کشمیر بنے گا پاکستان
جنگل کا قانون تو یہی ہے کہ ’’ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات‘‘ جنگل کی زندگی میں یہ اصول عام ہے
جنگل کا قانون تو یہی ہے کہ ''ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات'' جنگل کی زندگی میں یہ اصول عام ہے لیکن انسان کو چونکہ معاشرتی حیوان بھی کہا جاتا ہے لہٰذا تہذیب و تمدن کے تمام تر مراحل طے کرنے کے باوجود انسانی معاشرے اور شہری زندگی میں بھی ہمیں یہ حس حیوانیت بدرجہ اتم اکثر نظر آتی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھی 70 برس سے ایسے ہی کسی جنگل کے قانون کا راج ہے اور معصوم، بے گناہ اور نہتے کشمیری مسلسل بھارت کی حیوانیت کا شکار ہیں اور تہذیب و تمدن و انسانی حقوق کی نام نہاد علمبردار برادری نے بھارت کی اس مسلسل بربریت اور جارحیت پر اپنی آنکھیں بند کرکے مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔
بدترین مظالم اورانسانی حقوق کی خوفناک اور دل دہلا دینے والی خلاف ورزیوں اور سنگین پامالیوں پر عالمی ضمیر کبھی نہیں جاگا اور ٹھوس اقدام اٹھانے کی بجائے ہمیشہ زبانی جمع خرچ ہی نظر آیا، آپ مقبوضہ کشمیر کی حالیہ صورتحال پر امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے ہی رسمی اظہار تشویش کو ہی لے لیجیے، موصوف نے اپنے ایک حالیہ بیان میں بھارت کو پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا مشورہ دیا ہے اور کشمیری شہریوں کی شہادت پر بھارتی حکومت سے نوٹس لینے اور فوجی مظالم رکوانے کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکی حکومت کی جانب سے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی یہ ایک مضحکہ خیز بیان ہے کیونکہ کشمیرکی آزادی اورکشمیریوں کے حقوق کی بحالی کے ضمن میں امریکا کا منافقانہ رویہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔
دنیا پر واضح ہونا چاہیے کہ مسئلہ کشمیرکا حل تقسیم برصغیر کے نامکمل ایجنڈے کی تکمیل ہے، یہ دوطرفہ مذاکرات کا موضوع ہی نہیں بلکہ اقوام متحدہ اپنی قرارداد نمبر 47 مجریہ 1948 کے تحت کشمیر میں رائے شماری کی پابند ہے لیکن بھارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جموں و کشمیر میں رائے شماری سے متعلق قراردادوں کے نفاذ اور اس سلسلے میں کیے گئے وعدوں سے مکر کر مسلسل فرار حاصل کرتا رہا ہے اورکشمیریوں کی جانب سے اس ضمن میں اٹھائے جانے والے اقدامات اور جدوجہد آزادی کی تحریک کو دہشت گردی کا نام دے کر عالمی برادری کی توجہ خود اپنے ناجائز اور سفاکانہ مظالم اور ریاستی دہشت گردی سے ہٹانے کی مذموم اور ناکام کوشش کرتا رہا ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کشمیریوں کی ترجمانی کرتے ہوئے بالکل درست کہا کہ ''جدوجہد آزادی اور دہشت گردی میں فرق ہے، تحریک آزادی کو کچلا نہیں جاسکتا'' اسی طرح وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کا یہ موقف بھی بالکل درست ہے کہ ''پرامن ہمسائیگی کے بغیر امن ممکن نہیں'' وزیر اعظم نے پاکستانی سفیروں پر زور دیا کہ وہ دنیا کو یہ بات باورکرائیں کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کا داخلی معاملہ نہیں، مسئلہ کشمیر ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون ہے۔ مسئلے کا اقوام متحدہ کی قراردادوں اور اہل کشمیرکی خواہشات کے مطابق حل چاہتے ہیں۔
