CNG بحران‘ حل اور ترجیحات

صارفین نے اپنی گاڑیاں سی این جی پر منتقل کرنے کے لیے تقریباً 180 ارب روپے خرچ کیے، اس سیکٹر کا ٹیکس میں حصہ 40 ارب ہے

عبدالوارث

ملک اس وقت جن بحرانوں سے دوچار ہے، CNG کا بحران ان میں سے ایک ہے۔ موسمِ سرما کی آمد کے ساتھ ہی اس میں شدید اضافے کا خدشہ ہے۔ اس وقت بھی عملاً کراچی اور سندھ میں ہفتے میں تین دن کی بندش جب کہ پنجاب کے کچھ شہروں میں چار دن کی بندش کے ساتھ CNG اسٹیشنز لوگوں کی جھنجھلاہٹ، پریشانی اور اذیت کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ گاڑیوں کی طویل قطاریں اور پھر نمبر آنے پر مطلوبہ پریشر سے گیس نہ ملنا ان کو منہ چڑانے کا باعث ہوتا ہے۔

خیال کیا جارہا تھا کہ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد عوام کو ایک نمایاں ریلیف ملے گا، لیکن افسوس کے ساتھ ایسا نہ ہوسکا۔ اور وہ گیس جو پہلے لوگوں کو ذرا کم مشقت کے ساتھ میسر تھی اب وہ بالکل ناپید ہوگئی، اب لوگ لمبی لمبی قطار بناکر اس طرح CNG بھروانے میں مصروف ہیں جیسا کہ ایک زمانے میں شناختی کارڈ بنانے کے لیے لوگوں کو نادرا کے دفاتر کے باہر اپنی جوتیاں گھسانا پڑتی تھیں۔ آخر اس بحران تک ہم کیسے پہنچے، اس کے لیے کچھ حقائق اور اعدادوشمار میں پس منظر میں جانا بہت ضروری ہے۔ اس وقت ملک میں 3400 سے زائد CNG اسٹیشنز ہیں جن سے تقریباً چار لاکھ افراد کا روزگار براہِ راست یا بالواسطہ منسلک ہے، تقریباً 40 لاکھ گاڑیاں سی این جی پر چلائی جارہی ہیں، اس سیکٹر میں کی جانے والی سرمایہ کاری تقریبا185 ارب ہے۔

صارفین نے سی این جی پر منتقل کرنے کے لیے تقریباً 180 ارب روپے خرچ کیے، اس سیکٹر کا ٹیکس میں حصہ 40 ارب ہے۔ سی این جی کے استعمال سے پٹرول اور ڈیزل کی بچت ہورہی ہے جس سے تقریباً 1.7 ارب ڈالر کے زرمبادلہ کی بچت ریکارڈ کی گئی ہے۔ پٹرول کی درآمد میں تقریباً 3 ارب لیٹر کی بچت ہورہی ہے۔ گیس کی مجموعی پیداوار کا تقریباً 9 فیصد سی این جی میں استعمال ہورہا ہے۔ ایک سی این جی اسٹیشن تقریباً 1 ہزار گھروں کے برابر گیس استعمال کرتا ہے، گیس کی کل پیداوار کا تقریباً 19 فیصد گھریلو استعمال، 38 فیصد توانائی، 16 فیصد فرٹیلائیزر، 15 فیصد صنعت جب کہ 3 فیصد دیگر استعمال پر خرچ ہوتا ہے۔ گیس کی کل پیداوار 3428 ملین مکعب کیوبک فٹ ہے جس میں سے 2458 ملین مکعب کیوبک فٹ سندھ میں پیدا ہوتا ہے جوکہ اس پیداوار کا 71 فیصد بنتا ہے۔ اس وقت سندھ میں تقریباً 600 سے زیادہ CNG اسٹیشنز جوکہ ملک کے مجموعی اسٹیشنز کا تقریباً 17.5 فیصد بنتا ہے، اس میں سے کراچی میں تقریباً 350 اسٹیشنز ہیں۔ اس وقت پاکستان میں دنیا میں سب سے زیادہ گاڑیاں CNG پر چلائی جاتی ہیں اور سب سے زیادہ CNG اسٹیشنز ہیں۔

