انقلاب ہی نظام کی تبدیلی کا واحد راستہ ہے۔ اور دنیا میں یہ تبدیلی کا ایک اہم ذریعہ بھی رہا ہے۔ لیکن ان عناصر کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اس طریقہ کارکی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اس نظام میں پرامن انتقال اقتدار کا طریقہ کار واضح نہیں ہوتا، اس سے معاشرے میں بغاوت، انتشار، خون خرابہ، مسلح تصادم کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے جس سے ریاست اور معاشرہ دونوں ہی سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوتے ہیں۔ دنیا میں جہاں جہاں اس طریقہ کار کو اپنایا گیا وہاں خون خرابہ کی صورتحال ہی رہی ہے، تاریخ میں اس کے بہت کم مثبت نتائج دیکھنے میں آئے ہیں۔
اس لیے دنیا میں طاقت کے ذریعے تبدیلی کے عمل کو غیر آئینی قرار دیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں ایک بات پرامن انقلاب کی بھی کی جاتی ہے ان سادہ لوح عناصر کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ نظام کی تبدیلی کی صورت میں جن عناصر پر ضرب پڑتی ہے ان کی جانب سے جب ردعمل آتا ہے تو اس میں لازمی طور پر تشدد شامل ہوتا ہے تشدد کی یہ لہر پرامن جدوجہد کو پرتشدد بنادیتی ہے۔
بعض عناصر مسائل کے حل کے لیے مارشل لا کو دعوت دیتے نظر آتے ہیں یہ عناصر انگریزی کا یہ مقولہ بھول جاتے ہیں کہ ''مارشل لا'' شیرکی سواری ہے جو ہوتی تو بڑی شاندار ہے لیکن سوار کو یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ اگر اترا توکیا حالات ہوں گے اور اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ مارشل لا کے ذریعے اقتدار میں آنے والے قومی مفادات کے بجائے اپنے ذاتی مفاد یعنی اپنے اقتدار کو تحفظ دینے کی فکر میں مبتلا رہتے ہیں اور ایسے اقدامات کرتے ہیں جس سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔
وہ سیاسی گدھ جو مارشل لا کو دعوت دیتے ہیں انھیں آمر اور عوامی رہنما کے فرق کو سمجھنا چاہیے آمر کتنے ہی عرصے حکومت کر لے اس کے پیر جب اکھڑتے ہیں تو اس کی سب نشانیاں مٹ جاتی ہیں اس کے ساتھی تو دور کی بات ہے اس کے ورثا بھی اس کی نسبت کا حوالہ نہیں دیتے اس کی یادیں رات کے اندھیرے میں کیے گئے گناہ لگتے ہیں۔ عوامی رہنما کی یادوں کو تازہ کیا جاتا ہے تو اس کی نسبت قابل فخر بن جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مہذب ملکوں میں مارشل لا کو نفرت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور اسے قومی خودکشی کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ملک میں جاری سیاسی نظام کی اصلاح کے لیے کیا کیا جانا چاہیے۔اس کا بہتر جواب تو سیاست سے وابستہ افراد اور سیاست کے طالب علم ہی بہتر دے سکتے ہیں میری ناقص رائے میں سیاسی نظام کی اصلاح کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی عمل بالخصوص جمہوری سیاسی عمل جاری رہنا چاہیے۔ جو لوگ جمہوریت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں وہ سیاسی بصیرت سے محروم ہوتے ہیں انھیں یہ بات سمجھنی چاہیے جب ہم روٹی کا نوالہ کھاتے ہیں اگر اس نوالے کو چبا کر منہ سے باہر نکال دیا جائے تو کوئی بھی اس نوالے کو دیکھنا پسند نہیں کرے گا۔
لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ یہی نوالہ اپنا غذائی پروسس مکمل کرلیتا ہے تو وہ خون کی شکل اختیارکرلیتا ہے اور اس خون کے بغیر انسانی زندگی کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ جمہوریت کی مثال بھی ایسے ہی ہے اسے چلتے رہنا چاہیے۔ یہ عمل جاری رہے تو اس کے ثمرات ہمارے سامنے آئیں گے جس طرح دنیا کے دوسرے جمہوری ملکوں میں سامنے آئے ہیں ہمارے یہاں یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب جمہوریت کو اس کی روح کے ساتھ نافذ کیا جائے۔جمہوری عمل اسی صورت میں ہی جاری اور مضبوط ہوتا ہے جب سیاسی جماعتیں ٹکراؤ اور تصادم کی پالیسی سے گریزکرتی ہیں اگر سیاسی جماعتیں اس کے برعکس طرز عمل اختیار کرتی ہیں تو غیرسیاسی عناصرکو سیاسی نظام میں مداخلت کا موقع ملتا ہے اس سے سیاسی اور جمہوری عمل کو ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے۔
کسی بھی ملک میں سیاسی جماعتوں کے درمیان مقابلے کی فضا قائم رہنی چاہیے یہ جمہوریت کی ترقی کے لیے بھی ضروری ہے اور عوامی مفادات کے بھی عین مطابق ہے جب سیاسی جماعتوں میں مقابلے کی فضا ہوتی ہے تو وہ اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر بناتی ہیں اور عوام کو اتحاد میں لینے کی کوشش کرتی ہیں اور ان کی ترجیحات میں تمام باتیں شامل ہوتی ہیں۔ جو ملک کی ترقی اور خوشحالی کی ضامن ہوتی ہیں۔
مقابلے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر نکتہ چینی کرنے پر اپنی پوری صلاحیت اور طاقت ضایع کریں اس تصادم کے نتیجے میں نظام میں پائی جانے والی خرابیوں کو ٹھیک کرنے کا رویہ ختم ہوجاتا ہے۔ جس سے قومی مفادات کو نقصان ہوتا ہے۔ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ کسی شخص کو اقتدار سے الگ کرکے دوسرے کو اقتدار میں لانے سے عوامی مسائل حل نہیں ہوں گے اس لیے ہمیں اپنے سیاسی نظام میں جو خرابیاں ہیں اس کی اصلاح کے لیے سیاسی جدوجہد کرنی ہوگی۔ محض چہروں کی تبدیلی سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