وزیراعظم نے مزید واضح کیا کہ ''مقبوضہ کشمیر کو نئی دہلی نے بھی متنازع مانا ہے اور اقوام متحدہ نے اسے پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازع قرار دیا ہے جس میں کشمیری عوام بنیادی فریق ہیں، کشمیر انسانی حقوق کی پامالی کا مقدمہ بھی ہے، آج دنیا میں انسانی حقوق کو کسی ملک کا داخلی مسئلہ نہیں سمجھا جاتا بلکہ یہ عالمی مسئلہ ہے، وزیر اعظم نے کہا کہ آج کشمیر میں آزادی کی نئی لہر ہے، بھارت سے آزادی کی تمنا کشمیریوں کی تیسری نسل کے لہو میں جس شدت سے دوڑ رہی ہے اس کا مظاہرہ دنیا 8 جولائی کے بعد سے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے، کشمیریوں کی نوجوان نسل آزادی کی تڑپ میں قربانیوں کی لازوال داستانیں رقم کر رہی ہے، ان کی آنکھیں گولیوں سے چھلنی ہیں لیکن آزادی کی روشنی ان کی رہنمائی کر رہی ہے۔''
برہان مظفر وانی اور اس کے ساتھیوں کی شہادت کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر میں پیدا شدہ صورتحال کے تناظر میں ابھی تک 65 کشمیری بھارت کے ہاتھوں شہید کیے جاچکے ہیں جب کہ بینائی سے محروم ہونے والوں کی تعداد سیکڑوں میں پہنچ چکی ہے، 8 جولائی سے مقبوضہ کشمیر کے بیشتر شہروں میں کرفیو جاری ہے اور شہدا کے جنازوں میں شریک افراد پر بھی مہلک ہتھیاروں سے براہ راست فائرنگ کی گئی ہے، مقبوضہ خطے میں انسانی حقوق کی پامالی اور کرفیو سے پیدا شدہ غذائی اجناس کی قلت اور جان بچانے والی ادویات کی عدم دستیابی UNO اور OIC کی خصوصی توجہ کی طالب ہے۔
مقبوضہ کشمیر کی اس سنگین اور انتہائی تشویشناک صورتحال میں جب بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ جب سارک کانفرنس میں شرکت کے لیے پاکستان آئے تو چوہدری نثار نے بجا طور پر انھیں آڑے ہاتھوں لیا، چوہدری نثار کے دو ٹوک جواب پر راج ناتھ کانفرنس ادھوری چھوڑ کر چلتے بنے۔ گویا آئینہ ان کو دکھایا تو برا مان گئے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہمارے ارباب اختیار کو راج ناتھ سنگھ جیسے کشمیریوں کے قاتل کو کشمیر میں برپا قیامت صغریٰ اور انتہائی قابل اعتراض صورتحال کے تناظر میں پاکستان آنے سے روک دینا چاہیے تھا، جب بھارت پاکستانی مشیر خارجہ سرتاج عزیز کو پہلے سے طے شدہ دورے کے باوجود بھارت آنے سے روک سکتا ہے تو بھلا ہم میں ایک بدترین قاتل کو روکنے کی جرأت کیوں نہ تھی؟
چوہدری نثار کا یہ کہنا کہ دنیا ہم سے جس زبان میں بات کرے گی ہم بھی ان سے اسی زبان میں بات کریں گے، بالکل درست تاہم دیر آید درست آید کی مانند ہے، ہمیں بھارت کی زبان کا ادراک ہونا چاہیے، ہر بار نیا تجربہ درست نہیں، حدیث شریف کے مطابق مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا، پاکستان کی امن پسندی اپنی جگہ درست لیکن ملکی و قومی غیرت و حمیت بھی آخر کوئی چیز ہوتی ہے، جس قوم میں غیرت نہیں اس کا کوئی مستقبل نہیں، ہمیں واضح طور پر اپنی کشمیر پالیسی کا اعلان کرنا چاہیے