1990ء کے عشرے میں جب CNG کے استعمال کو فروغ دیا گیا تو ترجیحات میں پٹرول کے درآمدی بل میں کمی، ماحولیاتی آلودگی کا خاتمہ اور سب سے بڑھ کر لوگوں کو اس کے سستے ہونے کی تربیت دی گئی اور اس بات کی ضمانت دی گئی کہ اس کے نِرخ پٹرول سے 50 فیصد تک کم ہوں گے۔ CNG اسٹیشنز کے لائسنس کا حصول انتہائی آسان بنایا گیا، ان تمام تر ترغیبات کا نتیجہ واضح تھا، تیزی کے ساتھ یہ سیکٹر فروغ پاتا گیا، حکومت نے بھی اس کو آمدنی کا ذریعہ بنایا اور بالواسطہ ٹیکس کے ذریعے سے ایک خطیر آمدنی حاصل کرتی رہی۔ یہ آمدنی پٹرول پر بھی پٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی کے نام سے وصول کی جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت حکومت تقریباً 25 - 30 روپے فی کلو ٹیکس سی این جی پر وصول کر رہی ہے اور اوگرا اس سلسلے میں اپنی بے بسی کا رونا روتی ہے۔


سی این جی ایسوسی ایشن اپنے اخراجات کی لاگت کی قیمت میں سے منہا کرنے پر شدید چراغ پا ہے اور کئی سی این جی اسٹیشن اس بات پر بند کردیے گئے ہیں کہ وہ مبینہ نقصان پر گیس نہیں بیچ سکتے۔ اور کسی کو بقول ان کے نقصان پر کاروبار کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔یہ بات بھی حقیقت ہے کہ ان سی این جی اسٹیشنز مالکان نے پچھلے کچھ سال سے خوب منافع کمایا اور اپنی سرمایہ کاری کی لاگت صرف ایک سال کے دوران ہی واپس حاصل کرلی جب کہ ایک مروّجہ اصول کے تحت کوئی بھی سرمایہ کاری اس وقت تک ہی کامیاب قرار دی جاسکتی ہے جب تک اس کا Payble Period پانچ سال تک ہو، یعنی اس کا سالانہ ریٹرن20 فیصد تک ہو۔ گیس لائسنس حاصل کرنے کے لیے جائز اور ناجائز طریقوں کا بھی استعمال کیا گیا اس سلسلے میں اوگرا کے سابق چیئرمین توقیر صادق پر بھی الزام ہے اور وہ ابھی تک سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود مفرور ہیں۔

ملک میں گیس جوکہ توانائی کا ایک non-revenueable ذریعہ ہے اس کو جس بے دردی سے ٹرانسپورٹ میں ضایع کیا گیا اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔بڑی بڑی بسیں اور ویگنیں جن کا کام ہی ایک جگہ سے دوسری جگہ لوگوں کو لے جانا ہے دن رات گیس کے ختم ہوتے ہوئے ذخائر میں برابر کی ذمے دار ہیں۔ ان میں سے اکثریت عوام سے ڈیزل کے کرائے لیتی رہی اور گاڑیوں میں معیاری سی این جی سلنڈر کی جگہ آکسیجن سلنڈر استعمال کیے گئے جس سے کئی ہزار لوگوں کی جانیں بھی ضایع ہوئیں۔ اس کے علاوہ وہ لوگ بھی جو 1500 CC سے زیادہ بڑی گاڑیاں اور ڈرائیور رکھنا تو برداشت کرلیتے ہیں، لیکن گاڑیوں میں پٹرول کی جگہ گیس ڈلوانے کو ترجیح دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ فرٹیلائیزر انڈسٹری کو بھی اپنی Operating Cost کم کرنے کے لیے مارکیٹ سے انتہائی کم نرخوں پر گیس فراہم کی گئی، دن رات اس قدرتی وسیلے کا بے دریغ استعمال کا الزام ہم سب پر لازم ہے کسی نے اس بات کی طرف توجہ ہی نہیں دی کہ آخر ہماری ترجیحات کیا ہونی چاہئیں؟ اگر ترجیحات کو دیکھا جائے تو سب سے پہلے اس گیس پر حق جو گھریلو صارفین کا ہے اس کے بعد توانائی ، پھر صنعت، پھر فرٹیلائیزر کو آنا چاہیے جب کہ ٹرانسپورٹ کا شعبہ سب سے آخر میں آنا چاہیے، پبلک ٹرانسپورٹ کے شعبے میں سی این جی کا استعمال اب بند کردینا چاہیے اور ہمارے پڑوسی ملک کی طرح جہاں ڈیزل پر سبسڈی دی جاتی ہے حکومت کو یوں ہی بڑی ویگنوں اور بسوں میں ڈیزل کے استعمال کو دوبارہ فروغ دینا چاہیے۔

اسی طرح ایل پی جی کے استعمال کی بھی ترغیب دی جانی چاہیے، ہمارے پٹرولیم کے وفاقی مشیر صاحب کافی عرصے سے سی این جی کی درآمد کی بات کر رہے ہیں، لیکن یہ سب چیزیں صرف فائلوں تک ہی محدود ہیں۔ گیس کے لائن لاسز جو ہمارے ہاں دنیا میں سب سے زیادہ ہیں ان کو کنٹرول کرنے کی شدید ضرورت ہے اور وہ گیس جو مختلف اشیا کے استعمال پر جلاکر ضایع کی جارہی ہے اس کو بھی سسٹم میں لانے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔ اس مقصد کے لیے پرائیویٹ سیکٹر کے تعاون سے سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے۔ اس وقت ملک میں کئی ایسے گیس کے کنوئیں موجود ہیں جہاں گیس تو بہت موجود ہے مگر اس کو پائپ لائن میں لانا ابھی تک سود مند ثابت نہیں ہوا۔ اس مقصد کے لیے بھی ہنگامی اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔ ڈیزل پر سبسڈی دینے کے بعد اس میں بہت سے ٹرانسپورٹرز کے لیے ترغیب پیدا کی جاسکتی ہے۔ ایل پی جی مارکیٹنگ کمپنیوں کے کارٹیل کو بھی توڑنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس کی قیمتیں بھی غیر ضروری طور پر بہت زیادہ ہیں۔ بہت ساری گاڑیاں جیساکہ رکشہ اور ٹیکسی کے لیے یہ گیس کافی سود مند ثابت ہوسکتی ہے۔ اس وقت ملک کو بجلی کے شدید بحران کا سامنا ہے۔

گیس کی بچت کے ساتھ اس گیس کو بجلی بنانے اور بند صنعتوں کو (خاص طور سے وہ صنعتیں جو برآمدات میں کلیدی حیثیت رکھتی ہیں) گیس کی فراہمی معیشت کا پہیہ چلانے کے لیے انتہائی اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ اس کے علاوہ گیس درآمد کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ گیس کے نئے ذخائر کی تلاش، تھرکول منصوبے پر پیشرفت اور بڑی گاڑیوں میں سی این جی ڈلوانے پر پابندی اس بحران کی سنگینی میں کسی حد تک کمی کرسکتی ہے۔ بحیثیت قوم ہم ہمیشہ قلیل مدتی منصوبہ بندی پر توجہ دیتے ہیں اور ہمیشہ طویل المدتی تجاویز کو نظرانداز کرتے ہیں جس کا نتیجہ ایک بحران کی شکل میں ہمیں منہ چڑھا رہا ہے۔ اس تمام بحران کی ذمے داری کسی ایک فریق پر ڈالنا نامناسب ہے۔

اب ہم سب کو اجتماعی شعور کا ثبوت دینا ہوگا اور ایک جاگتی قوم کی حیثیت سے اس بحران کا دیرپا حل نکالنا ہوگا۔ اس سلسلے میں حکومت کا کردار نہ صرف ریگولیٹر بلکہ ترغیب دینے والے ادارے کی حیثیت سے بہت اہم ہے۔ آنے والے دنوں میں سپریم کورٹ کا سی این جی کی قیمتوں کے حوالے سے کیا فیصلہ ہوتا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ مگر اس بات سے قطع نظر حکومت کو اب اپنی ترجیحات طے کرنا ہوں گی، چاہے اس کے لیے کچھ مشکل فیصلے ہی کیوں نہ کرنے پڑیں، ورنہ آنے والی نسل ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی، کیونکہ اب ہم اپنی تقدیر خود سنوارنے اور بگاڑنے کے ذمے دار ہوں گے۔
Load Next Story