اور مصلحت، تضاد یا منافقت پر مبنی رویوں کو قطعی ترک کردینا چاہیے، اکثر دیکھا گیا کہ ہمارے سیاسی رہنما انتخابی مہمات کے دوران بڑے زوروشور سے کشمیر کی آزادی اور کشمیریوں کے حقوق کے نعرے لگاتے ہیں لیکن برسر اقتدار آنے کے بعد سب بھول کر نہ صرف بھارت سے دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہیں بلکہ بالکل ہی جھک جاتے ہیں، تعلقات برابری کی بنیاد پر قائم ہونے چاہئیں جھک کر اور دب کر نہیں، کشمیر کی جدوجہد آزادی کے ضمن میں پاکستان کا کردار ہمیشہ یکساں نہیں رہا، ہم کبھی دوڑنے لگتے ہیں تو کبھی بالکل ٹھہر جاتے ہیں۔
90 کے عشرے میں ہم اس مسئلے کے حل کے خاصے قریب جا پہنچے تھے لیکن مشرف دور میں ہم نے اپنی کشمیر پالیسی سے بالکل یوٹرن لے لیا، اس سے کشمیر کاز کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا اور یہ کشمیری شہدا کے ساتھ بھی سنگین مذاق تھا، قومی پالیسیاں حکومتوں کے تبدیل ہونے سے بدلنی نہیں چاہئیں ان پر کسی بھی قیمت پر کبھی مصلحت کا شکار نہیں ہونا چاہیے اور نا ہی ترک کرنا چاہیے۔
انھیں وسیع تر ملکی و قومی مفاد میں جاری رہنا چاہیے، حالیہ انتخاب میں آزاد کشمیر سے مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کشمیریوں کے اعتماد کا اظہار ہے، اب وزیر اعظم کو بھی ان کی امیدوں پر پورا اترنا چاہیے اور آزادی کشمیر کے ضمن میں ٹھوس اور واضح اقدامات اٹھانے چاہئیں، کشمیر پاکستان کا قومی ایشو ہے اور پوری قوم اس اہم اور حساس مسئلے پر متفق ہے، کشمیر کی جنگ بلاشبہ قومی یا علاقائی مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک نظریاتی جنگ ہے، جسے ہمیں خون کے آخری قطرے تک لڑنا ہوگا، کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، ''کشمیر بنے گا پاکستان'' محض ایک نعرہ نہیں بلکہ یہ کشمیریوں کے دل کی آواز ہے ۔بھارت کو یہ جان لینا چاہیے کہ آزادی کشمیریوں کا بنیادی حق ہے اور دنیا کی کوئی طاقت ان سے یہ حق نہیں چھین سکتی، آزادی کشمیری عوام کو ہر صورت مل کر رہے گی انشا اللہ!
بدترین مظالم اورانسانی حقوق کی خوفناک اور دل دہلا دینے والی خلاف ورزیوں اور سنگین پامالیوں پر عالمی ضمیر کبھی نہیں جاگا اور ٹھوس اقدام اٹھانے کی بجائے ہمیشہ زبانی جمع خرچ ہی نظر آیا، آپ مقبوضہ کشمیر کی حالیہ صورتحال پر امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے ہی رسمی اظہار تشویش کو ہی لے لیجیے، موصوف نے اپنے ایک حالیہ بیان میں بھارت کو پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا مشورہ دیا ہے اور کشمیری شہریوں کی شہادت پر بھارتی حکومت سے نوٹس لینے اور فوجی مظالم رکوانے کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکی حکومت کی جانب سے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی یہ ایک مضحکہ خیز بیان ہے کیونکہ کشمیرکی آزادی اورکشمیریوں کے حقوق کی بحالی کے ضمن میں امریکا کا منافقانہ رویہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔
دنیا پر واضح ہونا چاہیے کہ مسئلہ کشمیرکا حل تقسیم برصغیر کے نامکمل ایجنڈے کی تکمیل ہے، یہ دوطرفہ مذاکرات کا موضوع ہی نہیں بلکہ اقوام متحدہ اپنی قرارداد نمبر 47 مجریہ 1948 کے تحت کشمیر میں رائے شماری کی پابند ہے لیکن بھارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جموں و کشمیر میں رائے شماری سے متعلق قراردادوں کے نفاذ اور اس سلسلے میں کیے گئے وعدوں سے مکر کر مسلسل فرار حاصل کرتا رہا ہے اورکشمیریوں کی جانب سے اس ضمن میں اٹھائے جانے والے اقدامات اور جدوجہد آزادی کی تحریک کو دہشت گردی کا نام دے کر عالمی برادری کی توجہ خود اپنے ناجائز اور سفاکانہ مظالم اور ریاستی دہشت گردی سے ہٹانے کی مذموم اور ناکام کوشش کرتا رہا ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کشمیریوں کی ترجمانی کرتے ہوئے بالکل درست کہا کہ ''جدوجہد آزادی اور دہشت گردی میں فرق ہے، تحریک آزادی کو کچلا نہیں جاسکتا'' اسی طرح وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کا یہ موقف بھی بالکل درست ہے کہ ''پرامن ہمسائیگی کے بغیر امن ممکن نہیں'' وزیر اعظم نے پاکستانی سفیروں پر زور دیا کہ وہ دنیا کو یہ بات باورکرائیں کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کا داخلی معاملہ نہیں، مسئلہ کشمیر ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون ہے۔ مسئلے کا اقوام متحدہ کی قراردادوں اور اہل کشمیرکی خواہشات کے مطابق حل چاہتے ہیں۔
وزیراعظم نے مزید واضح کیا کہ ''مقبوضہ کشمیر کو نئی دہلی نے بھی متنازع مانا ہے اور اقوام متحدہ نے اسے پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازع قرار دیا ہے جس میں کشمیری عوام بنیادی فریق ہیں، کشمیر انسانی حقوق کی پامالی کا مقدمہ بھی ہے، آج دنیا میں انسانی حقوق کو کسی ملک کا داخلی مسئلہ نہیں سمجھا جاتا بلکہ یہ عالمی مسئلہ ہے، وزیر اعظم نے کہا کہ آج کشمیر میں آزادی کی نئی لہر ہے، بھارت سے آزادی کی تمنا کشمیریوں کی تیسری نسل کے لہو میں جس شدت سے دوڑ رہی ہے اس کا مظاہرہ دنیا 8 جولائی کے بعد سے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے، کشمیریوں کی نوجوان نسل آزادی کی تڑپ میں قربانیوں کی لازوال داستانیں رقم کر رہی ہے، ان کی آنکھیں گولیوں سے چھلنی ہیں لیکن آزادی کی روشنی ان کی رہنمائی کر رہی ہے۔''
برہان مظفر وانی اور اس کے ساتھیوں کی شہادت کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر میں پیدا شدہ صورتحال کے تناظر میں ابھی تک 65 کشمیری بھارت کے ہاتھوں شہید کیے جاچکے ہیں جب کہ بینائی سے محروم ہونے والوں کی تعداد سیکڑوں میں پہنچ چکی ہے، 8 جولائی سے مقبوضہ کشمیر کے بیشتر شہروں میں کرفیو جاری ہے اور شہدا کے جنازوں میں شریک افراد پر بھی مہلک ہتھیاروں سے براہ راست فائرنگ کی گئی ہے، مقبوضہ خطے میں انسانی حقوق کی پامالی اور کرفیو سے پیدا شدہ غذائی اجناس کی قلت اور جان بچانے والی ادویات کی عدم دستیابی UNO اور OIC کی خصوصی توجہ کی طالب ہے۔
مقبوضہ کشمیر کی اس سنگین اور انتہائی تشویشناک صورتحال میں جب بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ جب سارک کانفرنس میں شرکت کے لیے پاکستان آئے تو چوہدری نثار نے بجا طور پر انھیں آڑے ہاتھوں لیا، چوہدری نثار کے دو ٹوک جواب پر راج ناتھ کانفرنس ادھوری چھوڑ کر چلتے بنے۔ گویا آئینہ ان کو دکھایا تو برا مان گئے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہمارے ارباب اختیار کو راج ناتھ سنگھ جیسے کشمیریوں کے قاتل کو کشمیر میں برپا قیامت صغریٰ اور انتہائی قابل اعتراض صورتحال کے تناظر میں پاکستان آنے سے روک دینا چاہیے تھا، جب بھارت پاکستانی مشیر خارجہ سرتاج عزیز کو پہلے سے طے شدہ دورے کے باوجود بھارت آنے سے روک سکتا ہے تو بھلا ہم میں ایک بدترین قاتل کو روکنے کی جرأت کیوں نہ تھی؟
چوہدری نثار کا یہ کہنا کہ دنیا ہم سے جس زبان میں بات کرے گی ہم بھی ان سے اسی زبان میں بات کریں گے، بالکل درست تاہم دیر آید درست آید کی مانند ہے، ہمیں بھارت کی زبان کا ادراک ہونا چاہیے، ہر بار نیا تجربہ درست نہیں، حدیث شریف کے مطابق مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا، پاکستان کی امن پسندی اپنی جگہ درست لیکن ملکی و قومی غیرت و حمیت بھی آخر کوئی چیز ہوتی ہے، جس قوم میں غیرت نہیں اس کا کوئی مستقبل نہیں، ہمیں واضح طور پر اپنی کشمیر پالیسی کا اعلان کرنا چاہیے اور مصلحت، تضاد یا منافقت پر مبنی رویوں کو قطعی ترک کردینا چاہیے، اکثر دیکھا گیا کہ ہمارے سیاسی رہنما انتخابی مہمات کے دوران بڑے زوروشور سے کشمیر کی آزادی اور کشمیریوں کے حقوق کے نعرے لگاتے ہیں لیکن برسر اقتدار آنے کے بعد سب بھول کر نہ صرف بھارت سے دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہیں بلکہ بالکل ہی جھک جاتے ہیں، تعلقات برابری کی بنیاد پر قائم ہونے چاہئیں جھک کر اور دب کر نہیں، کشمیر کی جدوجہد آزادی کے ضمن میں پاکستان کا کردار ہمیشہ یکساں نہیں رہا، ہم کبھی دوڑنے لگتے ہیں تو کبھی بالکل ٹھہر جاتے ہیں۔
90 کے عشرے میں ہم اس مسئلے کے حل کے خاصے قریب جا پہنچے تھے لیکن مشرف دور میں ہم نے اپنی کشمیر پالیسی سے بالکل یوٹرن لے لیا، اس سے کشمیر کاز کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا اور یہ کشمیری شہدا کے ساتھ بھی سنگین مذاق تھا، قومی پالیسیاں حکومتوں کے تبدیل ہونے سے بدلنی نہیں چاہئیں ان پر کسی بھی قیمت پر کبھی مصلحت کا شکار نہیں ہونا چاہیے اور نا ہی ترک کرنا چاہیے۔
انھیں وسیع تر ملکی و قومی مفاد میں جاری رہنا چاہیے، حالیہ انتخاب میں آزاد کشمیر سے مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کشمیریوں کے اعتماد کا اظہار ہے، اب وزیر اعظم کو بھی ان کی امیدوں پر پورا اترنا چاہیے اور آزادی کشمیر کے ضمن میں ٹھوس اور واضح اقدامات اٹھانے چاہئیں، کشمیر پاکستان کا قومی ایشو ہے اور پوری قوم اس اہم اور حساس مسئلے پر متفق ہے، کشمیر کی جنگ بلاشبہ قومی یا علاقائی مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک نظریاتی جنگ ہے، جسے ہمیں خون کے آخری قطرے تک لڑنا ہوگا، کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، ''کشمیر بنے گا پاکستان'' محض ایک نعرہ نہیں بلکہ یہ کشمیریوں کے دل کی آواز ہے ۔بھارت کو یہ جان لینا چاہیے کہ آزادی کشمیریوں کا بنیادی حق ہے اور دنیا کی کوئی طاقت ان سے یہ حق نہیں چھین سکتی، آزادی کشمیری عوام کو ہر صورت مل کر رہے گی انشا اللہ!